Skip to main content

باب النواد، (متفرقات)

حدیث ٥٥٩-٥٩٧ 

٥٥٩ - امام جعفر صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ ایک مرد فقیہ سے زیادہ اور کسی کی موت ابلیس کو پسند نہیں۔

٥٦٠ - نیز آپ سے قول خدا "أَوَلَمْ يَرَوْا۟ أَنَّا نَأْتِى ٱلْأَرْضَ نَنقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا ۚ “ (کیا ان لوگوں نے یہ نہیں دیکھا کہ ہم زمین کو اسکے تمام اطراف سے گھٹاتے چلے آئے ہیں) (سورہ رعد آیت نمبر ٤١)  کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا اس سے مراد علماء کا مفقود ہونا ہے ۔

٥٦١ - نیز آپ سے قول خدا "أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم مَّا يَتَذَكَّرُ فِيهِ مَن تَذَكَّرَ وَجَآءَكُمُ ٱلنَّذِيرُ ۖ “ کیا ہم نے اتنی عمریں نہ دی تھیں کہ جو نصیحت لینا چاہتا تھا وہ نصیحت حاصل کرلیتا) (سورۃ فاطر آیت نمبر ٣٧  )  کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ یہ اٹھارہ (۱۸) سال والوں کے لئے سرزنش ہے ۔

٥٦٢ - نیز آپ سے قول خدا " وَإِن مِّن قَرْيَةٍ إِلَّا نَحْنُ مُهْلِكُوهَا قَبْلَ يَوْمِ ٱلْقِيَـٰمَةِ أَوْ مُعَذِّبُوهَا عَذَابًۭا شَدِيدًۭا ۚ “ ( اور کوئی بھی بستی ہو اسکو قیامت سے پہلے تباہ و ہلاک کر کے چھوڑ دیں گے یا اس پر عذاب نازل کریں گے) (سورۃ الاسراء آیت نمبر ٥٨) کے متعلق دریافت کیا گیا کہ تو آپ نے فرمایا کہ اس سے مراد موت سے فنا ہونا ہے۔

٥٦٣ - حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ تم لوگوں کو مناسب نہیں کہ (ہماری مصیبت میں) ہم لوگوں کو تعزیت ادا کرو مگرہم لوگوں کیلئے یہ مناسب ہے کہ تمہاری مصیبت میں ہم تم لوگوں کو تعزیت ادا کریں تم لوگوں کیلئے مناسب ہے کہ ہم لوگوں کے خوشی کے موقع پر ہم لوگوں کو تہنیت ادا کر و اسلئے کہ تم لوگ ہماری مصیبت میں ہمارے شریک ہو ( اور شرکائے مصیبت ایک دوسرے کو تعزیت ادا نہیں کرتے)۔


٥٦٤ - حضرت ابوالحسن امام موسیٰ بن جعفر علیہ السلام سے دریافت کیا گیا کہ ایک شخص ہے جو اپنے فرزند سے یا اپنی دختر سے کہتا ہے کہ میرے باپ اور میری ماں مجھ پر قربان یا میرے والدین مجھ پر قربان آپ سمجھتے ہیں کہ اس میں کوئی حرج ہے؟ آپ نے فرمایا کہ اگر والدین زندہ ہیں تو میری نظر میں یہ کہہ کر وہ عاق ہو جائے گا ۔ اور اگر والدین زندہ نہیں ہیں تو اس کے کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔

 ٥٦٥ - حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ صبر دو قسم کے ہیں ایک صبر ہوتا ہے مصیبت کے وقت یہ صبر اچھا اور جمیل ہے اور اس صبر سے افضل وہ صبر ہے جب اللہ تعالیٰ نے ایک چیز مجھ پر حرام کر دی ہے تو اس سے رک جانا اوراس پر صبر کرنا ۔

٥٦٦ - نیز امام علیہ السلام نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے اپنے بندوں پر تین نوازشیں کی ہیں ایک یہ کہ روح نکلنے کے بعد اس میں بدبو پیدا کر دیتا ہے اگر ایسا نہ ہو تو کوئی دوست اپنے دوست کو دفن نہ کرے ۔ دوسرا مصیبت کے وقت اللہ تعالٰی صبردید یتا ہے اگر ایسا نہ ہو تو نسل منقطع ہو جائے ۔ تیسرا اللہ تعالٰی دانوں میں گھن اور کیڑے پیدا کر دیتا ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو تمام سلاطین جسطرح سونے چاندی کا ذخیرہ کرتے ہیں اسی طرح اسکا بھی ذخیرہ کر لیتے ۔

٥٦٧ - نیز امام علیہ السلام نے فرمایا کہ ہم اہلبیت مصیبت نازل ہونے سے پہلے بے چین ہوتے ہیں مگر اللہ تعالٰی کا حکم نازل ہو جاتا ہے تو پھر قضائے الہی پر راضی رہتے ہیں اور اسکے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کر لیتے ہیں ۔ ہم لوگ یہ نہیں کرتے کہ جس بات کو اللہ نے پسند کیا ہے ہم لوگ اسکو ناپسند کریں ۔

٥٦٨ - نیز آپ نے فرمایا کہ جو شخص مصیبت آنے پر اپنے نفس پر قابو نہیں رکھ سکتا تو اس کو چاہیئے آنسو بہالے اس سے اسکو سکون مل جائیگا۔

٥٦٩ - ایک مرتبہ ابن ابی لیلی نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے دریافت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے جتنی چیزیں پیدا کی ہیں ان میں سب سے زیادہ شیریں کیا ہے ؟ تو آپ نے فرمایا جوان فرزند ۔ پھر پوچھا اور اللہ تعالیٰ نے جتنی چیزیں پیدا کی ہیں ان میں سب سے تلخ کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا اسکا مفقود ہو جانا ۔ تو ابن ابی لیلی نے کہا میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ ہی لوگ اللہ کی مخلوق پر اللہ کی حجت ہیں ۔

٥٧٠ - نیز آپ نے فرمایا جو شخص کسی یتیم کے سر پر اپنے ہاتھ شفقت سے پھیرے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن یتیم کے ہر بال پر جس سے اسکا ہاتھ مس ہوا ہے اسے ایک نور عطا کرے گا۔

٥٧١ - اور روایت کی گئی ہے کہ ہر بال کے عوض جس پر اسکا ہاتھ مسں ہوا ہے اللہ تعالٰی اسکے نام ایک حسنہ (نیکی) لکھ دیگا ۔

٥٧٢ - رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے جو شخص قسی القلب نہیں رہنا چاہتا تو اسکو چاہیے کہ وہ کسی یتیم کو قریب بلائے اسکے ساتھ ملاطفت کرے اسکے سر پر شفقت کا ہاتھ پھیرے تو اللہ کے حکم سے اسکا دل نرم ہو جائیگا اسلئے کہ یتیم کا بھی ایک حق ہوتا ہے۔
اور ایک روایت میں ہے کہ اسکو اپنے دستر خوان پر بٹھائے اسکے سر پر شفقت کے ساتھ ہاتھ پھیرے اسکا دل نرم
ہو جائیگا۔

٥٧٣ - حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ جب کوئی یتیم روتا ہے تو اسکے رونے سے عرش ہلنے لگتا ہے ۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ کون ہے جس نے میرے اس بندے کو رلایا ہے جس سے میں نے اسکے ماں باپ کو بچپن میں چھین لیا ہے مجھے اپنے عزت  و جلال وعلو مکان کی قسم جو شخص اس یتیم کو چپ کرائے گا میں اسکے لئے جنت واجب کر دونگا۔

٥٧٤ - جس شخص کی اولاد مرگئی ہے۔ بحکم خدا اسکی وہی اولاد اسکو جہنم سے بچائے گی۔

٥٧٥ - رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے میرے لئے چھ چیزوں کو ناپسند کیا ہے اور میں اپنی اولاد میں سے جو اوصیاء ہیں اور میرے بعد جو ان اوصیاء کی اتباع کرنے والے انکے لئے ان چیزوں کو ناپسند کرتا ہوں ۔ حالت نماز میں فعل عبث کرنا ، حالت صوم میں فحش گوئی ، صدقہ دینے کے بعد احسان جتانا ، جنب کی حالت میں مسجد کے اندر آنا، لوگوں کے گھروں میں جھانکنا اور قبرستان میں ہنسنا ۔

٥٧٦ - حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا جب کبھی بھی قبر کی مٹی کے علاوہ کوئی دوسری مٹی قبر پر ڈالی جائیگی تو وہ میت پر گراں ہو گی۔

٥٧٧ - روایت کی گئی ہے کہ سندی بن شاہک نے حضرت ابو الحسن امام موسیٰ بن جعفر علیہ السلام سے ایک مرتبہ کہا کہ آپ مجھے اجازت دیں کہ میں خود اپنے پاس سے آپ کو کفن دوں ۔ آپ نے فرمایا کہ ہم اہلبیت فریضہ حج، اپنی عورتوں کا مہر اور اپنے کفن ( کی قیمت کی ادائیگی) اپنے پاک و طاہر مال سے کرتے ہیں ۔

٥٧٨ - حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہمارے دشمن طاعون سے مرتے ہیں اور اے گروہ شیعہ تم لوگ پیٹ کے مرض سے مرتے ہو یہی تم لوگوں کی علامت ہے ۔

٥٧٩ - اور امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا کہ جس شخص نے کسی قبر کی تجدید کی یا کوئی بدعت قائم کی تو وہ اسلام سے خارج ہو گیا ہمارے مشائخ نے اس حدیث کے معنی میں اختلاف کیا ہے ۔ محمد بن حسن صفار رحمتہ اللہ نے فرمایا کہ اس حدیث میں لفظ جدد" ج " ہی سے ہے اسکے علاوہ کوئی دوسرا لفظ نہیں ہے ۔ اور ہمارے شیخ محمد بن حسن بن احمد بن ولید رضی اللہ عنہ سے حکایت کی گئی ہے کہ انہوں نے کہا کہ کچھ دن گزرنے کے بعد قبر کی تجدید اور اسکا لیپنا پوتنا جائز نہیں پہلی مرتبہ لیپنے پوتنے کے بعد ۔ لیکن اگر مرنے والا مر جائے اور اسکی قبر کی لیپا پوتی کر دی جائے تو یہ جائز ہے کہ تمام قبروں کی مرمت کی جائے بغیر اسکے کہ اسکی تجدید کی جائے ۔

اور سعد بن عبداللہ رحمہ اللہ کے متعلق ذکر کیا گیا ہے کہ وہ کہا کرتے تھے کہ یہ من حد د قمبر آ ہے اسکو (جیم نہیں) حاء
سے پڑھا جائے اسکا مطلب یہ ہے کہ جو شخص قبر کو اونٹ کے کوہان کی طرح قبہ دار بنائے ۔

اور احمد بن ابی عبداللہ برقی کے متعلق ذکر کیا گیا ہے کہ انہوں نے کہا کہ یہ لفظ (جدد یا حدد نہیں بلکہ) جدث ہے اور جدث کے معنی قبر کے ہیں مگر میں نہیں سمجھ سکا کہ انہوں نے اس سے کیا مفہوم لیا ہے اور جس طرف میرا خیال گیا ہے وہ یہ ہے کہ لفظ جدد "ج" ہی سے ہے ۔ اور اسکے معنی کسی قبر کو کھودنے کے ہیں اسلئے کہ جو قبر کو کھودے گا اسکو جدید بنانے ہی کیلئے کھو دئے اور گڑھا کر کے نئی قبر بنائے گا۔ اور میں کہتا ہوں تجدید جسکی طرف محمد بن حسن صفار کا خیال گیا اور تحدید " حا۔ بغیر نقطہ کے جسکی طرف سعد بن عبداللہ کا خیال گیا ہے اور جو برقی نے کہا کہ یہ لفظ حدث ہے یہ تمام کے تمام مفہوم حدیث میں داخل ہیں اور جو شخص امام کی مخالفت کرے (قبر کی) تجدید کر کے یا اسکو کوہان شتر کی طرح قبہ دار بنائے یا اسکو از سر نو کھود کر بنائے اور اس میں سے کس شے کو حلال سمجھے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔

اور امام کے قول ( کا دوسرا ٹکڑا) ” من مثل مثالاً “ اسکے متعلق میں یہ کہتا ہوں کہ اس سے امامء کی مراد یہ ہے جو شخص کوئی بدعت ایجاد کرے اور لوگوں کو اسکی طرف دعوت دے یا کوئی دین ایجاد کرے تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے اور میرا اس سلسلہ میں یہ کہنا ہمارے ائمہ طاہرین علیہم السلام کا کہنا ہے اگر میں نے درست کہا ہے تو اللہ کی طرف سے یہ ان لوگوں کی زبان پر جاری ہوا اگر میں نے غلط کہا ہے تو یہ خطا تو میری اپنی ذات سے ہوئی ہے ۔

٥٨٠ - اور عمار ساباطی سے روایت ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ ایک مرتبہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے میت کے متعلق دریافت کیا گیا کہ کیا میت کا جسد بوسیدہ ہو جاتا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں یہاں تک کہ اس طینت کے سوا جس سے وہ پیدا ہوا ہے نہ کوئی گوشت باقی رہتا ہے اور نہ ہڈی باقی رہتی ہے مگر وہ طبیعت گول شکل میں قبر کے اندرباقی رہتی ہے تاکہ جس طرح وہ پہلے پیدا کیا گیا تھا اسی طرح اب بھی پیدا کیا جائے ۔

٥٨١ - حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ اللہ تعالٰی نے ہم لوگوں کی ہڈیوں کا کھانا زمین پر حرام کر دیا ہے ۔ اور ہم لوگوں کے گوشت کا کھانا کیڑوں پر حرام کر دیا ہے وہ اس میں سے ذرا بھی نہیں کھا سکتے ۔

 ٥٨٢ - نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میری حیات تم لوگوں کیلئے بہتر ہے اور میری ممات بھی تم لوگوں کیلئے بہتر ہے ۔ تو لوگوں نے کہا یا رسول اللہ یہ کیسے ؟ تو آپ نے فرمایا میری حیات کے متعلق اللہ تعالی کہتا ہے - و ما كان الله ليعذبهم وانت فيهم (اے رسول جب تک تم ان کے درمیان موجود ہو خدا ان پر عذاب نازل نہیں کرے گا) (سورہ انفال آیت نمبر ۳۳) اور تم لوگوں سے میری مفارقت کے بعد تو تم لوگوں کے اعمال میرے سامنے ہر روز پیش کئے جائینگے اگر اچھے ہوئے تو میں ان میں اللہ سے زیادتی کیلئے دعا کرونگا اور برے اعمال ہوئے تو میں اللہ سے انکی مغفرت کی دعا کرونگا ۔ لوگوں نے کہا یا رسول اللہ مگر آپ تو بوسیدہ ہو جائینگے یعنی گل سڑ جائیں گے آپ نے فرمایا ہر گز ایسا نہیں ہوگا اللہ تعالیٰ نےہم لوگوں کے گوشت کو زمین پر حرام کر دیا ہے (کہ وہ اس میں سے ذرا بھی کھائے) ۔


٥٨٣ - اور روایت کی گئی ہے کہ بندوں کے اعمال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ طاہرین علیہم السلام کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ۔ "وتل اعملوا فسيرى الله عملكم ورسوله و المومنون" (اے رسول تم کہہ دو کہ تم لوگ اپنے اپنے کام کئے جاؤ خدا اور اسکا رسول اور مومنین تمہارے کاموں کو دیکھیں گے)
(سوره توبه آیت نمبر ۳۵)

٥٨٤ - اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے  مصلوب (تختہ دار پر چڑھے ہوئے) سے متعلق دریافت کیا گیا کہ کیا اسے بھی عذاب قبر ہو گا ؟ تو آپ نے فرمایا کہ جو زمین کا رب ہے وہی تو ہوا کا بھی رب ہے اللہ تعالیٰ ہوا کو وحی کرے گا اور وہ قبرسے بھی زیادہ اسکو فشار دیدیگی ۔

٥٨٥ - عمار ساباطی نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ اگر تم میت کے سراور اسکی داڑھی کو خطمی سے دھوؤ تو کوئی حرج نہیں ہے یہ آپ نے ایک طویل حدیث میں ارشاد فرمایا جسکے اندر آپ نےغسل مست کا طریقہ بتایا ہے ۔

٥٨٦ - حضرت ابو جعفر امام محمد باقر علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ غسل میت غسل جنابت کے مانند ہے اگر بال بہت زیادہ ہیں تو ان پر تین مرتبہ پانی ڈالا جائے گا۔

٥٨٧ - حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ اگر میت کو دونوں قدموں کے درمیان رکھا جائے اور اسکے اوپر کھڑے ہو کر اسکو غسل دیا جائے تاکہ دائیں اور بائیں کروٹ دینے میں پاؤں سے روکا جاسکے کہ کہیں میت منہ کے بل نہ گر پڑے تو کوئی حرج نہیں ہے ۔ 

٥٨٨ - ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انصار میں سے کسی شخص کے جنازے کے ساتھ پا پیادہ چل رہے تھے تو ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ آپ سواری پر کیوں نہیں بیٹھ لیتے آپ نے فرمایا مجھے پسند نہیں کہ میں سواری پر چل رہا ہوں اور فرشتے پا پیادہ چل رہے ہوں ۔

٥٨٩ - حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنی جس حدیث کے اندر غسل میت کا طریقہ بتایا ہے اسکے آخر میں آپ نے ارشاد فرمایا کہ میت کے کان میں ہر گز کوئی چیز نہ بھرو اور اگر اسکی ناک سے کچھ بہنے کا خطرہ ہے تو اس پر روئی رکھ دو اور اگر خطرہ نہ ہو تو اس پر بھی کوئی چیز نہ رکھو۔

٥٩٠ - اور آپ نے ایک دوسری طویل حدیث میں غسل میت کا طریقہ بتاتے ہوئے کہا کہ اسکے ناخنوں کو نہ کریدو (خلال نہ کرو)۔

٥٩١ - نیز آپ نے فرمایا کہ اگر تم لوگوں کے یہاں کوئی مرجائے تو اسکو قبلہ رو کر دو اور اسی طرح جب غسل دو تو غسل کے پانی کے جانے کیلئے قبلہ کی طرف گڑھا کھو دو ۔

٥٩٢ - حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ جب روح قبض کرلی جاتی ہے تو وہ اپنے جسد کے اوپر سایہ فگن اور منڈلاتی رہتی ہے ۔ مومن اور غیر مومن دونوں کی روح ہر بات کو دیکھتی ہے کہ اسکے ساتھ کیا ہو رہا ہے اور جب اسکو کفن پہنا کر تابوت میں رکھ دیا جاتا ہے اور لوگ اسکو اپنے کاندھوں پر اٹھاتے ہیں تو وہ پلٹ کر اپنے جسد میں آجاتی ہے اور اسکی نگاہ کی قوت بڑھا دی جاتی ہے تو وہ جنت یا جہنم میں اپنی جگہ کو دیکھتی ہے اگر وہ جنتی ہے تو باواز بلند کہتی ہے کہ مجھے جلدی پہنچاؤ مجھے جلدی پہنچاؤ ۔ اور اگر جہنمی ہے تو چیخ کر کہتی ہے کہ مجھے واپس لے چلو مجھے واپس لے چلو ۔ اور جو کچھ اسکے ساتھ کیا جاتا ہے اسکو جانتی ہے اور لوگوں کی باتیں سنتی ہے ۔

٥٩٣ - حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ارواح جنت کے ایک درخت پر اجساد کی شکل میں رہتی ہیں۔ آپس میں ایک دوسرے سے سوال و جواب کرتی ہیں اور ایک دوسرے سے متعارف ہوتی ہیں اور جب دنیا سے نکل کر) کوئی روح ان روحوں کے پاس پہنچتی ہے تو کہتی ہیں اسے ذرا چھوڑ دو دم لینے دو بیچارہ ہول عظیم سے چھوٹ کر آیا ہے اس کے بعد اس سے پوچھتی ہیں کہ فلاں کا کیا ہوا فلاں کا کیا ہوا۔ اگر اس نے کہا کہ ابھی وہ زندہ ہے تو اسکی آمد کا انتظار کرتی ہیں اور اگر اس نے کہا کہ وہ مر گیا تو کہتی ہیں کہ پھر وہ جہنم میں گزا وہ  جہنم میں گرا (یعنی یہاں تو نہیں آیا)۔

٥٩٤ - حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کی طرف وحی فرمائی کہ حضرت یوسف علیہ السلام کی ہڈیاں نکالو تب وعدہ ہے کہ چاند طلوع ہو گا اور چاند ایک عرصے سے ان لوگوں کے پاس طلوع نہیں ہوتا تھا تو حضرت موسیٰ نے لوگوں سے پوچھا کہ اس جگہ کو کون جانتا ہے ، تو ان سے کہا گیا کہ یہاں، ایک بڑھیا رہتی ہے وہ اسے جانتی ہے مگر بالکل کمزور ہو چکی ہے اور اندھی ہو گئی ہے ۔ آپ نے اسے بلا بھیجا اور وہ آئی تو اس سے پوچھا کیا حضرت یوسف علیہ السلام کی قبر جانتی ہے ؟ اس نے کہا کہ ہاں آپ نے کہا پھر مجھے بتادو کونسی جگہ ہے اس نے کہا میں آپ کو اس وقت تک نہ بتاؤنگی جب تک آپ مجھے چند چیزیں نہ دیدیں ۔ میرے پاؤں کو کھول دیں ، میری آنکھوں کی بصارت واپس کر دیں اور میری جوانی پلٹا دیں ۔ حضرت موسیٰ کو یہ کام بڑا مشکل نظر آیا تو اللہ تعالیٰ نے وحی فرمائی کہ یہ تم مجھ پر چھوڑ دو تم اسے دید و حضرت موسیٰ نے اسکو وہ سب کچھ دیدیا جو اس نے مانگا تھا ۔ اس نے حضرت یوسف علیہ السلام کے قبر کی نشاندہی کی تو حضرت موسیٰ نے اسکو دریائے نیل کے ایک کنارے سے ایک سنگ مرمر کے صندوق سے نکالا ۔ اور جب اسے نکال لیا تو چاند طلوع ہوا اور آپ اسکو لیکر شام گئے اور اسی بناء پر اہل کتاب اپنی میتوں کو شام لے جاتے ہیں ۔ اور یہی وہ یوسف بن یعقوب علیہ اسلام ہیں اور اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ان کے علاوہ کسی اور (یوسف) کا ذکر نہیں کیا ہے ۔

٥٩٥ -  حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ انسان جس دن پیدا ہوتا ہے پیار میں سب سے بڑا ہوتا ہے اور انسان جس دن مرتا ہے پیار میں سب سے چھوٹا ہوتا ہے ۔

٥٩٦ - نیز آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالٰی نے ایسی یقینی چیز کہ جس میں کوئی شک نہیں اور شک سے اتنی زیادہ مشابہہ کہ جس میں کسی یقین کا شائبہ نہ ہو موت کے سوا کسی اور چیز کو پیدا نہیں کیا۔

٥٩٧ - نیز آپ نے فرمایا کہ اسلام میں سب سے پہلے جس کی میت کیلئے تابوت بنایا گیا وہ حضرت فاطمہ بنت محمد صلوات اللہ علیہا ہیں ۔