Skip to main content

باب پانچ نمازوں کا پانچ اوقات میں واجب ہونے کا سبب

حدیث ٦٤٣ - ٦٤٥ 

٦٤٣ - حضرت امام حسن ابن علی ابن ابی طالب علیہم السلام سے روایت کی گئی ہے کہ آپ نے بیان فرمایا کہ ایک مرتبہ چند یہودی نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آئے اور ان میں جو سب سے زیادہ صاحب علم تھا اس نے آپ سے چند مسائل دریافت کئے اور جو کچھ دریافت کیا ان میں یہ بھی دریافت کیا کہ یہ بتائیں کہ اللہ تعالی نے آپ کی امت پر دن رات میں پانچ نمازیں اوقات میں کیوں فرض کیں ؟ آپ نے فرمایا کہ زوال کے وقت آفتاب کا ایک حلقہ ہے جس میں وہ داخل ہوتا ہے اور جب وہ اس میں داخل ہوتا ہے تو آفتاب کو زوال ہوتا اور اس وقت زیر عرش جتنی چیزیں ہیں وہ سب ہمارے رب کی حمد کی تسبیح پڑھنے لگتی ہیں اور یہی وہ وقت ہے کہ جب میرا رب مجھ پر درود بھیجتا ہے ۔ اور اسی بنا پر اللہ تعالی نے میری امت پر نماز فرض کی ۔ اور فرمایا " أَقِمِ ٱلصَّلَوٰةَ لِدُلُوكِ ٱلشَّمْسِ إِلَىٰ غَسَقِ ٱلَّيْلِ “ (سورہ الاسرة آیت نمبر ٧٨) اور یہی وہ وقت ہے کہ جب قیامت کے دن جہنم کو لایا جائے گا ۔پس جو مومن اس وقت سجدہ و رکوع وقیام میں رہتا ہوگا اللہ تعالی اسکے جسد کو جہنم پر حرام کر دیگا ۔
اور نماز عصر تو یہ وہ ساعت ہے کہ جس میں حضرت آدم علیہ السلام نے شجر ممنوعہ کے پھل کھائے اور اللہ تعالٰی نے انہیں جنت سے خارج کر دیا اور اللہ تعالٰی نے انکی ذریت کو اس وقت نماز پڑھنے کا قیامت کے دن تک کیلئے حکم دیا اور اسی نمازکو اللہ تعالٰی نے میری امت کیلئے بھی پسند فرمایا اور یہ نماز اللہ کے نزدیک سب سے پسندیدہ ہے اور مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمام نمازوں میں اسکی زیادہ محافظت کروں ۔
اور نماز مغرب تو یہ وہ ساعت ہے جب اللہ تعالٰی نے آدم کی توبہ قبول فرمائی ۔ اور شجر ممنوعہ کا پھل کھانے اور انکی تو بہ قبول ہونے کے درمیان دنیا کے ایام کے اعتبار سے تین سو سال کا فاصلہ ہے اور آخرت کے ایام کے اعتبار سے ایک دن ایک ہزار سال کا ہوتا ہے ۔ وقت عصر سے لیکر وقت عشاء (نماز مغرب) حضرت آدم نے اس دوران تین رکعت نماز پڑھی ایک رکعت اپنی خطا کی بنا پر ایک رکعت حضرت حوا کی خطا کی بنا پر اور ایک رکعت اپنی تو بہ کیلئے ۔ پس یہی تین رکعتیں اللہ تعالٰی نے میری امت پر بھی فرض کر دیں ۔ اور یہی وہ وقت ہے کہ جس میں دعائیں قبول ہوتی ہیں اور میرے رب نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ جو شخص اس میں دعا کرے گا میں قبول کرونگا اور یہی وہ نماز ہے کہ جسکا میرے رب نے مجھے اس قول میں حکم دیا ہے ” فَسُبْحَـٰنَ ٱللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ وَحِينَ تُصْبِحُونَ “ (سوره روم آیت نمبر ١٧)
اور نماز عشاء (کیوں فرض کی گئی ہے) تو بات یہ ہے کہ قبر میں تاریکی ہوگی اور یوم قیامت بھی تاریکی ہوگی ۔ اسلئے میرے رب نے مجھے اور میری امت کو اس نماز کا حکم دیا تا کہ قبر میں روشنی رہے اور اللہ تعالیٰ مجھے اور میری امت کو صراط پر روشنی عطا کرے اور جو شخص بھی اپنا قدم نماز عشاء پڑھنے کیلئے اٹھائے گا اللہ تعالٰی اسکے جسد کو جہنم کیلئے حرام کر دیگا اور یہی وہ نماز ہے کہ جسکو اللہ تعالٰی نے مجھ سے پہلے رسولوں کیلئے پسند فرمایا ہے۔
اور نماز فجر تو ( یہ اسلئے فرض ہے کہ ) آفتاب جب طلوع ہوتا ہے تو شیطان کے دونوں سینگوں کے درمیان سے طلوع ہوتا ہے اسلئے میرے رب عزوجل نے مجھے حکم دیا کہ میں آفتاب طلوع ہونے سے پہلے ہی نماز فجر پڑھ لوں اور قبل اسکے کہ کافر آفتاب کو سجدہ کرے میری امت اللہ تعالٰی کو سجدہ کرنے اور اس میں سرعت و تیزی اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے اور یہی وہ نماز ہے جسکے رات کے ملائکہ اور دن کے ملائکہ دونوں شاہد بنتے ہیں ۔
اور اسکا ایک دوسرا سبب بھی بیان کیا گیا ہے اور

٦٤٤ - وہ روایت کی ہے حسین بن ابی العلاء نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے کہ انہوں نے فرمایا کہ جب حضرت آدم علیہ السلام جنت سے اتارے گئے تو انکےچہرے سے لیکر قدم تک سیاہ تل نمودار ہو گئے اور اسکی وجہ سے حضرت آدم علیہ السلام کا حزن اور بڑھ گیا تو حضرت جبریل علیہ السلام انکے پاس آئے اور بولے اے آدم آپ کیوں روتے ہیں ؟ فرمایا کہ میرے جسم پر یہ تل نمودار ہو گئے۔ حضرت جبرئیل نے کہا اچھا اے آدم اٹھو اور نماز پڑھو اور یہ پہلی نماز (یعنی ظہر) کا وقت تھا آپ نے نماز پڑھی تو وہ تل چہرے سے اتر کر گردن تک آگئے ۔ پھر حضرت جبرئیل انکے پاس دوسری نماز کے وقت آئے اور کہا اٹھو اے آدمؑ اور نماز پڑھو یہ دوسری نماز کا وقت ہے ۔ حضرت آدمؑ نے اٹھکر نماز پڑھی تو اب وہ تل گردن سے اتر کر ناف تک آگئے ۔ پھر حضرت جبرئیل تیسری نماز کے وقت آئے اور کہا اٹھو اے آدم نماز پڑھو یہ تیسری نماز کا وقت ہے حضرت آدمؑ نے اٹھکر نماز پڑھی تو اب وہ تل ناف سے اتر کر گھٹنوں تک آگئے ۔ پھر حضرت جبرئیل چوتھی نماز کے وقت آئے اور کہا اے آدمؑ اٹھو اور نماز پڑھو یہ چوتھی نماز کا وقت ہے حضرت آدمؑ نے اٹھکر نماز پڑھی تو اب یہ تل گھٹنوں سے اتر کر قدموں تک آگئے ۔ پھر حضرت جبرئیل پانچویں نماز کے وقت آئے اور کہا اے آدمؑ اٹھو اور نماز پڑھو یہ پانچویں نماز کا وقت ہے حضرت آدمؑ نے اٹھکر نماز پڑھی تو اب انہوں نے تلوں سے بالکل نجات پالی اور اس پر اللہ کی حمد وثنا کی ۔ حضرت جبرئیل نے کہا اے آدمؑ آپ کو ان نمازوں کی وجہ سے ان تلوں سے نجات ملی اسی طرح آپ کی اولاد میں سے بھی جو شخص ہر دن ورات میں یہ پانچ نمازیں پڑھے گا تو گناہوں سے نجات پائے گا جس طرح آپ نے ان تلوں سے نجات پائی ہے نیز نماز کے فرض ہونے کا ایک اور سبب یہ بھی ہے کہ

٦٤٥ - حضرت علی ابن موسیٰ الرضا علیہ السلام نے محمد بن سنان کے مسائل کے جواب میں جو خط لکھا اس میں یہ بھی لکھا کہ نماز کا حکم اسلئے ہے کہ اس میں اللہ تعالٰی کی ربوبیت کا اقرار ہے اور اسکے امثال کی نفی ہے ۔ اور ذلت و مسکنت اور خضوع وخشوع کے ساتھ خداوند جبار کے سامنے کھڑے ہو کر اپنی کوتاہیوں کا اعتراف اور اپنے پچھلے گناہوں کو درگزر کرنے کی التجا ہے اور اللہ جل  جلالہ کی عظمت و کبریائی کے سامنے اپنا چہرہ زمین پر ہر روز رکھنا ہے تاکہ بندہ اسکو یاد رکھے بھولے نہیں اور نعمتیں پاکر آپے سے باہر اور سرکش نہ ہو جائے بلکہ خاشع اور متذلل رہ کر دین و دنیا کی نعمتوں میں زیادتی کیلئے رغبت رکھتےہوئے طالب رہے علاوہ بریں اس نماز میں دن و رات تواتر کے ساتھ اللہ کی یاد ہوتی رہتی ہے تاکہ بندہ اپنے مالک اپنے پالنے والے اور اپنے خالق کو نہ بھول جائے ورنہ وہ ناشکر اور سرکش ہو جائے گا اور اپنے رب کو یاد کرنا اور اسکے سامنے کھڑا ہونا اسکو گناہوں سے روکتا اور مختلف قسم کے فسادات سے باز رکھتا ہے ۔ میں نے ان اسباب مندرجہ بالا کو اپنی کتاب علل الشرائع میں میں بھی تحریر کر دیا ہے ۔