Skip to main content

حضرت امام عصر عجل اللہ فرجہ کی توقیع آپ کے والد کے نام

 شیخ طوسی علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب غیبت میں امام عصر کی وہ توقیعات و خطوط جو ناحیہ مقدسہ سے جاری ہوئے ان کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرمایا ہے کہ ابو العاص احمد بن علی بن نوح سے روایت ہے اور انہوں نے ابی عبداللہ الحسین بن محمد بن سورہ قمی سے روایت کی ہے جبکہ وہ سفر حج میں ہم لوگوں کے یہاں تشریف لائے تو انہوں نے کہا کہ بیان کیا مجھ سے علی بن الحسن بن یوسف الصائغ تھی اور محمد بن احمد بن محمد صیرفی المعروف بہ ابن دلال نے اور ان دونوں کے علاوہ مشائخ اہل قم نے کہ علی بن الحسین بن بابویہ (والد شیخ صدوق) کی زوجیت میں ان کے چچا محمد بن موسیٰ بن بابویہ کی دختر تھیں مگر ان سے کوئی اولاد پیدا نہیں ہو رہی تھی تو آپ نے حضرت شیخ ابی القاسم حسین بن روح علیہ الرحمہ (مجملہ نوابین اربعہ) کو خط لکھا کہ وہ حضرت امام عصر مجمل اللہ فرجہ سے درخواست کریں کہ وہ اللہ تعالٰی سے دعا کریں کہ ہمیں ایسی اولاد عطا کرے جو فقیہ ہو تو جواب میں یہ توقیع آئی کہ اس زوجہ سے تمہیں کوئی اولاد نہ ہوگی مگر عنقریب ایک دیلمی کنیز تمہاری ملکیت میں آئے گی اور اس سے تمہارے دو فقیہ فرزند پیدا ہوں گے ۔ ابو عبداللہ بن سورہ کا بیان ہے کہ ابو الحسن بابویہ کے تین فرزند پیدا ہوئے ایک محمد دوسرے حسین یہ دونوں فقیہ تھے اور حفظ میں ماہر تھے ان کے حافظہ کا یہ حال تھا کہ یہ دونوں وہ سب کچھ حفظ کر لیتے تھے جن کو اہل تم میں سے کوئی حفظ نہیں کر پاتا تھا۔ ان کے تیسرے بھائی حسن تھے جو منجھلے  (اوسط ) تھے وہ فقیہ نہ تھے لوگوں سے اختلاط کم رکھتے اور ہمیشہ زہد و عبادت میں مصروف رہتے اور گوشہ نشینی کی زندگی بسر کرتے ابن سورہ کا بیان ہے کہ یہ دونوں حضرات یعنی ابو جعفر محمد (شیخ صدوق) اور ان کے بھائی ابو عبداللہ الحسین جس وقت روایات بیان کرتے تو لوگ حیرت زدہ رہ جاتے اور کہتے کہ آپ دونوں میں یہ خصوصیت امام علیہ السلام کی دعا کی برکت سے ہے اور یہ بات اہل قسم میں بہت مشہور تھی ۔