نشوونما ، اساتذہ اور آپ کے اسفار
نجف اشرف کے بعض افاضلین تحریر کرتے ہیں کہ شیخ صدوق علیہ الرحمہ کی نشو و نما فضل وشرف کے آغوش میں ہوئی ان کے پدر بزرگوار انہیں علوم و معارف کی غذا کھلاتے رہے اور اپنے علوم و آداب کی ان پر بارشیں کرتے رہے ۔ اپنے صفات زہد و تقویٰ و ورع کی روشنیوں سے ان کے نفس کو جگمگاتے رہے اور اس طرح ان کی علمی نشود نما مکمل ہو گئی ۔ الغرض آپ اپنے باپ کے زیر سایہ پرورش پاتے رہے جن میں علم و عمل دونوں فضائل جمع تھے ان میں دینی ودنیاوی وجاہتیں موجود تھیں اسلئے کہ آپ کے والد اپنے زمانے میں تمین کے شیخ ان کے فقیہ تھے لوگوں کی نگاہیں ان ہی کی طرف اٹھتی تھیں ۔ وہ اپنے علم اور دین داری کی وجہ سے مشہور تھے ۔ اپنے دری اور تقویٰ کی وجہ سے یہ بہت متعارف تھے تمام دیار وامصار کے اکثر شیعہ آپ کے پاس آتے اور شرعی احکام حاصل کرتے ان کا ذریعہ معاش ان کے علمی مقام کے لئے مانع نہ تھا ان کی تجارت تھی جس کو ان کے ملازمین چلاتے اور آپ بہ نفس نفیس ان کی نگرانی کرتے اور تجارت سے جو کچھ اللہ دیتا اس سے زندگی بسر کرتے انہوں نے کبھی نہ چاہا کہ دوسروں کی دولت سے ثروت مند بن جائیں ۔
شیخ صدوق علیہ الرحمہ ایسے ماحول میں پرورش پاتے رہے اور تقریباً بیس سال سے زیادہ آپ نے اپنے والد کا زمانہ پایا اور اسی اثناء میں وہ ان کے ایسے اخلاق و آداب و معارف و علوم سے فیض حاصل کرتے رہے جس کی بنا پر وہ اپنے ہم عصروں میں سب سے بلند تھے ۔ آپ کی ابتدائی اور اولین نشو و نما ایران کے ایک شہر قم میں ہوئی جو اس وقت ایک بڑا علمی مرکز تھا جس میں علما ومحد ثین کی کثرت تھی اور تحصیل علم کے لئے بڑا اچھا ماحول تھا۔ اہل قم ان میں خیرو بہتری کے نشانات دیکھ رہے تھے اور امام کی دعا کی وجہ سے لوگ ان سے بہتر تو قعات رکھتے تھے ۔ پھر بہت زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ یہ (شیخ صدوق علیہ الرحمہ ) کامل جوان ہو گئے اور حفظ و ذکاوت کی ایک مثالی شخصیت بن کر ابھرے ۔ شیوخ کی مجالس میں حاضر ہوتے ان سے احادیث سنتے اور ان سے روایت لیتے اور چند دنوں میں لوگوں کی انگلیوں کے اشارے ان کی طرف ہونے لگے ۔ چنانچہ آپ نے شیوخ اہل قسم سے مثلاً محمد بن حسن بن احمد بن ولید اور حمزہ بن محمد بن احمد ابن جعفر بن محمد بن زید بن علی علیہ السلام نے سکچھ سنا اور ان سے حاصل کیا اور اسی پر بس نہیں کی بلکہ طلب حدیث کے لئے سفر کیا اور رجب ۳۳۹ ھ میں وطن سے نکلے اور اس کے بعد پے در پے مختلف شہروں کا سفر کرتے اور ان شہروں کے علماء سے استماع حدیث کرتے رہے ۔ اس ایران پر آل زیاد اور آل بابویہ کی حکومت تھی۔ یہ لوگ اہل علم کی بڑی قدر و منزلت و خدمت کیا کرتے زمانہ میں تھے اس لئے ان کے گرد علماء و شعراء جمع ہو گئے جیسے صاحب ابن عباد وغیرہ اور ان کے دور میں بہت سے علمی مراکز جابجا قائم ہو گئے تھے جیسے تم و خراسان و نیشاپور و اصفہان وغیرہ جو علماء و اساتذہ سے آباد تھے طلباء وہاں تحصیل علم کے لئے جاتے اور وہاں کے امراء و حکام ان کی سرپرستی کرتے ان کے لئے وظائف مقرر کرتے اور ان کا اکرام کرتے ۔
(۱) شہر رے میں ورود
ان امراء میں ایک رکن الدین بو یہی بھی تھا جس کو بہت سے علماء کی صحبت حاصل تھی دوسرے شہروں سے علماء کو بلاتا ان سے دینی و دنیاوی فائدہ حاصل کرتا چنانچہ اس نے شیخ صدوق علیہ الرحمہ سے بھی استدعا کی اور اس استدعا اور خواہش میں اہالیان شہررے بھی شریک تھے۔ ان لوگوں نے بھی ان کو رے آنے کی دعوت دی آپ نے ان کی دعوت پر لبیک کہا اس لئے کہ اللہ کی طرف سے علماہ پر یہی فریضہ عائد ہوتا ہے آپ وہاں پہنچے اور وہاں قیام کیا ۔ اہالیان شہر ان کے پاس آتے اور احکام شرعی معلوم کرتے نیز صاحبان علم و عقل ان کے گرد جمع ہوتے اور آپ اپنے علوم و معارف سے ان کو فیض پہنچاتے آپ کے دروازے پر جو آتا اس سے بخل نہ کرتے پھر اس شہر میں جتنے شیوخ تھے ان سے انہوں نے بھی اخذ حدیث کیا چنانچہ رجب ۳۲۷ھ میں رے کے اندر آپ نے ابو الحسن محمد بن احمد بن اسد اسدی المعروف به ابن حراده برویی اور یعقوب بن یوسف بن یعقوب اور احمد بن محمد بن المصقر الصائغ العدل والی علی احمد بن محمد بن حسن القطان المعروف به ابی علی بن عبدربہ رازی سے احادیث سماعت کیں یہ صائغ وقطان اہل رے کے شیوخ میں سے تھے ۔ شیخ صدوق علیہ الرحمہ نے دیگر شہروں کے بھی سفر کئے اور جہاں جہاں تشریف لے گئے ۔ وہاں کے شیوخ سے اخذ احادیث کرتے رہے ۔
(۲) مشہد مقدس
صدوق علیہ الرحمہ اپنی کتاب عیون الاخبار الرضا کے خاتمہ میں کہتے ہیں کہ میں نے امیر سعید رکن الدولہ سے زیارت مشهد رضا کی اجازت چاہی انہوں نے رجب ۳۵۲ ھ میں مجھے اجازت دی یہ آپ کے لئے مشہد مقدس کی پہلی زیارت تھی دوسری زیارت ماہ ذی الحجہ ۳۶۷ھ میں کی اور شہر رے واپس آئے پھر تیری زیارت مشہد مقدس کی ماہ شعبان ۳۶۸ھ میں ماد راہ النہر جاتے ہوئے کی۔
(۳) استرا با دو جرجان
آپ استرا باد و جرجان بھی تشریف لے گئے وہاں ابی الحسن محمد بن قاسم مفسر استر آبادی خطیب سے تفسیر امام حسن عسکری اور ابی محمد قاسم بن محمد استر آبادی وابی محمد عبدوس بن علی بن عباس جرجانی و محمد بن علی استر آبادی سے احادیث کا استماع کیا ۔
(۴) نیشاپور
یہ ایک شہر ہے جو رے اور سرخس کے درمیان خراسان کے راستہ پر واقع ہے مشہد مقدس کی زیارت سے واپسی میں ۳۵۲ ھ میں آپ نے وہاں چند دن قیام فرمایا وہاں کے لوگ آپ کے پاس جمع ہوتے مسائل پوچھتے اور ان کے جوابات لیتے ۔
٥- مردالرود
مر والرود یہ بھی مرد شاہ جہاں کے قریب پانچ دن کی مسافت پر ایک شہر ہے یہ دونوں خراسان کے شہروں میں سے ہیں آپ خراسان کے سفر میں وہاں تشریف لے گئے تھے ۔
٦- سرخس
سرخس یہ نواحی خراسان میں ایک قدیم شہر ہے جو نیشا پور اور رے کے بالکل درمیان راستہ پر واقع ہے خراسان کے سفر میں آپ یہاں بھی تشریف لائے ۔
٧- سمرقند
یہ ماور النہر کے شہروں میں سے ایک بہت مشہور و معروف شہر ہے کہا جاتا ہے کہ اس کو حضرت ذوالقرنین نے آباد کیا اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس کو شمر حمیری نے آباد کیا یہ ماوراء النہر کے اہم ترین شہروں میں سے ایک ہے آپ وہاں ۳۶۸ھ میں تشریف لائے تھے ۔
٨- یخ سے
یہ ایران کے قدیم شہروں میں سے ہے اس کے اور سمرقند کے درمیان بارہ فریح کی مسافت ہے آپ یہاں ۳۶۸ ھ میں
تشریف لائے تھے۔
٩- ایلاق
یہ ماور النہر کے اضلاع میں سے ایک ضلع ہے جو ضلع شاشی سے متصل ہے یہ دونوں شہر سمر قند کے صوبہ میں ہیں آپ یہاں ۳۶۸ ھ میں تشریف لائے کچھ دنوں قیام فرمایا اور دوران قیام شریف ابی عبدالله محمد بن حسن موسوی المعروف به نعمت سے ملے ہیں شریف مذکور شیخ صدوق علیہ الرحمہ کی تصنیفات سے واقف ہوئے جو تقریباً اس وقت ۲۲۵ کتابیں تھیں اور اس میں سے اکثر کی انہوں نے نقل حاصل کرلی اور شریف مذکور نے آپ سے محمد بن ذکریا رازی کی تالیف کی ہوئی کتاب من لا یحضره الطبیب کا ذکر کیا اور فرمائش کی کہ آپ بھی اس طرز کی ایک کتاب فقہ میں لکھ دیں جو مسائل حلال و حرام و شرائع واحکام پر مشتمل ہو تو آپ نے ان کی فرمائش پر کتاب من لا یحضره الفقیه تصنیف کی جیسا کہ آپ نے اس کے مقدمہ میں سبب تصنیف کا ذکر فرمایا ہے ۔
١٠- فرغانه
یہ بھی شیخ کے شہروں میں سے ایک شہر ہے اس کے اور بلخ کے درمیان کی جانب تیں منزلیں ہیں آپ دوران یہاں
بھی تشریف لے گئے ۔
١١- همدان
آپ ۳۵۴ ھ میں حج بیت اللہ کو جاتے ہوئے یہاں تشریف لائے ۔
١٢- بغداد
آپ یہاں ۳۵۲ ھ میں تشریف لائے وہاں کے شیوخ نے آپ سے احادیث سنیں اور آپ نے وہاں کے شیوخ سے احادیث کا استماع کیا پھر دوسری مرتبہ حج بیت اللہ سے واپسی پر ۳۵۵ ھ دوبارہ بغداد تشریف لائے اور بغداد میں جن شیوخ سے آپ نے استماع حدیث کیا وہ ابو محمد حسن بن یحیی حسینی علوی و ابو الحسن علی بن ثابت دوالنبی ہیں ان سے آپ نے اپنی پہلی تشریف آوری ۳۵۲ ھ میں استماع کیا تھا۔ پھر آپ نے محمد بن عمر الحافظ اور ابراہیم بن ہارون حسینی سے احادیث کا استماع فرمایا۔
١٣- کوفہ
آپ ۳۵۴ ھ میں دوران سفر حج کو نہ بھی تشریف لائے اور وہاں کی جامع مسجد میں بہت سے شیوخ سے احادیث کا استماع کیا جیسے محمد بن بکر ان نقاش واحمد بن ابراہیم بن ہارون قاضی و حسن بن محمد بن سعید ہاشمی والی الحسن علی بن عیسی مجاور مسجد کوفہ نیز دیگر شیوخ سے دوسرے مقامات پر اخذ احادیث فرمایا چنانچہ محمد بن علی کوفی سے مشہد امیرالمومنین علیہ السلام کو نہ میں اور ابی الحسن علی بن حسین بن شقير بن یعقوب بن حرث بن ابراہیم ہمدانی سے کوفہ میں ان کے مکان پر اور الى ذريعي بن زيد بن العباس بن ولید بزاز اور حسن بن محمد سکونی مزکی سے کوفہ ہی میں استماع کیا مگر یہ نہیں معلوم کہ کسی مقام پر۔
١٤- مکه و مدینه
آپ ۳۵۴ ھ میں حج بیت اللہ کے لئے تشریف لے گئے اور قبر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و قبور آئمہ طاہرین کی بھی زیارت سے مشرف ہوئے ۔
١٥- فید
یہ ایک مقام کا نام ہے جو مکہ اور کوفہ کے درمیان تقریباً نصف راہ پر واقع ہے اور مکہ سے واپسی میں یہاں ابی علی احمد بن ابی جعفر پہلی سے استماع حدیث کی ۔ عرض جو شخص شیخ صدوق علیہ الرحمہ کی تصانیف اور خصوصاً آپ کی کتاب ثاني الاصول (من لا يحضره الفقيه) كا مطالعہ کرے گا تو اس کو معلوم ہو جائیگا کہ آپ نے جید علماء خاصہ دعامہ سے مختلف علوم و فنون کے متعلق روایات کی ہیں چوتھی صدی کے علمی مراکز جیسے بغداد، کوفہ ، رے، قم، نیشاپور، طوس، بخارا نیز جن جن شہروں کے آپ نے سفر کئے وہاں ایسے ایسے نادر روزگار علماء کو حدیثیں سنائیں اور ان سے حدیثیں سنیں کہ جن کے پاس لوگ اخذ روایت کے لئے دور دور سے آیا کرتے تھے ۔