آپ کی ولادت اور ان کے متعلق علماء کے اقوال
شیخ اجل رئیس المحدثین ابو جعفر محمد بن علی بن حسین بن موسیٰ بن بابویہ صدوق قمی علیہ الرحمہ حضرت امام دوازدهم محمد بن حسن حجتہ المنتظر صاحب الزماں علیہ السلام کی دعا کی برکت سے قم کے اندر ۳۰۶ ھ میں پیدا ہوئے ۔ اور قمیوں میں کوئی ایسا نظر نہیں آتا جو علمی حیثیت و منزلت میں ان کے برابر ہو ۔ بنی بابو یہ قم کے خاندانوں میں سے ایک ایسا خاندان ہے جس کی علمی شہرت دور دور تک پھیلی ہوئی ہے اور جس شخص نے تیری اور چوتھی صدی کی علمی تاریخ کا مطالعہ کیا ہے اس کو معلوم ہے کہ ملک ایران میں شہر قم علم کا گہوارہ رہا ہے اس سرزمین نے ایسے محدثین و مصلحین کو جنم دیا اور اس کی فضاؤں سے رشد وہدایت کے ایسے ایسے ستارے اور ایسے ایسے چاند و سورج طلوع ہوئے کہ جن سے قم کی تاریخ ہمیشہ ہمیشہ در رخشاں اور تابندہ رہے گی ۔
چنانچہ علامہ مجلسی اول محمد تقی علیہ الرحمہ من لایحضره الفقیه کی شرح بزبان فارسی اللوامع میں تحریر فرماتے ہیں کہ علی ابن الحسین بن موسی بن بابویہ المتوفی ۳۲۹ھ (جو مولف کتاب علل شرائع کے والد تھے) کے زمانہ میں قم کے اندر دو لاکھ محدثین تھے اور شیخ صدوق کے والد ابو الحسن علی بن حسین علیہ الرحمہ ان کے راس الرئیس ان کے فقیہ تھے اور عامہ اہل قم کی نظر ان کی طرف اٹھتی تھی حالانکہ قم میں اس وقت کثرت سے علمائے اعلام تھے مگر اہل قم اپنے مسائل شرعیہ کے لئے ان کی طرف رجوع کرتے تھے ان کی وفات ۳۲۹ ھ میں ہوئی اور یہی وہ سال ہے جس میں ستارے بہت ٹوٹے ۔ آپ قم میں دفن ہوئے ۔ آپ نے بہت سی کتابیں تصنیف کیں ان میں ایک کتاب الرسالہ ہے جسے آپ نے اپنے فرزند ابی جعفر یعنی شیخ صدوق کو تحریر کیا تھا اور اس رسالہ سے شیخ صدوق نے اپنی کتاب من لا یحضره الفقیہ میں کثرت سے روایات نقل کی ہیں ان کے حالات تمام کتب رجال میں مرقوم ہیں ان کے شرف و فضل کے لئے یہی بہت ہے کہ ان کے پاس گیارہویں امام حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام نے مندرجہ ذیل خط تحریر کیا تھا جس میں ان کو نصیحت و وصیت فرمائی اور یہ لکھا