Skip to main content

شاخوں کا رکھنا

٤٠٢-  حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے جریدتین (شاخیں) رکھنے کا سبب دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا یہ جب تک تر رہے گا میت کو عذاب سے دور رکھے گا۔ (۴۰۲) ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک قبر کی طرف سے گزرے صاحب قبر پر عذاب ہو رہا تھا تو آپ نے ایک شاخ (جریدہ) منگوائی اور اسکو دو (۲) حصوں میں پھاڑا ایک حصہ کو اسکے سر کی جانب رکھ دیا اور ایک حصہ اسکے پاؤں کی جانب ۔

اور روایت کی گئی ہے کہ وہ صاحب قبر قیس بن فہد انصاری تھا اور یہ بھی روایت کی گئی ہے کہ وہ قیس بن قمیر تھا اور آپ سے دریافت کیا گیا کہ یہ دونوں شاخیں آپ نے کیوں رکھیں تو فرمایا جب تک یہ ہری اور تر رہیں گی اسکے عذاب میں تخفیف کریں گی۔

٤٠٣- اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے دریافت کیا گیا کہ کیا شاخوں کو قبر میں رکھدیا جائے ؟ آپ نے فرمایا اس میں کوئی حرج نہیں ۔ یعنی اگر شاخیں میت کو قبریک پہنچانے کے بعد ملیں یا وہاں کوئی ایسا شخص موجود ہے جس سے تقیہ ضروری ہے اور ممکن نہیں کہ کفن کے اندر رکھی جائیں تو پھر جسطرح ممکن ہو رکھی جائیں ۔ 

٤٠٤- اور علی بن بلال نے حضرت ابو الحسن ثالث (امام علی نقی علیہ السلام کو عریضہ لکھا کہ ایک شخص ایسے خطہ میں مر رہا ہے کہ جہاں کوئی درخت خرما نہیں تو کیا فرما کے علاوہ کسی اور درخت کی شاخ استعمال کرنا جائز ہے اسلئے کہ آپ کے آبائے کرام علیہم السلام سے روایت ہے کہ شاخیں تر رہیں گی تو وہ میت سے عذاب کو دور رکھیں گی اور یہ مومن و کافر دونوں کیلئے نفع بخش ہے ؟ تو آپ نے جواب میں تحریر فرمایا کہ کسی دوسرے درخت کی تر شاخیں جائز ہیں ۔ اور جب غسل میت کے وقت مخالف قوم کے لوگ موجود ہوں تو کوشش کرے کہ مومن کو خود غسل دے اور شاخوں کو مخالف قوم سے پوشیدہ رکھے ۔

٤٠٥- یکی بن عباد مکی سے روایت کی گئی ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے سفیان ثوری کو حضرت امام محمد باقر علیہ السلام تے تخفیر (ہری شاخ سے جریدہ بنانا) کے متعلق دریافت کرتے ہوئے سنا کہ آپ نے فرمایا کہ انصار میں سے ایک شخص مر گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اسکی اطلاع دی گئی تو اسکے قرابت داروں میں سے ایک شخص آپ کے پاس تھا آپ نے اس سے کہا قیامت کے دن محضرین کی تعداد بہت کم ہو گی تم لوگ اپنے مرنے والے کو محضر کرو ۔ اس نے پوچھا محضر کرنے کا کیا مطلب ؟ آپ نے فرمایا ہری شاخ جو ہاتھ کی جڑے گردن کی ہنسلی کے برابر رکھی جاتی ہے ۔

٤٠٦- حسن بن زیاد نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے شاخ کے متعلق دریافت کیا جو میت کے ساتھ رکھی جاتی ہے تو فرمایا اس سے مومن و کافر دونوں کو نفع پہنچتا ہے۔

٤٠٧- زرارہ کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے دریافت کیا ۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ جب کوئی مرجاتا ہے تو اسکے ساتھ شاخیں کیوں رکھتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا جب تک لکڑی ترو تازہ رہتی ہے وہ مرنے والے سے عذاب و حساب کو دور رکھتی ہے اور حساب و عذاب سب ایک دن اور ایک وقت قبر میں اتارنے اور قوم کے واپس ہونے کے درمیان ہوتا ہے اور یہ جرید تین (شاخیں) اس لئے رکھے جاتے ہیں کہ انکے خشک ہونے کے بعد نہ عذاب ہوگا اور نہ حساب ہو گا انشاء اللہ تعالیٰ ۔