قضائے حاجت کیلئے جگہ کی تلاش اور اس میں آمد و رفت کے ثواب و سنن
قضائے حاجت کیلئے جگہ کی تلاش اور اس میں آمد و رفت کے ثواب و سنن
حدیث ٣٦-٦٥
٣٦- حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیشاب کیلئے سب سے زیادہ شدید احتیاط سے کام لیتے چنانچہ جب آپ پیشاب کرنے کا ارادہ فرماتے تو زمین کے کسی بلند مقام پر یا ایسی جگہ جہاں بہت زیادہ دھول ہو تشریف لے جاتے تاکہ پیشاب کی چھینٹ آپ پر نہ پڑے ۔
٣٧- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب بیت الخلاء میں داخل ہونے کا ارادہ کرتے تو یہ فرمایا کرتے اللهم انى أَعُوذُبِكَ مِنَ الرجس الجسِ الخَبِيثِ الْمُخَبثِ الشَّيْطَانِ الرَّحِيمِ اللَّهُم أَمْتِ عَنِّى اللَّهُ ذَىٰ وَ أَعِذْنِيْ مِنَ الشَّيْطَانِ الرحیم ۔ (اے اللہ میں پناہ مانگتا ہوں پلیدگی اور نجاست سے اور شیطان سے جو خود بھی خبیث ہے اور دوسروں کو بھی خیبیث بنا دیتا ہے پروردگار تو مجھ سے اذیت دینے والی چیزوں کو دور کر اور پناہ دے مجھے شیطان رجیم سے) ۔ اور جب قضائے حاجت کیلئے سیدھے ہو کر بیٹھتے تو فرماتے اللهُم أَذْهَبُ عَنِي القَذَى والاذى وَ اجْعَلْنِي مِنَ الْمُتَطَرِينَ (پروردگار مجھ سے دور کر دے میل کچیل اور تکلیفوں کو اور مجھے پاک و پاکیزہ اوگوں میں قرار دے) اور جب قضائے حاجت کیلئے پیٹ کو مروڑتے تو فرماتے اللهُم كَمَا أَطْعَمَتِنِيهِ طَيِّباً فِى عَانِيهِ فَأَخْرِجُهُ مِنِّي خَبِيثًا فِى عَافِية ( اے اللہ جب تو نے مجھے طیب اور پاک کھلایا ہے عافیت کے ساتھ تو نکال دے مجھ سے گندگی کو عافیت کے ساتھ ) ۔
٣٨- حضرت علی علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ ہر بندے کے ساتھ ایک ملک ہے جو اس پر مقرر ہے کہ جب وہ قضائے ماجت کیلئے بیٹھتا ہے تو وہ ملک اسکی گردن کو مکا دیتا ہے تاکہ وہ اپنے پاخانہ کو دیکھے پھر وہ ملک اس سے کہتا ہے کہ اے آدم کی اولاد یہ تیرا رزق تھا اب سوچ کہ تو نے اسکو کہاں سے حاصل کیا اور اب وہ کیا بن گیا ۔ لہذا بندے کیلئے مناسب ہے کہ وہ کہے اللهم ارزقنِي الْحَالَ وَ جَنْبَنِي الحَرام (پروردگار مجھے رزق حلال عطا کر اور حرام سے بچا ) اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پاخانہ کبھی کسی کو نظری نہیں آیا اسلئےکہ اللہ تعالٰی نے زمین کو پابند کر دیا تھا کہ جو فضلہ لگتا ہے وہ اسے نگل جائے ۔
٣٩- امیر المومنین علیہ السلام جب قضائے حاجت کا ارادہ کرتے تو بیت الخلاء کے دروازے پر کھڑے ہوتے پھر اپنے دائیں بائیں جانب کے دونوں فرشتوں کی طرف متوجہ ہوتے اور فرماتے تم دونوں میرے کاندھوں سے اترو میں اپنے منہ سے کچھ نہ بولونگا یہاں تک کہ میں قضائے حاجت کے بعد نکل کر تمہارے پاس آجاؤں ۔
٤٠- اور آپ جب بیت الخلاء میں داخل ہوتے تو یہ فرماتے الحمد لله الْحَافِظُ الْمُؤدِی (تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں جو حفاظت کرنے والا اور پہنچانے والا ہے ) اور جب بیت الخلاء سے باہر نکلتے تو اپنے شکم مبارک پر ہاتھ پھیرتے اور فرماتے الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَخْرَجَ عَنِى أَذَاهُ وَأَبْقَى فِى تُوتَهُ فَيَا لَحَا مِنْ نِعْمَةٍ لَا يَقْدِرُ الْقَادِرُونَ تَدْرُهَا ( ساری حمد اس خدا کیلئے ہے جس نے میرے اندر سے اس اذیت کو نکال دیا اور میرے اندر اس کی توانائی کو باقی رکھا کیا کہنا اس نعمت کا جس کا اندازہ کرنے والے اندازہ نہیں کر سکتے)
٤١- حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام جب بیت الخلاء میں داخل ہوتے تو اپنا سر کسی کپڑے سے ڈھانپ لیا کرتے اور دل ہی دل میں یہ کہا کرتے ۔ الله وبالله ولا إله إلا الله رب اخرج عنى لا ذَى سُرْحَا بِغَيْرِ حِسَابٍ وَ اجْعَلْنِي لَكَ مِنَ الشَّاكِرِينَ فِيمَا تَصْرِفَة لَو حَسْتُه عَنّي هَلَكْتُ لَكَ الْحَمْدُ أَعْصَمْنِي مِنْ شَرِّ مَا فِي هُذِهِ الْبَقَعَةِ وَأَخْرِجْنِي
منها سَالِماً و حَل بَيني وَبَيْنَ طَاعَةِ الشَّيْطَانِ الرَّحِيمِ (اللہ کے نام کے ساتھ اور اللہ کے ساتھ اور نہیں ہے کوئی اللہ سوائے اس اللہ کے پروردگار تو نکال دے میرے اندر سے اس اذیت کو انتہائی آسانی کے ساتھ اور جس تکلیف و اذیت کو تو نے مجھ سے دور کیا اس پر تو مجھے اپنے شکر گزاروں میں شامل فرما اسلئے کہ اگر تو اس کو میرے اندر روک دیتا تو میں ہلاک ہو جاتا ۔ تیرا شکر کہ تو نے مجھے اس کے شر سے محفوظ رکھا اور مجھے اس جگہ سے سلامت نکالا اور میرے اور شیطان رجیم کی اطاعت کے درمیان تو حائل ہو گیا) اور انسان کو چاہیے کہ جب بیت الخلاء میں داخل ہو تو اپنے سر کو ڈھانپے رکھے اس امر کا اقرار کرتے ہوئے کہ اسکا نفس عیوب سے پاک نہیں اور دائیں پاؤں سے پہلے اپنا بایاں پاؤں اندر داخل کرے تاکہ بیت الخلاء کے اندر داخل ہونے میں اور مسجد کے اندر داخل ہونے کے درمیان فرق رہے اور شیطان رجیم سے اللہ کی پناہ چاہے کیونکہ شیطان اکثر انسان کی طرف اس وقت توجہ کرتا ہے جب وہ تنہا ہو ۔ پھر جب بیت الخلاء سے نکلے تو بائیں پاؤں سے پہلے واہنا پاؤں باہر نکالے ۔
٤٢- اور میں نے سعد بن عبداللہ کے ہاتھ کی لکھی ہوئی ایک حدیث پائی ہے جسکو انہوں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی طرف سند کیا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ جو شخص نماز میں کثرت سے سہو کرنے لگے تو اسکو چاہیے کہ جب وہ بیت الخلاء میں داخل ہو تو یہ کہے بِسْمِ اللهِ وَبِاللَّهِ أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الرِّجْسِ النَّبِسِ الخَبِيثِ الْمُخْبِثِ الشَّيْطَانِ الرَّحِيمِ (الله کے نام کے ساتھ اور اللہ کے ساتھ میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں پلیدگی اور نجاست سے اور شیطان سے جو خود بھی خبیث ہے اور دوسروں کو بھی خبیث بنا دیتا ہے)
٤٣- حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا اگر تم میں سے کوئی شخص پیشاب وغیرہ کیلئے اپنا آگا پیچھا کھچا کھولے تو بسم اللہ کہے اس سے شیطان اسکی شرمگاہ سے اپنی نگاہ بچائے رہے گا یہاں تک کہ وہ فراغت حاصل کرلے ۔
٤٤- ایک مرتبہ ایک شخص نے حضرت امام زین العابدین علیہ السلام سے عرض کیا کہ مسافر لوگ قضائے حاجت کہاں کریں ؟ آپ نے فرمایا کہ وہ لوگ نہروں کے کنارے سے اور چلتے ہوئے راستوں سے اور پھلدار درختوں کے سایہ سے اور ایسی جگہوں سے پر ہیز کریں جہاں پاخانہ یا پیشاب کرنے والے پر لوگ لعنت کرتے ہیں ۔ تو عرض کیا گیا کہ لعنت کی جگہیں کون سی ہیں تو فرمایا گھروں کے دروازے ۔
٤٥- ایک دوسری حدیث میں ہے کہ مسافروں کے پڑاؤ کی جگہ پاخانہ کرنے والے پر اور اپنے شریک کی باری کے پانی کو روکنے والے پر اور چلتے ہوئے راستہ کو بند کرنے والے پر اللہ کی لعنت ۔
٤٦- ایک اور حدیث میں ہے کہ جو شخص کسی راستہ کو بند کرے گا اللہ تعالیٰ اسکی عمر کو مختصر کر دیگا۔
٤٧- حضرت امام حسن ابن علی علیہ السلام سے دریافت کیا گیا کہ قضائے حاجت کے آداب کیا ہیں ؟ تو آپ نے فرمایا کہ نہ قبلہ کی طرف رخ کر کے بیٹھے اور نہ اسکی طرف پشت کر کے بیٹھے اور نہ ہوا کی طرف رخ کر کے بیٹھے اور نہ اسکی طرف پشت کر کے بیٹھے ۔
٤٨- ایک دوسری حدیث ہے کہ نہ چاند کی طرف رخ کر کے بیٹھے اور نہ اسکی طرف پشت کر کے بیٹھے اور جو شخص پیشاب یا پاخانہ کیلئے قبلہ کی طرف رخ کر کے بیٹھ جائے پھر اسے یاد آئے اور وہ احترام قبلہ کا خیال کرتے ہوئے اپنا رخ کسی اور طرف موڑ لے تو وہ اپنی جگہ سے نہیں اٹھے گا کہ اللہ تعالٰی اسکی مغفرت کر دیگا۔
٤٩- ایک مرتبہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام بیت الخلاء میں داخل ہوئے تو وہاں روٹی کا ایک ٹکڑا پڑا ہوا پایا آپ نے اس کو اٹھا کر پاک کیا اور اپنے ایک غلام کو دیا اور کہا تم اسکو رکھو میں جب بیت الخلاء سے نکلوں گا تو اسے کھاؤں گا ۔ جب آپ بیت الخلاء سے برآمد ہوئے تو غلام سے پوچھا وہ روٹی کا ٹکڑا کہاں ہے ؟ اس نے عرض کیا فرزند رسول میں تو اسے کھا گیا آپ نے فرمایا یہ روٹی کا ٹکڑا جس کے پیٹ میں بھی جاتا اس پر جنت واجب تھی اب جاؤ تم آزاد ہو میں پسند نہیں کرتا کہ ایسے شخص سے خدمت لوں جو اہل سنّت میں سے ہو ۔
٥٠-نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی شخص چھت سے یا کسی بلند مقام سے اپنا پیشاب ہوا میں نہ اڑائے ۔
٥١- اور آپ نے فرمایا کہ بلا سبب کھڑے ہو کر پیشاب کرنا خلاف مروت و خلاف انسانیت ہے اور بلا سبب داہنے ہاتھ سے آب دست لینا بھی خلاف مروت و انسانیت ہے ۔
٥٢- روایت کی گئی ہے کہ اگر بایاں ہاتھ معطل ہو تو داہنے ہاتھ سے آبدست لینے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
٥٣- ایک مرتبہ ہشام بن سالم نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے عرض کیا کہ میں ایک ایسے غسل خانے میں غسل جنابت وغیرہ کرتا ہوں جس میں پیشاب بھی کیا جاتا ہے مگر میرے پاؤں میں سندھی نعلین ہوتی ہے تو کیا میں اپنے پاؤں کو پھر سے دھوؤں جبکہ میرے پاؤں میں اس طرح کی نعل بھی ہے ؟ آپ نے فرمایا اگر تمہارے جسم سے پانی بہہ کر تمہارے قدموں کے نچلے حصے تک پہنچ رہا ہے تو پھر قدم کے نچلے حصہ کو نہ دھوؤ ۔ اور اسطرح اگر کوئی شخص ایک گڑھے میں غسل کر رہا ہے اور پانی بہہ کر پاؤں کے نیچے تک آ رہا ہے تو پھر اسکو نہیں دھوئے گا اور اگر اس کے دونوں پاؤں پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں تو اسے دھوئے گا ۔
٥٤ - حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے دریافت کیا گیا کہ اگر کوئی شخص استنجا کرنے کا ارادہ کرے تو کسطرح بیٹھے ؟ آپ نے فرمایا اسطرح بیٹھے جس طرح پاخانہ کیلئے بیٹھتا ہے۔
٥٥- حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ جب کوئی شخص پیشاب کرے تو وہ اپنے عضو تناسل کو داہنے ہاتھ سے مس نہ کرے ۔
٥٦- اور آنجناب نے فرمایا کہ بیت الخلاء میں دیر تک بیٹھنے سے بواسیر کا مرض پیدا ہوتا ہے۔
٥٧- اور عمر بن یزید نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے تسبیح پڑھنے اور قرآن کی قرابت کرنے کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ بیت الخلاء میں آیات الکرسی و حمد الہی یا الحمد اللہ رب العالمین سے زیادہ پڑھنے کی اجازت نہیں ۔ اور اگر بیت الخلاء میں کوئی شخص آذان کی آواز سنے تو اسکو وہ کہنا چاہیئے جو موذن کہہ رہا ہے اور بیت الخلاء میں رہنے کی وجہ سے دعا اور حمد سے باز نہ رہنا چاہیئے ۔ اسلئے کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر ہر حال میں بہتر ہے ۔
٥٨- اور جب حضرت موسیٰ بن عمران علیہ السلام نے اللہ تعالٰی سے کلام کیا تو آپ نے یہ کہا پروردگار یہ بتا کہ کیا تو مجھ سے دور ہے کہ میں تجھے زور سے آواز دوں یا تجھ سے آہستہ آہستہ باتیں کروں ۔ تو اللہ تعالیٰ نے وحی فرمائی (اے موسیٰ) جو میرا ذکر کرتا ہے اسکا جلیس و ہمنشین ہوتا ہوں ۔ اس پر موسیٰ علیہ السلام نے کہا پروردگار میں کبھی کبھی ایسے حال میں ہوتا ہوں کہ تو اس سے بالاتر ہے کہ اس حال میں تیرا ذکر کروں ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اےموسیٰ تم ہر حال میں میرا ذکر کیا کرو۔ اور کسی شخص کیلئے یہ جائز نہیں کہ وہ بیت الخلاء میں داخل ہو اور اسکے ہاتھ میں ایسی آنکو ٹھی ہو جس پر اسم الہی کندہ ہو یا ایسی کتاب ہو جس میں قرآن کی آیت لکھی ہوئی ہو اور اگر وہ بیت الخلاء میں داخل ہو گیا اور اسکے ہاتھ میں ایسی انگوٹھی ہے جس پر اسم الہی کندہ ہے تو اس کو چاہیئے کہ جب وہ آبدست کا ارادہ کرے تو بائیں ہاتھ سے انگوٹھی کو اتار لے اور اسی طرح اگر اس کے ہاتھ میں کوئی ایسی انگوٹھی ہے جس پر کوئی زمزم (زمرد) کے پتھر کا نگینہ ہے تو اسکو اپنے ہاتھ سے اتار لے اور جب قضائے حاجت سے فارغ ہو جائے تو یہ کہے ۔ الحمد لله الذى أمَا طَا عَنِ الْأَذَى وَهَنَائِي طَعَامِ وَ شَرَابِي وَعَا فَانِي مِنَ البلوى (حمد مخصوص اس اللہ کیلئے جس نے مجھ سے تکلیف کو دور کر دیا اور جو کچھ میں نے کھایا اور پیا تھا اس کو میرے لئے خوشگوار بنایا اور مجھے بلاء و آزمائش سے بچایا ۔)
اور آبدست پہلے تین ڈھیلیوں سے پھر پانی سے ہو گا اور اگر پانی ہی پر اکتفا کرے تو بھی جائز ہے اور جانوروں کے گوبر اور ہڈی سے استنجا اور آہدست جائز نہیں اسلئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں جنوں کا ایک وفد آیا اور انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ہم لوگوں کو بھی کچھ عطا فرمائیں تو آپ نے ان لوگوں کو گوبر اور ہڈیاں دیدیں اسلئے مناسب نہیں کہ ان سے استنجا کیا جائے ۔
٥٩- اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں) لوگ پتھروں اور ڈھیلوں سے استنجا کیا کرتے تھے پھر انصار میں سے ایک شخص نے کچھ ایسی غذا کھائی کہ اسکو ڈھیلا پاخانہ آیا تو اس نے استنجا کیا اور اس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی - ٱللَّهُ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ يُحِبُّ ٱلتَّوَّٰبِينَ وَيُحِبُّ ٱلْمُتَطَهِّرِينَ - ( بیشک اللہ تو بہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں کو محبوب رکھتا ہے ) (سورۃ بقر آیت نمبر ٢٢٢) تو آنحضرت نے اسکو بلایا وہ ڈرا کہ اس کیلئے کوئی برا حکم نازل ہوا ہے چنانچہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا کیا تو نے کوئی نیا کام کیا ہے ؟ اس نے عرض کیا جی ہاں یا رسول اللہ میں نے ایسی غذا کھائی تھی جس سے ڈھیلا پاخانہ آگیا تو میں نے پانی سے استنجا کیا۔ آپ نے فرمایا تمہیں بشارت ہو تمہارے متعلق اللہ تعالٰی نے یہ آیت نازل فرمائی ہے ۔ ان الله يحب التوابين ويحب المتطهرين لہذا تم توابین میں اول اور منتظہرین میں اول ہو اور کہا جاتا ہے کہ اس شخص کا نام براء بن معرور انصاری تھا ۔
اور جو شخص استنجا کا ارادہ کرے تو اسے چاہیئے کہ اپنی انگلیوں سے اپنی مقعد کے قریب سے انشین کی طرف تین مرتبہ مسح کرے پھر اپنے آلہ تناسل کو تین بار کھینچے اور جب استجا کیلئے پانی اپنے ہاتھ پر ڈالے تو کہے - الْحَمدُ لِلَّهِ الَّذِي جَعَلَ الماء طَهُورً ا وَ لَمْ يَجْعَلُه نجساً ( حمد ہے اس خدا کی جس نے پانی کو پاک کرنے والا قرار دیا اور نجس قرار نہیں دیا) اور پھر آلہ تناسل پر جس قدر پیشاب کا قطرہ ہو اس کے دو گنا پانی اس پر ڈالے اور اتنا ہی در مرتبہ ڈالے یہ مقدار کم سے کم ہے جسکی اجازت ہے ۔ اسکے بعد پاخانہ کیلئے آبدست لے اور اتنا دھوئے کہ ساری نجاست دور ہو جائے ۔ اور استنجا کرنے والا جب پیشاب آنے کا سلسلہ منقطع ہو جائے تب استنجا کرے ۔ اور اگر کسی شخص کو نماز پڑھنے کے بعد یاد آئے کہ اس نے اپنے عضو تناسل کو نہیں دھویا تھا تو اس پر واجب ہے کہ اپنے عضو تناسل کو دھوئے اور پھر سے وضو کر کے نماز پڑھے ۔ اور جو شخص پاخانے کے بعد آبدست لینا بھول جائے اور نماز پڑھ لے تو پھر نماز کا اعادہ نہیں کرے گا (مگر احوط (زیادہ احتیاط ) یہ ہے کہ آبدست کے بعد وضو اور نماز کا اعادہ کرے گا) اور پاخانہ کیلئے استنجا پتھر، ٹھیکرے اور ڈھیلے سے جائز ہے ۔
٦٠- حضرت امام رضا علیہ السلام نے فرمایا کہ پاخانہ کیلئے استجا میں مقعد کے ظاہری حصہ کو دھویا جائے گا اس میں اندر انگلی نہیں ڈالی جائے گی اور بیت الخلاء میں گفتگو جائز نہیں اسلئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے ۔ (1) اور روایت کی گئی ہے کہ جو شخص بیت الخلاء میں بات کرے گا اسکی حاجت کبھی پوری نہ ہو گی۔
٦٢- اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ازواج میں سے کسی سے فرمایا کہ تم مسلمانوں کی عورتوں کو حکم دیدو کہ وہ (پاخانہ کے بعد) پانی سے استنجا کیا کریں اور اس میں مبالغہ ( زیادہ پانی سے کام لیں اسلئے کہ یہ مقعد کے کناروں کو پاک کرتا ہے اور مرض بواسیر کو دور رکھتا ہے۔ اور مسافروں کے سایہ میں اور پھلدار درختوں کے نیچے پاخانہ کرنا جائز نہیں اور اسکا سبب یہ ہے کہ :
٦٣- حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ اللہ تعالٰی کے کچھ ملائک ایسے ہیں جنہیں اس نے زمین کے پودوں ، درختوں ، کھجوروں پر مقرر فرمایا ہے لہذا کوئی ایسا درخت نہیں اور کوئی ایسا نخل نہیں کہ جس کے ساتھ اللہ تعالٰی کا کوئی مقرر کیا ہوا ملک نہ ہو اور وہ اس درخت پر جو پھل اور پھول آتے ہیں اسکی حفاظت کرتا ہے اگر اسکے ساتھ کوئی حفاظت کرنے والا نہ ہوتا تو جب اس پر پھل آتے تو زمین کے درندے اور جانور اسکو کھا جاتے ۔
٦٤- اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ کوئی مسلمان کسی درخت یا کسی کھجور کے نیچے جب کہ اس پر پھل آئے ہوئے ہوں ۔ پاخانے کی جگہ نہ بنائے اسلئے کہ اس درخت پر مقرر ملائیکہ وہاں رہتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ جب درختوں پر پھل آتے ہیں تو ان پر رونق آجاتی ہے لوگ وہاں انس محسوس کرتے ہیں کیونکہ ملائیکہ موجود رہتے ہیں ۔ اور جس کے پیشاب کا سلسلہ منقطع نہ ہوتا ہو ( سلسل البول کا مرض) تو اللہ کے نزدیک وہ معذور ہے مگر جہاں تک ممکن ہو اس مرض کے دفع کرنے کی کوشش کرے اور اسے چاہیئے کہ ایک تھیلی اس جگہ لگالے ۔ اور جس شخص نے صرف پیشاب کیا پاخانہ نہیں کیا تو اس پر استجا (آبدست) واجب نہیں اس پر صرف اپنے عضو تناسل کا دھونا واجب ہے اور جس شخص نے صرف پاخانہ کیا پیشاب نہیں کیا تو اس پر عضو تناسل کا دھونا واجب نہیں صرف استنجا(آبدست) واجب ہے ۔ اور اگر کسی شخص نے وضو کیا اور اسکے بعد اسکی ریح صادر ہو گئی تو اس پر استنجا (آبدست) واجب نہیں صرف دوبارہ وضو کر لے ۔ (۶۵) اور روایت کی گئی ہے کہ حضرت ابو الحسن امام رضا علیہ السلام جب نیند سے بیدار ہوا کرتے تو وضو فرمایا لیا کرتے استنجا نہیں کیا کرتے ۔ اور آپ نے ایک شخص کا نام لیکر اسطرح فرمایا جیسے آپ کو تعجب تھا فرمایا مجھے خبر ملی ہے کہ اس شخص کے ریح بھی صادر ہوتی ہے تو وہ استنجا (آبدست) کرتا ہے۔