باب قبلہ
حدیث ٨٤٤ - ٨٦٠
٨٤٤ - حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے کعبہ کو اہل مسجد کے لئے قبلہ بنایا ہے اور مسجد کو اہل حرم کے لئے قبلہ بنایا اور حرم کو تمام اہل دنیا کے لئے قبلہ بنایا ہے۔
٨٤٥ - مفضل بن عمر نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایک مرتبہ ہمارے اصحاب کے متعلق نماز میں ذرا بائیں جانب مڑنے کا سبب دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ جب حجر اسود جنت سے نازل ہوا اور اپنی جگہ پر رکھا گیا تو حجر کے نور سے حرم کے تمام گوشے پر نور ہو گئے اور اسکی روشنی کعبہ کے داہنی جانب چار میل اور بائیں جانب آٹھ میل تک پہنچی پس اگر کوئی شخص داھنی جانب مڑے گا تو وہ حدود قبلہ سے نکل جائے گا اور اگر بائیں جانب مڑے گا تو حدود قبلہ سے خارج نہیں ہوگا۔ اور جو شخص مسجد حرام میں ہے تو وہ کعبہ کی طرف رخ کر کے جس جانب سے چاہے نماز پڑھے اور جو شخص کعبہ کے اندر نماز پڑھے تو وہ جس جانب چاہے نماز پڑھے مگر اس کے لئے افضل یہ ہے کہ وہ دونوں ستونوں کے درمیان جو سرخ پتھروں کا فرش ہے اس پر کھڑا ہو اور اس رکن کی طرف رخ کرے جس میں حجر اسود ہے ۔ اور جو شخص کعبہ کی چھت پر ہو اورنماز کا وقت آجائے تو وہ لیٹ جائے اور اپنے سر سے بیت معمور کی طرف اشارہ کرے اور جو شخص کوہ ابو قبیس پر ہو تو وہ کعبہ کو سامنے رکھے اور نماز پڑھے اس لئے کہ کعبہ اپنے اوپر کی جانب آسمان تک قبلہ ہے۔ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تیرہ (١٣) سال تک مکہ میں اور انیسں (۱۹) مہینے تک مدینہ میں بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھی اس پر یہودی طعنہ زن ہوئے اور بولے کہ آپ بھی تو ہمارے ہی قبلہ کے تابع ہیں جس کا آپ کو شدید غم ہوا چنانچہ ایک شب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر سے برآمد ہوئے اور اپنا چہرہ آسمان کے چاروں طرف پھرانے لگے اور جب صبح ہوئی تو نماز صبح پڑھی اس کے بعد جب ظہر کا وقت آیا اور آپ ظہر کی دو رکعت پڑھ چکے تو حضرت جبریل یہ آیت لیکر نازل ہوئے ۔ قَدْ نَرَىٰ تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِى ٱلسَّمَآءِ ۖ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةًۭ تَرْضَىٰهَا ۚ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ ٱلْمَسْجِدِ ٱلْحَرَامِ ۚ (اے رسول تمہارا قبلہ بدلنے کے واسطے بار بار آسمان کی طرف منہ کرنا ہم دیکھ رہے ہیں تو ہم ضرور تم کو ایسے قبلہ کی طرف پھیر دیں گے جس سے تم خوش ہو جاؤ گے اچھا تو نماز ہی میں تم مسجد حرام (کعبہ) کی طرف منہ کرلو) (سورۃ البقرہ آیت نمبر ١٤٤) پھر حضرت جبریل نے آپ کا ہاتھ پکڑا اور آپ کا رخ کعبہ کی طرف پھیر دیا اور آپ کے پیچھے جو لوگ نماز پڑھ رہے تھے ان سب نے اپنا رخ کعبہ کی طرف موڑ لیا نتیجہ میں مرد جو آگے کھڑے تھے وہ پیچھے ہو گئے اور عورتیں جو پیچھے کھڑی تھیں وہ آگے ہو گئیں اور یہ آپ کی وہ نماز ہے کہ جس کی پہلی دو رکعت نماز آپ نے بیت المقدس کی طرف رخ کر کے پڑھی اور آخر کی دو رکعت نماز آپ نے کعبہ کی طرف رخ کر کے پڑھی۔ اور اسکی خبر جب مدینہ کی مسجد میں پہونچی تو وہاں والے عصر کی دو رکعت بیت المقدس کی طرف رخ کر پڑھ چکے تھے اب باقی آخر کی دو رکعت انہوں نے کعبہ کی طرف رخ کر کے پڑھی چنانچہ ان لوگوں کی یہ عصر کی نماز ابتدائی دو رکعت بیت المقدس کی طرف ہوئی اور آخر کی دو رکعت کعبہ کی طرف رخ کر کے ہوئی اسی بنا۔ اس مسجد کا نام مسجد ذوالقبلتین ہو گیا۔
مسلمانوں نے پوچھا یا رسول اللہ یہ جتنی نمازیں لوگوں نے بیت المقدس کی طرف رخ کر کے کیا پڑھیں وہ سب ضائع ہو گئیں تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی وَمَا كَانَ ٱللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَـٰنَكُمْ ۚ (ایسا نہیں ہے کہ اللہ تعالٰی لوگوں کے ایمان (نمازیں جو بیت المقدس کے رخ پر پڑھ چکے ہیں) کو ضائع کر دے (سورۃ بقرہ آیت نمبر ١٤٣)
میں نے اس حدیث کو بعینیہ کتاب النبوت میں بھی تحریر کر دیا ہے۔
٨٤٦ - عبدالرحمن بن ابی عبداللہ سے روایت کی گئی کہ انہوں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایک شخص نابینیا کے متعلق پوچھا کہ اس نے غیر قبلہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھ لی تو آپ نے فرمایا اگر اس نماز کا وقت ہے تو اعادہ کرے اور اگر وقت گذر گیا تو اعادہ نہیں کرے گا راوی کا بیان ہے کہ پھر میں نے آپ سے ایک ایسے شخص کے متعلق پوچھا جس نے بادل گھرا ہوا تھا اور نماز پڑھ لی اور جب بادل چھٹا تو اسکو معلوم ہوا کہ اس نے غیر قبلہ کی طرف نماز پڑھی ہے۔ آپ نے فرمایا اگر اس نماز کا وقت ہے تو اعادہ کرے اور اگر وقت گذر گیا تو اعادہ نہیں کرے گا۔
٨٤٧ - زرارہ اور محمد بن مسلم نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ شخص متحیر کے لئے تا ابد جائز ہے وہ جدھر چاہے رخ کر کے نماز پڑھے جبکہ اس کو معلوم نہیں کہ قبلہ کا رخ کدھر ہے۔
٨٤٨ - اور معاویہ بن عمار نے ان جناب علیہ السلام سے ایک ایسے شخص کے متعلق دریافت کیا کہ نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہے اور نماز سے فارغ ہونے کے بعد دیکھتا ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ وہ قبلہ سے ذرا دائیں یا بائیں منحرف تھا۔ تو آپ نے فرمایا اسکی نماز ہو گئی۔ اور مشرق سے مغرب کے درمیان سب قبلہ ہے۔
اور قبلہ متحیر کے لئے یہ آیت نازل ہوئی ہے وَلِلَّهِ ٱلْمَشْرِقُ وَٱلْمَغْرِبُ ۚ فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا۟ فَثَمَّ وَجْهُ ٱللَّهِ ۚ ( مشرق و مغرب سب اللہ ہی کے لئے ہے جدھر رخ کرو ادھر اللہ ہے) ( سورہ البقرہ آیت نمبر ۱۱۵)
٨٤٩ - محمد بن ابی حمزہ نے حضرت ابو الحسن اول امام موسی ابن جعفر علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا اگر پائخانہ کی پشت سے زمین تو ڑ کر پانی ابلنے لگے اور وہ قبلہ کی جانب ہو تو اسکو کسی شے سے ڈھانک دو ۔ اور مسلمان کی نمازنہیں ٹوٹتی اگر اسکے سامنے سے کوئی کتا یا کوئی عورت یا کوئی گدھا وغیرہ گذر جائے۔
٨٥٠ - اور رسول اللہ صلی اللہ وآلہ وسلم نے قبلہ کی طرف تھوکنے سے منع فرمایا ہے۔
٨٥١ - اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مرتبہ (نماز پڑھتے میں) مسجد میں کسی کا کھنکھار دیکھ لیا تو ابن طاب
کھجور کے گھچے کو لیکر گئے اسکو صاف کیا اور پیچھے کی طرف الٹے پاؤں واپس ہوئے اور وہی نماز پڑھنے لگے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ آنحضرت کے اس عمل نے نماز کے مسائل کے بہت سے دروازے کھول دیئے۔
٨٥٢ - نیز نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رو بقبلہ یا پشت بقبلہ ہو کر جماع کرنے کو منع فرمایا ہے اور قبلہ رو پیشاب پائخانہ
کرنے کو بھی منع فرمایا ہے۔
٨٥٣ - اور حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص نماز میں (اگر تھوکنا چاہے تو) نہ اپنے سامنے تھو کے اور نہ اپنے داہنے جانب تھو کے اگر تھوکتا ہے تو بائیں جانب یا اپنے بائیں پاؤں کے نیچے تھوک لے۔
٨٥٤ - حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا جو شخص نماز میں اجلال خداوندی کے پیش نظر اپنے تھوک کو روکے رہے تو اللہ تعالیٰ اسکو مرتے دم تک صحت عطا فرمائے گا۔ اور روایت کی گئی ہے جس شخص کو غار میں قبلہ کا پتہ نہیں چلتا تو وہ چار جانب رخ کر نماز پڑھے ۔
٨٥٥ - زرارہ نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا قبلہ کی طرف رخ کئے بغیر نماز نہیں ہوتی راوی کا بیان ہے میں نے عرض کیا کہ قبلہ کے حدود کیا ہیں ؟ آپ نے فرمایا مشرق و مغرب کے درمیان سب قبلہ ہے۔ میں نے عرض کیا اور اگر کوئی شخص غیر قبلہ کیطرف رخ کر کے نماز پڑھ لے یا ابر کے دن میں غیر وقت میں نماز پڑھ لے ؟ تو آپ نے فرمایا کہ وہ پھر سے نماز کا اعادہ کرے۔
٨٥٦ - اور ایک دوسری حدیث میں زرارہ نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا ۔ تم اپنا چہرہ قبلہ کے سمت رکھو اور قبلہ کی طرف سے اپنا منہ نہ پھیرو ورنہ تمہاری نماز فاسد ہو جائے گی چنانچہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے نماز فریضہ کے متعلق کہ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ ٱلْمَسْجِدِ ٱلْحَرَامِ ۚ وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّوا۟ وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُۥ ۗ (اے رسول) پس تم اپنا منہ مسجد حرام کی طرف کرو اور (اے مسلمانوں) تم جہاں بھی ہو اسی کی طرف اپنا منہ کیا کرو) (سورۃ بقرہ آیت ١٤٤) پس اٹھو اور سیدھے کھڑے ہواس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص چپ چاپ سیدھا کھڑا نہ ہوگا اسکی نماز نہ ہوگی اور اپنی نگاہیں اللہ کے سامنے خشوع کے ساتھ نیچےجھکائے رکھو آسمان کی طرف نظر نہ کرو اور تمہارا چہرہ جائے سجدہ کے بالکل بالمقابل رہے۔
٨٥٧ - اور امام علیہ السلام نے زرارہ سے فرمایا کہ نماز کا اعادہ صرف پانچ وجہ سے کیا جائے گا۔ طہارت ، وقت ، قبلہ ، رکوع ، سجود (یعنی ان سب میں اگر کوئی کوتاہی ہو گئی ہو)
اور میرے والد رضی اللہ عنہ نے مجھے ایک رسالہ میں تحریر فرمایا اگر تمہارا نوافل پڑھنے کا ارادہ ہو اور تم کسی سواری پر ہو تو اپنی سواری کے سر کی طرف رخ کر کے نماز پڑھ لو جد مردہ تمہیں لیجائے خواہ قبلہ کی طرف لیجائے یا دائیں یا بائیں ۔ اور اگر تم اپنی سواری کی پشت پر نماز فریضہ پڑھو تو قبلہ رو ہو کر تکبیر افتتاح کہو پھر جانے دو جدھر تمہاری سواری لیجائے تم سورۃ کی قراءت کرو اور جب رکوع اور سجود کا ارادہ ہو تو رکوع اور سجود ایسی چیز پر کرو جس پر سجدہ جائز ہے اور وہ تمہارے ساتھ ہو مگر یہ نماز فریضہ تم اسطرح سواری پر اسی حال میں پڑھو جب شدید اضطرار اور مجبوری ہو۔ اور اگر تم پا پیادہ چلتے ہوئے نماز پڑھ رہے ہو تو بھی ایسا ہی کرو لیکن جب سجدہ کرنا ہو تو زمین پر سجدہ کرو۔ اور آپ نے اپنے رسالہ میں یہ بھی تحریر فرمایا ہے کہ اگر تم کو کسی درندے کا سامنا ہو اور ڈر ہو کہ نماز فوت ہو جائے گی تو قبلہ کی طرف رخ کرو اور نماز اشاروں سے پڑھ لو اور اگر ڈر ہو کہ اسطرح درندے سے تمہاری مڈ بھیڑ ہو جائے گی تو جس طرح وہ چکر لگا رہا ہے اسطرح تم بھی چکر لگاؤاور نماز اشاروں سے پڑھتے رہو۔
٨٥٨ - اور روایت کی گئی کہ اگر ہوا کا طوفان چل رہا ہو اور سفینہ والوں کا قبلہ رو ہونا ممکن نہ ہو تو صدر سفینہ کیطرف رخ کر کے نماز پڑھ لو۔
٨٥٩ - نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بعض موقع پر) ہر واعظ قبلہ ہوتا ہے وعظ سننے والوں کے لئے اور وعظ سننے والے قبلہ بن جاتے ہیں واعظ کے لئے یعنی نماز جمعہ و عیدین و نماز استسقاء میں خطبہ کے وقت امام خطبہ سننےوالوں کا قبلہ بنتا ہے اور خطبہ سننے والے امام کے لئے قبلہ بنتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ خطبہ سے فارغ ہو جاتا ہے۔
٨٦٠ - ایک شخص نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے عرض کیا کہ میں سفر میں ہوتا ہوں تو رات کے وقت قبلہ کا پتہ نہیں چلتا۔ آپ نے فرمایا کہ کیا تم اس ستارے کو پہچانتے ہو جس کو جدی کہا جاتا ہے ؟ اس نے عرض کیا جی ہاں آپ نےفرمایا تو اس کو اپنی داہنی جانب پر کھو اور اگر حج کے راستہ پر ہو تو اسکو اپنے دونوں کاندھوں کے درمیان رکھو۔