تصانیف
آثار علمی پچھلے صفحات میں جب آپ نے یہ پڑھ لیا کہ شیخ صدوق علیہ الرحمہ نے مختلف قسم کے علوم و فنون پر تین سو سے زیادہ کتابیں تصنیف کیں جس کی ہم یہاں تفصیل کی ضرورت کو محسوس نہیں کرتے اور پھر یہ بھی معلوم ہے کہ رے کے اندر آپ کے نزدیک ہی وزیر مملکت صاحب ابن عباد کا وہ عظیم و بیش بہا کتب خانہ تھا کہ جس کی کتابوں کی فہرست ہی گیارہ جلدوں پر مشتمل تھی اور اس کے علاوہ وہ کتابیں جو آپ کو مختلف سفروں میں مطالعہ کے لئے ہاتھ آئیں اس کتب خانہ کے علاوہ ہیں ۔ نیز یہ بھی معلوم ہے کہ ہمارے بزرگ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بے پناہ حافظہ اور ذہن و ذکات عطا ہوا تھا اور وہ سب کچھ یاد کر لیتے تھے جو کوئی دوسرا یاد نہیں کر سکتا تھا اہل قسم میں ان کا کوئی مثل د نظیر نہیں تھا ۔ وہ اپنی ذات میں ایک چلتے پھرتے اور متحرک مدرسہ تھے جہاں جاتے جس شہر میں وارد ہوتے وہاں آپ بولتے جاتے اور لوگ لکھتے جاتے اور آپ کے زمانے ہی میں آپ کی کتابوں کی نقلیں لوگ کرنے لگے چنانچہ شریف نعمت نے آپ کی دو سو پینتالیس (۲۴۵) کتابیں نقل کرالیں مگر افسوس ان کے علمی خزانوں میں سے اب صرف چند ہم لوگوں کے پاس موجود ہیں جو ان کے علم اور ان کی عظمت کی کچی دلیلیں ہیں اور ان میں سے بھی چند طبع ہوئی ہیں اور اکثر غیر مطبوع اور قلمی ہیں ۔ نجاشی وشیخ طوسی نے اپنی
کتاب رجال میں علامہ حلی نے خلاصتہ الاقوال میں ابن شہر آشوب نے معالم العلماء میں محدث نوری نے مستدرک میں اور طہرانی نے اپنی کتاب الذریعہ میں شیخ صدوق علیہ الرحمہ کی ایک سو ننانوے (۱۹۹) کتابوں کا ذکر کیا ہے ۔