Skip to main content

باب غسل جمعہ اور آداب حمام اور طہارت و زینت کے احکامات

( حدیث ٢٦٦-٣٠٠ )


٢٢٦- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص اللہ اور یوم آخر پر ایمان رکھتا ہے وہ حمام میں بغیر ازار کے داخل نہ ہو گا۔ نیز آپ نے زیر آسمان بغیر ازار پہنے نہانے کو منع فرمایا ۔ نیز بخیر ازار پہنے دریا کے اندر داخل ہونے کو بھی منع فرمایا اور کہا کہ پانی میں بھی اس کے اندر رہنے والے اور اس کے ساکنین ہیں ۔ اور روز جمعہ کا غسل مردوں اور عورتوں پر سفر و حضر دونوں میں واجب ہے لیکن پانی کی قلت کی وجہ سے عورتوں کو رخصت ہے (کریں یا نہ کریں ) جو شخص سفر میں ہے اور اسے پنجشنبہ کو پانی مل گیا اور ڈر ہے کہ روز جمعہ پانی نہیں ملے گا تو کوئی ہرج نہیں اگر روز جمعہ کے لئے پنجشنبہ کو غسل کر لے پھر اگر روز جمعہ پانی ملے تو غسل کرے اور اگر نہ ملے تو پنجشنبہ کا غسل ہی اس کے لئے کافی ہے۔

 ٢٢٧- چنانچہ روایت کی گئی ہے ۔ حسن بن موسیٰ بن جعفر علیہ السلام سے اور انہوں نے روایت کی ہے اپنی والدہ اور احمد بن موسیٰ علیہ السلام سے ان دونوں کا بیان ہے کہ ہم لوگ ایک مرتبہ حضرت ابوالحسن موسیٰ بن جعفر علیہ السلام کے ساتھ صحرا میں تھے اور بغداد جانے کا ارادہ کر رہے تھے تو پنجشنبہ کے دن ہم سے فرمایا تم دونوں کل جمعہ کے دن کے لئے آج ہی ( پنجشنبہ کے دن) غسل کر لو اس لئے کہ پانی کل کم رہ جائے گا۔ ان دونوں کا بیان ہے کہ پس ہم نے جمعہ کے لئے پنجشنبہ ہی کے دن غسل کر لیا۔ اور روز جمعہ کا غسل سنت واجبہ ہے اور طلوع فجر سے لے کر زوال کے قریب تک یہ غسل جائز ہے مگر قریب بہ زوال افضل ہے اور جو شخص قبل زوال غسل کرنا بھول جائے یا کسی سبب سے چھوڑ دے تو بعد عصر یا سینیچر کے دن غسل کرے اور جمعہ کی نیت سے غسل اسی طرح جائز ہے جس طرح نماز جمعہ کے لئے روانگی کی نیت سے جائز ہے اور اس میں غسل سے پہلے وضو ہو گا اور جمعہ کے لئے غسل کرنے والا یہ کہے اللهُمَّ صَحِرُنِي وَ صَرْ قَلْبِي وَأَنقَ غسَلِي وَأَجْرُ عَلَى لِسَانِي مُحَبَّةَ مِنكَ (اے اللہ مجھے پاک کر دے اور میرے دل کو پاک کر دے اور میرے غسل کو صاف ستھرا کر دے اور میری زبان پر اپنی محبت (مدح) جاری کر )

٢٢٨- اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ جو شخص غسل جمعہ کرے اور یہ کہے ۔ " أشهد أن لا إله الله وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ وَأَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ اللَّهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمد وَآلِ مُحمدٍ وَاجْعَلْنِي مِنَ التَّوَابِيْنِ وَ اجْعَلْنِي مِنَ الْمُتَطَفِرِينَ “ (میں گواہی دیتا ہو کہ نہیں ہے کوئی اللہ سوائے اس اللہ کے وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور یہ کہ محمد اسکے بندے اور اسکے رسول ہیں ۔ اے اللہ تو درود بھیج محمد اور آل محمد پر اور مجھے تو بہ کرنے والوں میں قرار دے اور مجھے پاک و طاہر رہنے والوں میں شامل کر دے) تو وہ ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ تک طاہر اور پاک ہو گیا ۔ 

٢٢٩- حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ یوم جمعہ کا غسل طہارت ہے اور ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ کے درمیان کے گناہوں کا کفارہ ہے ۔


٢٣٠- حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے غسل جمعہ کے سبب کے متعلق فرمایا کہ انصار اپنے مال مویشیوں میں کام کیا کرتے تھے اور جب جمعہ کا دن ہوتا تو مسجد میں آتے اور لوگوں کو انکی بغلوں اور جسموں کی بو سے اذیت ہوتی اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غسل کا حکم دیا اور اسطرح یہ ایک سنت جاریہ ہو گئی ۔

٢٣١- اور روایت کی گئی ہے کہ اللہ تعالٰی نے نماز فریضہ کی کمی کو نماز نافلہ سے پورا کیا اور فرض روزوں کی کمی کو مستحب روزوں سے پورا کیا اور وضو کی کمی کو روز جمعہ کے غسل سے پورا کیا۔

٢٣٢- یحییٰ بن سعید اهوازی نے احمد بن محمد بن ابی نصر سے اور انہوں نے محمد بن حمران سے روایت کی ہے انہوں نے کہا کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ جب تم حمام میں داخل ہو تو اپنے کپڑے اتارتے وقت کہو ۔ " اللهم انزِعُ عَنِى رِيقته النفاق و ثبتني عَلَى الإِيمَانِ “ (اے اللہ تو نفاق کا پھندا میرے گلے سے نکال اور مجھے ایمان پر ثابت قدم رکھ ) اور جب (حمام کے) پہلے حجرے میں داخل ہو تو کہو ۔ " اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ نَفْسِي، وَاسْتَعِيذُ بِكَ مِنْ اذاه " اے اللہ میں اپنے نفس کے شر سے تیری پناہ چاہتا ہوں اور اس کی اذیتوں سے تیری پناہ کا خواہاں ہوں ) اور جب دوسرے حجرے میں داخل ہو تو کہو " اللهم أذهب عنق الرِّجْسَ النَّحِسَ وَ طَهِرُ جَسَدِى و قلبى (اے اللہ تو مجھ سے پلیدگی اور نجاست کو دور رکھ اور میرے بدن اور قلب کو پاک رکھ ) اور تھوڑا گرم پانی لو اور اسے سرپر ڈالو اس میں سے تھوڑا سا اپنے دونوں پیروں پر ڈالو اور اگر ممکن ہو تو اس میں سے ایک گھونٹ پانی نگل جاؤ اسلئے کہ یہ مثانہ کو صاف کر دیتا ہے پھر ایک ساعت دوسرے حجرے میں ٹہرو اور جب تیسرے حجرے میں داخل ہو تو یہ کہو العُوذُ بِاللَّهِ مِنَ النار و نسأله الجنته “ ہم اللہ کی پناہ مانگتے ہیں آگ سے اور جنت طلب کرتے ہیں) اور گرم مجرے سے نکلتے وقت تک اسکا ورد کرتے رہو اور حمام میں ٹھنڈا پانی یا شراب ہر گز نہ پینا اس لئے کہ یہ معدہ کو فاسد کر دیتا ہے اور اپنے اوپر ٹھنڈا پانی ہرگز نہ ڈالو یہ بدن کو ضعیف کر دیتا ہے اور جب نکلو تو اپنے قدموں پر ٹھنڈا پانی ڈالو اسلئے کہ یہ تمہارے جسم سے مرض کو کھینچ لیگا اور تم اپنا لباس پہنو تو یہ کہو " اللهم البسن التقوى و جنبي الردی “ (اے اللہ تو مجھے تقویٰ کا لباس پہنا اور مجھے ہلاکت سے بچالے) جب تم ایسا کرو گے تو تمام بیماریوں سے محفوظ رہو گے اور اگر تم ازار پہنے ہوئے ہو تو حمام کے اندر قرآن کی تلاوت میں کوئی حرج نہیں اس طرح کہ آواز نہ نکلے ۔ 

٢٣٣- ایک مرتبہ محمد بن مسلم نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے دریافت کیا کہ کیا امیر المومنین علیہ السلام حمام میں قرات قرآن سے منع فرمایا کرتے تھے ، آپ نے فرمایا نہیں انہوں نے اس سے منع فرمایا کہ انسان پرہنہ ہو اور قرارت قرآن کرے اور اگر وہ ازار پہنے ہوئے ہے تو کوئی حرج نہیں ۔

٢٣٤- ایک مرتبہ علی بن یقطین نے حضرت امام موسی بن جعفر علیہ السلام سے عرض کیا کہ کیا میں حمام کے اندر قرات (قرآن) اور نکاح کر سکتا ہوں ؟ آپ نے فرمایا کوئی حرج نہیں ۔

٢٣٥- ایک مرتبہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے قول خدا " قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا۟ مِنْ أَبْصَـٰرِهِمْ وَيَحْفَظُوا۟ فُرُوجَهُمْ ۚ ذَٰلِكَ أَزْكَىٰ لَهُمْ ۗ  “ (مومنوں سے کہہ دو کہ اپنی آنکھیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں یہ ان کیلئے زیادہ پاکیزہ ہے) (سورہ نورآیت نمبر ۳۰) کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ کتاب خدا میں جہاں شرمگاہ کی حفاظت کا ذکر ہے ان سے مراد زنا سے حفاظت ہے سوائے اس آیت کے کہ یہاں مراد یہ ہے کہ شرمگاہ کی حفاظت کرو تا کہ اسے کوئی نہ دیکھے ۔

٢٣٦- حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا کہ کسی مرد مسلم کی شرمگاہ پر نظر کرنا مکروہ ہے لیکن کسی غیر مسلم کی شرمگاہ پر نظر کرنا ایسا ہی ہے جیسے کسی گدھے کی شرمگاہ پر نظر کرنا۔ 

٢٣٧- حضرت امیرا مومنین علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ حمام بھی کیا اچھا گھر ہے جو جہنم کو یاد دلاتا ہے اور میل کچیل کو دور کرتا ہے ۔

٢٣٨- نیز امیر المومنین علیه السلام نے فرمایا حمام خانہ بھی کتنی بری جگہ ہے جو پردہ کو چاک کرتا ( انسان کو برہنہ کرتا) اور حیا کو دور کرتا ہے ۔

٢٣٩- حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا حمام  خانہ کتنی بری جگہ ہے کہ جو انسان کو برہنہ کرتا اور شرمگاہ کو کھول دیتا ہے اور تمام خانہ کتنی اچھی جگہ ہے کہ جو جہنم کی گرمی کو یاد دلاتا ہے اور یہ آداب میں داخل ہے کہ کوئی شخص اپنے لڑکے کو ساتھ لیکر حمام نہ جائے کہ وہ اسکی شرمگاہ کو دیکھے ۔

٢٤٠- حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنی زوجہ کو حمام نہیں بھیجتا۔

٢٤١- اور امام علیہ السلام نے فرمایا جو شخص اپنی عورت کی اطاعت کرے گا اللہ تعالٰی اسے اوندھے منہ جہنم میں ڈال دیگا تو آپ سے پوچھا گیا کہ وہ اطاعت کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ عورت اس سے غم و شادی کے مجمع میں اور حمام میں جانے کی اور باریک لباس پہنے کی استدعا کرے اور مرد سے منظور کرے ۔

٢٤٢- ابو بصیر نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے دریافت کیا ایک ایسے شخص کے متعلق جس نے غسل یوم جمعہ کو بھول کر یا عمداً چھوڑ دیا ؟ آپ نے فرمایا اگر اس نے بھول کر چھوڑا ہے تو اسکی نماز پوری ہے اور اگر اس نے عمداً چھوڑا ہے تو اسے چاہیئے کہ اللہ سے طلب مغفرت کرے اور اسکا اعادہ نہ کرے ۔

٢٤٣- حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ تم حمام  میں مسواک نہ کرو اس سے گردوں کی چربی پگھل امام جاتی ہے ۔ حمام میں کنکھی نہ کرو اس سے بال باریک اور کمزور ہو جاتے ہیں اپنے سر کو مٹی سے نہ دھوؤ اس سے چہرہ بدشکل ہو جاتا ہے (اور ایک حدیث میں ہے کہ اس سے غیرت چلی جاتی ہے) بدن کو ٹھیکرے یا جھانوے سے نہ رگڑو اس سے برص کا مرض پیدا ہوتا ہے ۔ ازار سے چہرہ نہ پوچھو اس سے چہرے کی رونق چلی جاتی ہے اور روایت کی گئی ہے کہ مٹی سے مراد مصر کی مٹی اور ٹھیکرے اور جھانوے سے مراد شام کا ٹھیکرا اور جھانوہ ہے اور حمام میں مسواک کرنے سے دانتوں کا مرض پیدا ہوتا ہے اور حمام کے مستعمل پانی (غسالہ) سے طہارت کرنا جائز نہیں ہے ۔

٢٤٤- حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ بروز جمعہ تم میں سے ہر ایک اپنی زینت کرے غسل کرے خوشبو لگائے ، کنگھی کرے بہت صاف ستھرے لباس پہنے اور جمعہ کیلئے آمادہ ہو اور اس دن سکون و وقار کے ساتھ رہے اور اپنے رب کی اچھی طرح عبادت کرے اور حسب استطاعت خیر و خیرات کرے اسلئے کہ اللہ تعالٰی (بروز جمعہ) زمین کی طرف ملتفت ہوتا ہے تاکہ نیکیوں میں اضافہ کرے ۔

٢٤٥- حضرت امام ابوالحسن موسی بن جعفر علیہ السلام نے فرمایا کہ تم لوگ حمام میں نہار منہ نہ جاؤ اور جب تک کچھ کھا نہ لو حمام میں داخل نہ ہو ۔

٢٤٦- بعض راویوں نے بیان کیا ہے کہ میں نے دیکھا کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام حمام سے نکلے اپنا لباس پہنا اور عمامہ سر پر رکھا ۔ اسکا بیان ہے کہ پھر میں نے گرمی ہو یا جاڑا حمام سے نکلتے وقت عمامہ نہیں چھوڑا ۔

٢٤٧- حضرت امام موسی بن جعفر علیہ السلام نے فرمایا کہ تمام کسی کسی دن جانا چاہیئے اس سے گوشت بڑھتا ہے اور روزانہ حمام گردے کی چربی کو پگھلا دیتا ہے ۔

٢٤٨- اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام حمام کے اندر جسم پر طلاء (مالش یا لیپ) کرایا کرتے تھے جب شرمگاہ کی حد آتی تو طلاء کرنے والے سے فرماتے تم ہٹ جاؤ پھر وہ خود وہاں طلاء لگا یا کرتے ۔ اور جو شخص خود طلاء کرتا ہے اس کیلئے کوئی حرج نہیں جو پوشش کو ہٹالے اس لئے کہ نورہ خود پوشش ہے ۔

٢٤٩- ایک مرتبہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام حمام تشریف لائے تو حمام والے نے کہا میں آپ کیلئے الگ انتظام کر دوں ؟ آپ نے فرمایا نہیں مومن ہلکے پھلکے سامان والا ہوتا ہے ۔ 

٢٥٠- عبیداللہ مرافقی سے روایت کی گئی ہے اسکا بیان ہے کہ ایک مرتبہ میں شہر مدینہ میں ایک حمام کے اندر گیا تو حمام کا مہتمم  ایک بوڑھا کبیرالسن تھا میں نے پوچھا اے شیخ یہ حمام  کس کا ہے؟ اس نے کہا کہ یہ امام محمد باقر علیہ السلام کا حمام ہے ۔ میں نے کہا کیا وہ اس میں آیا کرتے تھے ، انہوں نے کہا ہاں میں نے پوچھا پھر وہ کیا کرتے تھے ؟ انہوں نے کہا جب وہ حمام میں داخل ہوتے تو پہلے اپنے پیڑو اور اسکے آس پاس طلاء کرتے پھر اس پر ازار لپیٹ لیتے پھر مجھے آواز دیتے اور میں آپ کے سارے جسم پر طلاء کیا کرتا ایک دن میں نے ان سے کہا وہ چیز جس کو آپ ناپسند کریں گے کہ میں اسے دیکھوں آپ نے اسے دیکھا ہے انہوں نے کہا ہر گز نہیں نورہ خود پردہ ہوتا ہے ۔

٢٥١- عبدالرحمن بن مسلم المعروف به سعدان کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ میں حمام کے وسطی حجرہ میں تھا کہ حضرت ابوالحسن موسیٰ بن جعفر علیہ السلام نورہ لگائے اور اس پر ازار پہنے ہوئے داخل ہوئے اور بولے السلام علیکم تو میں نے جواب سلام دیا اور اس حجرے میں داخل ہو گیا جس میں حوض تھا وہاں غسل کیا اور نکل آیا۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص تمام میں ازار پہنے ہوئے ہو سلام کر سکتا ہے اور جن احادیث میں حمام کے اندر سلام کرنے کو منع کیا گیا ہے وہ اس شخص کیلئے ہے جو ازار پہنے ہوئے نہ ہو ۔

٢٥٢- حنان بن سدیر نے اپنے باپ سے روایت کی ہے ان کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ میں اور میرے باپ اور میرے دادا اور میرے چچا مدینہ کے اندر ایک حمام میں گئے تو وہاں کپڑے اتارنے کے حجرے میں ایک صاحب ملے انہوں نے ہم لوگوں سے پوچھا تم لوگ کہاں کے ہو ؟ ہم لوگوں نے جواب دیا ہم لوگ اہل عراق سے ہیں انہوں نے پوچھا عراق میں کہاں کے ؟ ہم لوگوں نے کہا ہم لوگ کوفہ کے رہنے والے ہیں انہوں نے کہا اے کوفہ کے رہنے والو مرحبا خوش آمدید تم لوگ تو یگانے ہو بیگانے نہیں ہو پھر کہا مگر تم لوگوں کو ازار پہنے سے کیا امر مانع ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے مومن پر دوسرے مومن کی شرمگاہ پر نظر کرنا حرام ہے ۔ اس پر میرے چچا نے سوتی کپڑے کا ایک تھان بھیجدیا جسکے چار ٹکڑے کئے گئے اور ہر ایک نے ایک ایک ٹکڑا لے لیا اسکے بعد ہم لوگ حمام میں داخل ہوئے اور ابھی ہم لوگ گرم ہجرے میں تھے کہ انہوں نے میرے دادا کی طرف رخ کیا اور کہا اے پیر مرد تمہیں خضاب سے کسی امر نے روک دیا ہے میرے دادا نے جواب دیا میں نے انکی صحبت کو درک کیا ( سمجھا) ہے جو مجھ سے اور آپ سے بہتر تھے انہوں نے پوچھا وہ کون جو مجھ سے بہتر تھے میرے دادا نے کہا میں علی ابن ابی طالب کی صحبت میں رہا وہ خضاب نہیں لگاتے تھے یہ سن کر انھوں نے سر جھکا لیا اور پسینہ ٹپکنے لگا اور فرمایا تم نے سچ کہا اور اچھا کیا پھر فرمایا اے پیر مرد اگر تم خضاب لگاؤ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی خضاب لگایا ہے اور وہ علی علیہ السلام سے بہتر تھے اور اگر اسے ترک کرو تو تمہارے لئے علی علیہ السلام نمونہ عمل ہیں ۔ راد ی کا بیان ہے کہ جب ہم لوگ حمام سے نکلے اور کپڑے اتارنے کے تجرے میں آئے تو ان صاحب کے متعلق دریافت کیا معلوم ہوا کہ وہ علی ابن ابی الحسین علیہ السلام اور ان کے ساتھ ان کے فرزند محمد بن علی تھے اس حدیث میں ہے که امام کیلئے یہ روا ہے کہ وہ اپنے اس فرزند کے ساتھ حمام میں جائیں جو امام ہو غیر امام نہ ہو اس لئے کہ امام صغر سنی اور کبر سنی دونوں میں معصوم ہوتا ہے اسکی نظر کسی کی شرمگاہ پر نہیں پڑے گی خواہ حمام ہو یا غیر حمام ۔ 

٢٥٣- حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ ران کا شمار شرمگاہ میں نہیں ہے ۔ 

٢٥٤- حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا کہ نورہ پاک وصاف کرنے والی چیز ہے ۔

٢٥٥- حضرت ابو الحسن موسیٰ بن جعفر علیہ السلام نے فرمایا کہ تم لوگ اپنے اپنے جسم کو بالوں سے صاف کر لیا کرو یہ امر حسن ہے ۔

٢٥٦- حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ جو شخص نورہ لگانا چا ہے تو اسے تھوڑا سا لے اور اپنی ناک کے کنارے پر رکھے اور کہے " اللهم ارحم سَلَيْمَانَ مِن دَ اور عَلَيها السلام كَمَا أمرنا بالنوره “ (اے اللہ حضرت سلیمان بن داؤد علیہ السلام پر اپنی رحمت نازل کر جیسا کہ انہوں نے ہم لوگوں کو نورہ کا حکم دیا) تو انشاء اللہ تعالیٰ نورہ اسے نہیں جلائے گا۔

٢٥٧- روایت کی گئی ہے کہ جو شخص نورہ لگا کر بیٹھے ڈر ہے کہ فسق کا مرض نہ ہو جائے ۔ 

٢٥٨- حضرت امیرا مومنین علیہ السلام نے فرمایا کہ میں مومن کیلئے یہ پسند کرتا ہوں کہ وہ ہر پندرہ دن پر نورہ لگائے ۔ 

٢٥٩- امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ ہر پندرہ دن پر نورہ لگانا سنت ہے اور اگر بیس دن گزر جائیں تو قرض لے لو اللہ تعالٰی اسکا ذمہ دار ہے (یعنی اگر تنگدستی کی وجہ سے نورہ خریدنے کی سکت نہ ہو) ۔

٢٦٠- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو مرد اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ چالیس دن سے زیادہ اپنے پیڑو کا بال صاف کرنا نہیں چھوڑے گا اور جو عورت اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتی ہے وہ بیس دن سے زیادہ اسے نہیں چھوڑے گی ۔

٢٦١- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے مرد اور عورت اپنے پیٹ ( پیرو) کے بال مونڈے ۔ 

٢٦٢- حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام حمام کے اندر اپنے دونوں بغل میں نورہ کا طلاء کرتے اور فرماتے کہ بغلوں کے بال اکھیڑنے سے کاندھے کمزور اور ڈھیلے پڑ جاتے ہیں اور نگاہ کمزور ہو جاتی ہے ۔

٢٦٣- اور امام علیہ السلام نے فرمایا کہ اسکا مونڈنا بال اکھاڑنے سے بہتر ہے اور اس پر نورہ لگانا بال مونڈنے سے بہتر ہے- 

٢٦٤- حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا کہ بغل کے بال اکھاڑنے سے بدبو دور ہو جاتی ہے اور یہ پاکی و صفائی ہے اور سنت ہے طیب علیہ وآلہ وسلم نے اسکا حکم دیا ہے ۔

٢٦٥- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص اپنے بغلوں کے بال نہ بڑھائے اسلئے کہ شیطان اس میں اپنی کمینگاہ رہنے کی جگہ بناتا) اور اس میں چھپا رہتا ہے ۔

جو شخص حالت جنب میں ہے اسکا نورہ لگانے میں کوئی حرج نہیں یہ تو اور زیادہ صفائی کرتا ہے ۔

٢٦٦- امام جعفر صادق علیہ السلام نے بیان کیا کہ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ آدمی کو چاہیے کہ وہ چہار شنبہ کو نورہ لگانے سے پر ہیز کرے اسلئے کہ یہ دن پورا کا پورا نحس ہے باقی تمام دنوں میں نورہ لگانا جائز ہے۔

٢٦٧- اور روایت کی گئی ہے کہ روز جمعہ ( نورہ لگانا) برص کا مرض پیدا کرتا ہے ۔

٢٦٨- ریان بن صلت نے ایک شخص سے روایت کی ہے جس نے ان سے بیان کیا اور اس نے حضرت ابوالحسن علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ جو شخص بروز جمعہ نورہ لگائے اور مرض برص میں مبتلا ہو تو اپنے سوا کسی کی ملامت نہ کرے ۔ اور کوئی حرج نہیں اگر آدمی حمام  کے اندر ستو، آئے اور بھوسی ، چو کر سے اپنے جسم کو ملے اور اس میں کوئی حرج نہیں اگر آٹے میں تیل ملا ہوا ہو اسے ملے ۔ اور جو چیز بدن کو نفع پہنچاتی ہے اسکا شمار اسراف میں نہیں ہے اسراف میں اس چیز کا شمار ہے جسکے اندر مال تلف ہو اور بدن کیلئے مضر ہو ۔

٢٦٩- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص طلاء کرے اور مہندی کا خضاب لگائے اللہ تعالٰی اسکودوسری مرتبہ طلاء کرنے تک تین چیزوں سے محفوظ رکھے گا ۔ جذام سے ، برس سے ، اور بالخورہ کی بیماری سے ۔

٢٧٠- حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ نورہ کے بعد مہندی لگانا جذام اور برص سے محفوظ رکھتا ہے ۔ 

٢٧١- اور روایت کی گئی ہے کہ جو شخص طلاء کرے مہندی سے اپنے جسم کو (بطور ابٹن) سر سے لیکر پاؤں تک ملے تو اللہ تعالٰی اس سے فقر کہ دور کر دیتا ہے ۔ 

٢٧٢- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا تم لوگ مہندی کا خضاب لگاؤ اس سے آنکھیں روشن ہوتی ہیں ، بال لگتے ہیں اور اچھی خوشبو پیدا ہوتی ہے اور زوجہ سکون پاتی ہے ۔

٢٧٣- حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ مہندی بدبو دور کر دیتی ہے۔ چہرے کی آب بڑھاتی ہے خوشبو اچھی ہو جاتی ہے بچہ حسین پیدا ہوتا ہے۔ اور کوئی حرج نہیں اگر آدمی حمام میں زعفران سے نبی ہوئی خوشبو کو ملے اور ہاتھ کے پھٹنے کے علاج کیلئے اس کو ہاتھ پر ملے اور اسکی مداومت ( ہمیشہ ) منتخب نہیں ہے ۔ اور نہ یہ کہ اسکا نشان دیکھا جائے ۔

٢٧٤- حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا مہندی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہدیہ ہے اور یہ سنت ہے ۔

٢٧٥- حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ کسی رنگ کا خضاب ہو کوئی حرج نہیں ہے ۔

٢٧٦- ایک مرتبہ حسن بن جہم حضرت ابی الحسن موسیٰ بن جعفر علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور وہ سیاہ رنگ کا خضاب لگائے ہوئے تھا ۔ تو آپ نے فرمایا خضاب لگانے میں بھی ثواب ہے اور خضاب لگانے اور خود کو زیب و زینت کے ساتھ رکھنا یہ ان چیزوں میں سے ہے جس کے لئے اللہ تعالیٰ عورتوں کی عفت میں اضافہ کرتا ہے اور شوہروں کے زیب وزینت کے چھوڑ دینے سے عورتوں نے اپنی عفت بھی چھوڑ دی ہے۔ راوی نے عرض کیا کہ ہمیں خبر ہوئی ہے کہ مہندی سے بڑھاپے میں اضافہ ہوتا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ بڑھاپے کو کون سی چیز زیادہ کرے گی بڑھاپا تو خود ہر روز بڑھا کرتا ہے۔

٢٧٧- ایک مرتبہ محمد بن مسلم نے امام محمد باقر علیہ السلام سے خضاب کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خضاب لگایا کرتے تھے اور ہم لوگوں کے پاس یہ ان کے بال ہیں ۔

٢٧٨- روایت کی گئی ہے آنجناب علیہ السلام کے سر اور داڑھی میں سترہ (۱۷) سفید بال تھے ۔

٢٧٩- اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت امام حسین ابن علی علیہ السلام اور امام محمد باقر علیہ السلام دسمہ (برگ تیل) سے خضاب لگایا کرتے تھے ۔

٢٨٠- اور حضرت امام زین العابدین علیہ السلام مہندی اور دسمہ سے خضاب لگایا کرتے تھے ۔

٢٨١- حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ سیاہ رنگ کے خضاب سے عورتوں کیلئے انس کا سبب اور دشمنوں کیلئے خوف کا سبب ہوتا ہے ۔

٢٨٢- اور امام علیہ السلام نے قول خدا واعد والهم ما استطعتم من قوة “(اے مسلمانو تم کفار کے مقابلہ کیلئے جہاں تک کہ تم سے ہو سکے سامان فراہم کرد) (سورہ انفال آیت نمبر (۶۰) کی تفسیر میں ارشاد فرمایا اور ان سامانوں میں سیاہ رنگ کا خضاب بھی ہے ۔ اور ایک مرتبہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اسکی داڑھی زرد رنگ کی تھی ۔ آپ نے فرمایا یہ کتنا اچھا رنگ ہے اور اسکے کچھ دنوں بعد حاضر ہوا تو اسکی داڑھی مہندی سے رنگی ہوئی تھی ۔ یہ دیکھ کر آنحضرت متبسم ہوئے اور فرمایا یہ رنگ اس سے بھی اچھا ہے ۔ اسکے کچھ دنوں بعد پھر حاضر ہوا تو اسکی داڑھی پر سیاہ رنگ کا خضاب تھا یہ دیکھ کر آپ ہنسے اور فرمایا یہ رنگ تو اس سے بھی اچھا ہے اور اس سے بھی اچھا ہے ۔ 

٢٨٣- حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ عورت کیلئے یہ مناسب نہیں کہ خود کو بالکل معطل کرے (اور زینت چھوڑ دے) خواہ ایک طوق ہی کیوں نہ ہو وہ گلے میں پڑا رہے اور اس کیلئے یہ بھی مناسب نہیں وہ خضاب سے بالکل ہاتھ اٹھالے خواہ ذرا مہندی کیوں نہ لگالیا کرے اگر چہ عورت سن رسیدہ ہی کیوں نہ ہو ۔

٢٨٤-- حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ جب ناخونوں پر نورہ لگ جاتا ہے تو اسکا رنگ بدل جاتا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے کسی مردہ کے ناخن ہیں لہذا اسکے رنگنے میں کوئی حرج نہیں ۔ اور ائمہ علہیم السلام نے بھی دسمہ سے خضاب لگایا ہے ۔ زرد رنگ کا خضاب " خضاب ایمان " ہے اور سرخ رنگ کا خضاب " خضاب اسلام " ہے اور سیاہ رنگ کا خضاب - خضاب اسلام و ایمان اور نور " ہے ۔

٢٨٥- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اے علی خضاب کیلئے ایک درہم صرف کرنا اففصل ہے اسکے ماسوا دیگر چیزوں پر راہ خدا میں ایک ہزار درہم صرف کرنے سے اس میں چودہ خوبیاں ہیں ۔ دونوں کانوں کی بو دور کرتا ہے ، نظر کو روشن کرتا ہے ، ناک کو نگین رکھتا ہے، خوشبو کو اچھی کرتا ہے ، مسوڑوں کو مضبوط کرتا ہے ، ضعف کو دور کرتا ہے ، وسوسہ شیطانی کو کم کرتا ہے ، اس سے ملائیکہ خوش ہوتے ہیں اور مومن اس سے خوشخبری پاتا ہے ۔ کافر اس سے رنجیدہ ہوتا ہے اور زینت طبیب ہے ، منکر نکیر اس سے (کچھ پوچھنے میں) حیا کرتے ہیں اور وہ اس کیلئے قبر میں براہت کا ذریعہ ہے ۔ 

٢٨٦- حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ ایک نورہ لگانے کے بعد دوسری مرتبہ نورہ لگانے کے درمیان جو جمعہ آتا ہے میں اس میں استرا پھیرتا ہوں ۔

٢٨٧- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم استرا پھیرو اس سے تمہارے حسن و جمال میں اضافہ ہو گا۔ 

٢٨٨- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا حج اور عمرے کے علاوہ ایام میں سر پر استرا پھیرنا تمہارے دشمنوں کیلئے مثلہ ہے اور تمہارے لئے حسن و جمال کا سبب ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس حدیث کا مفہوم اس وقت واضح ہوا جب آپ نے خوارج کی نشانیاں بتائیں، اور فرمایا یہ لوگ دین سے اسطرح نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے نکلتا ہے اور انکی علامت یہ ہے کہ وہ لوگ سر منڈاتے ہونگے اور تیل لگانا چھوڑ دینگے ۔

٢٨٩- حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ ناک میں سے بالوں کا صاف کرنا چہرے کو حسین کر دیتا ہے ۔ 

٢٩٠- حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ ہر جمعہ کو خطمی سے سر کا دھونا برص اور جنون سے محفوظ رکھتا ہے۔

٢٩١- نیز آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ خطمی سے سر کا دسو را فقر دور کرتا اور رزق میں اضافہ کرتا ہے ۔

٢٩٢- اور دوسری حدیث میں ہے کہ خطمی سے سر کا دھونا ایک طرح کا افسوں اور منتر ہے (جنون اور بیماریوں کیلئے) 

٢٩٣- حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا کہ خطمی سے سرکا دھونا میل کو دور کرتا اور تنکے وغیرہ صاف کر دیتا ہے ۔  

٢٩٤- ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کچھ غمگین ہوئے تو حضرت جبرئیل نے ان سے کہا کہ آپ بیری کی پتی سے اپنا سر دھوئیں اور وہ بیری کی پتی سدرۃ المنتہی کی تھی ۔ 

٢٩٥- حضرت ابو الحسن موسی بن جعفر علیہ السلام نے فرمایا کہ بیری کی پتی سے سر دھونے سے روزی بہت حاصل ہوتی ہے۔ 

٢٩٦- حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ تم لوگ اپنے سروں کو بیری کی پتی سے دھویا کرو اسلئے کہ اسکو ہر ملک مقرب اور ہر نبی مرسل نے مقدس و پاکیزہ سمجھا ہے ۔ اور جو شخص اپنے سر کو بیری کی پتی سے دھوئے گا اللہ تعالٰی ستر (۷۰) دنوں تک وسوسہ شیطانی اس سے دور رکھے گا ۔ اور اللہ جس سے وسوسہ شیطان کو ستر دن دور رکھے گا پھر وہ اللہ کی نافرمانی نہیں کرے گا اور جو اللہ کی نافرمانی نہیں کرے گا وہ جنت میں داخل ہو گا ۔ اور جو شخص حمام سے نکل کر اپنے پاؤں دھوئے تو کوئی حرج نہیں اور اگر نہ دھوئے تو بھی کوئی حرج نہیں ۔

٢٩٧- ایک مرتبہ حضرت حسن بن علی بن ابی طالب علیہ السلام حمام سے نکلے تو ایک شخص نے ان سے کہا آپ کا حمام کرنا پاک و پاکیزہ ہے ۔ آپ نے فرمایا اے بیوقوف تو یہاں بیٹھا ہوا کیا کر رہا ہے اس نے کہا اچھا آپ کا حمام پاک و پاکیزہ ہے آپ نے فرمایا کہ اگر حمام پاک و پاکیزہ ہے تو اس سے بدن کو کیا راحت ملے گی ۔ اس نے کہا اچھا آپ کا تمیم  پاک و پاکیزہ ہے ۔ آپ نے فرمایا وائے ہو مجھ پر کیا مجھے نہیں معلوم کہ تمیم پسینہ کو کہتے ہیں ۔ اس نے کہا پھر کیا کہوں " آپ نے فرمایا یہ کہو کہ آپ کا جو طاہر ہے پاک و پاکیزہ رہے اور آپ کا جو پاک و پاکیزہ ہے وہ طاہر رہے ۔

٢٩٨- حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ جب تم حمام سے نکلو اور تمہارا بھائی تم سے کہے کہ تمہارا حمام پاک و پاکیزہ رہے تو تم اس سے کہو اللہ تمہارے دل کو خوش رکھے ۔

٢٩٩- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ بیماریاں تین (۳) ہیں اور دوائیں بھی تین (۳) ہیں ۔ بیماریاں جو ہیں وہ خون ہے سودا یا صفرا ہے اور بلغم ہے ۔ خون کا علاج حجامت (پچھنی لگانا) ہے بلغم کا علاج حمام ہے اور سودا کا علاج چہل قدمی ہے۔

٣٠٠- حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ تین چیزیں جسمانی عمارت کو منہدم کر دیتی ہے بلکہ کبھی کبھی انسان کی جان لے لیتی ہیں۔ خشک گوشت کا کھانا ، شکم سیری پر حمام  جانا اور بوڑھی عورت سے نکاح کرنا ۔ اور ایک روایت میں ہے کہ شکم سیری پر جماع کرنا ۔