Skip to main content

باب نماز کے اوقات

حدیث ٦٤٦ - ٦٧٢

٦٤٦ - ایک مرتبہ مالک جہنی نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے نماز ظہر کے وقت کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ جب زوال آفتاب ہو جائے تو سمجھ لو کہ دونوں نمازوں کا وقت آگیا اور جب تم اپنے نوافل سے فارغ ہو جاؤ تو جب چاہو ظہر کی نماز پڑھو ۔

٦٤٧ - اور عبید بن زرارہ نے آپ سے ظہر و عصر کے وقت کے متعلق معلوم کیا تو آپ نے فرمایا کہ جب زوال آفتاب ہو گیا تو کجھ لو کہ دونوں (ظہر و عصر) کا وقت ہو گیا بس اتنا ہے کہ یہ (ظہر) اس (عصر) سے پہلے ہوگی پھر تم غروب آفتاب تک دونوں نمازوں کے وقت میں ہو ۔ 

٦٤٨ - اور زرارہ نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے (اوقات نماز کے متعلق) دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ جب آفتاب ڈھل جائے تو ( سمجھ لو کہ ظہر و عصر دونوں نمازوں کا وقت ہو گیا اور جب آفتاب غروب ہو گیا تو ( سمجھ لو کہ مغرب وعشاء، دونوں کا وقت ہو گیا ۔

٦٤٩ - فضیل بن یسار اور زرارہ بن اعین اور بکیر بن اعین و محمد بن مسلم و برید بن معاویہ عملی نے حضرت امام محمد باقر و حضرت امام جعفر صادق علیہما السلام سے روایت کی ہے کہ آپ دونوں حضرات نے فرمایا کہ ظہر کا وقت زوال کے بعد دو (۲) قدم (سایہ ڈھلنے) تک ہے اور عصر کا وقت اسکے دو قدم اور آگے کے بعد ہے ۔

٦٥٠ - امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ اول وقت زوال شمس ہے یہ اللہ کا ( معین کردہ) وقت ہے اور یہ وقت
اول وقت دوم سے افضل ہے ۔

٦٥١ - نیز آپ نے فرمایا کہ اول وقت (نماز پڑھنے میں) اللہ تعالیٰ کی خوشی ہے اور اسکے بعد ( نماز پڑھنے میں) اللہ تعالٰی کی طرف سے معافی ہے اور معافی تو گناہ ہی کی ہوا کرتی ہے ۔

٦٥٢ - نیز آپ نے فرمایا کہ اول وقت کی فضیلت آخیر کے وقت پر ایک مومن کیلئے اسکے آل اور اسکی اولاد سے بہتر ہے۔

٦٥٣ - اور زرارہ نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے ظہر کے وقت کیلئے دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ زوال شمس سے ایک ہاتھ اور عصر کا وقت ظہر کے وقت کے بعد دو ہاتھ ۔ تو یہ زوال شمس سے چار قدم ہوئے پھر فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مسجد کی چہار دیواری قد آدم تھی جب اسکا ایک ہاتھ سایہ بڑھ جاتا تو آپ ظہر کی نماز پڑھتے ۔ اور جب سایہ دو ہاتھ بڑھ جاتا تو عصر کی نماز پڑھتے ۔
 پھر فرمایا تمہیں معلوم ہے کہ ہے یہ ایک (۱) ہاتھ اور دو (۲) ہاتھ کیوں رکھا گیا ؟ میں نے عرض کیا بتائیں کیوں رکھا گیا؟ تو آپ نے فرمایا تاکہ تم زوال سے لیکر ایک ہاتھ تک نا فلے ادا کرو اور جب تمہارا سایہ ایک ہاتھ پہنچ جائے تو تم نماز فریضہ ادا کرو نافلے کو چھوڑ دو ۔

٦٥٤ - حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے ابو بصیر سے ارشاد فرمایا اگر وقت ظہر میں تمہیں لوگ کچھ دھوکا دیدیں ( تو یہ ممکن ہے) لیکن وقت عصر میں تو لوگ تمہیں دھوکا نہیں دے سکتے تو اس وقت نماز عصر پڑھو جب آفتاب بالکل صاف اور روشن ہو (اس میں دھندلا پن نہ آئے) اسلئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ وہ شخص جو نماز عصر کو ضائع کر دے وہ اپنے اہل و مال کا مو تو رہے ۔ تو عرض کیا گیا کہ اپنے اہل و مال کا موتو رہے اسکا کیا مطلب ؟ آپ نے فرمایا یعنی جنت میں اسکا کوئی اہل ومال نہ ہوگا ۔ عرض کیا گیا اور نماز عصر کے ضائع کرنے سے کیا مراد فرمایا خدا کی قسم وہ اس میں اس قدر تاخیر کرے کہ آفتاب زرد ہو جائے یا غائب ہو جائے ۔

٦٥٥ - حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ جب قرص آفتاب غائب ہو جائے تو مغرب کا وقت ہو گیا ۔

٦٥٧ - سماعہ بن مہران کا بیان ہے کہ میں نے ایک مرتبہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا ہم لوگ مغرب کی نماز کبھی کبھی ایسے وقت پڑھتے ہیں کہ ڈرتے ہیں کہ کہیں آفتاب پہاڑ کے پیچھے نہ ہو اور پہاڑ نے اسکو ہم لوگوں سے نہ چھپا لیا ہو ؟ آپ نے فرمایا تم پر پہاڑ پر چڑھ کر دیکھنا تو فرض نہیں ہے۔
اور جو شخص سفر کے اندر منزل کی تلاش میں ہو تو اس کیلئے مغرب کا وقت ایک چوتھائی رات ہے جو عرفات سے شعر الحرام جا رہا ہے اسکے لئے بھی ایسا ہی ہے۔

٦٥٧ - بکر بن محمد نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ ایک شخص نے آپ سے مغرب کے وقت کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق ارشاد فرمایا ہے کہ " فَلَمَّا جَنَّ عَلَيْهِ ٱلَّيْلُ رَءَا كَوْكَبًۭا ۖ قَالَ هَـٰذَا رَبِّى ۖ  “ (پس جب ان پر رات کی تاریکی چھا گئی تو ایک ستارہ کو دیکھا تودفعتاً بول اٹھے کہ کیا یہی میرا خدا ہے) (سورہ الانعام آیت نمبر ٧٦) تو یہی اول وقت نماز مغرب ہے اور آخر وقت شفق
کا غائب ہونا ہے پس نماز عشاء کا اول وقت سرخی کا غائب ہونا ہے اور آخر وقت حق اللیل یعنی نصف شب ہے ۔

٦٥٨ - اور معاویہ بن عمار کی روایت میں ہے کہ وقت نماز عشاء ایک تہائی رات تک ہے اور ایک تہائی رات عشاء کا درمیانی وقت ہے اور نصف شب اسکا آخری وقت ہے ۔

٦٥٩ - اور اس شخص کیلئے روایت کی گئی ہے جو نماز عشاء کو چھوڑ کو نصف شب تک سوتا رہا تو وہ قضا پڑھے گا اور صبح کو بطور عقوبت روزہ رکھے گا ۔ یہ اس پر اسی لئے واجب ہے کہ وہ نماز عشاء کو چھوڑ کر نصف شب تک سوتا کیوں رہا۔

٦٦٠ - اور محمد بن یحییٰ خشعمی نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مغرب کی نماز پڑھتے تھے تو انصار کا قبیلہ بھی آپ کے ساتھ نماز پڑھتا تھا کہ جسکو نبی سلیمہ کہا جاتا تھا اور انکے گھر نصف میل پر واقع تھے یہ لوگ آپ کے ساتھ نماز پڑھ کر واپس ہوتے تو (اتنی روشنی رہتی کہ اگر وہ تیر پھینکیں تو اپنے تیروں کے گرنے کی جگہ دیکھ لیں ۔

٦٦١ - حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ ملعون ہے ملعون ہے وہ شخص جو طلب دنیا کیلئے نماز مغرب کو موخر کر دے تو آپ سے عرض کیا گیا کہ مگر اہل عراق تو نماز مغرب کو اتنا موخر کرتے ہیں کہ آسمان پر ستاروں کا جال بچھ جاتا ہے آپ نے فرمایا کہ یہ کام دشمن خدا ابو الخطاب ( محمد بن مقلدس اسری کوفی ملعون) کا ہے ۔

٦٦٢ - ابو اسامہ زید شحام کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ میں جبل ابو قبیس پر چڑھا اور نیچے تمام لوگ نماز مغرب پڑھ رہے تھے تو دیکھا کہ آفتاب ابھی غروب نہیں ہوا ہے بلکہ پہاڑ کے پیچھے ہے لوگوں کی نگاہوں سے چھپ گیا ہے ۔ میں فوراً امام جعفر صادق علیہ السلام کے پاس پہنچا اور انہیں بتایا ۔ تو آپ نے فرمایا کہ تم نے ایسا کیوں کیا جو کچھ کیا برا کیا۔ تم تو اسی وقت نماز پڑھتے کہ جب اسکو پہاڑ کے پیچھے نہ دیکھتے اور جب وہ غروب ہو گیا ہو تا کسی بادل کی اوٹ میں نہ چھپا ہوتا بلکہ واقعی ڈوب گیا ہو تا تمہیں تو اپنے مشرق اور اپنے مغرب پر عمل کرنا ہے لوگوں کا یہ فرض تو نہیں کہ وہ اسکی کھوج لگائیں ۔

٦٦٣ - امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ جب آفتاب غائب ہو گیا تو افطار کا وقت آگیا اور نماز واجب ہو گئی اور جب تم نے مغرب کی نماز پڑھ لی تو اب نماز عشاء کا وقت نصف شب تک کیلئے آگیا۔

٦٦٤ - حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ ایک ملک اس کیلئے مقرر ہے جو یہ پکار کر کہتا ہے کہ جو شخص بغیر نماز پڑھے ہوئے نصف شب تک سوئے تو اللہ اسکو سونا نصیب نہ کرے ۔

٦٦٥ - حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ جس نے مغرب کی نماز پڑھی اور تعقیبات میں مصروف ہو گیا اور کسی سے کوئی بات نہیں کی یہاں تک کہ اس نے دور کعت بھی پڑھ لی تو ہم اسکا نام علیین کی فہرست میں لکھ دینگے ۔ اور اگر چار رکھتیں پڑھ لیں تو اسکے نام ہم ایک حج کا ثواب لکھ دینگے۔ اور فجر کی نماز جب فجر ہو جائے اور اچھی طرح روشن ہو جائے اور آسمان پر صبح ایک قبطی چادر یا نہر سوراء کی طرح نمودار ہو تو پڑھے ۔ اور جو شخص نماز فجر اول وقت پڑھے گا تو یہ اسکی نماز دو (۲) مرتبہ لکھی جائے گی رات کے ملائیکہ بھی لکھیں گے اور دن کے ملائیکہ بھی ۔ اور جو نماز فجر آخر وقت میں پڑھے گا اسکی نماز صرف ایک مرتبہ لکھی جائے گی چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ " وَقُرْءَانَ ٱلْفَجْرِ ۖ إِنَّ قُرْءَانَ ٱلْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًۭا “ (یعنی رات کے ملائیکہ بھی گواہی دینگے اور دن کے ملائیکہ بھی ) (سوره اسرا آیت نمبر۷۸)

 ٦٦٦ - حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ جمعہ کے دن نماز جمعہ کا وقت زوال آفتاب کے وقت ہے اور اسکا وقت سفر حضر دونوں میں ایک ہی ہے اور یہ بہت تنگ وقت ہے اور جمعہ کے دن تمام دنوں میں نماز عصر کا وقت اسکا ابتدائی وقت ہے ۔

٦٦٧ - اسماعیل بن رباح نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ جب تم نے نماز پڑھی اور تمہارا خیال تھا کہ وقت ہو گیا تھا مگر ابھی وقت نہیں ہوا تھا مگر تم نماز میں مشغول ہی تھے کہ وقت ہو گیا تو تمہاری نماز ہو گئی ۔

٦٦٨ - اور سماعہ بن مہران نے آپ سے دریافت کیا کہ جب چاند، سورج، ستارے کچھ نظر نہ آئیں تو پھر دن اور رات کی نمازوں کا کیا ہوگا؟ تو آپ نے فرمایا اپنی رائے قائم کرنے کی کوشش کرو اور اس امر کی کوشش کرو کہ قبلہ پر اعتماد پیداہو جائے ۔

٦٦٩ - ابو عبداللہ الفراء نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ سے ہمارے اصحاب میں سے ایک شخص نے کہا کبھی کبھی جب بادل گھرے ہوئے ہوتے ہیں تو نماز کا وقت ہم لوگوں پر مشتبہ ہو جاتا ہے ؟ آپ نے فرمایا تم ان چڑیوں کو پہچانتے ہو کہ جو عراق میں بھی تمہارے وہاں ہوتی ہیں کہ جسکو دیوک (مرغ) کہتے ہیں ۔ میں نے عرض کیا جی ہاں آپ نے فرمایا جب انکی آوازیں بلند ہونے لگیں اور ایک دوسرے کے جواب میں بانگ دینے لگے تو نماز پڑھ لو۔

 ٦٧٠ - اور حسین بن مختار نے آنجناب سے روایت کی ہے کہ میں نے آپ سے کہا کہ میں موذن ہوں جب کسی دن بادل گھرے ہوئے ہوتے ہیں تو وقت کا پتہ نہیں چلتا ۔ آپ نے فرمایا کہ جب مرغ تین مرتبہ مسلسل بانگ دے تو سمجھ لو کہ زوال آفتاب ہو گیا ہے اور نماز کا وقت آگیا۔
اور اگر کسی شخص نے بادل کے دن غیر قبلہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھ لی بعد میں معلوم ہوا کہ یہ قبلہ کا رخ نہ تھا تو اگر ابھی وقت ہے تو دوبارہ نماز پڑھے اور اگر اس نماز کا وقت گزر گیا تو اعادہ کی ضرورت نہیں اس کیلئے قبلہ معلوم کرنے کی کوشش کافی ہے ۔

٦٧١ - حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر میں نماز پڑھوں بعد اسکے کہ وقت جارہا ہے تو یہ مجھے زیادہ پسندیدہ ہے اس سے کہ میں اس شک میں نماز پڑھوں کہ نماز کا وقت آگیا یا ابھی قبل از وقت ہے ۔

٦٧٢ - اور معاویہ بن وھب نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ نے بیان فرمایا کہ گرمی کے دنوں میں ظہر کی نماز کے وقت موذن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آیا کرتا تو آپ فرماتے ابرو، ابرو یعنی جلدی کرو جلدی کرو ۔ اور یہ تبرید سے ماخوذ ہے۔