Skip to main content

باب نماز میت

حدیث ٤٥١-٥٠١ 

٤٥١- حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے ارشاد فرمایا جو شخص کسی جنازے کے پیچھے چلے گا اللہ تعالٰی اس کیلئے چار قیراط لکھ دیگا ۔ ایک قیراط جنازے میں شریک ہونے پر ۔ ایک قیراط جنازے کی نماز پڑھنے پر ایک قیراط اسکے دفن سے فارغ ہونے کے انتظار پر ایک قیراط تعزیت کی ادائیگی پر ۔

٤٥٢- حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے ارشاد فرمایا جو شخص کسی جنازے کے ساتھ چلے یہاں تک کہ نماز جنازہ پڑھ لے پھر واپس ہو جائے تو اس کیلئے ایک قیراط ہے اور جو شخص کسی جنازے کے ساتھ چلے یہاں تک کہ وہ دفن ہو جائے تو اس کیلئے دو قیراط ہے اور ایک قیراط کوہ احد کے برابر ہو گا۔

٤٥٣- اور آپ نے فرمایا کہ جو شخص کسی مرد مسلم کے جنازے کے پیچھے پیچھے چلے تو قیامت کے دن اسکو چار شفاعتیں عطا کی جائینگی اور کچھ نہ بولے تو فرشتہ آواز دیگا کہ تیرے لئے اتنی ہی (شفاعتیں) اور ہیں ۔

٤٥٤- اور امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ جو شخص جنازے کو چاروں جانب سے پکڑے (کاندھا دے) تو اللہ تعالی اسکے چالیس گناہان کبیرہ معاف کر دیگا۔

٤٥٥- نیز آپ فرمایا کہ جو شخص کسی مرد مومن کے جنازے کی مشایعت کرے (ساتھ رہے) یہاں تک کہ وہ قبر میں دفن کر دیا جائے تو اللہ تعالٰی اسکی مشایعت کیلئے ستر (۷۰) فرشتے مقرر کر یگا جو اسکے ساتھ ساتھ اس کیلئے طلب مغفرت کرتے رہیں گے اس وقت تک کہ جب وہ اپنی قبر سے نکل کر موقف (حساب) تک جائیگا۔ 

٤٥٦- نیز آپ نے فرمایا کہ مومن کو اسکی قبر میں سب سے پہلا تحفہ یہ دیا جائیگا کہ جو لوگ اسکے جنازے میں شریک ہوئے ان سب کی مغفرت کر دی گئی ۔

٤٥٧- حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ جب کوئی مومن قبر میں پہنچتا ہے تو اسکو آواز دی جاتی ہے کہ آگاہ ہو تیرے لئے سب سے پہلی عطا جنت ہے ۔ آگاہ ہو جس نے تیرے جنازے کی مشایعت (شرکت) کی اس کیلئے پہلی عطا مغفرت ہے۔

٤٥٨- حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ جو اپنے برادر مومن کے جنازے کو چاروں طرف سے اٹھائے گا ۔ اللہ تعالٰی اسکے گناہان کبیرہ میں سے چالیسں گناہوں کو معاف کر دیگا۔ اور سنت یہ ہے کہ جنازے کو چاروں طرف سے اٹھایا جائے اور اسکے بعد جو کرے وہ مستحب ہے ۔

٤٥٩- حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ جو شخص جنازے کے پایوں کو پکڑے گا اللہ تعالیٰ اس کے پچیس گناہان کبیرہ بخش دیگا اور اگر چاروں پایوں کو پکڑے گا تو اپنے تمام گناہوں سے نکل جائے گا۔ 

٤٦٠- نیز آپ نے اسحاق بن عمار سے فرمایا کہ جب تم میت کے تابوت کو ہر طرف سے اٹھاؤ گے تو گناہوں سے اس طرح پاک ہو جاؤ گے جیسے ابھی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوئے ہو ۔

٤٦١- اور حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ جنازے کے پیچھے چلنا اسکے آگے آگے چلنے سے افضل ہے اور اگر تم اسکے آگے بھی چلو تو کوئی حرج نہیں ہے۔

٤٦٢- اور حسین بن سعید نے حضرت ابو الحسن امام رضا علیہ السلام کو خط لکھا اور ان سے میت کے تابوت کے متعلق دریافت کیا کہ کیا اسکے چاروں جانب میں سے کوئی جانب ایسی ہے جس سے اسکو اٹھانا شروع کرے یا یہ اٹھانے والے پر ہے کہ جس جانب آسان سمجھے اس جانب سے اٹھانا شروع کرے ؟ تو آپ نے جواب میں تحریر فرمایا کہ جس جانب سے چاہے اٹھائے ۔

٤٦٣- اور امام جعفر صادق علیہ السلام سے دریافت کیا گیا جنازے کے متعلق کہ کیا اسکے ساتھ آگ لے جائی جا سکتی ہے ؟ تو آپ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی کا جنازہ رات کو نکالا گیا اور اسکے ساتھ بہت سے چراغ تھے ۔ 

٤٦٤- محمد بن مسلم نے ان دونوں حضرات ( حضرت امام محمد باقر اور حضرت امام جعفر صادق علیہم السلام میں سے کسی ایک سے روایت کی ہے اسکا بیان ہے کہ میں نے ان جناب سے جنازے کے ساتھ چلنے کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا اسکے آگے اسکے دائیں جانب اسکے بائیں جانب اور اسکے پیچھے (چلنا چاہیے)۔

٤٦٥- اور عبداللہ بن سنان نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ جب حضرت آدم علیہ السلام کی وفات ہوئی اور ان پر نماز پڑھنے کا وقت آیا تو ہبتہ اللہ علیہ السلام نے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے کہا کہ اے قاصد خدا آپ آگے بڑھیں اور نبی خدا کی نماز جنازہ پڑھائیں جبرئیل علیہ السلام نے جواب دیا کہ اللہ تعالٰی نے ہم لوگوں کو آپ کے پدر بزرگوار کو سجدہ کرنے کا حکم دیا تھا لہذا ہم لوگ انکی نیکو کار اولاد کے آگے کھڑے نہیں ہو سکتے اور آپ انکی نیکو کار اولاد میں سے ہیں چنانچہ ہیتہ اللہ علیہ السلام آگے بڑھے اور انہوں نے امت محمد پر جو پانچ نمازیں فرض ہیں انکی تعداد کے مطابق پانچ تکبیریں کہیں پھر یہی اولاد آدم کیلئے تا یوم قیامت سنت جاری ہو گئی ۔ 

٤٦٦- اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب کسی کی میت پر نماز پڑھتے تو اللہ اکبر کہتے اور تشہد پڑھتے (یعنی اشتد ان لا اله الا اللہ کہتے پھر تکبیر کہتے اور نبی اور انکی آل پر درود بھیجتے اور انکے لئے دعا کرتے پھر تکبیر کہتے اور مومنین و مومنات کیلئے دعا کرتے پھر چوتھی مرتبہ تکبیر کہتے اور میت کیلئے دعا کرتے پھر تکبیر کہتے اور وہاں سے پلٹ جاتے ۔ مگر جب اللہ تعالٰی نے منافقین کی میت پر نماز پڑھنے کیلئے منع فرمایا تو اسکے بعد آپ تکبیر کہتے اور تشہد پڑھتے پھر تکبیر کہتے اور نبی اور انکی آل پر درود بھیجتے پھر تکبیر کہتے اور مومنین و مومنات کیلئے دعا کرتے چوتھی تکبیر کہتے اور واپس ہو جاتے اور میت کیلئے دعا نہیں کرتے تھے ۔

اور جو شخص کسی میت پر نماز پڑھے تو وہ اس کے سر کے اتنا قریب کھڑا ہو کہ اگر ہوا چلے اور اسکا دامن اٹھے تو جنازے کو لگے ۔ اور تکبیر کہے اور یہ کہے اشهد ان لا إله إلا الله وحده لا شَريكَ له وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُهُ وَرَسُولَهُ أَرْسَلَهُ بالحق بشيرا و نظیرا بين يدي الساعة ( میں گواہی دیتا ہوں کہ نہیں ہے کوئی اللہ سوائے اللہ کے وہ اکیلا ہے اسکا کوئی شریک نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد اسکے بندے اور اسکے رسول ہیں اس نے ان کو حق کے ساتھ بشیر و نذیر بنا کر آج کے دور میں بھی بھیجا) پھر دوسری تکبیر کہے اور یہ کہے اللهُم صَلَّ عَلَى مُحَمَّد وَآلِ مُحَمَّدٍ وَ أَرْحَمُ مُحَمد وَآلِ مُحَمَّدٍ وَ هه نگی زود بَارَكَ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ كَأَفْضَلِ مَا صَلَّيْتَ وَبَارَكْتَ وَ تَرَحمت عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَآلِ إِبْرَابِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ (اے اللہ تو رحمت نازل کر محمد اور ان کی آل پر اور رحم کر محمد اور ان کی آل پر برکت دے محمد اور ان کی آل کو اس سے بھی بہتر جو تو نے رحمت نازل کی ہے برکت دی ہے اور رحم فرمایا ہے ابراہیم اور آل ابراہیم پر بے شک تو لائق حمد اور صاحب بزرگی ہے ) پھر تیسری تکبیر کہے اور یہ کہے اللهم اغفر للمؤمِنينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ الأَحْيَاءِ مِنْهُم والا موَاتِ (اے اللہ تو مغفرت کر مومنین اور مومنات اور مسلمین اور مسلمات کی خواہ وہ زندہ ہوں یا مردہ ) پھر چوتھی تکبیر کہے اور یہ کہے - اللهُم عَبُدَكَ وَابْن عَبدِكَ وَابْن أَمْتِكَ أَنزَلَ بِكَ وَأَنتَ خَيْر منزول بـ خَيْر مُنزُولِ بِهِ اللهُم إِنَّا لَنَعْلَمُ مِنْهُ إِلا خَيْرًا وَ أَنتَ أَعلَمُ بِهِ مِنا اللهم إن كَانَ مَحْسِنَا فَرَدَ فِي إِحْسَانِهِ وَإِنْ كَانَ مَسَمَّا نَتَجَاوَزَعَنْهُ وَأَغْفَرَ لَهُ اللهُمَّ اجْعَلْهُ عِندَكَ فِي أَعْلَى عَلِينَ وَاخْلَفُ عَلَى أَهْلِهِ فِى الْفَا بِرِينَ وَارْحَمْهُ بِرَحْمَتِكَ يا أرحم الراحِمِينَ (اے اللہ تیرا بنده ، تیرے بندے کا فرزند اور تیری کنیز کا فرزند تیری بارگاہ میں حاضر ہے اور تو اس کیلئے بہترین پہنچنے کی جگہ ہے اے اللہ ہم لوگ اسکی طرف سے سوائے خیر کے کچھ نہیں جانتے اور تو ہم سے بھی زیادہ اس کو جانتا ہے اے اللہ اگر یہ نیکو کار ہے تو اسکی نیکیوں میں اضافہ فرما اور اگر یہ گنہگار ہے تو اس سے در گزر فرما اور اسکو بخش دے اے اللہ ! اسکو اپنے پاس اعلیٰ علیین میں جگہ دے اور اسکے پسماندگان کو صبر دے اور رحم کر اپنی رحمت سے اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے ) پھر پانچویں تکبیر کہے ۔ اور اپنی جگہ سے اس وقت تک نہ ہٹے جب تک جنازے کو لوگوں کے کاندھے پر نہ دیکھ لے اور نماز میت میں پانچ تکبیریں کہنے کا سبب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بندوں پر پانچ فرائض عائد کئے ہیں ۔ نماز، زکوۃ ، روزہ ، حج اور ولایت اسلئے میت کیلئے ہر فریضہ کے بدلے ایک تکبیر ہے ۔

٤٦٧- اور روایت کی گئی ہے کہ اس کا سبب یہ ہے کہ اللہ تعالٰی نے بندوں پر پانچ نمازیں فرض کی ہیں اور ہر نماز فریضہ کے بدلے میت کیلئے ایک نمبر ہے ۔ اور جو شخص عورت کی میت کی نماز پڑھے تو وہ اسکے سینے کے قریب کھڑا ہو اور نماز میت میں سلام نہیں ہے مگر یہ کہ تقیہ کی حالت میں ہو ۔

٤٦٨- اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت حمزہ کی نماز میت میں ستر تکبیریں کہیں ۔ 

٤٦٩- اور حضرت علی علیہ السلام نے سہل بن حنیف کی نماز میت میں پچیں (۲۵) تکبیریں کہیں ۔ 

٤٧٠- حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے پانچ ہی پانچ تکبیریں کہیں اس طرح کہ جب لوگ آتے اور کہتے کہ یا امیرالمومنین ہمیں تو سہل بن حنیف کی نماز میت میں شرکت کا موقع نہیں ملا تو آپ انکے جنازے کو رکھ دیتے اور پانچ تکبیریں کہتے یہاں تک کہ قبر تک پہنچتے پہنچتے پانچ مرتبہ ایسا کیا۔
اور جس شخص نے جنازے پر ابھی ایک تکبیر یا دو تکبیریں کہی ہیں کہ دوسرا جنازہ اسکے ساتھ اور رکھدیا گیا تو اگر وہ چاہے تو اب ان دونوں پر پانچ تکبیریں ملا کر کہے اور اگر چاہے تو پہلی نماز جنازہ سے فارغ ہو کر دوسرے جنازے پر پھر نمازپڑھے ۔

اور جو شخص جنازے کی نماز پڑھے اور جنازہ الٹا رکھا ہوا ( یعنی جدھر پاؤں ہونا چاہیئے ادھر سر اور جدھر سر ہونا چاہیئے ادھر پاؤں) تو یہ میت کو برا محسوس ہو گا لہذا اس پر دوبارہ نماز پڑھنی چاہیئے ۔

٤٧١- اور حلبی نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا اگر کوئی شخص نماز میت کی ایک تکبیر یا دو تکبیریں پا جائے تو پھر بقیہ کو پیش نماز کی متابعت میں پورا کرنا چاہیئے ۔

٤٧٢- اور عمر بن یزید نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ جب کوئی مومن مرجائے اور اسکی نماز جنازے میں چالیس مومنین شریک ہوں اور سب یہ کہیں کہ اللهُم إِنَّا لَا نَعْلَمُ مِنْهُ إِلا خَيْراً وَ أَنْتَ أَعلم به منا تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے تم لوگوں کی گواہیاں قبول کیں اور اسکو بخش دیا ایسا سمجھ لو کہ) میں نے بھی نہیں جانا جسکو تم لوگ نہیں جانتے ۔

٤٧٣- اور فضل بن عبدالملک نے آپ سے دریافت کیا کہ کیا نماز میت مسجد کے اندر پڑھی جا سکتی ہے ؟ تو آپ نے فرمایا کہ ہاں ۔

٤٧٤- اور ابو بصیر نے آپ سے دریافت کیا کہ ایک عورت مرگئی اس پر نماز پڑھنے کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے ۔ آپ نے فرمایا کہ اسکا شوہر ۔ انہوں نے کہا کہ کیا اسکا شوہر اسکے باپ اسکے بیٹے اور اسکے بھائی سے بھی زیادہ حقدار ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں اور وہی اسکو غسل بھی دے گا ۔

اور میرے والد رحمہ اللہ نے مجھے اپنے ایک رسالہ میں تحریر فرمایا کہ اے فرزند تم پر واضح ہو کہ میت پر نماز پڑھنے کا سب سے زیادہ حقدار وہ ہے جسکو میت کا ولی نماز کیلئے آگے بڑھائے اور جسکو ولی میت نے آگے بڑھایا اسکے سوا کوئی دوسرا آگے بڑھکر نماز پڑھانے لگا تو وہ غاصب ہوگا۔ 

٤٧٥- اور امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر تم سے کسی کی نماز جنازہ چھوٹ جائے یہاں تک کہ وہ دفن ہو جائے تو کوئی حرج نہیں اگر تم اسکے دفن ہونے کے بعد اسکی نماز جنازہ پڑھ لو ۔

٤٧٦- اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی اگر کسی کی نماز جنازہ فوت ہو جاتی تو اسکی قبر پر پڑھ لیا کرتے تھے ۔

٤٧٧- السبیع بن عبداللہ قمی نے ایک مرتبہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے دریافت کیا کہ ایک شخص اکیلا نماز جنازہ پڑھ سکتا ہے ؟ فرمایا ہاں پوچھا کہ اور دو شخص اس پر نماز جنازہ پڑھ سکتے ہیں ؟ فرمایا ہاں مگر ایک دوسرے کے پیچھے کھڑا ہو گا اسکے پہلو میں کھڑا نہیں ہوگا۔ 

٤٧٨- جابر کا بیان ہے کہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے ارشاد فرمایا اگر کسی شخص کی نماز میت میں کوئی مرد موجود نہ ہو (سب عورتیں ہوں) تو ایک اس کیلئے بڑھے گی اور سب عورتوں کے وسط میں کھڑی ہو جائیگی اور سب عورتیں اسکے دائیں بائیں کھڑی ہو جائیں اور وہ تکبیر کہے گی اور نماز میت پڑھا دیگی ۔

٤٧٩- اور حسن بن زیاد صیقل نے بیان کیا کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے دریافت کیا گیا کہ عورتوں کے ساتھ جب کوئی مرد نہ ہو تو عورتیں نماز جنازہ کس طرح پڑھیں ؟ آپ نے فرمایا وہ سب کی سب ایک صف میں کھڑی ہو جائیں گی کوئی عورت آگے نہیں کھڑی ہوگی ۔ تو کہا گیا کہ نماز واجب میں کیا یہ سب ایک دوسرے کی امامت کریں گی ؟ فرمایا ہاں ۔

٤٨٠- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میری امت میں سے جس پر رجم کیا گیا ہو اس پر بھی نماز پڑھو اور جس نے میری امت میں سے خود کشی کرلی ہے اس پر بھی نماز پڑھو میری امت میں سے کسی کو بغیر نماز کے نہ چھوڑو ۔ 

٤٨١- ہشام بن سالم نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے دریافت کیا کہ جب کوئی شراب خور اور کوئی زانی اور کوئی چور مرجائے تو کیا اس پر نماز جنازہ پڑھی جائے ؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں ۔ 

٤٨٢- اور عمار بن موسی ساباطی کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا آپ کیا فرماتے ہیں ان لوگوں کے متعلق کہ جو سمندر کے کنارے کنارے سفر کر رہے تھے کہ ناگاہ سمندر کی لہروں نے ایک آدمی کی ہرہنہ لاش ساحل پر پھینک دی اور یہ لوگ بھی برہنہ جسم تھے صرف ازار پہنے ہوئے تھے تو اب وہ لوگ اس میت پر نماز کیسے پڑھیں جبکہ وہ میت برہنہ ہے اور ان لوگوں کے پاس بھی کوئی فاضل کپڑا نہیں جس سے وہ اس میت کو کفن دیں ؟ آپ نے فرمایا کہ پھر اس میت کیلئے ایک گڑھا کھودا جائے اور اسکو اسکی قبر میں رکھدیا جائے اور اسکی شرمگاہ پر اینٹ اور پتھر رکھدیا جائے تاکہ اینٹوں اور پتھروں سے اسکی شرمگاہ چھپ جائے پھر اس پر نماز پڑھ کر اسے دفن کر دیں ۔

٤٨٣- اور اسحاق بن عمار نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے آپ نے بیان فرمایا کہ ایک مرتبہ حضرت علی علیہ السلام کو میت کے چند ٹکڑے ملے تو ان کو جمع کیا گیا پھر آپ نے اس پر نماز پڑھی اور وہ میت دفن کر دی گئی۔

٤٨٤- اور فضل بن عثمان اعور نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے اور انہوں نے اپنے پدر بزرگوار سے روایت کی ہے ایک شخص کے بارے میں کہ وہ قتل ہو گیا اسکا سر ایک قبیلہ میں پایا گیا اور اسکا درمیانی حصہ سینہ اور اسکے دونوں ہاتھ دوسرے قبیلہ میں اور بقیہ اعضاء تیسرے قبیلے میں پائے گئے تو آپ نے فرمایا کہ جسکے قبیلہ میں اسکا سینہ اور اسکے دونوں ہاتھ گئے ہیں اس پر اسکا خو نبہا ہے اور اس پر اسکی نماز ہے ۔

٤٨٥- اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ جب کوئی مقتول پایا جائے تو اگر اسکے اعضاء میں سے کوئی عضو مکمل پایا جائے تو اس پر نماز پڑھ کر دفن کیا جائیگا اور اگر کوئی عضو مکمل نہیں پایا گیا تو اس پر نماز نہیں پڑھی جائیگی اسے دفن کر دیا جائیگا ۔ اور کسی شخص کے بیچ سے دو ٹکڑے کر دیئے گئے ہیں تو اس ٹکڑے پر نماز ہوگی جس میں قلب ہے اور اگر مقتول کا سوائے سر کے اور کچھ نہ ملے تو اس پر نماز نہیں پڑھیں گے ۔

٤٨٦-  زرارہ اور عبید اللہ بن علی صلبی نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ سے کمسن بچے کیلئے دریافت کیا گیا کہ اس پر نماز کس سن میں پڑھی جائیگی تو آپ نے فرمایا جب وہ نماز کی عقل رکھتا ہو تو میں نے دریافت کیا کہ اس پر نماز کب واجب ہوتی ہے ؟ تو فرمایا جب وہ چھ سال کا ہو جائے اور روزہ اس وقت کہ جب اس میں اسکے برداشت کرنے کی طاقت آجائے ۔ اور جب کوئی شخص ایسے لوگوں کے ساتھ ہے جو کسی طفل پر نماز پڑھ رہے ہوں تو یہ کہے اللهم اجعله لا بويه ولنا فرصا (اے اللہ قرار دے اسکو اسکے والدین کیلئے اور ہم لوگوں کیلئے باعث شفاعت) ۔

٤٨٧- اور حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے اپنے ایک تین سال کے چھوٹے بچے پر نماز پڑھی پھر فرمایا کہ اگر لوگ یہ نہ کہنے لگتے کہ بنی ہاشم اپنی کمسن اولاد پر نماز نہیں پڑھتے تو میں اس پر نماز نہ پڑھتا ۔

٤٨٨- اور آپ سے دریافت کیا گیا کہ بچے پر نماز پڑھنا کب واجب ہے ؟ تو آپ نے فرمایا کہ جب اسکو نماز کا شعور ہو اور وہ چھ سال کا ہو جائے ۔

٤٨٩- زرارہ اور محمد بن مسلم نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کی ہے آپ نے فرما یا کسی مستضعف (کفار کے دباؤ میں رہ کر بے کس و مجبور) اور اس شخص پر جو اپنے مذہب ہی کو نہیں جانتا نماز پڑھی جائیگی نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  پر درود بھیجا جائیگا اور مومنین و مومنات کیلئے دعا کی جائیگی اسکے بعد کہا جائیگا اللحْمَ اغْفِرُ لِلَّذِينَ تَابُوا وَاتَّبِعُوا سَبِيلَكَ وَقِهِمْ عَذَابَ الْجَحِيمِ (اے اللہ بخش دے ان لوگوں کو جنہوں نے توبہ کرلی اور تیرے راستے پر چلے اور بچا ان کو جہنم کے عذاب سے) اور وہ شخص جو اپنے مذہب ہی کو نہیں جانتا اسکی نماز میں کہا جائے گا اللهُم إِن هذة النَّفْسَ أَنتَ ا وَ أَنْتَ أَمَنَمَا اللَّهُم وَ لَهَا مَا وَلَت وَاحْشُرُهَا مَعَ مِنْ أَحَبَتْ (اے اللہ اس شخص کو تو ہی نے حیات دی اور تو ہی نے موت - پروردگار تو ان کے ساتھ اسکو کر دے جن سے یہ الفت رکھتا ہے اور اسکا حشر کر اس کے ساتھ جس سے اس کو محبت تھی ) 

٤٩٠- صفوان بن مہران جمال نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ نے بیان فرمایا کہ ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ ایک مرد منافق مرگیا تو حضرت حسین ابن علی علیہ السلام اس کیلئے پا پیادہ نکلے راستہ میں آپ کا ایک غلام مل گا آپ نے پوچھا تم کہاں جارہے ہو؟ اس نے کہا میں اس منافق پر نماز پڑھنے سے بھاگ رہا ہوں ۔ آپ نے فرمایا تم میرے پہلو میں کھڑے ہو جانا اور جو تم مجھے کہتے ہوئے سنوری تم بھی کہنا زادی کا بیان ہے کہ آپ نے پھر اپنے ہاتھ بلند کئے اور کہا - اللهُم أَخْرِ عَبْدَكَ فِي عِبَادِكَ وَ بِلَاءِ كَ اللهُم أَصْلِهُ أَشَدُّ نَارِكَ اللَّهُمَ أَذْ لَهُ حَرَّعَذَابِكَ فَإِنَّهُ كَانَ بِوَالِيْ أعدَاءَكَ وَيُعَادِي أَوْلِيَاكَ وَيَبْغِضُ أَهْلَ بَيْتِ نَبَيْكَ - (اے اللہ اس تیرے بندے نے خرابی ڈالی تیرے بندوں میں اور تیرے شہروں میں اے اللہ تو اپنی شدید اگ میں اسکو تیا دے ۔ اے اللہ تو اس کو اپنے عذاب کی گرمی کا مزا چکھا اسلئے کہ یہ تیرے دشمنوں سے دوستی رکھتا تھا اورتیرے دوستوں سے دشمنی رکھا تھا اور تیرے نبی کے اہل بیت سے بغض رکھتا تھا۔ 

٤٩١- عبید اللہ بن علی حلبی نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ جب تم کسی دشمن خدا پر نماز پڑھو تو یہ کہو اللهم إنا لا نعلم منه إلا أن عدو لكَ وَلِرَسُولِكَ اللَّهُمْ فَاحْشِ قَبْرَهُ نَارَا وَ احْشِ جَونَةً نَاراً وَ عَجِلُهُ إِلَى الْمَنَارِ فَإِنَّهُ كَانَ وَ إِلَى أَعْدَاءِ كَ وَيَعَادِي أَوْلِيَاءِ كَ وَيَبْعَضُ أَهْلَ بَيْتِ نَبِيِّكَ اللَّهُمَّ ضَيقَ عَلَيْهِ قَبْرَهُ (اے اللہ ہم نہیں جانتے سوائے اس کے کہ یہ ترا اور تیرے رسول کا دشمن تھا اے اللہ تو اسکی قبر کو آگ سے بھر دے اور اسکے پیٹ میں آگ بھر دے اور اسے جہنم کی طرف بھیجنے میں جلدی کر اسلئے کہ یہ تیرے دشمنوں سے دوستی رکھتا تھا اور تیرے دوستوں سے دشمنی رکھتا تھا اور تیرے نبی کے اہلبیت سے بغض رکھتا تھا۔ اے اللہ تو اسکی قبر کو تنگ کر) اور جب میت اٹھائی جائے تو یہ کہو اللهم لا ترفعه ولا تركة (اے اللہ تو اسکو بلند نہ کر اور پاک نہ کر) اور اگر وہ مستضعف ہے (دشمنوں میں گھرا ہوا بے بس ہے ) تو یہ کہو اللهم اغفر للذين تابو واتبعوا سَبِيلَكَ وَقِهِمْ عَذَابَ الْجَحِيمِ (اے الله بیلک تو مغفرت کر ان لوگوں کی جنہوں نے توبہ کرلی اور تیرے راستے پر چلے اور انہیں جہنم کے عذاب سے بچا ) اور اگر تم نہیں جانتے کہ اسکا کیا حال ہے (دشمن ہے یا دوست) تو کہو اللهم إن كان يحبُّ الْخَيْرُ وَ أَهْلَهُ فَاغْفِرُ لَكَ وَارْحَمْهُ وَتَجَاوَزَعَنْهُ  (اے اللہ اگر یہ خیر اور اہل خیر سے محبت کرتا ہے تو اسے بخش دے اس پر رحم فرما اور اس سے اور درگزر کرم۔ اور اگر اس متخوف سے لف سے تمہاری کچھ رسم و راہ ہو تو بطور شفاعت اس کیلئے استغفار کرد دوستی کی بناء پر نہیں ۔ 

٤٩٢- اور حضرت علی علیہ السلام جب کسی مرد اور عورت دونوں کی نماز جنازہ پڑھتے تو عورت کو مقدم کرتے اور مرد کو موخر اور جب کسی غلام اور آزاد کی نماز پڑھتے تو غلام کو مقدم کرتے اور آزاد کو موخر اور جب کسی صغیرہ کبیر کی نماز جنازہ پڑھتے تو صغیر کو مقدم کرتے اور کبیر کو موخر ۔

٤٩٣- ہشام بن سالم نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ کوئی حرج نہیں اگر مرد کو مقدم کیا جا ئے اور عورت کو موخر یا عورت کو مقدم کیا جائے اور مرد کو موخر یعنی نماز میت کے سلسلہ میں ۔ اور نماز میت کیلئے تمام جگہوں میں سب سے افضل و بہتر جگہ آخری صف ہے اور اسکا سبب یہ ہے کہ نماز جنازہ میں عورتیں مردوں کے ساتھ مخلوط ہو جایا کرتی تھیں ۔

٤٩٤- اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نماز میت میں سب سے افضل و بہتر جگہ آخری صف ہے ۔ عورتیں خود آخری صف سے پیچھے ہو جائیں گی اور امام علیہ السلام کے ارشاد کے بموجب آخری صف کی فضیلت باقی رہ جائے گی۔ اور اگر کسی شخص کو ایک طرف سے ولیمہ میں شرکت کی دعوت دی جائے اور دوسری طرف جنازے میں شرکت کی دعوت دی جائے تو اسے جنازے میں شرکت کی دعوت قبول کرنا چاہیئے اس لئے کہ اس سے آخرت یاد آتی ہے اور ولیمہ کی دعوت کو چھوڑ دینا چاہیئے اس لئے کہ اس میں دنیا یاد آتی ہے ۔ 

٤٩٥- اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب تمہیں کسی جنازے میں شرکت کی دعوت دی جائے تو جانے میں جلدی کرو اور جب شادی بیاہ میں شرکت کی دعوت دی جائے تو دیر سے جاؤ۔

اور میرے والد رحمہ اللہ نے میرے پاس جو رسالہ بھیجا اس میں یہ تحریر کیا کہ جوتا پہن کر نماز جنازہ نہ پڑھو ، اور دو میتوں کو ایک تابوت میں نہ رکھو ۔ اور جب دو شخص نماز جنازہ پڑھ رہے ہوں تو ایک آگے کھڑا ہو اور ایک پیچھے ۔ پہلو میں نہ کھڑا ہو ۔
اور جب مرد و عورت و غلام و مملوک کے جنازے ایک جگہ جمع ہو جائیں تو قبلہ کی طرف سب سے آگے عورت کے جنازے کو رکھے اسکے بعد مملوک کے جنازے کو اسکے بعد غلام کے جنازے کو اور غلام کے بعد مرد کے جنازے کو اور امام ( نماز پڑھانے والا) مرد کے جنازے کے بعد کھڑا ہو اور ان سب کیلئے ایک ہی نماز پڑھائے ۔ 

٤٩٦- یونس بن یعقوب نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے دریافت کیا کہ کیا جنازے کی نماز بغیر وضو کے پڑھی جا سکتی ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں یہ تو صرف ایک طرح کی تکبیر و تسبیح و تحمید و تہلیل ہے جس طرح تم اپنے گھر میں تعمیر و تسی کرتے ہو ۔ اور دوسری حدیث میں یہ ہے کہ اگر چاہے تو تیمم  کرلے ۔


٤٩٧- اور محمد بن مسلم نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ حائض نماز جنازہ پڑھے گی مگر مردوں کے ساتھ صف میں نہیں کھڑی ہوگی۔

٤٩٨- اور سماعہ بن مہران کی روایت میں ہے جسے اس نے حضرت امام جعفر صادق علیہ اسلام سے روایت کی ہے کہ جب کوئی حائضہ عورت جنازے کی نماز پڑھے تو تیم کرے اور جنازے کی نماز پڑھے مگر صف سے بالکل الگ اور تنہا کھڑی ہو یعنی وہ ایک طرف کھڑی ہو اور مردوں سے مخلوط نہ ہو ۔ اور شخص مجنب جب نماز جنازے کیلئے پہلے تو تیم کرے اور نماز پڑھے ۔
"
اور جب میت کو قبر کی طرف اٹھا کر لے جایا جائے تو یکبارگی نہیں اسلئے کہ قبر کی منزل بڑی ہولناک ہے ۔ اور میت کے اٹھانے والوں کو چاہیئے کہ وہ حول مطالع ( بعد موت اور قیامت کی ہولناکی) سے اللہ کی پناہ چاہتے رہیں اور قبر کے کنارے پہنچنے سے پہلے اسکو رکھدیں اور ذرا ٹہریں پھر ذرا آگے بڑھائیں اور وہاں ٹہریں تاکہ وہ قبر میں جانے کیلئے تہیہ کرے پھر اسکو تبر کے کنارے لے جائیں اور اسکو قبر میں وہ اتارے جسکو اسکا ولی اجازت دے خواہ ایک شخص اتارے خواہ دو شخص اور قبریر نظر ڈالتے وقت یہ کہا جاتا ہے اللهُمَّ اجْعَلَهُ رَوضَةً مِن رِيَاضِ الْجَنَّةِ وَ لَا تَجْعَلَهُ حَفْرَةٍ مِنْ حُفَرِ النَّيْرَانِ (اے اللہ اس کو جنت کے باغوں میں سے ایک باغ قرار دے اور جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا قرار نہ دے) 

٤٩٩- حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ قبر کی گہرائی چنبل گردن تک ہونی چاہیئے اور بعض نے کہا ہے کہ چھاتی تک اور بعض نے کہا ہے کہ پورے مرد کے قد کے برابر اتنا کہ جو شخص قبر میں اترا ہے اس کے سر پر کپڑا تا نا جاسکے ۔ لحد اتنی وسیع و کشادہ ہو کہ اس میں بآسانی بیٹھنا ممکن ہو ۔ اور حضرت ابوالحسن ثالث ( حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام) سے روایت کی گئی ہے کہ اس کی اجازت ہے کہ قبر میں درخت ساج (سانکھو) کے تختوں کا فرش کر دیا جائے اور میت کے اوپر کو سانکھو کے تختوں سے ڈھانک دیا جائے اور ہر شے کا ایک دروازہ ہے اور قبر کا دروازہ میت کے پاؤں کے قریب ہے ۔ اور عورت کو ( پائین قبر سے نہیں بلکہ) قبر کے پہلو سے لیا جائے اور اسکا شوہر ایسی جگہ کھڑا ہو کہ اسکے سرین کو سنبھال لے اور دوسرا شخص میت کے پاؤں کی طرف اور فوراً اتار دے ۔ اور میرے والد رحمہ اللہ نے اپنے اس رسالہ میں جو مجھے ارسال کیا تھا لکھا ہے کہ جب قبر میں اترو تو ام الکتاب (سورہ الحمد) اور معوذتین اور آسیہ الکرسی کی تلاوت کرو اور جب میت کو لو تو کہو بسم اللَّهِ وَبِاللَّهِ وَعَلَى مِلَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى الله عليه وآله وسلم پر اسکو اسکی لحد میں رکھدو د اپنی جانب رو بقبلہ کرو اور بند کفن کھول دو اور اسکار خسار سٹی پر رکھدو اور کہو - اللهم جَابِ الْأَرْضَ عَنْ جَنبِيْهِ وَ صَعَدَ إِلَيْكَ رُوحَهُ وَ لَقِهِ مِنْكَ رِضو انا (اے اللہ اس کے دونوں پہلوؤں سے زمین کو کشادہ کر دے اور اسکی روح کو اپنی طرف اٹھا لے اور تیری طرف سے تیری رضا اسکو حاصل ہو جائے ) ۔

٥٠٠- اور سالم بن مکرم نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ اور اس (میت) کو مٹی کا ایک تکیہ لگا دیا جائے اور اسکی پشت کے پیچھے مٹی کا ایک ڈھیلا رکھدیں تاکہ وہ بالکل چت نہ ہو جائے ۔ اور اسکے سارے بند کفن کھول دیں اور چہرے سے کفن ہٹا دیں پھر اس کیلئے دعا کریں اور کہیں ۔ اللَّهُم عَبُدُكَ وَابْنُ عَبْدِكَ وَابْن أُمَتِكَ نَزَلَ بِكَ وَأَنتَ خَيْرُ مِنْزُولِ بِهِ اللَّهُم افسح لَهُ فِى قَبْرِهِ، وَ لَقِنَهُ حُجَّتُهُ، وَالْحِقَهُ بِنَبِيِّهِ وَتِهِ شَرَ منكَر و نگیر (پروردگار تیرا بندہ تیرے بندے کا فرزند اور تیری کنیر کا فرزند تیری بارگاہ میں حاضر ہے اور تو اس کے بہترین پہنچنے کی جگہ ہے پروردگار اس کیلئے اسکی قبر میں کشادگی دے اور اسکی جنتیں اسکو تلقین کردے اور اسکو اسکے نبی سے ملحق کر دے اور اسے منکر و نکیر کے شرسے محفوظ رکھ ) پھر اپنا داہنا ہاتھ اسکے داہنے کاندھے کے نیچے داخل کرو اور اپنا بایاں ہاتھ اسکے بائیں کاندھے پر رکھو اور اسے ذرا زور سے حرکت دو اور کہو یا فلان مِن فَلَانَ اللَّهُ رَبُّكَ وَمُحَمَّدٌ نَبِيِّكَ وَالإِسْلَامُ دينكَ وَعَلِيٌّ وَلِيكَ وَإِمَامک (اے فلاں ابن فلاں (یاد رکھ کہ اللہ تیرا رب ہے محمد تیرے نبی ہیں اسلام تیرا دین ہے علی ابن ابی طالب تیرے ولی ہیں اور تیرے امام ہیں۔ پھر ائمہ طاہرین کا ایک ایک کر کے آخر تک نام لے اور کہے انمک نمةٌ هُدَى أَبْرَارا یہ سب تیرے ائمہ ہیں جو ہدایت کرنے والے ہیں اور نیکو کار ہیں ) اسکے بعد اسکو دوبارہ تلقین پڑھاؤ اور جب اس پر اینٹ رکھو تو کہو اللهم ارحم غربته وَصَلَ وَحَدَتَه وَآئِسُ وَحَشَتَهُ وَ آمِنْ رَوْعَتَهُ وَ أَشْكِنْ إِلَيْهِ مِنْ رَحْمَتِكَ رَحْمَةٌ يَسْتَغْنِى بِهَا عَنْ رَحْمَةٍ مَنْ سِوَاكَ وَاحْشُرُهُ مَعَ مَنْ كَانَ يَتَوَلاهُ (اے اللہ تو اسکی مسافرت پر رحم کر اور اسکی تنہائی کا ساتھی بن جا اور اسکی وحشت میں دل پہلا اور اسکے خوف کو امن سے بدل دے اور تو اپنی رحمت سے اس کو ایسی جگہ ساکن کر کہ تیرے علاوہ اور کسی کی رحمت کی اس کو احتیاج نہ رہے اور اسے محشور کر اسکے ساتھ جس سے یہ دوستی رکھتا ہے)
اور جب تم اسکی قبر کی زیارت کو آؤ تو قبلہ رو ہو کر اور اپنے دونوں ہاتھ قبر پر رکھ کر یہی دعا پڑھو اور جب قبر سے ہٹو تو اپنے دونوں ہاتھوں سے مٹی جھاڑتے ہوئے کہو کہ انا للہ و انا الیہ راجعون پھر اسکی قبر پر اپنی پشت دست سے تین مرتبہ مٹی ڈالو اور کہو اللهم إيمانا بِكَ وَتَصْدِ يُقَا بِكِتَابِكَ هَذَا مَا وَعَدَدْنَا اللهُ وَرَسُولَهُ وَ صَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ (اے اللہ مجھ پر ایمان رکھتے ہوئے اور تیری کتاب کی تصدیق کرتے ہوئے یہ وہ چیز ہے جس کا وعدہ ہم سے اللہ اور اسکے رسول نے کیا اور اللہ اور اسکے رسول نے سچ کہا) تو جو شخص یہ کرے گا اور کلمات زبان پر جاری کرے گا اللہ تعالٰی اسکے لئے ہر ذرہ پر ایک حسنہ لکھے

اور جب قبر برابر کر دی جائے تو اسکی قبر پر پانی ڈالو اور تم قبلہ رو ہو کر اسکی قبر کو اپنے سامنے رکھو۔ اور سر کی طرف سے پانی ڈالنا شروع کرو اور قبر کے چاروں جانب ڈالتے ہوئے پھر سر کی طرف واپس آجاؤ اور پانی کی دھار ر منقطع نہ ہو ۔ اور جو فاضل پانی بچ رہے اسکو قبر کے وسط میں ڈال دو پھر قبر پر ہاتھ رکھو اور میت کیلئے دعا اور استغفار کرو۔


٥٠١- یحییٰ بن عبداللہ سے روایت کی گئی ہے کہ انہوں نے کہا کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ تم لوگوں میں سے جو اہل میت ہیں انکو کیا ہو گیا ہے کہ وہ اپنی میتوں کو منکر و نکیر کی ملاقات سے نہیں بچاتے ۔ میں نے عرض کیا ہم لوگ اس کیلئے کیا کریں ؟ تو آپ نے فرمایا جب سب لوگ ہٹ جائیں اور) میت تنہا رہ جائے تو ان میں جو میت کا سب سے زیادہ حقدار ہے وہاں ٹھر جائے اور اپنا منہ اسکے سر کے پاس رکھے اور بلند آواز سے پکارے ۔ یا فلان ابن فلان يا يا فلانته بِنْتِ فَلانٍ - هَلْ أَنتَ عَلَى الْعَهْدِ الَّذِى فَارَقْنَاكَ عَلَيْهِ مِنْ شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَكَ و أن محمدا عبده ورسوله سيد النبيِّينَ وَ أَن عليها أمير المؤمنين وَ سَبَدَ الْوَصِيْنَ وَأَنَّ مَا جَاءَ بِهِ مَحَمَّد صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلّمْ حَق وَ أنّ الموتَ حَقٌّ وَالْبَعثَ حق الساعة آتية لا ريبَ فِيهَا وَ أَنَّ اللَّهَ يَبْعَتْ مَنْ فِي القبور (اے فلاں ابن فلاں یا اے عورت فلاں کی بیٹی کیا تو اپنے اس عہد پر قائم ہے کہ جس پر ہم لوگوں نے تجھے چھوڑا ۔ اس بات کی گواہی پر کہ نہیں ہے کوئی اللہ سوائے اللہ کے وہ اکیلا ہے اسکا کوئی شریک نہیں ۔ محمد اسکے بندے اور اسکے رسول ہیں اور نبیوں کے سردار ہیں اور علی ابن ابی طالب امیر المومنین اور اوصیاء کے سردار ہیں ۔ اور جو کچھ بھی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے ساتھ پیغام لائے حق ہے اور موت حق ہے اور دوبارہ زندہ ہو نا حق ہے اور قیامت کے آنے میں کوئی شک نہیں ہے اور اللہ دوبارہ اٹھائے گا ان لوگوں کو جو قبروں میں ہیں) جب وہ کہے گا تو منکر و نکیر کہیں گے کہ اب ہم لوگوں کو اس سے واپس جانا چاہیئے اسلئے کہ اسکو اسکی حجت کی تلقین کر دی گئی ہے ۔