تکفین اور اسکے آداب
حدیث ٤٠٨-٤٥٠
٤٠٨- حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا تم لوگ بہتر سے بہتر کفن دینے کی کوشش کرو اسلئے کہ مرنے والے اس کے اندر قبر سے اٹھائے جائیں گے ۔
٤٠٩- نیز آنجناب نے فرمایا تم لوگ اپنے مرنے والوں کو اچھے سے اچھا کفن دو یہی انکی زینت ہے ۔
٤١٠- حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے ارشاد فرمایا جب تم کسی میت کو کفن دینے لگو تو اگر ممکن ہو تو وہ پاک کپڑا جس میں نماز پڑھا کرتا تھا وہ بھی اسکے کفن میں رکھدو اسلئے کہ جس میں وہ نماز پڑھتا تھا اسی میں اسکو کفن دینا مستحب ہے ۔ اور یہ جائز نہیں کہ میت کو کتان و ابریشم کے کپڑوں میں کفن دیا جائے لیکن روئی کے کپڑے میں جائز ہے ۔
٤١١- حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ کتان بنی اسرائیل کیلئے ہے وہ اس سے کفن دیا کرتے ہیں اور امت محمد یہ کیلئے روئی کا کپڑا ہے ۔
٤١٢- حضرت ابوالحسن ثالث (امام علی النقی علیہ السلام) سے اس کپڑے کے متعلق دریافت کیا گیا جو بصرہ میں یمنی چادر کے انداز پر ریشم اور روئی ملا کر بنایا جاتا ہے کیا اس میں میت کو کفن دینا درست ہے ؟ آپ نے فرمایا اگر اس میں روئی زیادہ ہے ریشم سے تو کوئی حرج نہیں ہے ۔
٤١٣- اور حضرت امام موسی بن جعفر علیہ السلام سے ایک ایسے شخص کے متعلق دریافت کیا گیا جس نے پوشش خانہ کعبہ کا تھوڑا سا حصہ خریدا اور اس میں سے کچھ سے اپنی ضرورت پوری کی اور کچھ ابھی اسکے پاس ہے کیا اسکا فروخت کرنا اس شخص کیلئے درست ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ اس میں سے جتنا چاہے فروخت کرے اور اگر فروخت کرنے کا ارادہ نہ ہو تو کسی کو ہبہ کردے اور اس سے نفع حاصل کرے اور اس سے برکت طلب کرے تو عرض کیا گیا کہ کہا اس میں میت کو کفن بھی دیا جا سکتا ہے ؟ آپ نے فرمایا نہیں ۔
٤١٤- اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ میت کی قمیض ( پیراہن) کا دامن نہ گول تراشا ہوا ہو نہ اس میں گوٹ لگی ہوئی نہ اس میں گھنڈی اور بٹن لگے ہوئے ہوں ۔
٤١٥- حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے دریافت کیا گیا کہ ایک شخص کے پاس قمیض ( پیراہن) موجود ہے کیا اس میں اس کو کفن دیا جا سکتا ہے ؟ آپ نے فرمایا اسکے بٹن یا گھنڈی کاٹ دو ۔ راوی کا بیان ہے کہ میں نے عرض کیا اور آستین ؟ آپ نے فرمایا نہیں یہ اس وقت ہوتا ہے جب اس کیلئے کوئی نیا پیراہن قطع کیا جائے تو اس میں آستین نہیں رکھتے اگر پہنا ہوا لباس ہے تو اس میں سے سوائے گھنڈی اور بٹن کے کچھ نہیں کاٹا جائے گا۔ پس جب میت کو غسل دینے والا کفن کے معاملہ سے فارغ ہو جائے تو میت کو تختہ غسل پر قبلہ رو لٹائے اور اسکی قمیضیں اوپر سے نیچے کی طرف اتار کر شرمگاہ پر لا کر چھوڑ دے اور جب تک غسل سے فارغ نہ ہو نہ ہٹائے تاکہ اس کی شرمگاہ ڈھکی رہے ۔ اور اگر اسکے جسم پر کوئی قمیض نہیں ہے تو اسکی شرمگاہ پر کوئی چیز ایسی ڈال دے جو اسکی شرمگاہ کو ڈھانکے رہے ۔ اور اسکی انگلیوں کو آہستگی کے ساتھ نرم کرے اگر وہ بہت سخت ہو گئی ہیں تو انکو ویسے ہی چھوڑ دے اور اپنا ہاتھ میت کے پیٹ پر نرمی کے ساتھ پھیرے پھر غسل کی ابتداء ہاتھوں سے کرے اور آب سدر ( بیری) کے تین منکے سے ان دونوں کو دھوئے ۔ پھر اپنے بائیں ہاتھ میں ایک کپڑا لیٹے اور اس پر از قسم اشنان لے (صابن وغیرہ) اور اسکی شرمگاہ پر رکھے ہوئے کپڑے کے نیچے اپنا ہاتھ داخل کرے اور دوسرا شخص اوپر کی طرف سے اسکی شرمگاہ پر پانی ڈالے اور یہ اسکے آگے اور پیچھے کو دھوئے اور دھوتے وقت پانی کی دھار کا سلسلہ منقطع نہ ہو ۔ اسکے بعد اسکا سر اور اسکی داڑھی کو اول سدر کے جھاگ سے دھوئے پھر تین منکے آب سدر سے دھوئے اور میت کو بٹھائے نہیں پھر میت کو بائیں کروٹ کر دے تاکہ داہنی جانب غسل دے اور اسکا دایاں ہاتھ اسکے داہنے پہلو پر پھیلا دے جہاں تک پہنچ سکے پھر تین منکے آب سدر سے اسکو سرسے لیکر پاؤں تک غسل دے درمیان میں پانی کی دھار کا سلسلہ منقطع نہ ہو ۔ پھر اسے دائیں جانب پلٹ دے تاکہ بائیں جانب دے اور اسکا بایاں ہاتھ بائیں پہلو میں پھیلا دے جہاں تک پہنچ سکے پھر تین منکے سے اسکو سر سے پاؤں تک اسطرح غسل دے کہ پانی کی دھار نہ ٹوٹنے پائے اسکے بعد اسکو پشت کے بل لٹا دے اور اسکے پیٹ پر آہستہ آہستہ ہاتھ پھیرے اسکے بعد دوسرا غسل پانی اور تھوڑے کافور کے ساتھ پہلے غسل کی طرح دے ۔ پھر ان برتنوں کو کھنگال دے جن میں یہ پانی تھا اور اب تیرا غسل آب خالص سے دے اور تیرے غسل میں اسکے پیٹ پر ہاتھ نہ پھیرے اور غسل دیتے وقت یہ کہے " اللهم عفوک عفوک “ جو شخص ایسا کرے گا اللہ اسکی عفو کرے گا اور میت کیلئے کافور ١/٣ ١٣ در هم ( تقربیاً ۳۳ گرام) وزن میں ہونا چاہیئے اور اسکا سبب یہ ہے کہ
٤١٦- حضرت جبرئیل علیہ السلام نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ایک اوقیہ جنت کا فور لائے اور ایک اوقیہ چالیں در ہم وزن میں ہوتا ہے پھر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسکو تین حصوں میں تقسیم کیا ایک حصہ اپنے لئے ایک حصہ علی علیہ السلام کیلئے اور ایک حصہ فاطمہ زہراسلام اللہ علیہا کیلئے۔ اور جو شخص میت کیلئے ١/٣ ١٣ در هم کا نور فراہم نہیں کر سکتا وہ میت کو چار مثقال ١٣.٨٢٨ گرام (تقریباً ۱۴ گرام) کافور سے حنوط کرے اور اس پر بھی قادر نہ ہو تو ایک مثقال ٣.٤٥٥ گرام (تقریباً ساڑھے تین گرام) اس سے کم نہیں یہ اسکے لئے
ہے جو کافور پاسکے ۔ اور مرد و عورت دونوں کا حنوط برابر ہے اسکے علاوہ میت کو دھونی دینا یا اسکے پیچھے خوشبو سلگا کر لے چلنا مکروہ ہے لیکن کفن کو خوشبو کی دھونی دینا ( اس میں حرج نہیں) اور کافور میت کی آنکھ ، ناک ، کان ، منہ دونوں ہاتھوں دونوں گھٹنوں اور تمام جوڑوں پر اور اسکے سجدے کے اعضاء پر رکھا جائے گا اور اگر کافور میں سے کچھ بچ رہا ہے تو اسکو سینے پر رکھ دیا جائے گا۔
اور جب غسل دینے والا تیسرے غسل سے فارغ ہو تو کہنی سے انگلیوں تک اپنے ہاتھ دھولے اور میت پر ایک کپڑا
ڈالدے تاکہ وہ اسکا پانی جذب کرلے ۔ اور یہ جائز نہیں کہ وہ پانی جو میت کے غسل کا بہہ رہا ہے وہ پاخانہ کے کنوئیں (سنڈ اس) میں ڈالا جائے چاہیئے کہ اسے کسی گھر کے استعمال شدہ پانی کے جمع ہونے کی جگہ یا کسی گڑھے میں ڈالا جائے ۔ اور یہ بھی جائز نہیں کہ میت کے ناخن کاٹے جائیں اسکی مونچھیں اور اسکے بال تراشے جائیں ۔ اور ان میں سے اگر خود کچھ گر جائے تو اسکو اسکے ساتھ اسکے کفن میں رکھ دینا چاہیئے ۔ پھر غسل دینے والا غسل کرے اور پہلے وضو کرے پھر غسل کرے اسکے بعد میت کو اس کے کفنوں میں رکھے اور شاخیں اسکے ساتھ رکھے ایک شاخ داہنی جانب چنبل گردن (ہنسلی) کے پاس اسکی جلد سے ملا کر رکھے پھر اسکی قمیضیں د اپنی جانب سے اس پر ڈال دے اور دوسرا جریدہ بائیں جانب اسکے سرین کے پاس قمیضیں اور ازار کے درمیان رکھدے اور اسکو اسکے ازار اور اسکی چادر میں لیپسٹ دے پہلے بائیں حصہ کو سوچ کر داہنی جانب لیجائے پھر دائیں جانب کو بائیں جانب لے جائے اور اگر چاہے تو ابھی چادر اسکو نہ ڈالے بلکہ جب قبر میں اتارے تو اس پر ڈال دے ۔ اسکے سر پر عمامہ باندھ کر تخت المتک نکالے مگر اسکو اعرابیوں کی طرح کا عمامہ نہ باندھے بلکہ اسکے عمامے کے دونوں سرے اسکے سینے پر ڈال دے ۔
اور قمیض پہنانے سے پہلے تھوڑی سی روئی لے اور اس پر تھوڑا خوشبو کا پوڈر (سفوف) چھڑ کے اور کچھ روئی اسکے پیچھے پر رکھے اور کچھ روئی اسکے آگے پر رکھے پھر اسکے دونوں پاؤں ملادے اور خوب اچھی طرح اسکی دونوں رانوں کو اسکی سرین سے باندھے تاکہ اس میں سے کوئی چیز نہ نکل سکے اور جب تکفین سے فارغ ہو تو کافور سے اسکا حنوط کرے جیسا کہ میں نے پہلے اسکا ذکر کیا اسکے بعد اس میت کو تابوت میں رکھے اور اسے قبر تک لیجائے ۔ اور یہ جائز نہیں کہ لوگوں سے کہے کہ اسکے ساتھ نرمی کرو اس پر ترس کھاؤ یا اپنا ہاتھ مصیبت کے وقت اپنی ران پر مارے ورنہ اسکے صبر کا ثواب حبط ہو جائیگا ۔ اور اگر غسل کے بعد میت میں سے کوئی چیز نکلے تو اسکو دوبارہ غسل نہ دینگے بلکہ کفن کا جو حصہ آلودہ ہو گیا ہے اسکو دھو دینگے اور اسے لحد تک پہنچائیں گے ۔ اور اگر لحد میں پہنچنے کے بعد کوئی شے نکلی ہے تو اسکے کفن کو نہیں دھوئیں گے بلکہ
کفن کا وہ حصہ جو آلودہ ہو گیا ہے اسکو تینی سے کاٹ دینگے اور ایک کپڑے کو دوسرے پر پھیلا دینگے۔
٤١٧- اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ جو شخص کسی مرد مومن کو کفن پہنائے وہ گویا اس کے لباس کا تا قیامت ضامن ہو گیا ۔ اور جس نے کسی مومن کیلئے قبر کھودی اس نے گویا اس مومن کیلئے ایک مناسب گھر قیامت تک کیلئے تعمیر کر دیا ۔ اور اگر کوئی شخص حالت جنابت میں مرجائے تو اسکو غسل جنابت اور غسل میت دونوں کیلئے ایک ہی غسل دیا جائیگا اسلئے کہ یہ دونوں محترم اور واجب ہیں اور یہ دونوں ایک غسل واجب میں جمع کر دئے جائیں گے ۔
٤١٨- اور ابو الجارود نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے ایک ایسے شخص کے متعلق سوال کیا جو مر گیا کیا اسکے ناخن کائے جائیں گے اسکے بغل کے بال نورے سے اڑائے جائیں گے اور کیا اسکے زیر ناف پر استر پھیرا جائے گا اگر وہ مرض کیوجہ سے بڑھ گئے ہیں ؟ آپ نے فرمایا نہیں ۔ اور اگر کسی عورت کا حمل ساقط ہو جائے اور بچہ کامل الخلقت تھا اس کو غسل دیں گے حنوط کریں گے کفن دیں گے اور دفن کریں گے ۔ اور اگر کامل الخلقت نہیں تھا تو اس کیلئے کوئی غسل نہیں ہے بلکہ اس کے خون میں اسکو دفن کر دینگے اور کامل الخلقت کی حد یہ ہے کہ جب اسکے حمل کو چار ماہ ہو گئے ہوں ۔ اور تین کفن فرض ہے ۔ قمیض و ازارو چادر عمامہ اور فرقہ کا شمار کفن میں نہیں اور اگر کوئی کفن زیادہ دینا چاہے تو دو چادریں اور دیدے تاکہ کپڑوں کی تعداد پانچ ہو جائے اور اس میں کوئی حرج نہیں ۔
٤١٩- اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تین کپڑوں سے کفن دیا گیا تھا مقام ظفر کی بنی ہوئی دو (۲) یمنی چادر میں اور کرسف کا ایک کپڑا جو روئی کا ہوتا ہے ۔
٤٢٠- اور روایت کی گئی ہے کہ آپ کو کافور کے علاوہ وہ ایک مشتقال مشک سے حنوط کیا گیا تھا۔
٤٢١- حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ میرے والد بزرگوار علیہ السلام نے اپنے وصیت نامہ میں مجھے لکھا کہ میں انہیں تین پارچوں میں کفن دوں ایک خود انکی یمنی چادر جسے وہ یوم جمعہ پہن کر نماز پڑھاتے تھے اور ایک کوئی دوسرا پارچہ اور ایک قمیض ۔
٤٢٢- حضرت امام موسی بن جعفر علیہ السلام سے دریافت کیا گیا کہ ایک شخص مرجاتا ہے کیا اسکو قمیض کے بغیر تین کیڑوں کا کفن دیا جا سکتا ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ کوئی حرج نہیں مگر قمیض میری نظر میں سب سے پسندیدہ ہے ۔
٤٢٣- عمار بن موسیٰ ساباطی نے ایک مرتبہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے دریافت کیا کہ ایک عورت حالت نفاس میں مرگئی اس کو کیسے غسل دیا جائے ؟ آپ نے فرمایا اسکو بھی اسی طرح غسل دیا جائے جیسے حالت طہر میں مرنے والی عورت کو غسل دیا جاتا ہے اور اسطرح خالصہ کو بھی اور اسی طرح حالت جنابت میں مرنے والی کو صرف ایک غسل دیا جائے گا۔
٤٢٤- ایک مرتبہ حضرت ابوالحسن ثالث (امام علی النقی علیہ السلام سے دریافت کیا گیا کہ کیا میت کے قریب مشک بخور سلگایا جاسکتا ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں ۔
٤٢٥- حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا اگر کوئی عورت حالت نفاس میں مرجائے اور خون زیادہ آرہا ہو تو اسکو ناف تک چمڑے میں یا چمڑے کے مانند کسی چیز میں ڈال دیا جائے گا آلودگی دور ہو جائے گی پھر اسکے آگے اور پیچھے روئی رکھدی جائے گی اسکے بعد اسکو کفن پہنایا جائے گا۔
٤٢٦- حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایک ایسی عورت کے متعلق پوچھا گیا جو مردوں کے ہمراہ تھی اور مرگئی اور ان لوگوں کے ساتھ اس عورت کا کوئی محرم نہیں تھا ۔ کیا یہ لوگ اس عورت کو اسکے کپڑوں ہی میں غسل دے سکتے ہیں ؟
آپ نے فرمایا پھر تو ان لوگوں پر بات آجائے گی لیکن ہاں وہ لوگ صرف اسکے دونوں ہاتھ دھو سکتے ہیں ۔
٤٢٧- اور عبداللہ بن ابی یعفور نے امام علیہ السلام سے دریافت کیا کہ ایک مرد ہے جو عورتوں کے ساتھ سفر میں تھا وہ مر گیا اب ان عورتوں کے ساتھ کوئی دوسرا مرد بھی نہیں ہے تو یہ عورتیں اس مرد کی میت کا کیا کریں ؟ آپ نے فرمایا وہ عورتیں اسکی میت کو اس کے کپڑوں میں لپیٹ کر دفن کر دینگی اسے غسل نہیں دینگی ۔
٤٢٨- اور طلبی نے آنجناب علیہ السلام سے دریافت کیا کہ ایک عورت سفر میں مرگئی اسکے ساتھ اسکا کوئی محرم نہیں ہے اور نہ ہی اسکے ساتھ کوئی دوسری عورت ہے ۔ آپ نے فرمایا وہ جس طرح بھی اپنے کیڑوں میں ہے اسی طرح دفن کر دی جائے گی ۔ اور ایک مرد مرتا ہے اور سوائے عورتوں کے اسکے ساتھ کوئی مرد نہیں ہے ۔ آپ نے فرمایا وہ عورتیں اسکو اسی طرح جن کپڑوں میں ہے دفن کر دینگی ۔
٤٢٩- حارث بن مغیرہ کے غلام ابوالنمیر نے آنجناب علیہ السلام سے عرض کیا یہ بتائیں کہ لڑکے کو کس عمر تک عورتیں غسل دے سکتی ہے ؟ آپ نے فرمایا تین سال کی عمر تک ۔
اور ہمارے شیخ محمد بن حسن نے اپنی کتاب جامعہ میں ایک ایسی لڑکی کے متعلق تحریر کیا ہے جو مردوں کے ساتھ سفر میں تھی مرجاتی ہے ۔ تو آپ نے اسکے متعلق کہا کہ اگر وہ لڑکی پانچ چھ سال سے زیادہ کی تھی تو اسکو دفن کر دیا جائے گا اسکو غسل نہیں دیا جائے گا۔ اور اگر وہ پانچ سال سے کم کی ہے تو اسے غسل دیا جائے گا پھر آپ نے طلبی سے امام جعفر علیہ السلام کی ایک حدیث اس مضمون کی تحریر کی ہے۔
٤٣٠- اور منصور بن حازم نے آنجناب علیہ السلام سے دریافت کیا کہ ایک مرد اپنی عورت کے ساتھ سفر میں تھا کیا وہ اسکو غسل دے سکتا ہے ، فرمایا ہاں بلکہ اپنی ماں ، اپنی بہن اور ان جیسی کو بھی وہ اسکی شرمگاہ پر کپڑا ڈال کر غسل دے دیگا۔
٤٣١- اور سماعہ بن مہران نے آپ سے سوال کیا ایک ایسے مرد کے متعلق جو مر گیا اور اسکے ساتھ سوائے عورتوں کے کوئی مرد نہیں ہے آپ نے فرمایا اسکی محرم عورت اسکو غسل دیگی اور دیگر عورتیں اس پر پانی ڈالیں گی اسکے کپڑے نہیں اتارے جائیں گے اور اگر کوئی عورت مردوں کے ساتھ تھی اور مرگئی اور ان لوگوں کے ساتھ کوئی دوسری عورت نہیں ہے اور نہ اسکے ساتھ اسکا کوئی محرم ہے تو پھر وہ جیسے اپنے کپڑوں میں ہے ویسے ہی دفن کر دی جائے گی اور اگر مردوں میں سے اسکا کوئی محرم ہے تو اسکے کپڑوں پر ہی سے اسکو غسل دے گا۔
٤٣٢- اور عمار ساباطی نے آنجناب علیہ السلام سے ایک ایسی لڑکی کیلئے دریافت کیا (جو مرگئی) اور اسکو غسل دینے کیلئے کوئی عورت نہیں ملتی تھی ۔ آپ نے فرمایا مردوں میں سے اس کو وہ غسل دیگا جو اس لڑکی کا لوگوں میں سب سے زیادہ حق رکھتا ہوگا ۔
٤٣٣- نیز اس نے آنجناب سے ایک مرد مسلمان کے متعلق دریافت کیا جو سفر کی حالت میں مر گیا اور اسکے ساتھ کوئی مسلمان مرد نہیں ہے بس اسکے ساتھ چند نصرانی مرد ہیں اور اسکی پھوپھی اور اسکی خالہ ہیں جو مسلمان ہیں اب اسکو غسل کیسے دیا جائے ؟ آپ نے فرمایا کہ اسکی پھوپھی اور خالہ اسکو اسی لباس میں غسل دیں گی نصرانی اسکے غسل کے قریب نہ جائیں گے۔
اور ایک ایسی عورت کے متعلق سوال کیا جو سفر میں مرگئی اور اسکے ساتھ کوئی اور مسلمان عورت نہیں، چند نصرانی عورتیں ہیں اور مسلمان چچا اور ماموں ہیں ؟ آپ نے فرمایا وہی مسلمان چچا اور ماموں اس عورت کو غسل دیں گے اور نصرانی عورتیں اسکے قریب نہیں جائیں گی اگر وہ قمیضیں یا کرتا پہنے ہوئے ہے تو وہ قمیضیں و کرتے کے اوپر سے پکڑ کر پانی ڈالے گی ۔
٤٣٤- نیز انہوں نے آنجناب سے دریافت کیا کہ ایک نصرانی مسلمانوں کے ساتھ سفر میں تھا وہ مر گیا ۔ تو آپ نے فرمایا اس کو نہ کوئی مسلمان غسل دے گا اور نہ دفن کرے گا۔ اس میں کوئی خوبی نہیں اور نہ اس کی قبر پر کھڑا ہو کر اس کے لئے دعا کرے گا خواہ اس کے ماں باپ ہی ہوں۔
٤٣٥- ایک مرتبہ مفضل بن عمر نے آنجناب سے دریافت کیا میں آپ پر قربان آپ اس عورت کے متعلق کیا فرماتے ہیں جو مردوں کے ساتھ سفر میں ہوتی ہے اور ان مردوں میں سے کوئی بھی اسکا محرم نہیں ہے اور نہ ان لوگوں کے ساتھ کوئی عورت ہے اور وہ مرجاتی ہے اب اسکے ساتھ کیا کیا جائے ؟ آپ نے فرمایا کہ جن اعضاء پر اللہ نے تیم واجب کیا ہے صرف ان اعضاء کو غسل دیا جائیگا ۔ اور اسکے ان محاسن کو جنکے ڈھانکنے کا اللہ تعالٰی نے حکم دیا ہے اسے نہ کھولا جائے گا اور نہ مس کیا جائے گا مفضل نے پوچھا یہ کس طرح ہوگا ؟ آپ نے فرمایا اسکے دونوں ہاتھ کی ہتھیلی کو غسل دیا جائیگا پھر اسکے چہرے کو غسل دیا جائے گا پھر اسکے دونوں پشت دست کو غسل دیا جائیگا۔
٤٣٦-- اور عمار بن موسیٰ ساباطی نے آپ سے ایک ایسے شخص کے متعلق دریافت کیا جو مر گیا اور اسکے ساتھ نہ کوئی مسلمان مرد ہے نہ کوئی مسلمان عورت اسکے قرابتداروں میں سے ہے اسکے ساتھ چند نصرانی مرد ہیں اور کچھ مسلمان عورتیں لیکن ان مسلمان عورتوں اور اس مرنے والے کے درمیان کوئی قرابتداری نہیں ؟ آپ نے فرمایا نصرانی خود غسل کرے گا اسکے بعد اس میت کو غسل دیگا ۔ اس لئے کہ اضطرار اور مجبوری آپڑی ہے ۔
٤٣٧- اور انہوں نے آپ سے دریافت کیا کہ ایک مسلمان عورت مرگئی اسکے ساتھ کوئی مسلمان عورت ہے نہ اسکے قرابتداروں میں سے کوئی مرد ہے بس اس کے ساتھ ایک نصرانی عورت اور کئی مسلمان مرد ہیں ؟ آپ نے فرمایا کہ وہ نصرانی عورت پہلے خود غسل کرے گی پھر میت کو غسل دیگی ۔
پانچ آدمیوں کی میت کے دفن کیلئے تین دن تک انتظار کریں گے بشرطیکہ لاش میں تغیر نہ آنے لگے ۔ پانی میں ڈوب کر مرا ہوا، آسمانی بجلی سے مرا ہوا، پیٹ کے درد سے مرا ہوا، کسی بلند مقام سے گر کر مرا ہوا ، اور دھوئیں سے گھٹ کر مرا ہوا ، اور جس شخص کو چیچک نکلی ہو اگر مرجائے تو اگر اس امر کا خوف ہے کہ اسکو مس کرنے سے اسکی جلد چھوٹ کر گر جائیگی تو اس پر خوب اچھی طرح پانی ڈالیں گے اور اسی طرح جسکے اعضاء ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے ہیں اور جو آگ سے جل کر مرا ہو اور وہ کہ جسکے جسم پر زخم ہوں ۔
٤٣٨- حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص سمندری سفر کے درمیان مرجائے تو اسکو غسل دینگے حنوط کریں گے کفن پہنائیں گے پھر اسکے پاؤں میں ایک پتھر باندھ کر سمندر کے پانی میں ڈال دینگے ۔
٤٣٩- اور یہ بھی روایت کی گئی ہے کہ اسکو ایک بڑے مٹکے ( پیپا یا ڈرم) میں رکھ کر اسکے سرے کو مضبوطی کے ساتھ بند کر دینگے اور پھر اسے پانی میں ڈال دینگے مگر یہ سب اس وقت کیا جائیگا جب ساحل تک پہنچنا ممکن نہ ہو ۔
٤٤٠- حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا کہ رجم کئے جانے والے مرد اور رجم کی جانے والی عورت کو پہلے غسل دیا جائے گا حنوط کیا جائیگا، کفن پہنایا جائیگا اسکے بعد دونوں کو رجم کیا جائیگا ۔ اور جسکو قصاص میں قتل کیا جارہا ہے وہ بھی اسی ذیل میں آتا ہے کہ اسے غسل دیا جائیگا حنوط کیا جائیگا کفن پہنایا جائیگا پھر اسے قصاص کیلئے لے جایا جائے گا اور اس پر نماز پڑھی جائے گی ۔
سولی پر چڑھائے گئے شخص کی لاش کو تین دن بعد سولی سے اتارا جائیگا اسکو غسل دیا جائے گا کفن پہنایا جائے گا اور دفن کر دیا جائے گا ۔ اور تین دن سے زیادہ سولی پر لٹکانا جائز نہیں ۔
٤٤١- علی بن جعفر نے اپنے بھائی حضرت امام موسیٰ بن جعفر علیہ السلام سے ایک ایسے شخص کے متعلق دریافت کیا جسکو درندوں یا چڑیوں نے کھالیا ہے اور اب بغیر گوشت کے اسکی ہڈیاں باقی ہیں اسکے ساتھ کیا گیا جائے ؟ آپ نے فرمایا اسکو غسل دیا جائیگا کفن پہنایا جائیگا اسکی نماز میت پڑھی جائے گی اور اسکو دفن کیا جائیگا۔
٤٤٢- اور ایک دوسری حدیث میں ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے نہ عمار بن یاسر کو غسل دیا نہ ہاشم بن عتبہ کو اور انہی کا نام مرقال بھی ہے ۔ اور ان دونوں کو انہی کے خون آلود کپڑوں میں دفن کیا اور ان دونوں پر نماز نہیں پڑھی ۔ اسی طرح روایت کی گئی ہے لیکن اصل یہ ہے کہ امت میں سے کوئی شخص بغیر نماز کے نہیں چھوڑا جائے گا۔
٤٤٣- اور ابو مریم انصاری نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ اگر شہید میں رمق باقی تھی پھر (کچھ وقت بعد) مر گیا تو اسکو غسل دینگے کفن پہنائیں گے حنوط کریں گے اور اس پر نماز پڑھیں گے اور اگر رمق جان باقی نہ تھی تو پھر اسی کے کپڑوں کا کفن اسکو دیدینگے۔
٤٤٤- اور ابان بن تغلب نے آپ سے دریافت کیا کہ ایک شخص راہ خدا میں قتل کر دیا جاتا ہے کیا اسکو غسل دیا جائیگا کفن پہنایا جائیگا اور حنوط کیا جائیگا ۔ آپ نے فرمایا جیسے وہ اپنے لباس میں ہے ویسے ہی دفن کر دیا جائیگا مگر یہ کہ اس میں رمق جان باقی تھی ۔ اگر اس میں رمق جان باقی تھی اسکے بعد وہ مرا ہے تو اسکو غسل دیا جائیگا کفن پہنایا جائیگا حنوط کیا جائے گا اس پر نماز پڑھی جائے گی کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت حمزہ پر نماز پڑھی ان کو کفن پہنایا اور انہیں حنوط کیا اسلئے کہ انکی میت ہر منہ تھی ۔
٤٤٥- اور حنظلہ بن ابی عامر راہب احد میں شہید ہوئے تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں غسل کا حکم نہیں دیا اور فرمایا کہ میں نے دیکھا کہ فرشتے آسمان وزمین کے درمیان انکو چاندنی کے طبق میں آب مزن سے غسل دے رہے ہیں اسلئے انکا نام غسیل الملائیکہ پڑ گیا۔
٤٤٦- حضرت امیر المومنین علیه السلام نے فرمایا کہ شہید سے پوستین موزہ ، ٹوپی ، عمامہ ، پٹکا اور شلوار اتار لی جائے گی مگر یہ کہ اس میں خون لگا ہوا ہو اگر ان میں خون لگا ہوا ہے تو ویسے ہی چھوڑ دی جائے گی ۔ اور اسکے لباس میں کوئی ایسی گرہ نہیں چھوڑی جائے گی جو کھول نہ دی جائے ۔ اور جب کوئی شخص حالت احرام میں مرجائے تو اسکو غسل دیا جائیگا کفن پہنایا جائیگا اور دفن کیا جائیگا یعنی اسکے ساتھ ہر وہ عمل کیا جائیگا جو محل ( بغیر احرام والے شخص) کی میت کے ساتھ کیا جاتا ہے سوائے اسکے کہ اسکے قریب کافور نہ لائی جائیگی ۔
اور وہ معرکہ جو غیر اطاعت خدا میں ہے اسکے اندر قتل ہونے والے کو بالکل اسطرح غسل دینگے جس طرح عام طور پر میت کو دیا جاتا ہے اسکے سر کو گردن سے ملا دینگے اور بدن کے ساتھ اسکو غسل دینگے ۔
-
اور اگر کوئی عورت حاملہ تھی وہ مرگئی مگر بچہ اسکے پیٹ میں حرکت کر رہا ہے تو عورت کا پیٹ بائیں جانب سے چاک کر کے بچے کو نکال لیا جائیگا ۔ اور اگر عورت زندہ ہے اور پیٹ کے اندر بچہ مرگیا تو کوئی انسان اس عورت کے فرج میں ہاتھ ڈالے گا اور اپنے ہاتھ سے کاٹ کر مردہ بچے کو نکال لے گا ۔
٤٤٧- روایت کی گئی ہے کہ جب حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی وفات ہوئی تو جس حجرے میں آپ رہتے تھے اس میں چراغ روشن کرنے کیلئے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ہمیشہ ہدایت کیا کرتے تھے پھر حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی وفات ہوئی تو حضرت امام موسی بن جعفر علیہ السلام بھی اپنے پدر بزرگوار امام جعفر صادق علیہ السلام کے حجرے میں اسی طرح چراغ روشن کرنے ہمیشہ ہدایت کرتے رہے یہاں تک کہ آپ کو عراق کی طرف لیجایا گیا پھر نہیں معلوم اسکے بعد کیا ہوا ۔
اور جو شخص حالت جنب میں ہو اور اسکا ارادہ ہو کہ کسی میت کو غسل دے تو اسکو چاہیئے کہ وہ وضو کرے جس طرح نماز کیلئے وضو کیا جاتا ہے اسکے بعد میت کو غسل دے اور جو شخص میت کو غسل دینے کے بعد جماع کا ارادہ کرتا ہے تو اس کو چاہیے کہ وضو کر لے اسکے بعد مجامعت کرے ۔ اور اگر میت کو غسل دیدیا گیا پھر اسکے بعد اس میں سے خون نکلنے لگا اور اتنا زیادہ کہ اسکا سلسلہ منقطع نہیں ہوتا تو اس پر خالص مٹی (جس میں ریت وغیرہ نہ ملی ہو) ڈال دے اس سے خون بند ہو جائے گا۔
٤٤٨- ایک مرتبہ سلیمان بن خالد نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے دریافت کیا کہ جس نے میت کو غسل دیا ہے وہ خود غسل کرے ؟ آپ نے فرمایا ہاں پوچھا اور وہ جس نے اسکو قبر میں اتارا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ نہیں اسلئے کہ اس نے اسکے لباس کو مس کیا ہے ۔
٤٤٩- حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے بیان فرمایا کہ جب (میرے فرزند) اسماعیل کا انتقال ہوا تو اس پر یک چادر ڈالدی گئی تھی میں نے لوگوں سے کہا کہ ذرا اس کے چہرے سے چادر ہٹاؤ لوگوں نے ہٹایا تو میں نے اس کی پیشانی اس کی ٹھنڈی ( ذقن) اور اس کے گلے کا بوسہ لیا اور کہا اب چہرہ ڈھانک دو پھر ( تھوڑی دیر بعد) میں نے کہا کہ اسکے چہرے سے چادر ہٹاؤ (لوگوں نے ہٹایا) تو میں نے اسکی پیشانی اسکی ٹھنڈی اور اسکے تھے کا بوسہ لیا پھر کہا اب چہرہ ڈھانک دو لوگوں نے چہرہ ڈھانک دیا اسکے بعد میں نے کہا اسے غسل دو اس کے بعد میں اس کے پاس اس وقت گیا جب اسکو کفن پہنایا جا چکا تھا۔ میں نے کہا اسکے چہرے سے کفن ہٹاؤ (لوگوں نے ہٹایا) تو میں نے اسکی پیشانی اسکی ٹھڈی اور اسکے گھے کا بوسہ لیا اور اسے ایک تعویذ دیا اور لوگوں سے کہا اب اسکو کفن میں لپیٹ دو ۔ آپ سے پوچھا گیا کہ آپ نے کس چیز سے اسکو تعویذ دیا تو آپ نے فرمایا قرآن سے ۔
٤٥٠- حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عثمان بن مظعون رضی اللہ تعالی عنہ کی موت کے بعد انکو بوسہ دیا۔