Skip to main content

ابواب صلوۃ اور اسکے حدود

حدیث ٥٩٨ - ٦٢١

٥٩٨ - حضرت امام رضا علیہ السلام نے فرمایا کہ نماز کے چار ہزار ابواب ہیں ۔

٥٩٩ - حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ نماز کے چار ہزار حدود ہیں ۔

٦٠٠ - زرارہ بن اعین کا بیان ہے کہ میں نے ایک مرتبہ عرض کیا یہ ارشاد فرمائیں کہ اللہ تعالٰی نے نمازیں کتنی فرض کی ہیں؟ آپ نے فرمایا رات و دن دونوں میں پانچ نمازیں ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ اللہ تعالٰی نے اسکی نشاندہی کی ہے اور اپنی کتاب میں اسکو بیان کیا ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا کہ ” أَقِمِ ٱلصَّلَوٰةَ لِدُلُوكِ ٱلشَّمْسِ إِلَىٰ غَسَقِ ٱلَّيْلِ (اے رسول سورج ڈھلنے سے لیکر رات کے اندھیرے تک نماز ظہر و عصر و مغرب و عشاء) پڑھا کر (سورہ الاسرا آیت نمبر ٧٨) دلوک ہی۔ آفتاب کا زوال ہے تو زوال آفتاب سے رات کے اندھیرے تک چار نمازیں ہیں جسکی اللہ تعالٰی نے نشاندہی کی ہے اور انکے اوقات کو بیان کر دیا ۔ اور غَسَقِ ٱلَّيْلِ کے معنی آدھی رات کے ہیں پھر اللہ تعالٰی نے فرمایا ۔ وَقُرْءَانَ ٱلْفَجْرِ ۖ إِنَّ قُرْءَانَ ٱلْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًۭا ( اور نماز فجر بھی کیونکہ صبح کی نماز پر ( دن رات دونوں کے فرشتوں کی گواہی ہوتی ہے) (سورہ الاسرا آیت نمبر ۷۸) تو یہ پانچویں نماز ہے) نیز اسکے متعلق اللہ تعالٰی نے فرمایا : وَأَقِمِ ٱلصَّلَوٰةَ طَرَفَىِ ٱلنَّهَارِ (اور اے رسول دن کے دونوں کنارے نماز پڑھا کرو) (سورہ ہود آیت نمبر ١١٤) تو دن کے کنارے مغرب اور صبح ہیں اور وَزُلَفًۭا مِّنَ ٱلَّيْلِ اور کچھ رات گئے ( نماز پڑھا کرو) (سورہ ہود آیت نمبر ١١٤) یہ نماز عشاء ہے پھر فرمایاحَـٰفِظُوا۟ عَلَى ٱلصَّلَوَٰتِ وَٱلصَّلَوٰةِ ٱلْوُسْطَىٰ (اور تم لوگ تمام نمازوں کی اور خصوصا بیچ والی نماز کی پابندی کرو) (سورہ بقرہ ٢٣٨) اور یہ ظہر کی نماز ہے اور یہی وہ پہلی نماز ہے جسے رسول اللہ نے پڑھا اور یہ دن کی دو نماز یعنی نماز صبح اور نماز عصر کے درمیان کی ہے ۔ نیز فرمایا کہ بعض قرات میں اسطرح ہے کہ حَـٰفِظُوا۟ عَلَى ٱلصَّلَوَٰتِ وَٱلصَّلَوٰةِ ٱلْوُسْطَىٰ (و) صلوة العصر " وَقُومُوا۟ لِلَّهِ قَـٰنِتِينَ“ اور خاص خدا کیلئے نماز میں قنوت پڑھنے والے ہو کر کھڑے ہو یعنی صلوۃ وسطی میں۔

نیز کہا گیا ہے کہ یہ آیت بروز جمعہ نازل ہوئی جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سفر میں تھے تو آپ نے اس میں قنوت پڑھا اور پھر اسکو سفر و حضر دونوں میں رکھ دیا اور جو اپنے گھر یا مقیم ہے اس کیلئے دو (۲) رکعتوں کا اور اضافہ کر دیا ۔ اور یہ دو (۲) رکعتیں کہ جس کا اضافہ آپ نے فرمایا یہ یوم جمعہ مقیم کیلئے رکھ دیا ان دو خطبوں کے بدلے جو امام کے ساتھ نماز پڑھنے میں وہ سنتا ہے پس جو شخص بروز جمعہ بغیر جماعت کے نماز پڑھے تو چار رکعت پڑھے جسطرح عام دنوں میں ظہر کی چار رکعت پڑھتا ہے ۔

٦٠١ - حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے قول خدا إِنَّ ٱلصَّلَوٰةَ كَانَتْ عَلَى ٱلْمُؤْمِنِينَ كِتَـٰبًۭا مَّوْقُوتًۭا (بیشک نماز اہل ایمان پر وقت معین کر کے فرض کی گئی ہے) (سورہ النساء آیت نمبر ١٠٣) کے متعلق فرمایا موقوت سے مراد مفروض ہے (یعنی فرض کی ہوئی)

٦٠٢ - نیزان جناب علیہ السلام نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معراج پر تشریف لے گئے تو آپ کے پروردگار نے آپ کو پچاس نمازوں کا حکم دیا تو آپ فرداً فرداً انبیاء کی طرف سے ہو کر گزرے مگر کسی نے ان سے کچھ نہ پوچھا مگر جب حضرت موسی بن عمران علیہ السلام کے پاس پہنچے تو انہوں نے آپ سے پو چھا رب نے آپ کو کسی چیز کا حکم دیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا پچاس (۵۰) نمازوں کا ۔ انہوں نے کہا آپ اپنے رب سے کہیں کہ اس میں تخفیف کرے اس لئے کہ آپ کی امت اسکی طاقت نہیں رکھتی چنانچہ آنحضرت نے اپنے رب سے التجا کی اور اس میں سے دس نمازیں کم ہو گئیں اور آپ پھر ایک ایک نبی کی طرف سے ہو کر گزرے مگر کسی نے کچھ نہ پوچھا جب آپ حضرت موسیٰ کے پاس پہنچے تو انہوں نے آپ سے پوچھا کہ آپ کے رب نے آپ کو کیا حکم دیا ہے ؟ آپ نے فرمایا چالیس (٤٠) نمازوں کا ۔ حضرت موسیٰ نے کہا (یہ بہت ہے) آپ اپنے رب سے اس میں تخفیف کیلئے کہیں آپ کی امت اسکی بھی طاقت نہیں رکھتی چنانچہ آپ نے اپنے رب سے درخواست کی اس میں سے دس کم کر دی گئیں اور آپ پھر ایک ایک نبی کی طرف سے ہو کر گزرے مگر کسی نے کچھ نہ پوچھا اور جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس پھنچے تو انہوں نے پوچھا کہ آپ کے رب نے آپ کو کتنی نمازوں کا حکم دیا ہے؟ آپ نے فرمایا تیس  (۳۰) نمازوں کا ۔ حضرت موسیٰ نے کہا آپ اپنے رب سے اس میں تخفیف کی التجا کیجئے آپ کی امت تو اسکی بھی طاقت نہیں رکھتی ۔ تو آپ نے اپنے رب سے پھر التجا کی تو اس میں سے دس اور کم ہو گئیں ۔ اور پھر آپ ایک ایک نبی کی طرف سے ہو کر گزرے مگر کسی نے کچھ نہ پوچھا جب حضرت موسیٰ کے پاس پہنچے تو انہوں نے پو چھا کہ اب آپ کے رب نے آپ کو کیا حکم دیا ، فرمایا بیس (۲۰) نمازوں کا ۔ حضرت موسیٰ نے کہا آپ اپنے رب سے اس میں تخفیف کی التجا کریں آپ کی امت اتنے کی بھی طاقت نہیں رکھتی چنانچہ آپ نے اپنے رب سے پھر اتجا کی تو اس میں سے دس اور کم ہو گئیں پھر آپ ایک ایک نبی کی طرف سے ہو کر گزرے مگر کسی نے کچھ نہ پوچھا جب حضرت موسیٰ کے پاس پہنچ تو انہوں نے پوچھا اب آپ کے رب نے کیا حکم دیا ؟ آپ نے کہا دس (١٠) نمازوں کا ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا آپ اپنے رب سے اس میں تخفیف کی التجا کریں آپ کی امت اسکی بھی طاقت نہیں رکھتی اسلئے کہ میں بنی اسرائیل کے پاس وہ لیکر آیا جو اللہ تعالٰی نے ان پر فرض کیا تھا مگر انہوں نے اسکو اختیار نہیں کیا اور اسکے مقر نہیں ہوئے تو آپ نے اپنے رب سے پھر التجا کی تو اُس نے اس میں سے پھر گھٹا دیا اور اسکو پانچ (۵) کر دیا اور آپ پھر ایک ایک نبی کے پاس سے ہو کر گزرے مگر کسی نے آپ سے کچھ نہ پوچھا اور جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس پہنچے تو پو چھا کہ آپ کے رب نے اب کیا حکم دیا ؟ فرمایا کہ پانچ (۵) نمازوں کا ۔ حضرت موسیٰ نے کہا آپ اپنے رب سے التجا کریں کہ آپ کی امت کیلئے اس میں بھی تخفیف کرے آپ کی امت اتنے کی بھی طاقت نہیں رکھتی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اب تو مجھے شرم آتی ہے کہ اس میں بھی تخفیف کیلئے اپنے رب کے پاس پلٹ کر جاؤں ۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پانچ نمازوں کا حکم لیکر تشریف لائے ۔ اور آنحضرت نے فرمایا کہ اللہ تعالٰی حضرت موسیٰ بن عمران علیہ السلام کو میری امت کی طرف سے جزائے خیر دے اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ اللہ تعالٰی موسیٰ علیہ السلام کو ہم لوگوں کی طرف سے بھی جزائے خیر دے۔

٦٠٣ - اور زید بن علی بن الحسین علیہ السلام سے روایت کی گئی ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ ایک مرتبہ میں نے اپنے پدر بزرگوار سید العابدین علیہ السلام سے دریافت کیا اور یہ کہا کہ بابا جان مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق یہ بتائیں کہ جب انکو آسمان کی بلندیوں پر لٰیجایا گیا اور اللہ تعالٰی نے انکو پچاس نمازوں کا حکم دیا تو آپ نے خود اپنی امت کیلئے اللہ تعالٰی سے کیوں نہیں التجا کی یہاں تک کہ جب حضرت موسی بن عمران علیہ السلام نے آپ سے کہا کہ آپ واپس جائیں اور اس سے تخفیف کی درخواست کریں اسلئے کہ آپ کی امت اتنی نمازوں کی طاقت نہیں رکھتی ؟ تو آپ نے فرمایا اے فرزند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے رب سے کوئی مطالبہ نہیں کرتے تھے اور اس نے جو حکم دیا اس پر اس سے نظر ثانی کی درخواست نہیں کرتے تھے مگر جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے آپ سے گزارش کی اور وہ آپ کی امت کیلئے آپ سے سفارشی بنے تو آپ کیلئے یہ مناسب نہ تھا اپنے بھائی موسیٰ علیہ السلام کی سفارش کو رد فرماتے اس لئے آپ نے اپنےرب کی طرف رجوع کیا اور تخفیف کی درخواست کی یہاں تک کہ نماز کی تعداد اللہ تعالٰی نے گھٹا کر پانچ کر دی ۔
 زید بن علی کا بیان ہے کہ پھر میں نے عرض کیا باباجان حضرت موسیٰ علیہ السلام نے تو آنحضرت سے ان پانچ نمازوں کی تعداد میں تخفیف کیلئے تھا پھر آپ نے اللہ کی طرف کیوں نہیں رجوع کیا اور اس میں تخفیف کی درخواست کیوں نہیں کی؟ آپ نے فرمایا اے فرزند نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چاہا کہ تخفیف کے ساتھ پچاس (۵۰) نمازوں کا ثواب بھی آپ کی امت کو مل جائے ۔ اسلئے کہ اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے کہ " من جاء بالحسنة فله عشر امثالحا “ (جو ایک نیکی کریگا اسکو اسکا دس گنا ثواب ملے گا۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ جب آنحضرت معراج سے زمین پر تشریف لائے تو جبرئیل امین نازل ہوئے اور عرض کیا اے محمد اللہ تعالٰی آپ کو سلام کہتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ پانچ (۵) ( نمازیں) پچاس (۵۰) (نمازوں) کے برابر ہیں اورمَا يُبَدَّلُ ٱلْقَوْلُ لَدَىَّ وَمَآ أَنَا۠ بِظَلَّـٰمٍۢ لِّلْعَبِيدِ (ہمارا قول بدلا نہیں کرتا اور میں بندوں پر ظلم نہیں کیا کرتا) (سورہ ق آیت نمبر ٢٩) ( یعنی جو میں نے کہا ہے تو پچاس نمازوں کا ثواب دونگا تو وہ سب ان پانچ نمازوں پر دید ونگا)
زید بن علی کا بیان ہے کہ پھر میں نے عرض کیا بابا جان کیا ایسا نہیں ہے کہ اللہ تعالٰی کیلئے کوئی مکان نہیں قرار دیا
جا سکتا ؟ آپ نے فرمایا ہاں اللہ تعالیٰ ان تمام چیزوں سے بہت بلند ہے ۔ میں نے عرض کیا پھر حضرت موسیٰ نے آپ سے کہا کہ اءرجع الی ربک اپنے رب کے پاس واپس جایئے اسکے کیا معنی ؟ آپ نے فرمایا کہ اسکے وہی معنی ہیں جو حضرت ابراہیم کے اس قول کے معنی ہے ” إِنِّى ذَاهِبٌ إِلَىٰ رَبِّى سَيَهْدِينِ “ (میں اپنے رب کی طرف جاتا ہوں وہ عنقریب مجھے رو براہ کر دیگا) (سوره انصافات آیت نمبر ۹۹)
اور حضرت موسیٰ کے اس قول کے معنی ہیں کہ ” وَعَجِلْتُ إِلَيْكَ رَبِّ لِتَرْضَىٰ “ ( پروردگار میں نے تیرے پاس آنے میں اسلئے جلدی کی کہ تو مجھ سے خوش ہو جائے) (سورہ طہ آیت نمبر٨٤) اور جو اللہ تعالٰی کے اس قول کے معنی ہیں ” فَفِرُّوٓا۟ إِلَى ٱللَّهِ ۖ " ( تو خدا ہی کی طرف بھاگو) (سورہ الذاریات نمبر ۵۰) یعنی بیت اللہ کے حج کیلئے جاؤ۔ اے فرزند کعبہ اللہ کا گھر ہے جس نے بیت اللہ کا حج کیا وہ اللہ کے پاس گیا ۔ اور مسجدیں بھی اللہ کا گھر ہیں جو ان کی طرف گیا وہ اللہ کی طرف گیا اور مصلیٰ جب تک بندہ اس پر پڑھ رہا ہے وہ اللہ کے سامنے کھڑا ہے چنانچہ اللہ تعالٰی کیلئے اسکے آسمانوں پر بھی کچھ بقعات ہیں اور جس کو ان بقعات میں سے کسی ایک پر لیجایا گیا وہ اللہ کی طرف گیا اور اسکو معراج ہوئی ۔ کیا تم قرآن کی یہ آیت نہیں سنتے کہ اللہ تعالٰی فرماتا ہے "  تَعْرُجُ ٱلْمَلَـٰٓئِكَةُ وَٱلرُّوحُ إِلَيْهِ " ( جس کی طرف ملائیکہ اور روح لامین  سن کر جاتے ہیں) (سورہ المعارج آیت نمبر ٤) اور اللہ تعالٰی نے حضرت عیسیٰ بن مریم کے قصہ میں فرمایا ہے " بَل رَّفَعَهُ ٱللَّهُ إِلَيْهِ ۚ “ ( بلکہ خدا نے انکو اپنی طرف اٹھا لیا) ( سوره النساء آیت نمبر ١٥٨) نیز اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ” إِلَيْهِ يَصْعَدُ ٱلْكَلِمُ ٱلطَّيِّبُ وَٱلْعَمَلُ ٱلصَّـٰلِحُ يَرْفَعُهُۥ ۚ  “ (اسکی طرف پاک کلمات بلند ہو کر پہنچتے ہیں اور عمل صالح کو وہ خود بلند کر لیتا ہے) (سورہ فاطر آیت نمبر ١٠)
نیز میں نے مندرجہ بالا حدیث کو اپنی کتاب المعارج میں بھی نقل کیا ہے ۔ اور نماز دن اور رات کے اندر اکیاون رکعتیں ہیں ان میں سے سترہ رکعتیں فریضہ ہیں ۔ یعنی ظہر کی چار رکعت اور یہ پہلی نماز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے فرض کیا ۔ اور عصر کی چار رکعت اور مغرب کی تین رکعت اور عشاء کی چار رکعت اور صبح کی دو رکعت یہ کل ملکر سترہ (١٧) رکعتیں ہیں جو فرض ہیں اور اسکے علاوہ سب سنت و نافلہ ہیں جسکے بغیر فرض نمازیں پوری اور مکمل نہیں ہوتیں ۔ ظہرین (یعنی ظہر و عصر) کا نافلہ سولہ رکعت ہے اور مغرب کا نافلہ چار رکعت ہے جو نماز مغرب کے بعد دو سلام کے ساتھ ہے اور دو رکعت نماز عشاء کے بعد جسے بیٹھ کر پڑھتے ہیں جسکو ایک رکعت شمار کیا جاتا ہے پس اگر کسی کو کوئی وجہ پیش آجائے کہ شب کا آخر حصہ نہ پاسکے اور صرف نماز وتر پڑھ لے تو گویا اس نے وتر میں شب بسر کی ۔ اور اگر رات کا آخری حصہ پا جائے تو نماز شب کے بعد وتر پڑھے ۔

٦٠٤ - نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو شخص اللہ اور یوم آخر پر ایمان رکھتا ہے وہ بغیر نماز وتر پڑھے شب بسر نہیں کرے گا ۔ اور نماز شب آٹھ رکعت ہے اور نماز شفع دو رکعت اور وتر کی ایک رکعت اور نائلہ صبح دو رکعت تو یہ کل اکیاون (۵۱) رکعتیں ہیں اور جو شخص آخر شب کو اٹھے اور نماز وتر پڑھے تو اسکی دو رکعتیں نماز عشاء کے بعد بیٹھ کر شمار نہیں کی جائیں گی اور اس کیلئے پچاس ہی رکعت رہے گی اور پچاس رکعتیں اس لئے کہ رات بارہ ساعتوں پر مشتمل ہے اور دن بارہ پر مشتمل ہے اور طلوع فجر سے لیکر طلوع آفتاب تک ایک ساعت ہے تو اللہ تعالی نے ہر ساعت کیلئے دو رکعتیں ساعتوں پر قرار دیدیں ۔

٦٠٥ - زرارہ بن اعین کا بیان ہے کہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ اللہ نے جو بندوں پر فرض کیا وہ دس رکعتیں ہیں جن میں سوروں کی قرءات ہوتی ہے ان میں کوئی شک اور کوئی سہونہ نا ہونا چاہیئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سات رکعت اور زیادہ کر دیں کہ جس میں سہو ہو سکتا ہے ان میں سوروں کی قرءات نہیں ہے ۔ پس جو شخص نماز کی دو ابتدائی رکعتوں میں شک کرے تو پھر سے نماز پڑھے تاکہ محفوظ ہو جائے اور ادائیگی کا یقین ہو جائے اور جو آخری دو رکعتوں میں شک کرے تو وہ شک کے مسائل پر عمل کرے ۔

٦٠٦ - زرارہ اور فضیل دونوں کا بیان ہے کہ ہم نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے عرض کیا کہ آپ کے نظر میں قول خدا ” ان الصلوة كانت على المؤمنين كتاباً موقوتا “ سے کیا مراد ہے تو آپ نے فرمایا اس سے مراد کتاب مفروض (فرض کی ہوئی) اس سے مراد وقت مقررہ نہیں کہ اگر اس وقت سے تجاوز ہو گیا اور نماز پڑھی تو وہ نماز ادا نہیں ہوگی ۔ اگر ایسا ہو تو پھر حضرت سلیمان ہلاک ہو جائیں اسلئے کہ انہوں نے نماز بغیر وقت کے پڑھی اور یہ کہ جب انہیں یاد آیا اس وقت پڑھی ۔
(قول مصنف) اس کتاب کے مصنف فرماتے ہیں کہ اہل خلاف کے جاہل لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ حضرت سلیمان علیہ السلام ایک دن گھوڑوں کے معائنہ میں مصروف تھے کہ اتنے میں آفتاب پردے میں چھپ گیا تو آپ نے حکم دیا کہ وہ گھوڑے پھر سے پیش کئے جائیں جب وہ پیش ہوئے تو انہوں نے انکے پاؤں اور انکی گردنیں کاٹنے کا حکم دیا اور کہا ان ہی نےہمیں ہمارے پروردگار کے ذکر سے روکا۔
لیکن جیسا یہ لوگ کہتے ہیں ایسا نہیں ہے اللہ کے نبی حضرت سلیمان علیہ السلام اس سے کہیں بالاتر ہیں کہ ایسا کام کریں اسلئے کہ ان گھوڑوں کا کوئی قصور نہ تھا کہ انکے پاؤں اور اکی گرد نیں کاٹی جائیں ۔ ان پیاروں نے خود تو اپنے کو پیش نہیں کیا تھا کہ انہوں نے انکو اپنے میں مشغول کر لیا ۔ وہ تو پیش کئے گئے تھے اور یہ تو بہائم ہیں جو غیر مکلف ہوتے ہیں اور اسی سلسلہ میں صحیح یہ ہے کہ جو

٦٠٧ - حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی گئی ہے کہ آپ نے فرمایا حضرت سلیمان بن داؤد علیہ السلام کے سامنے ایک دن شام کے وقت چند گھوڑے پیش کئے گئے اور آپ انکو دیکھنے میں مشغول تھے کہ آفتاب پر دے میں چھپ گیا تو آپ نے ملائکہ سے کہا کہ ہمارے لئے آفتاب کو پلٹا دو تاکہ میں وقت کے اندر نماز پڑھ لوں ۔ اور ملائکہ نے آفتاب پلٹا دیا تو آپ نے اپنی پنڈلیوں اور اپنی گردن پر مسح کیا اور جن لوگوں کی نماز انکے ساتھ فوت ہوئی تھی انہیں بھی حکم دیا کہ تم لوگ بھی مسح کر لو ۔ اور اس عہد میں نماز کیلئے ان لوگوں کے واسطے یہی وضو تھا ۔ پھر آپ نماز کیلئے کھڑے ہوئے اور نماز پڑھی جب نماز سے فارغ ہوئے آفتاب غروب ہو گیا اور ستارے طلوع ہو گئے چنانچہ اس کے متعلق اللہ تعالیٰ کا قول ہے ۔ وَوَهَبْنَا لِدَاوُۥدَ سُلَيْمَـٰنَ ۚ نِعْمَ ٱلْعَبْدُ ۖ إِنَّهُۥٓ أَوَّابٌ  إِذْ عُرِضَ عَلَيْهِ بِٱلْعَشِىِّ ٱلصَّـٰفِنَـٰتُ ٱلْجِيَادُ فَقَالَ إِنِّىٓ أَحْبَبْتُ حُبَّ ٱلْخَيْرِ عَن ذِكْرِ رَبِّى حَتَّىٰ تَوَارَتْ بِٱلْحِجَابِ  رُدُّوهَا عَلَىَّ ۖ فَطَفِقَ مَسْحًۢا بِٱلسُّوقِ وَٱلْأَعْنَاقِ (سورہ ص آیت نمبر ۳۰ تا ۳۳) میں نے اس حدیث کو اپنے استاد کے ساتھ کتاب الفوائد میں نقل کر دیا ہے ۔

٦٠٨ - روایت کی گئی ہے کہ اللہ تعالٰی نے حضرت موسیٰ کے وصی حضرت یوشع بن نون کیلئے بھی آفتاب پلٹایا تھا تاکہ وہ اپنی وہ نماز پڑھ لیں جو وقت کے اندر نہیں پڑھ سکے تھے اور نماز فوت ہو گئی تھی ۔

٦٠٩ - اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اس امت میں بھی وہی کچھ ہو گا جو نبی اسرائیل میں ہو چکا ہے قدم بہ قدم گوش به گوش -
اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے سُنَّةَ ٱللَّهِ ٱلَّتِى قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلُ ۖ وَلَن تَجِدَ لِسُنَّةِ ٱللَّهِ تَبْدِيلًۭا (جو لوگ گزر گئے ہیں ان کے بارے میں بھی خدا کا یہی دستور تھا اور تم آئیندہ بھی خدا کے دستور میں کوئی تبدیلی نہ پاؤ گئے (سورۃ فتح آیت نمبر ۲۳) نیز اللہ تعالیٰ کا یہ بھی اشارہ ہے کہ وَلَا تَجِدُ لِسُنَّتِنَا تَحْوِيلًا (اور جو دستور ہم نے قرار دے لیا ہے اس میں تم کوئی تغیر و بدل نہ پاؤ گئے ۔) (سورۃ الاسرا آیت نمبر ٧٧) 
چنانچہ اس امت کے اندر اللہ تعالیٰ کا دستور رو شمس کا حضرت امیر المومنین علیہ السلام کیلئے جاری رہا اور اللہ تعالٰی نے ان کیلئے دو مرتبہ آفتاب کو پلٹایا۔ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد میں اور دوسری مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد خود امیرالمومنین علیہ السلام کے عہد خلافت میں چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد کے سلسلہ میں ۔

٦١٠ - اسماء بنت عمیس سے روایت ہے انکا بیان ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سو رہے تھے اور آپ کا سر مبارک حضرت علی کی آغوش میں تھا کہ عصر کا وقت ختم ہو گیا اور آفتاب غروب ہو گیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا کی پروردگار یہ علی تیری اطاعت اور تیرے رسول کی اطاعت میں تھے تو انکے لئے آفتاب کو پلٹا دے ۔ اسماء کا بیان ہے کہ پس خدا کی قسم میں نے دیکھا کہ آفتاب غروب ہونے کے بعد طلوع ہو گیا اور ایسا کہ کوئی زمین اور کوئی پہاڑ ایسا نہ باقی رہا کہ شعاعیں ان پر نہ پڑ رہی ہوں یہاں تک کہ علی علیہ السلام اٹھے وضو کیا اور نماز پڑھی اسکے بعد آفتاب غروب ہو گیا ۔

اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد تو

٦١١ - جویریہ بن مسہر سے روایت ہے اسکا بیان ہے کہ ہم لوگ خوارج سے قتال کے بعد حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے ساتھ واپس آرہے تھے اور سرزمین بابل سے گزر رہے تھے کہ نماز عصر کا وقت آگیا ۔ امیر المومنین سواری سے اتر پڑے اور آپ کے ساتھ سب لوگ اترے تو حضرت علی علیہ السلام نے کہا اے لوگو! یہ سرزمین ملعونہ ہے اور تین مرتبہ اس پر عذاب نازل ہو چکا ہے ایک روایت ہے کہ آپ نے فرمایا کہ دو مرتبہ عذاب نازل ہو چکا ہے اور تیسری مرتبہ متوقع ہے کہ عذاب نازل ہو یہ مدائن کے علاقوں میں سے ایک علاقہ ہے (جس میں قوم لوط پر عذاب آیا) اور یہی وہ سر زمین ہے جس میں سب سے پہلے بت پوجے گئے۔ کسی نبی یا کسی وصی نبی کیلئے یہ جائز نہیں کہ اس میں نماز پڑھے لہذا تم لوگوں میں جس کا جی چاہے وہ یہاں نماز پڑھ لے چنانچہ لوگ راستے کے دونوں طرف مڑے اور نماز پڑھنے لگے اور حضرت علی علیہ السلام رسول اللہ کے بغلہ (خچر) پر سوار ہو کر روانہ ہوئے ۔ جویریہ کا بیان ہے کہ مگر میں نے کہا کہ خدا کی قسم میں امیر المومنین کے پیچھے جاؤں گا اور آج کی نماز وہ جہاں پڑھیں گے وہیں پڑھوں گا ۔ چنانچہ میں آپ کے پیچھے چلا اور ابھی ہم لوگوں نے جسر سوراء بھی پار نہ کیا تھا کہ آفتاب غروب ہو گیا۔ اور میرے دل میں شک آیا تو آپ میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا اے جویریہ کیا تم شک میں مبتلا ہو گئے ۔ میں نے عرض کیا جی ہاں یا امیر المومنین چنانچہ آپ ایک طرف سواری سے اتر پڑے پھر وضو فرمایا اور کھڑے ہو کر کچھ کہا اور ایسا معلوم ہوا کہ جیسے آپ عبرانی میں کچھ کہہ رہے ہیں ۔ پھر آپ نے نماز کیلئے اذان دی تو خدا کی قسم میں نے دیکھا دو پہاڑوں کے درمیان سے آفتاب نکل آیا جس میں گھڑ گھڑاہٹ کی آواز تھی اور آپ نے عصر کی نماز پڑھی اور میں نے بھی انکے ساتھ نماز پڑھی جب ہم دونوں نماز سے فارغ ہوئے تو رات جیسے تھی ایسے ہی پھر واپس آگئی ۔ اور آپ نے میری طرف رخ کر کے کہا اے جویریہ بن مہر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نسبح باسم ربک العظیم تم اپنے رب عظیم کے نام کی تسیج پڑھو ۔ چنانچہ میں نے اللہ تعالٰی کو اسکے اسم عظیم کا واسطہ دیکر اس سے دعا کی اوراس نے آفتاب کو میرے لئے واپس پلٹا دیا ۔
اور جویریہ سے یہ بھی روایت ہے اس نے کہا کہ جب میں نے دیکھا تو کہا رب کعبہ کی قسم آپ ہی وصی نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں ۔
٦١٢ - ایک مرتبہ سلیمان بن خالد نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے عرض کیا میں آپ پر قربان اللہ تعالٰی نے بندوں پر جتنے فرائض عائد کئے ہیں وہ ہمیں بتائیں کہ وہ کیا ہیں ؟ آپ نے فرمایا لا الہ الا الله وان محمد رسول الله کی شہادت ، اور پانچ وقت کی نماز پڑھنا ، زکوۃ دینا، بیت اللہ کا حج کرنا اور ماہ صیام کے روزے اور ولایت تو جو شخص یہ سب کچھ بجا لایا اور اس پر مستحکم رہا وہ مقرب ہوا اور ہر انکار کرنے والے سے اس نے اجتناب کیا وہ (سمجھ لے کہ) جنت میں داخل ہو گیا۔

٦١٣ - اور امیر المومنین علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ توسل چاہنے والے جن چیزوں سے توسل چاہتے ہیں ان میں سب سے افضل وبہتر چیز اللہ اور اسکے رسول پر ایمان رکھنا ہے ، راہ خدا میں جہاد کرنا ہے ، کلمہ اخلاص ہے کہ یہی فطرت کا تقاضا ہے، نماز پڑھنا ہے اسلئے کہ اس کا نام ملت ہے ، زکوۃ دینا اسلئے کہ یہ اللہ کی طرف سے فریضہ ہے ، روزہ ہے اسلئے کہ یہ عذاب الہی سے بچنے کیلئے سپر ہے، حج بیت اللہ ہے اس لئے کہ یہ فقر و تنگدستی سے دور کرنے والا اور گناہوں سے پاک کرنے والا ہے ، عزیز واقارب سے حسن سلوک ہے اسلئے کہ اس سے مال و دولت میں اضافہ ہوتا ہے اور موت کو موخر کر دیتا ہے . پوشیدہ طور پر صدقہ دینا اسلئے کہ یہ گناہوں کو مٹاتا اور اللہ کے غضب کو بجھاتا ہے ، لوگوں کے ساتھ نیکی کرنا ہے اسلئے کہ یہ بری موت کو دفع کرتا ہے اور بلاؤں سے بچاتا ہے ، اور آگاہ رہو کہ صدق و سچائی اختیار کرو اسلئے کہ اللہ تعالٰی سچے لوگوں کے
ساتھ ہے، جھوٹ سے پر ہیز کرو اسلئے کہ اس سے ایمان چلا جاتا ہے ، آگاہ ہو کہ سچا انسان نجات اور کرامت کے کنارے پر ہے اور جھوٹا ناکامی وہلاکت کے کنارے پر لگا ہوا ہے ، آگاہ ہو کہ اچھی بات کہو جس سے تم پہچانے جاؤ اور اس پر عمل کرو تم اسکے اہل بن جاؤ گے اور امانت رکھنے والوں کی امانت کو ادا کرو اور جس نے تم سے بدسلوکی کی ہے تم اسکے ساتھ حسن سلوک کرو جس نے تم کو محروم کیا تم اس پر فضل و بخشش کرو۔

٦١٤ - معمر بن یحییٰ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کو فرماتے سنا کہ آپ فرمارہے تھے اگر تم پانچ وقت کی نماز پڑھتے ہو تو پھر تم سے کسی اور نماز کیلئے سوال نہیں کیا جائیگا اور اگر تم ماہ رمضان کے روزے رکھتے ہو تو تم سے کسی اور روزے کے متعلق نہیں پوچھا جائیگا۔

٦١٥ - عائذ الا حمسی سے روایت کی گئی ہے کہ انہوں نے کہا کہ ایک مرتبہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور میرا ارادہ تھا کہ میں آنجناب سے نماز کے متعلق دریافت کرونگا مگر آپ نے (میرے پوچھنے سے پہلے) خود ہی فرمایا کہ جب تم پانچ وقت کی نماز پڑھتے ہوئے اللہ سے ملاقات کرو گے تو تم سے ان کے علاوہ کسی اور نماز کا سوال نہیں کیاجائیگا۔

٦١٦ - مسعدہ بن صدقہ سے روایت کی گئی ہے کہ انہوں نے کہا کہ ایک مرتبہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے دریافت کیا گیا کہ کیا سبب ہے کہ زانی شخص کو کافر نہیں کہا جاتا اور تارک الصلوۃ شخص کو کافر کہا جاتا ہے آخر اسکی کوئی دلیل ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ زانی اور اسکے مانند جو لوگ ہیں وہ یہ فعل بد اپنی شہوت سے مغلوب ہو کر کرتے ہیں ۔ اور نماز کا ترک کرنے والا نماز کو حقیر اور سبک سمجھتے ہوئے اسکو ترک کرتا ہے۔ اسلئے کہ ہرزانی تم کو ایسا ہی ملے گا کہ جب وہ کسی عورت کے پاس جاتا ہے تو وہ اس میں لذت محسوس کرتا ہے اس لئے اسکے پاس جاتا ہے ۔ اور کوئی تارک الصلوۃ اسلئے نماز ترک نہیں کرتا کہ اسکے ترک کرنے سے اسکو لذت حاصل ہوتی اور جب لذت نہیں ملتی تو وہ صرف اسکو سبک اور حقیر سمجھ کر ترک کرتا ہے اور اسکو سبک اور حقیر سمجھنا ہی کفر ہے ۔

٦١٧ - رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو اپنی نماز کو سبک اور حقیر سمجھے وہ ہم میں سے نہیں ہے خدا کی قسم وہ حوض کوثر پر ہمارے پاس نہیں پہنچے گا اور وہ بھی ہم میں سے نہیں جو شراب پیتا ہو نہیں خدا کی قسم وہ بھی ہمارے پاس حوض کوثر پر نہیں پہنچے گا۔

٦١٨ - حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ اپنی نماز کو حقیر و سبک سمجھنے والے کو ہم لوگوں کی شفاعت نصیب نہ ہوگی۔

٦١٩ - رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص نماز پڑھتے وقت اپنے کپڑوں کو بچائے (کہ اس میں کہیں منی مٹی  وغیرہ نہ لگ جائے) تو گویا اس نے اللہ کیلئے یہ کپڑے نہیں رہنے (بلکہ تکبر اور لوگوں کو دکھانے کیلئے پہنے ہیں)

٦٢٠ - زرارہ نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالٰی نے نماز فرض کی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسکی دس (١٠) قسمیں قرار دیں ۔ نماز سفر، نماز حضر، نماز خوف تین قسم کی ، نماز کسوف شمس و قمر، نماز عیدین ، نماز استغفار ، نماز میت -

 ٦٢١ - حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ زمین پر سجدہ فرض ہے اور غیر زمین پر جائز ہے۔