باب پانی اور اس کی طہارت و نجاست
شیخ سعید فقیہ ابو جعفر محمد بن علی بن حسین بن موسیٰ بن بابویه قمی مصنف کتاب ہذار حمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے ” و انزلنا من السماء ماء طهورا “ (ہم نے آسمان سے پاک و پاکیزہ پانی نازل کیا) (سورہ الفرقان آیت نمبر ۴۸) نیز ارشاد باری تعالی ہے " و انزلنا من السماء بقدر فاسكنه فى الارض وإنا على ذهاب به لقادردن. اور ہم نے ہی آسمان سے ایک اندازے کے ساتھ پانی برسایا پھر اسکو زمین میں شہرائے رکھا اور ہم یقیناً اسکو غائب کر دینے پر قابو رکھتے ہیں ) (سورہ مومنون آیت نمبر ۱۸) نیز اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے ینزل عليكم من السماء ماء ليطهركم به ( تم پر آسمان سے پانی برساتا رہا تا کہ اس سے تمہیں پاک و پاکیزہ کر دے) (سورہ انفال آیت نمبر 1) اس سے معلوم ہوا کہ دراصل سارا پانی آسمان سے نازل ہوتا ہے اور وہ سب کا سب پاک و پاکیزہ ہے اور دریا کا پانی پاک ہے اور کنوئیں کا پانی بھی پاک ہے۔
حدیث ١-٣٥
١- حضرت امام جعفر صادق بن محمد علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ ہر پانی پاک و طاہر ہے جبتک کہ تم یہ نہ جان لو کہ وہ نجس ہو گیا ہے ۔
٢- نیز آپ نے ارشاد فرمایا کہ پانی دوسری چیز کو پاک کرتا ہے اور کسی دوسری چیز سے پاک نہیں کیا جاتا ۔ لہذا جب تم پانی پاؤ اور تمہیں اس میں کسی نجاست کا علم نہ ہو تو اس سے وضو کر لو ( اور پینا چاہو تو) اسے پیو، اگر تم کو اس میں کوئی ایسی چیز ملے جس نے اس کو نجس کر دیا ہے تو نہ اس سے وضو کرو اور نہ اس کو پیو لیکن حالت اضطرار اور مجبوری میں اسے پی سکتے ہو مگر وضو نہیں کر سکتے بلکہ (وضو کے بدلے) تیم کرو گے ہاں اگر وہ پانی ایک کرسے زیادہ ہے تو تم اس سے وضو بھی کر سکتے ہو اور اس میں سے پی بھی سکتے ہو خواہ اس میں کوئی (نجس) چیز پڑی ہو یا نہ پڑی ہو ۔ جبتک کہ اس چیز کے پڑنے سے پانی کی بو نہ بدل جائے اگر پانی کی بو بدل گئی ہے تو نہ اس میں سے پیو اور نہ اس سے وضو کرو اور ایک کر پیمائش میں تین بالشت لمبائی تین بالشت چوڑائی اور تین بالشت گہرائی ہے اور وزن میں ایک ہزار دو سو رطل مدنی (۳۷۷ کلوگرام) ہے۔
٣- اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ جب پانی دو قلہ کی مقدار میں ہو تو اسکو کوئی شے نجس نہیں کرتی اور دو قلہ یعنی دو بڑے مٹکے (جو دونوں مل کر ایک کر کے برابر ہو جائیں) اور وہ پانی جس کو آفتاب نے گرم کر دیا ہو اس سے نہ تم وضو کرو نہ غسل جنابت کرو اور نہ آٹا گوندھو اس لئے کہ یہ مرض برص پیدا کرتا ہے ۔ اور اگر کوئی شخص آگ سے گرم کئے ہوئے پانی سے وضو کرے تو کوئی حرج نہیں ۔ اور پانی کو فاسد و نجس صرف وہی چیز کرتی ہے جو بہتا ہوا خون رکھتی ہو اور ہر وہ شے جس میں خون نہ ہو پانی میں گر جائے وہ مرے یا نہ مرے اس پانی کے استعمال میں اور اس سے وضو کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔ اور اگر تمہارے پاس دو برتنوں میں پانی ہو اور ایک میں کوئی ایسی چیز گر جائے جو پانی کو نجس کر دیتی ہے اور تمہیں نہ معلوم کہ وہ ان دونوں میں سے کسی برتن میں گری ہے تو ان دونوں کے پانی کو بہا دو اور تیم کر لو ۔ اور اگر دو پر نالے بہہ رہے ہیں ایک سے پیشاب بہہ رہا ہے اور ایک سے پانی بہہ رہا ہے تو پھر دونوں آپس میں مخلوط ہو کر بہہ رہے ہیں اور اس سے تمہارے کپڑے آلودہ ہو جائیں تو کوئی حرج نہیں ۔
٤- ہشام بن سالم نے ایک مرتبہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایک ایسی چھت کے متعلق سوال کیا جس پر پیشاب کیا جاتا ہے چنانچہ آسمان سے پانی برسا اور چھت ٹپکنے لگی جس سے کپڑے آلودہ ہو گئے ؟ آپ نے فرمایا اگر پانی اس پر زیادہ برس گیا ہے تو کوئی حرج نہیں ۔
٥- نیز آں جناب سے بارش کی اس کیچڑ کے متعلق دریافت کیا گیا جس میں پیشاب، پاخانہ اور خون سب کچھ ہے اور اس سے کپڑا آلودہ ہو گیا ؟ آپ نے فرمایا بارش کی کیچڑ نجس نہیں کرتی ۔
٦- ایک مرتبہ علی بن جعفر نے اپنے بھائی حضرت امام موسیٰ بن جعفر علیہ السلام سے اس گھر کے متعلق دریافت کیا جس کی پشت پر پیشاب کیا جاتا ہے اور غسل جنابت کیا جاتا ہے اور اس پر بارش ہوئی تو کیا اس کا پانی لیکر نماز کیلئے وضو کیا جاسکتا ہے ؟ آپ نے فرمایا اگر بارش کا پانی جاری ہو جائے تو کوئی حرج نہیں ہے ۔
٧- نیز انہوں نے آنجناب سے ایک ایسے شخص کے متعلق دریافت کیا جو بارش کے پانی سے گزر رہا ہے اور اس پانی میں شراب بھی ہے ایسے پانی سے اس کے کپڑے آلودہ ہو گئے کیا وہ شخص اپنے کپڑے کو دھونے سے پہلے اس کپڑے میں نماز پڑھے ؟ آپ نے فرمایا وہ شخص نہ اپنے کپڑے دھوئے اور نہ پاؤں دھوئے اس میں نماز پڑھے اس میں کوئی حرج نہیں ۔
٨- ایک مرتبہ عمار ساباطی نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے قئے کے متعلق سوال کیا کہ جس سے کپڑا آلودہ ہو گیا تو کیا اسے نہ دھوئے ؟ آپ نے فرمایا (اگر نہ دھوئے تو) کوئی حرج نہیں ۔
٩- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہر وہ جانور جو جگالی کرتا ہے اس کا جھوٹا اور اس کا لعاب دہن حلال ہے
١٠- ایک مرتبہ دیہات سے کچھ لوگ آنحضرت کی خدمت میں آئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ہمارے پانی کے حوض پر پانی پینے کیلئے درندے کتے اور دیگر جانور سب ہی آتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا جو پانی انہوں نے اپنے منہ سے لے لیا ہے وہی اُنکا ہے بقیہ تم سب لوگوں کا ہے اور اگر پانی میں سے کوئی چوپایہ یا گدھا یا خچر یا بکری یا کوئی گائے پانی پی لے تو اس کے استعمال میں ، اس سے وضو کرنے میں کوئی حرج نہیں اور اگر پانی کے برتن میں چھپکلی گر جائے تو اس سارے پانی کو بہا دو اور اگر اسی پانی میں کتے کا تھوک پڑ گیا ہے یا اس نے اس میں سے پانی پی لیا ہے تو اس برتن کا سارا پانی بہا دیا جائے اور اس برتن کو تین مرتبہ دھویا جائے ایک مرتبہ مٹی سے مانجھ کر اور دو مرتبہ صرف پانی سے پھر اس برتن کو خشک کر لیا جائے ۔ اور وہ پانی کہ جس میں سے بلی نے پیا ہو اس سے نہ وضو کرنے میں کوئی حرج ہے اور نہ اس کے پینے میں کوئی حرج ہے۔
١١- اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا ہے کہ میں نہ اس چیز کے کھانے سے منع کرتا ہوں جس میں سے بلی نے کھایا ہو اور نہ اس مشروب کے پینے سے منع کرتا ہوں جس میں سے بلی نے پیا ہو ۔
اور یہودی و نصرانی ولد الزنا و مشرک اور ہر مخالف اسلام کے جھوٹے پانی سے وضو کرنا جائز نہیں اور ان سب سے زیادہ شدید ناصبی (دشمن اہلبیت) کا جھوٹا ہے ۔ حمام کا پانی آب جاری کے حکم میں ہے جب کہ اس کا کوئی ذخیرہ ہو ۔
١٢- نیز حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے اس پانی کے متعلق جس میں چوپائے پیشاب کرتے ہیں اور کتے الاغ کرتے اور لوگ اس میں غسل جنابت کرتے ہیں فرمایا کہ اگر وہ پانی ایک کرکی مقدار میں ہے تو اسکو کوئی شے نجس نہیں کرے گی۔
١٣- حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر بنی اسرائیل میں سے کسی کے جسم پر پیشاب کا ایک قطرہ بھی لگ جاتا تو وہ اس حصے کو قینچی سے کاٹ دیا کرتے تھے اور تم لوگوں کو تو اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کے درمیان کی کشادگی سے بھی زیادہ یہ کشادگی عطا فرمائی ہے کہ اللہ تعالٰی نے تم لوگوں کیلئے پانی کو پاک اور طاہر کنندہ قرار دیا ہے لہذا دیکھنا ہے کہ تم لوگ اس کی اس عنایت کے بعد بھی کسی طرح رہتے ہو اور اگر پانی کے مٹکے میں کوئی سانپ داخل ہو اور نکل جائے تو اس پانی میں سے تین چلو پانی نکال کر پھینک دو اور باقی کو استعمال کرو اور اس میں قلیل و کثیر پانی سب برابر ہے ۔ اور اگر خنزیر (سور) کے بالوں کی بنی ہوئی رسی سے آبپاشی کیلئے پانی کھینچا جائے تو کوئی حرج نہیں ۔
١٤- حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے دریافت کیا گیا کہ اگر جلد خنزیر (سور کی کھال) سے بنے ہوئے ڈول سے آبپاشی کیلئے پانی کھینچا جائے تو آپ نے فرمایا اس میں کوئی حرج نہیں ۔
١٥- حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے دریافت کیا گیا کہ اگر ( ذبح کئے ہوئے جانور کے) مردہ چپڑے میں دودھ اور پانی اور گھی وغیرہ رکھدیا جائے تو اسکے متعلق آپ کی کیا رائے ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ اس کے اندر رکھنے میں کوئی حرج نہیں ، دودھ اور گھی کچھ بھی چاہے رکھو اور اس سے وضو کر دیا وہ پانی پیو لیکن اس پانی سے وضو کر کے) نماز نہ پڑھو ۔
اور غسل جنابت یا غسل حیض کئے ہوئے فاضل پانی سے جبکہ اسکے علاوہ اور دوسرا پانی نہ ملے تو اس سے وضو کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔ اور اگر کوئی شخص نجاست سے متغیر پانی سے وضو کرے یا غسل کرے یا اپنے کپڑے دھوئے تو اس پر لازم ہے کہ پانی مل جائے تو) دوبارہ وضو کر کے غسل کرے دوبارہ نماز پڑھے دوبارہ اپنے کپڑے دھوئے اور اس برتن کو بھی جس میں یہ پانی لیا ہے دوبارہ دھوئے ۔ اور اگر کوئی شخص حمام میں گیا اور اس کے پاس کوئی ایسی چیز نہیں جس سے وہ پانی نکالے اور اسکے دونوں ہاتھ گندے ہوں تو بسم اللہ کہہ کر اپنے ہاتھ پانی میں ڈال دے اور یہ ان مواقع میں سے ہے جس کے متعلق اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے کہ ماجعل عليكم في الدين من خرج “ اور امور دین میں تم لوگوں پر کسی طرح کی سختی نہیں ہے ) (سورہ الحج آیت نمبر ۷۸) اور اس طرح ایک وہ شخص جو حالت جنابت میں ہے اور راستہ میں اس کو کہیں آب قلیل مل جائے اور اس کے پاس کوئی ایسا برتن نہ ہو کہ جس سے وہ پانی نکالے اور اس کے دونوں ہاتھ گندے ہوں تو وہ بھی ایسا ہی کرے ۔
١٦- ایک مرتبہ حضرت علی علیہ السلام سے دریافت کیا گیا کہ مسلمانوں کی ایک جماعت کے وضو کئے ہوئے فاضل پانی سے وضو کیا جائے یا آپ کو یہ پسند ہے کہ چھوٹی سی صاف ڈھکی ہوئی چھاگل سے پانی نکال کر) وضو کیا جائے ؟ آپ نے فرمایا نہیں بلکہ مسلمان کی جماعت کے وضو کئے ہوئے فاضل پانی سے ، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کو تمہارا وہ دین زیادہ پسند ہے جو سیدھا سادہ معتدل اور آسان ہو ۔ اور اگر کوئی مسلمان کسی کا فرزمی کے ساتھ حمام میں جمع ہو جائے تو مسلمانوں کو اس ذمی سے پہلے حوض میں غسل کر لینا چاہیئے اور حمام کے غسلہ (غسل میں استعمال شدہ پانی سے طہارت کرنا جائز نہیں اسلئے کہ اس میں یہودی و مجوسی و نصرانی اور دشمنان آل محمد کا غسالہ بھی جمع ہے جو ان سب سے زیادہ برا ہے ۔
١٧- ایک مرتبہ حضرت ابوالحسن امام موسی بن جعفر علیہ السلام سے سوال کیا گیا کہ حمام میں لوگوں کے غسل میں استعمال کردہ پانی جمع تھا اس کی چھینٹ کپڑے پر آپڑی ؟ آپ نے فرمایا کوئی حرج نہیں ۔ اور وضو میں استعمال شدہ پانی سے بھی وضو کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب وضو فرمایا کرتے تو لوگ انکے وضو سے گرا ہوا پانی لے لیا کرتے اور اس سے وضو کیا کرتے تھے ۔ اور وہ پانی جس سے ایک شخص نے صاف ستھرے برتن میں وضو کیا ہے اگر اس پانی کو لے کر ایک دوسرا شخص وضو کرے تو کوئی حرج نہیں ۔ لیکن وہ پانی جس سے کپڑا دھویا گیا ہے یا جس سے غسل جنابت کیا گیا ہے یا جس سے نجاست دور کی گئی ہے اس سے وضو نہیں کیا جائے گا۔
١٨- ایک مرتبہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے اس پانی کے متعلق دریافت کیا گیا جس میں مرغی نے منہ ڈال دیا ہے ؟ آپ نے فرمایا اگر اس کی چونچ میں گندگی اور نجاست لگی ہوئی تھی تو پھر نہ اس سے وضو کیا جائے گا اور نہ اسے پیا جائے گا اور اگر اسکی چونچ کی نجاست کا علم نہ ہو تو اس سے وضو بھی کر سکتے ہیں اور اسے پی بھی سکتے ہیں ۔ اور ہر وہ جانور کہ جس کا گوشت کھانا حلال ہے اگر وہ کسی پانی میں سے پی لے تو اس پانی سے وضو کر سکتے ہیں اور اسے پی سکتے ہیں اور اس پانی سے وضو کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں جس میں سے باز یا شکرے یا عقاب نے پانی پیا ہو جبکہ اس کی چونچ میں خون لگا ہوا نظر نہ آئے اور اگر اس کی چونچ میں خون لگا ہوا نظر آئے تو اس سے ہر گز نہ وضو کرنا چاہیئے اور نہ اسے پینا چاہیئے اور اگر کسی شخص کی نکسیر پھوٹی اور اس نے اپنی ناک صاف کی اور اس نکسیر کا کوئی چھوٹا سا قطرہ کسی پانی کے برتن میں پڑ گیا تو اگر وہ قطرہ اس پانی میں صاف نظر نہیں آتا تو اس پانی سے وضو کرنے میں کوئی حرج نہیں اور اگر صاف نظر آئے تو اس سے ہر گز نہ وضو کرنا چاہیئے اور نہ پینا چاہیئے اور اگر مرغی یا کوئی اور چڑیا کسی ایسی چیز میں چل رہی ہے جس میں گندگی اور نجاست ہے پھر وہ پانی میں داخل ہو جائے تو اس پانی سے وضو جائز نہیں مگر یہ کہ وہ پانی ایک کر سے زیادہ ہو تو کوئی حرج نہیں ۔ اور اگر کوئی مردہ چوہیا یا چوہا یا کوئی چھوٹی چڑیا جیسے بیا، کنجشک وغیرہ پانی کے ڈول میں گر جائے اور اس میں پھٹ جائے تو اس پانی کا نہ پینا جائز ہے اور نہ اس سے وضو جائز ہے اور اگر وہ پھٹی نہیں ہے تو اس پانی کے پینے یا اس سے وضو کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور اس مردہ چیز کو اگر وہ تازہ ہے پھینک دیا جائے اور یہی حکم مشکی بڑے مٹکےاور مشک اور اس طرح کے پانی کے ہر برتن کا ہے ۔ اور اگر کوئی چوہا یا اس طرح کا کوئی جانور پانی کے کنوئیں میں گر کر مرجائے اور اس پانی سے آٹا گوندھ لیا جائے تو اس روٹی کے کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے جبکہ وہ آگ سے سینکی جاچکی ہو ۔
١٩- حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ آگ جو کچھ اس میں تھا اسے کھا گئی۔ اور اگر کسی ایسے برتن میں جس کے اندر گھی یا تیل یا شہر ہے کوئی چوہا گر جائے اور وہ منجمد ہو تو اس چوہے کو اور اسکے اطراف کو نکال کر پھینک دیا جائے گا اور باقی کو استعمال کیا جائے گا اور کھایا جائے گا اور یہی حکم آئے اور اسکے مشابہ چیزوں کیلئے بھی ہے ۔ اور اگر چوہا کسی ایسے روغن میں گر جائے جو منجمد نہ ہو تو اس سے چراغ جلانے میں کوئی حرج نہیں ۔ اور اگر کوئی چوہا کسی تیل کے مٹکے میں گر جائے اور اسکے مرنے سے پہلے اسکو نکال لیا جائے تو اس تیل سے اگر جسم پر مالش کی جائے یا اگر کسی مسلمان کے ہاتھ فروخت کر دیا جائے تو کوئی حرج نہیں ہے ۔
٢٠- حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایک ایسے کنوئیں کے متعلق سوال کیا گیا کہ جس میں سے پانی کھینچا گیا پھر اس سے وضو کیا گیا یا اس سے کپڑا دھویا گیا اور آٹا گوندھا گیا پھر بعد میں معلوم ہوا کہ اس میں کوئی چیز مری ہوئی ہے ؟ تو آپ نے فرمایا کوئی حرج نہیں ہے نہ کپڑے کو دوبارہ دھویا جائے گا اور نہ دوبارہ وضو کر کے دوبارہ نماز پڑھی جائیگی ۔ اور اگر کوئی چوہا یا کوئی کتا روٹی میں سے کچھ کھالے یا اس کو سونگھ لے تو جس قدر اس نے سونگھا ہے اس کو چھوڑ کر بقیہ کو کھایاجا سکتا ہے اس حوض سے وضو کرنے میں کوئی حرج نہیں جس میں پیشاب کیا گیا ہے جبکہ پانی کا رنگ پیشاب پر غالب ہو اور اگر پانی کے رنگ پر پیشاب کا رنگ غالب ہو تو اس سے وضو نہیں کیا جا سکتا ۔ اور دودھ سے وضو کرنا جائز نہیں اسلئے کہ وضو صرف پانی سے ہوگا یا (تیم) صرف مٹی سے اور وہ پانی جس میں کھجور یا انگور ڈال دیئے گئے ہوں اس سے وضو کرنے میں کوئی حرج نہیں اس لئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی کبھی ایسے پانی سے بھی وضو کیا ہے کہ جس میں کھجور میں ڈال دی گئیں تھیں اور اوپر کا پانی صاف و شفاف تھا ہاں اگر کھجوریں پانی کے رنگ کو متغیر کر دیں تو اس سے وضو جائز نہیں اور اصل میں وہ نبیدا (یعنی کھجور کا جوشاندہ) کہ جس سے وضو کیا جاسکتا ہے یا اسے پیا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ جسے دن کو بھگویا جائے اور شام کو پیا جائے یا شام کو بھگو یا جائے اور صبح کو پیا جائے اور اگر کوئی شخص ایک نشیب زمین میں یا گڑھے میں غسل کر رہا ہے اور ڈر ہے کہ اسکے جسم کا (غسالہ) دھوون اس پانی میں مل جائے گا جس سے وہ غسل کر رہا ہے تو اس کو چاہیئے کہ وہ ہاتھ میں پانی لے اور اپنے جسم کے سامنے والے حصہ پر ڈالے پھر ہاتھ میں پانی لے اور اپنے داہنے حصہ کی طرف ڈالے پھر ہاتھ میں پانی لے اور بائیں حصہ کی طرف ڈالے پھر ہاتھ میں پانی لے اور پچھلے حصہ کی طرف ڈالے اور اس طرح غسل کرے ۔ اور وہ پانی کہ جس سے استنجا کیا گیا ہے اسکی چھینٹ کپڑے یا جسم کے کسی حصے پر پڑجائے تو کوئی حرج نہیں (وضو کرنے میں) اگر ہاتھ سے پانی ٹپک کر برتن میں پڑ جائے یا زمین پر گر کر اسکی چھینٹ برتن میں پڑ جائے تو کوئی حرج نہیں اور یہی حکم غسل جنابت میں بھی ہے ۔ اور اگر آب جاری میں کوئی مردہ جانور پڑا ہوا ہو تو دوسری جانب سے جدھر کوئی مردہ جانور پڑا ہوا نہ ہو۔ وضو کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔
٢١- حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے اس آب ساکن کے متعلق دریافت کیا گیا جس میں کوئی سڑا مردہ جانور پڑا ہوا ہے ؟ تو آپ نے فرمایا دوسری جانب سے وضو کرو ۔ اور جدھر مردہ جانور ہے ادھر وضو نہ کرو۔
٢٢- اور آن جناب سے ایک ایسے تالاب کے متعلق دریافت کیا گیا جس میں کوئی سڑا ہوا مردہ جانور پڑا ہوا ہے ؟ تو آپ نے فرمایا اگر اس پر پانی غالب ہے اور اس میں کوئی بو وغیرہ نہیں آتی تو اس سے وضو اور غسل کر لو ۔
اور اگر سفر میں کوئی جنب ہو جائے اور اسے برف کے سوا کہیں پانی نہیں مل رہا ہے تو کوئی حرج نہیں اگر وہ برف سے غسل کرلے یا برف سے وضو کر لے اور اس کو اپنی جلد پر پھرانے ۔ اور کوئی حرج نہیں اگر حالت جنابت میں کوئی شخص اپنے چلو سے پانی نکالے ۔
اور اگر کوئی شخص غسل جنابت کر رہا ہے اور زمین پر پانی گر کر اسکی چھینٹ برتن میں پڑ رہی ہے یا جسم سے پانی ٹپک کر برتن میں پڑ رہا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
اور اس میں کوئی حرج نہیں کہ مرد اور عورت دونوں ایک برتن سے غسل کریں لیکن چاہیئے کہ عورت مرد کے فاضل پانی سے غسل کرے مرد عورت کے فاضل پانی سے غسل نہ کرے ۔
اور کوئی انسان کنوئیں میں گر کر مر جائے تو اس کنوئیں سے ستر (۷۰) ڈول پانی نکال دینا چاہیئے اور چھوٹی سے چھوٹی چیز جو کنوئیں میں گر کر مرتی ہے وہ کنجشک چڑیا ہے اس کیلئے ایک ڈول پانی نکالنا چاہیئے ۔ اور انسان اور کنجشک کے درمیان میں جس مقدار کی چیز اس میں گر کر مرے اس کی حیثیت سے اس میں سے پانی نکالا جائے گا ۔ پس اگر کوئی چوہیا گر کر مرے اور ابھی پھٹ کر پاش پاش نہ ہو تو اس کیلئے ایک ڈول نکالا جائے اور اگر پھٹ کر پاش پاش ہو گئی ہے تو سات ڈول ۔ اور اگر کوئی گدھا گر جائے تو اس کیلئے ایک کر پانی نکالا جائے اور اگر اس میں کتا گر جائے تو اس میں سے تیس سے چالیس ڈول تک پانی نکالا جائے ۔ اور اگر اس میں بلی گر جائے تو اس میں سے سات ڈول نکالا جائے ۔ اور اگر مرغی یا کبوتر گر کر مرجائے تو اس کیلئے سات ڈول پانی نکال دیا جائے اور اگر کوئی اونٹ یا بیل گر کر مر گیا ہے یا اس میں شراب گر گئی ہے تو کنوئیں کا کل پانی نکال دیا جائے گا۔ اور اگر اس میں خون کے چند قطرے گر گئے تو اس میں سے چند ڈول نکال دیا جائے اور اگر کنوئیں میں کسی انسان نے پیشاب کر دیا ہے تو اس میں سے چالیس ڈول پانی نکال دیا جائے گا اور اگر کسی ایسے بچے نے پیشاب کر دیا ہو کہ جو غذا کھانے لگا ہو تو تین ڈول اور اگر شیر خوار ہو تو ایک ڈول ۔ اور اگر خشک یا تر غلاظت کی ایک ٹوکری کنوئیں میں گر جائے یا گوبر کی ایک ٹوکری کنوئیں میں گر جائے تو اسکے پانی سے وضو کرنے میں کوئی حرج نہیں اور اس میں سے کوئی پانی نہیں نکالا جائے گا مگر یہ اس وقت جبکہ اس ٹوکری میں سے کوئی شے بھی کنوئیں میں نہ گری ہو ۔ ہاں اگر اس میں سے کچھ غلاظت کنویں میں گری ہے تو دس ٠(١٠ ) ڈول اور اگر وہ غلاظت اس میں گھل گئی ہے تو اس کنوئیں سے چالیس سے لیکر پچاس ڈول تک پانی نکال دیں گے اور اگر کنوئیں کے پہلو میں کوئی بیت الخلا بنانا ہے اور وہاں کی زمین سخت ہے تو ان دونوں کے درمیان پانچ ہاتھ کا فاصلہ ہونا چاہیئے اور زمین نرم ہے تو سات ہاتھ کا فاصلہ ہونا چاہیئے۔
٢٣ - حضرت امام رضا علیہ السلام نے فرمایا کہ کنوئیں کے قریب اور دور ہونے میں کوئی کراہت نہیں اگر کنوئیں کا پانی متغیر نہیں ہوتا تو اس سے وضو اور غسل کر سکتے ہیں ۔
٢٤- ابو بصیر سے روایت ہے ان کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ ایک ایسے مکان میں اترے جس میں ایک کنواں تھا اور اسکے پہلو میں ایک گندی نالی تھی ان دونوں کے درمیان تقریباً دو ہاتھ کا فاصلہ تھا تو لوگوں نے اسکے پانی سے وضو کرنے سے منع کر دیا یہ ان لوگوں کو شاق گزرا تو ہم لوگ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے سب حال بیان کیا تو آپ نے فرمایا تم لوگ اس کنوئیں کے پانی سے وضو کر و اسلئے کہ اس گندی نالی کا بہاؤ ایک وادی کی طرف ہے اور وہ بہہ کر دریا میں گر جاتی ہے ۔ اور جب کنوئیں میں کوئی ایسی شے گر جائے کہ جس سے پانی کی بو متغیر ہو جائے تو واجب ہے کہ اس کا کل پانی کھینچ کر پھینک دیا جائے اور اگر پانی بہت زیادہ ہو اور سب کا کھینچنا مشکل ہو تو واجب ہے کہ اسکے لئے چار مرد رکھے جائیں جو صبح صادق سے شام تک باری باری سے کھینچیں اسطرح کہ ڈول دو مرد کھینچیں جب وہ تھک جائیں تو دو اور کھینچیں اسی کو تراویح کہتے ہیں) اور کوئی گرم پانی کا چشمہ ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس میں سے پانی پینے کو منع فرمایا اس سے وضو کرنے کو منع نہیں فرمایا ہے اور یہ وہ گرم پانی ہے جو پہاڑوں میں ہوتا ہے جس سے گندھک کی بو آتی ہے ۔ امام علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ جہنم کا ایک ابال ہے ۔
٢٥- اور اگر انگور یا کھجور کی شراب کسی گندھے ہوئے آٹے میں ٹپک پڑے تو سب فاسد اور خراب ہو گیا مگر اس کو کسی یہودی و نصرانی کے ہاتھ بتا دینے کے بعد فروخت کرنے میں کوئی ہرج نہیں اور اسطرح جو کی شراب بھی ۔
٢٦- ایک مرتبہ عمار بن موسیٰ ساباطی نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے دریافت کیا کہ ایک شخص کو اپنے پانی کے برتن میں ایک مری ہوئی چوہیا ملی اور وہ اس سے پہلے کئی بار وضو اور غسل کر چکا ہے اور اپنے کپڑے دھو چکا ہے اور اس چوہیا کی کھال تک ادھڑ چکی تھی ، تو آپ نے فرمایا اگر وضو یا غسل یا کپڑا دھونے سے پہلے اس نے چوہیا کو برتن میں دیکھ لیا تھا اور اسکے بعد بھی اس نے یہ سب کچھ کیا تو اس پر واجب ہے کہ دوبارہ ان تمام چیزوں کو دھوئے جو اس پانی سے آلودہ ہوئی ہیں اور دوبارہ وضو کرے اور دوبارہ نماز پڑھے اور اگر اس نے ان چیزوں سے فراغت کے بعد برتن میں چوہیا کو دیکھا ہے تو اب اس پانی سے کسی اور چیز کو مس نہ کرے اور اس پر کچھ نہیں اسلئے کہ اسے یہ نہیں معلوم کہ یہ چوہیا پانی میں کب گری پھر فرمایا اور ہو سکتا ہے کہ جس وقت اس نے اس کو دیکھا ہے اس وقت گری ہو ۔
٢٧- اور ایک مرتبہ علی ابن جعفر نے اپنے بھائی حضرت امام موسیٰ بن جعفر علیہ السلام سے دریافت کیا کہ ایک شخص حالت جنابت میں ہے وہ بارش میں کھڑا ہو جائے اور اپنا سر دھوئے اور پورا جسم دھوئے حالانکہ وہ دوسرے پانی سے بھی غسل کر سکتا ہے تو کیا وہ غسل جنابت سے مستغنی ہو جائیگا آپ نے فرمایا اگر اس نے (اس نیت سے) غسل کیا ہے اور سارا جسم دھویا ہے تو پھر وہ مستغنی ہے ۔
٢٨- روایت کی گئی ہے اسحاق بن عمار سے اور انہوں نے روایت کی ہے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے کہ حضرت محمد باقر علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ اگر چوہا کسی برتن سے پانی پی لے اور تم اس سے پانی پیو یا وضو کرو تو کوئی حرج نہیں ہے اور اگر کوئی چھپکلی کنوئیں میں گر جائے تو تم اس میں سے تین ڈول پانی کھینچ کر پھینک دو۔ اور اگر کوئی شخص ایک پرندہ جیسے مرغی یا کبوتر ذبیح کرے اور وہ مع اپنے خون کے کنوئیں میں گر جائے تو اس میں سے ایک ڈول پانی کھیچ کر پھینک دے ۔
٢٩- اور ایک مرتبہ علی بن جعفر نے اپنے بھائی حضرت امام موسی بن جعفر علیہ السلام سے دریافت کیا کہ ایک شخص نے بکری ذبح کی وہ تڑپ کر پانی کے کنوئیں میں گر گئی اسکی گردن کی رگوں سے خون جاری تھا اس کنوئیں کے پانی سے وضو کیا جا سکتا ہے ؟ آپ نے فرمایا اس کنوئیں سے تیس (۳۰) سے چالیس (۴۰) ڈول تک پانی نکال کر پھینک دیا جائے اسکے بعد اس میں سے وضو کیا جائے ۔
٣٠- اور ایک مرتبہ یعقوب بن عثیم نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے دریافت کیا کہ ایک کنواں ہے اس کا پانی مہک رہا ہے اور اس میں سے چند کھال کے ٹکڑے بھی نکلتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا یہ کوئی بات نہیں چھپکلی کبھی کبھی اپنی کھال چھوڑ دیا کرتی ہے تمہارے لئے اس میں سے ایک ڈول پانی نکال کر پھینک دینا کافی ہے ۔
٣١- اور جابر بن یزید جعفی نے ایک مرتبہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے سام ابرص ( چھپکلی سے بڑا ایک جانور) کے متعلق دریافت کیا کہ وہ کنوئیں میں گر گئی ؟ آپ نے فرمایا یہ کوئی چیز نہیں ڈول سے پانی کو حرکت دیدو۔
٣٢- اور ان ہی جناب سے یعقوب بن عثیم نے سام ابرص (بڑی چھپکلی کے مانند ایک جانور) کے متعلق دریافت کیا کہ ہم نے اسے کوئیں میں ٹکڑے ٹکڑے پایا ؟ تو آپ نے فرمایا تمہیں لازم ہے کہ اس میں سے سات ڈول پانی کھینچ کر پھینک دو رادی کا بیان ہے کہ میں نے عرض کیا پھر اس سے دھوئے ہوئے لباس میں تو ہم نے نماز بھی پڑھی ہے تو کیا اس کو دھوئیں اور دوبارہ پھر سے نماز پڑھیں ؟ آپ نے فرمایا نہیں ۔ اور اگر کوئی عطایہ (چھپکلی کے مانند ایک جانور) دودھ میں گر جائے تو سارا دودھ حرام ہو جائے گا اور کہا جاتا ہے کہ اس میں زہر ہوتا ہے ۔ اور اگر کوئی بکری یا اسکے مانند کوئی جانور کنوئیں میں گر جائے تو اس میں سے نو ، دس ڈول پانی نکال کر پھینک دیا
جائے گا۔
٣٣- حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے بیان فرمایا کہ شہر مدینہ کے اندر کوڑے خانہ کے درمیان ایک کنواں تھا جب ہوا چلتی تو کوڑا کرکٹ اڑ کر اس کنوئیں میں گر جاتا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی کنوئیں کے پانی سے وضو فرمالیا کرتے تھے ۔
٣٤- اور ایک مرتبہ محمد بن مسلم نے ۔ زرت امام محمد باقر علیہ السلام سے ایک ایسے کنوئیں کے متعلق دریافت کیا جس میں کوئی مردار چیز ہے ؟ تو آپ نے فرمایا اگر اس میں بو پیدا ہو گئی ہے تو ہیں (۲۰) ڈول پانی نکال کر پھینک دیا جائے گا
٣٥- کردویہ ہمدانی نے ایک مرتبہ حضرت امام ابو الحسن موسیٰ بن جعفر علیہ السلام سے ایک ایسے کنوئیں کے متعلق دریافت کیا جس میں راستہ کا پانی اور لوگوں کا پیشاب پاخانہ ۔ نیز جانوروں کا پیشاب اور گوبر اور کتوں کا پاخانہ داخل ہو جاتا ہے ، تو آپ نے فرمایا کہ اس میں سے تھیں (۳۰) ڈول پانی نکال کر پھینک دیا جائے خواہ اس میں بدبو بھی آگئی ہو ۔ اور کسی شخص کیلئے یہ جائز نہیں کہ آب راکد ( ٹھہرے ہوئے پانی) میں پیشاب کرے اور آب جاری کے اندر پیشاب کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن ڈر اسکا ہے کہ اس پر شیطان نہ سوار ہو جائے ( اور وہ آب راکد میں بھی پیشاب نہ کرنے لگے) اور روایت کی گئی ہے کہ آب راکد میں پیشاب کرنے سے نسیان (ضعف حافظہ) پیدا ہو جاتا ہے ۔