Skip to main content

باب غسل حیض و نفاس

حدیث ١٩٢-٢٠٩ 


١٩٢- حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ سب سے پہلا خون جو زمین پر گرا وہ حضرت حوا کا تھا جس وقت ان کو حیض آیا ۔

١٩٣- اور حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا حیض عورتوں کیلئے ایک نجاست ہے جو اللہ تعالٰی نے انکی طرف پھینکی ہے چنانچہ حضرت نوح علیہ السلام کے زمانے میں عورتوں کو سال میں صرف ایک مرتبہ حیض آتا تھا یہاں تک کہ کچھ عورتیں جنکی تعداد سات سو (٧٠٠) تھی اپنے خلوت کدوں سے زرد زرد کپڑے و زیورات پہنے ہوئے اور عطر لگائے ہوئے نکلیں اور مختلف شہروں میں بکھر گئیں وہاں مردوں کے ساتھ جلسوں اور میلوں ٹھیلوں میں جانے اور انکے ساتھ انکی صفوں میں بیٹھنے لگیں اس وقت اللہ تعالٰی نے ان سب کو حیض میں مبتلا کر دیا اور اب ہر مہینہ انہیں حیض آنے لگا مگر ان ہی عورتوں کو خاص کر جنہوں نے یہ حرکت کی تھی اور جب حیض کا خون بہنے لگا تو مردوں کے درمیان سے نکل کر بھا گئیں اور اسکے بعد انکو ہر ماہ حیض آنے لگا اور وہ اس مصیبت میں مبتلا ہو گئیں اور انکی شہوتوں کا زور ٹوٹ گیا ۔ لیکن انکے علاوہ اور دوسری عورتیں جنہوں نے یہ حرکت نہیں کی تھی انہیں وہی حسب دستور سال میں ایک مرتبہ حیض آتا رہا۔
 آپ نے فرمایا کہ پھر وہ عورتیں جنکو ہر ماہ حیض آتا انکے لڑکوں کی شادی ان عورتوں کی لڑکیوں سے ہوئی جنہیں سال میں صرف ایک مرتبہ حیض آتا اسطرح ساری قوم غلط ملط ہو گئی اور استقامت  حیض کی وجہ سے ان عورتوں کی اولاد کی۔ کثرت ہو گئی جنہیں ہر ماہ خون حیض آتا اور ان عورتوں کی اولاد جن کو سال میں اک بار حیض آتا فساد خون کی وجہ سے انکی تعداد کم ہو گئی یعنی اُن کی نسل کثیر ہو گئی اور ان کی نسل قلیل ہو گئی ۔

١٩٤- اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ فاطمہ (سلام اللہ علیہا) تم میں سے کسی ایک بھی عورت کے مانند نہیں ہے اس نے کبھی خون حیض اور خون نفاس دیکھا ہی نہیں وہ حوروں کے مانند ہے ۔ 

١٩٥- اور امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایک مرتبہ اس قول خدا "وَلَهُمْ فِيهَآ أَزْوَٰجٌۭ مُّطَهَّرَةٌۭ ۖ  “ (ان کے واسطے ان جنتوں میں پاکیزہ بیویاں ہوں گی ) ( بقرہ آیت نمبر ۲۵) کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا ازواج مطہرہ وہ ہیں کہ جنہیں نہ کبھی حیض آتا ہے نہ نفاس ۔ 

اور میرے والد رحمہ اللہ نے اپنے اس رسالہ میں جو انہوں نے میرے پاس لکھ کر بھیجا تھا یہ تحریر فرمایا کہ واضح ہو کہ حیض کی کم سے کم مدت تین دن ہے اور زیادہ سے زیادہ دس دن ہے ۔ پس اگر عورت خون حیض تین (۳) دن تک اور زیادہ سے زیادہ دس (١٠) دن دیکھے تو وہ خون حیض ہے اسکو چاہیئے کہ نماز ترک کر دے اور مسجد میں داخل نہ ہو صرف اس سے گزر جائے ۔ اور اس پر واجب ہے کہ ہر نماز کے وقت کے آنے پر وضو کرے جیسے نماز کیلئے وضو ہوتا ہے اور قبلہ رو ہو کر روزانہ اتنی دیر تک بیٹھے جتنی دیر نماز کیلئے بیٹھتی تھی اور ذکر الہی کرے ۔
 اور اگر عورت صرف ایک دن یا دو دن خون دیکھے تو یہ حیض کا خون نہیں جب تک وہ اسے تین دن متواتر نہ دیکھے اور اس پر واجب ہے کہ ایک دن یا دو دن جو اس نے نماز ترک کی ہے اسکی قضا بجا لائے یعنی ایک دن کی یا دو دن کی ۔ اور اگر خون حیضیں دس دن سے زیادہ دیکھے تو دس دن تک نماز نہ پڑھے اور گیارہویں دن غسل کرے اور روئی کی گدی رکھے اگر خون روئی سے پھوٹ کر نہ نکلے تو وہ اپنی نماز پڑھے گی اور ہر نماز کیلئے وضو کرے گی اور اگر خون روئی سے پھوٹ پڑے لیکن ہے نہیں تو وہ شب کی نماز اور صبح کی نماز ایک غسل سے پڑھے گی اور تمام نمازیں وضو کے ساتھ پڑھے گی اور اگر خون کا اتنا غلبہ ہو کہ وہ روئی کو توڑ کر بہہ جائے تو رات کی نماز اور صبح کی نماز ایک غسل کے ساتھ اور نماز ظہر و عصر ایک غسل کے ساتھ پڑھے گی نماز ظہر کے پڑھنے میں ذرا تاخیر کرے گی اور نماز عصر کے پڑھنے میں ذرا جلدی کرے گی اور نماز مغرب و عشاء ایک غسل سے پڑھے گی نماز مغرب کے پڑھنے میں ذرا تاخیر کرے گی اور نماز عشاء پڑھنے میں ذرا جلدی کرے گی یہ اسوقت تک کرتی رہے گی کہ جب تک اسکے حیف کے ایام آجائیں اور جب اسکے حیض کے ایام آجائیں تو وہ نماز ترک کر دیگی ۔

 اور جب وہ حیض سے پاک ہو کر غسل کرلے گی تو اسکے شوہر کیلئے اس سے مباشرت کرنا حلال ہے اور طہر کی کم سے کم مدت دس دن اور زیادہ کی کوئی حد نہیں ہے ۔ اور حائض ار طل مدنی پانی سے غسل کرے گی ۔ اور اگر عورت اپنے ایام حیض میں زردی دیکھے تو وہ حیض ہے اور اگر ایام طہر میں دیکھے تو وہ طہر ہے ۔

١٩٦- اور روایت کی گئی ہے اس عورت کے متعلق جو زردی دیکھے چنانچہ اگر وہ زردی حیض سے دو دن پہلے دیکھے تو اسکا شمار حیض میں ہوگا اور اگر وہ حیض کے دو دن بعد دیکھے تو اسکا شمار حیض میں نہیں ہوگا۔۔

اور غسل جنابت اور غسل حیض ایک ہے عورت کیلئے جائز نہیں کہ حالت حیض میں خضاب لگائے اسلئے کہ اس پر
شیطان کی طرف سے خطرہ ہے کہ اسکا شوہر جماع کی طرف مائل نہ ہو جائے ۔ 

١٩٧- حضرت سلمان رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام سے بطن مادر میں بچے  کے رزق کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالٰی (حالت حمل میں) حیض کو روک دیتا ہے وہی بطن مادر میں اسکا رزق قرار پاتا ہے۔

اور زن حاملہ جب خون آتا دیکھے تو نماز ترک کر دے اسلئے کہ حاملہ کے بھی کبھی کبھی خون آنے لگتا ہے اور خاص کر اس وقت کہ جب خون کثیر مقدار میں آتا ہوا دیکھے اور اگر تھوڑا ہو اور زور رنگ کا ہو تو اسکو نماز پڑھنا چاہیئے اور اس پر صرف وضو لازم ہے ۔

اور زن حائض جب حیض سے پاک ہو جائے تو اس پر اپنے روزوں کی قضا لازم ہے نمازوں کی قضا لازم نہیں اور اسکے دو سبب ہیں پہلی وجہ تو یہ کہ لوگ یہ سمجھ لیں کہ ایک حکم کو دوسرے حکم پر قیاس نہیں کیا جاسکتا ۔ اور دوسرے یہ کہ روزہ سال میں ایک ماہ کا ہے اور نماز ہر دن ورات کی ہے اسلئے اللہ تعالٰی نے روزے کی قضا واجب کر دی اور نماز کی قضا واجب نہیں کی ۔ اور مرنے والے کے اختصار اور جانکنی کے وقت جنب اور حائض کا قریب ہونا جائز نہیں اسلئے کہ ملائیکہ کو ان دونوں سے اذیت ہوتی ہے اور کوئی حرج نہیں اگر یہ دونوں غسل کے وقت قریب رہیں اور نماز میت پڑھیں ۔ مگر یہ دونوں قبر میں نہ اتریں اگر یہ دونوں اختصار کے وقت موجود ہوں اور انکی موجودگی کے بغیر چارہ نہ ہو تو عین خروج روح کے وقت ہٹ جائیں ۔

١٩٨- حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ عورت پچاس کے سن پر پہنچ جاتی ہے تو وہ (حیض کی) سرخی نہیں دیکھتی سوائے یہ کہ وہ کوئی قریش کی عورت ہو ۔ اور یہی حیض سے پاس ہونے کی حد ہے ۔ اور عورت کو جب پہلی مرتبه حیض آتا ہے یعنی حیض کی ابتداء ہوتی ہے ؟ تو وہ تین ماہ تک مسلسل چلتا ہے اور اسے پتہ نہیں چلتا کہ (ایام قرد) دو حیفوں کے درمیان کا وقفہ کیا ہے لہذا وہ اپنے مثل کی عورتوں کے ایام قرد کو اپنا ایام قرد قرار دے اور اگر انکے ایام قرد مختلف ہیں تو یہ زیادہ سے زیادہ دس دن بیٹھے ۔ اور قرد کا مطلب دو حیضوں کے درمیان خون کا جمع ہونا ہے اور یہی ایام طہر (پاکی کا زمانہ ہوتا ہے) یعنی ایام طہر میں عورت خون کو جمع کرتی ہے اور اپنے ایام حیض میں اسکو خارج کرتی ہے ۔

اور اگر کوئی عورت عصر کے ( لئے مختص) وقت میں حیض سے پاک ہو تو اس پر ظہر کی نماز پڑھنا لازم نہیں ۔ وہ وہی نماز پڑھے گی جس کے وقت میں وہ حیض سے پاک ہوئی ہے۔ اور جب وہ ایک نماز کے وقت میں حیض سے پاکی دیکھے اور غسل میں اتنی تاخیر کرے کہ دوسری نماز کا وقت آجائے تو اگر اسکی طرف سے غسل میں کوتاہی ہوئی ہے تو وہ اس نماز کی قضا کرے گی اور اگر اسکی طرف سے کوتاہی نہیں ہوئی بلکہ غسل کے اہتمام میں تھی کہ دوسری نماز کا وقت آگیا تو اسکی قضا اس پر لازم نہیں وہ وہی نماز پڑھے گی جسکا وقت آگیا ہے ۔

 اور کسی عورت نے ابھی ظہر کی دو ہی رکعت پڑھی تھی کہ اس نے دیکھا کہ خون حیض آگیا تو وہ نماز چھوڑ کر اپنی جگہ سے اٹھ جائے اور حیض سے پاک ہونے کے بعد وہ ظہر کی بقیہ دور کعت کی قضا نہیں پڑھے گی لیکن اگر وہ مغرب کی نماز دو رکعت پڑھ چکی تھی کہ اسے حیض کا خون آتا ہوا دکھائی دیا تو وہ نماز چھوڑ کر اپنے مصلے سے اٹھ کھڑی ہو گی اور حیض سے طاہر ہونے کے بعد ایک رکعت کی قضا کرے گی۔

اور اگر وہ نماز میں تھی کہ اسے گمان ہوا کہ خون حیض آگیا تو وہ ہاتھ بڑھا کر جائے مخصوص کو مس کرے اگر دیکھے کہ خون واقعی آگیا ہے تو نماز ترک کر دے اور اگر دیکھے کہ کچھ نہیں ہے تو نماز کو مکمل کرے ۔ 

١٩٩- حضرت امام موسی بن جعفر علیہ السلام سے سوال کیا گیا کہ ایک شخص نے ایک کنیز خریدی اور وہ کنیز اس کے پاس کئی ماہ رہی مگر اس کو حیض نہیں آیا اور ایسا بھی نہیں کہ یہ اسکی کبر سنی کی وجہ سے ہوا ہو نیز عورتیں کہتی ہیں کہ اس کنیز کو حمل بھی نہیں ہے تو ایسی صورت میں کیا یہ جائز ہے کہ اس کنیز کی فرج میں دخول کیا جائے ؟ آپ نے فرمایا کہ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ بغیر حمل کے ریح حیض کو روک دیتی ہے تو اسکی فرج کو مس کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ 
اور اگر کسی عورت کو ایک ماہ حیض رک جائے تو یہ جائز نہیں کہ وہ اسی دن حیض جاری کرنے کی دوائی لے اس لئے کہ نطفہ حب رحم میں پہنچتا ہے تو علقہ بننے لگتا ہے پھر علقہ سے مصنفہ بننے لگتا پھر مصنفہ سے وہ بننے لگتا ہے جو اللہ کی مشیت میں ہو ۔ اور نطفہ جب رحم کے علاوہ کسی اور طرف پڑ جاتا ہے اس سے کچھ پیدا نہیں ہوتا۔ لہذا اگر ایک ماہ حیض نہ آئے اور جس وقت اسکو حیض آیا کرتا ہے اس وقت سے تجاوز کر جائے تو فورا حیض جاری ہونے کی دوا نہ پیئے۔ 
اور اگر کوئی شخص ایک ایسی کنیز خریدے جو سن بلوغ کو پہنچ چکی ہے اور اسکے پاس اسکو رہتے ہوئے چھ ماہ گزر گئے مگر اسکو حیض نہیں آیا اور اسکی ہمسن لڑکیوں کو حیض آرہا ہے اور یہ کبر سنی کی وجہ سے بھی نہیں ہے تو یہ عیب ہے جس سے خریدا ہے اسے واپس کر دے ۔ 

اور حائض کیلئے یہ لازم نہیں ہے کہ جب وہ حیض سے پاک ہو جائے تو اپنے ان کپڑوں کو بھی دھوئے جو وہ حالت حیض میں پہنے ہوئے تھی یا اس میں اس کو پسینہ آگیا تھا لیکن یہ کہ اگر اس میں خون لگ گیا ہے تو وہ اسکو دھوئے گی ۔ اور اگر اسکے کپڑے پر خون حیض لگ گیا اور اس نے اسکو دھو یا مگر اسکا دھبہ باقی رہ گیا تو اس کو سرخ مٹی (گیرو) سے رنگ دے تاکہ اس سے مخلوط ہو کر اسکا رھبہ جاتا رہے ۔

اور اگر عورت کو حیض آنا منقطع ہو گیا ہو تو وہ اپنے سر پر مہندی کا خضاب لگا دے اسکو حیض پھر آنے لگے گا۔ اور اگر کوئی عورت حالت حیض میں کسی وضو کرنے والے کے ہاتھوں پر پانی ڈالے اور سجادہ (جانماز) اٹھا کر دیدے تو کوئی حرج نہیں ۔
   اور عورت سے حالت حیض میں مجامعت جائز نہیں اس لئے کہ اللہ تعالٰی نے اسکو منع کیا ہے چنانچہ وہ فرماتا ہے 
وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّىٰ يَطْهُرْنَ ۖ { ان سے مقاربت نہ کرو جب تک وہ حیض سے پاک نہ ہو جائیں) (سورۃ بقر آیت نمبر (۲۲۲) یعنی غسل نہ کرلیں اور اگر مرد اس کیلئے بہت بیتاب ہے اور عورت بھی حیض سے پاک ہو چکی ہے وہ اس سے قبل غسل ہی مجامعت چاہتا ہے تو عورت کو حکم دے کہ اپنی شرمگاہ کو دھولے اسکے بعد مجامعت کرے ۔ 

    اور اگر مرد عورت سے حالت حیض ہی میں مجامعت کرے تو اگر حیض کی ابتداء میں مجامعت کرتا ہے تو اس پر لازم ہے کہ ایک دینار صدقہ دے اور اگر وسط حیض میں مجامعت کی ہے تو نصف دینار اور اگر آخر میں مجامعت کی ہے تو ایک چوتھائی دینار صدقہ دے ۔

٢٠٠- اور روایت کی گئی ہے کہ اگر مرد نے عورت سے حالت حیض میں مجامعت کی ہے تو ایک مسکین کو پیٹ بھر صدقہ دے ( پیٹ بھر کھانا)-
 اور اگر کوئی شخص اپنی کنیز سے حالت حیض میں مجامعت کرے تو وہ تین مد کھانا تصدق کرے اور یہ اس وقت کہ
جب اس نے اسکی فرج میں دخول کیا ہو اور اگر فرج کے علاوہ کہیں اور کیا ہے تو اس پر کچھ نہیں ہے ۔

٢٠١- نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص اپنی عورت سے حالت حیض میں مجامعت کرے اور اسکے مجذوم یا مبروص بچہ پیدا ہو تو وہ اپنے نفس کو ملامت کرے ۔

٢٠٢- حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایک مرتبہ کچھ لوگوں کے بد شکل و بدصورت پیدا ہونے کی وجہ دریافت کی گئی تو آپ نے فرمایا یہ وہ لوگ ہیں جن کے باپوں نے انکی ماؤں سے حالت حیض میں مجامعت کی ہے ۔

٢٠٣- حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ ہم لوگوں سے بعض وہی رکھے گا جو حرام کا پیدا ہو یا اسکی ماں حالت حیض میں حاملہ ہوئی ہو ۔

اور جب کنیز خریدی جائے تو اسکو ایک حیض کے ساتھ استبراء کر لیا جائے اور اگر کسی نے کنیز خریدی اور اسبتراء سے قبل ہی اس سے مجامعت کر لی تو گویا اس نے اپنے ہی مال کے ساتھ زنا کیا ۔ اور جب عورت غسل حیض کا ارادہ کرے تو اس پر لازم ہے کہ وہ اسبترا کرے اور اس کا اسبترا یہ ہے کہ وہ تھوڑی سی روئی اپنی شرمگاہ کے اندر داخل کر لے اگر وہاں خون ہو گا تو نکلے گا خواہ مکھی کے سر کے برابر ہی کیوں نہ نکلے ۔ اور جب خون نکلے تو غسل نہ کرے اور اگر خون نہ نکلے تو غسل کرے اور جب زردی دیکھے تو اس پر لازم ہے کہ اپنا پیٹ کسی دیوار سے چپکا لے اور اپنا بایاں پاؤں اسطرح اٹھالے جسطرح کتا پیشاب کرتے وقت اٹھاتا ہے پھر اندر تھوڑی سی روئی ڈالے اگر اس روئی میں خون نکلے تو سمجھے کہ وہ حائض ہے اور اگر خون نہ نکلے تو وہ حائض نہیں ہے ۔
 اور اگر خون حیضی اور خون زخم میں اشتباہ ہو جائے ۔ اسلئے کہ کبھی کبھی فرج میں زخم بھی ہو جاتا ہے تو اس پر لازم ہے کہ اپنی پشت کے بل لیٹے اور اپنی انگلی اندر داخل کرے اگر خون داہنی جانب سے نکلے تو وہ زخم کا خون ہے اگر بائیں جانب سے نکلے تو حیض کا خون ہے ۔

 اور اگر عورت کے شوہر نے اسکی بکارت توڑی اور اسکا خون نہیں رکا اور وہ نہیں جانتی کہ یہ خون حیض ہے یا خون بکارت ؟ تو اس پر لازم ہے کہ اندر تھوڑی روئی داخل کرے اب اگر روئی نون سے بھری ہوئی طوق کی شکل میں نکلتی ہے تو یہ خون بکارت ہے اور اگر پورے روئی خون سے ڈوبی ہوئی نکلی ہے تو وہ خون حیض ہے ۔ اور بکارت کا خون شرمگاہ کی لبوں سے تجاوز نہیں کرتا اور خون حیضی گرم ہوتا ہے اور شدید حرارت کے ساتھ نکتا ہے ۔ اور خون استحاضہ ٹھنڈا ہوتا ہے وہ بہتا ہے اور اسکو پتہ نہیں ہوتا ۔ میرے والد رحمہ اللہ نے مجھے رسالہ بھیجا تھا اس میں انہوں نے یہی لکھا ہے ۔
اور اگر عورت خون پانچ دن دیکھنے اور طہر پانچ دن دیکھے یا خون چار دن دیکھتے اور طہر چھ دن تو ایسی صورت میں جب خون دیکھے تو نماز نہ پڑھے اور جب طہر دیکھے تو نماز پڑھے اور یہ تیس (۳۰) دن کے درمیان ایسا کرتی رہے پس جب تیں (۳۰) دن گزر جائیں پھر بھی خون بہتا ہوا دیکھے تو اسے دھوئے اور اس پر روئی رکھے اور ہر نماز کے وقت استغفار کرے اور اگر زردی دیکھے تو وضو کرے ۔

 اور اگر کوئی عورت دوران سفر حیض سے پاک ہو مگر اسکے پاس اتنا پانی نہ ہو جو اسکے غسل کیلئے کافی ہو اور نماز کا وقت آجائے تو اگر اس کے پاس اتنا پانی ہے کہ اس سے اپنی شرمگاہ کو دھو لے تو اسے دھوئے اور تیمم کرلے اور نماز پڑھے اور اسکے شوہر کیلئے یہ جائز ہے کہ جب وہ اپنی شرمگاہ کو دھولے اور تیم کرے تو ایسی حالت میں اس سے مجامعت کرے اور عورت کیلئے یہ جائز نہیں کہ حالت حیض میں اپنا بناؤ سنگھار کرے اسلئے کہ اس سے منع کیا گیا ہے ۔

٢٠٤- اور عبید اللہ بن علی حلبی نے ایک مرتبہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایک حائض عورت کے متعلق دریافت کیا کہ اسکے شوہر کیلئے اس سے کس حد تک جائز ہے ؟ تو آپ نے فرمایا کہ عورت کو چاہیئے کہ گھٹنے تک کا ایک ازار پہن لے پھر مرد کیلئے یہ جائز ہے کہ اس ازار کے اوپر ہی اوپر جو چاہے کرے ۔

 اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے پدر بزرگوار سے روایت کی ہے کہ آپ نے بیان فرمایا حضرت میمونہ (ام المومنین) کہا کرتی تھیں کہ جب میں حالت حیض میں ہوتی تھی تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے حکم دیا کرتے کہ تم ازار پہن کر میرے ساتھ بستر میں لیٹ رہا کرو ۔

٢٠٦- نیز آپ نے فرمایا کہ اور ازواج نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب حالت حیض میں ہوتیں تو نماز ادا نہیں کرتی تھیں بلکہ جب نماز کا وقت آتا تو اپنی شرمگاہ پر روٹی رکھ لیا کرتیں اور وضو کر کے مسجد کے قریب بیٹھ جاتیں اور اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا کرتی تھیں ۔

٢٠٧- اور امیر المومنین علیہ السلام نے اس عورت کے متعلق جس نے دعوی کیا تھا کہ اسکو ایک مہینہ میں تین مرتبہ 
حیض آیا یہ حکم دیا کہ اسکی ہمراز عورتوں سے پوچھا جائے کہ اسکا یہ گزشتہ حیض جیسا کہ اس نے دعویٰ کیا ہے کیا واقعی حیض تھا اگر وہ سب گواہی دیں تو وہ کچی ہے ورنہ وہ جھوٹی ہے ۔ 

٢٠٨- اور عمار بن موسیٰ ساباطی نے ایک مرتبہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایک ایسی حائض عورت کے متعلق دریافت کیا کہ جو غسل کر رہی ہے مگر اسکے جسم پر زعفران کی ایسی زردی ہے جو پانی سے دور نہیں ہوتی ؟ تو آپ نے فرمایا اس میں کوئی حرج نہیں ۔ اور پھر ایک ایسی صورت کے متعلق سوال کیا جو غسل کرنا چاہتی ہے مگر وہ اپنے بال موباف سے گوندھے ہوئے ہے اور اپنے بال کھولنا نہیں چاہتی تو اس کیلئے کتنا پانی کافی ہو گا آپ نے فرمایا اتنا پانی جسکو بال اچھی طرح پی لیں اور وہ تین اپ پانی اپنے سر پر ڈالے دو لپ اپنی داہنی طرف اور دولپ پانی اپنی بائیں طرف پھر اپنے ہاتھ سارے جسم پر پھیرے ۔

٢٠٩- اور ازواج نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سے بعض ازواج حالت حیض میں اپنے بالوں کے اندر کے ندر کنگھی کرتیں اور اپنے سر دھویا کرتی تھیں ۔