Skip to main content

حضرت امام عصر عجل اللہ فرجہ کی دعا کی برکت


نجاشی نے بھی اپنی کتاب رجال میں تحریر کیا ہے کہ شیخ صدوق کے والد علی بن الحسین ایک مرتبہ عراق تشریف لائے اور ابو القاسم حسین بن روح سے ملاقات کی ان سے چند مسائل دریافت کئے پھر جب تم واپس گئے تو علی بن جعفر بن اسود کے توسط سے انہیں خط لکھا کہ میرا یہ عریضہ حضرت صاحب العصر علیہ السلام تک پہنچا دیں اس عریضہ میں انہوں نے اولاد پیدا ہونے کے لئے دعا کی درخواست کی تھی اور امام علیہ السلام نے ان کے خط کا جواب دیا کہ میں نے تمہارے لئے اللہ تعالی سے دعا کر دی ہے اور عنقریب تمہارے یہاں دو بہترین فرزند پیدا ہوں گے ۔ نیز شیخ صدوق علیہ الرحمہ اپنی کتاب کمال الدین و تمام النعمتہ صفحہ ۲۷۶ میں تحریر فرماتے ہیں کہ ابو جعفر محمد بن علی الاسود نے مجھ سے یہ واقعہ بیان کیا اور کہا کہ آپ کے والد یعنی علی بن حسین بن موسیٰ بن بابویه قمی رحمتہ اللہ نے محمد بن عثمان عمری کی وفات کے بعد مجھ سے فرمایا کہ آپ ابو القاسم روحی سے گزارش کریں کہ وہ مولانا صاحب العصر علیہ السلام سے میری طرف سے درخواست کریں کہ حضرت میرے لئے اللہ تعالٰی سے دعا فرمائیں کہ وہ مجھے ایک فرزند نرینہ عطا فرمائے میں نے ان کے کہنے کے بموجب ابو القاسم رونی سے گزارش کی تو انہوں نے انکار کر دیا مگر تین دن کے بعد انہوں نے بتایا کہ حضرت صاحب العصر علیہ السلام نے علی ابن الحسین کے لئے دعا کر دی ہے اور عنقریب انکے ایک مبارک فرزند پیدا ہو گا جو لوگوں کو بہت نفع پہنچائے گا اور اس کے بعد اور بھی اولاد ہو گی چنانچہ اسی سال آپ (یعنی محمد بن علی بن الحسین شیخ صدوق) پیدا ہوئے اور آپ کے بعد اور بھی اولادیں پیدا ہو ئیں اور اس کتاب میں وہ آگے اپنی طالب علمی کا حال بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب محمد علی الاسود مجھے شیخ محمد بن حسن بن احمد ابن ولید رضی اللہ عنہ کے درس میں جاتے ہوئے دیکھتے اور میرا علمی شوق اور حفظ کو ملاخطہ کرتے تو فرماتے کہ تمہارے اندر جو علم سے اتنی رغبت ہے تو کوئی تعجب کی بات نہیں اس لئے کہ تم امام علیہ السلام کی دعا کی برکت سے پیدا ہوئے ہو۔
اور نجاشی نے اپنی کتاب رجال صفحہ ۱۸۵ پر تحریر کیا ہے کہ شیخ صدوق علیہ الرحمہ اکثر فخر سے کہا کرتے تھے کہ میں حضرت صاحب العصر کی دعا کی برکت سے پیدا ہوا ہوں علمائے نجف میں سے بعض شیخ صدوق علیہ الرحمہ کی سوانح حیات لکھنے والوں نے یہ لکھا ہے کہ شیخ صدوق علیہ الرحمہ کی تاریخ میں یہ بات واضح نہیں کہ ان کے والد علیہ الرحمہ نے وہ کنیز کب اور کیسے خریدی ۔ مگر ظن غالب یہ ہے کہ انہوں نے امام علیہ السلام کی توقیع پڑھنے کے بعد کسی دیلی کنیز کو تلاش کر کے خریدا تا کہ انہیں وہ گوہر مقصود مل جائے جس کی امام نے خبر دی ہے اور اس کنیز سے پہلے ایک مبارک فرزند نرینہ پیدا ہوا اور وہ یہی ہمارے شیخ محمد بن علی الحسین بن موسی بن بابویہ صدوق علیہ الرحمہ تھے کہ قمیوں میں ان کا مثل کوئی نظر نہیں آتا اور جن کی ولادت سے آپ کے والد کی آنکھیں ٹھنڈی ہو ئیں اور اس میں خیرو برکت کی نشانیاں نظر آنے لگیں اس لئے کہ یہ امام کی دعا کی برکت اور ان کی بشارت سے پیدا ہوئے اور امام علیہ السلام نے انہیں خیر و برکت وفقہ اور لوگوں کے لئے ان سے بہت زیادہ نفع پہنچنے کی امید دلائی تھی ۔