تلامذہ
اگر ہم ان تمام اگوں کو تلاش کرنا چاہیں کہ جنہوں نے شیخ صدوق علیہ الرحمہ سے روایت کی ہے کہ اور ان سے علم صاحب کیا ہے تو بحث بہت طویل ہو جائے گی اور اس کے لئے ایک بڑا وقت درکار ہو گا خصوصاً جبکہ ارباب معاجم کے بیان کے مطابق ہم جانتے ہیں کہ جب وہ ابھی کمسن ہی تھے کہ بڑے بڑے شیوخ اصحاب نے ان سے احادیث سننا شروع کر دیا تھا اور جب کہ ہم کو معلوم ہے کہ انہوں نے علمی مراکز کے بہت سے سفر کئے اور اس میں وہ خود حدیثیں سناتے بھی رہے اور سنتے بھی رہے لوگوں کو علم دیتے بھی رہے اور علم لیتے بھی رہے ۔ نیز ہم یہ جانتے ہیں کہ انہوں نے ستر (۷۰) سال سے کچھ زیادہ عمر پائی جسے انہوں نے علمی جہاد میں صرف کر دیا اسی اثنا میں وہ کتابیں بھی تصنیف کرتے رہے اور شیوخ کی مجلسوں میں بھی شریک رہے اصول حدیث کو بھی جمع کرتے رہے اور دینی احکام کی نشر و اشاعت بھی کرتے رہے ۔ یہ سب دیکھنے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ ممکن نہیں کہ ان تمام لوگوں کی فہرست پیش کریں کہ جنہوں نے شیخ صدوق علیہ الرحمہ سے کچھ اکتساب کیا ہے اور ہم پر کیا موقوف ان کی سوانح حیات لکھنے والوں میں سے کسی نے بھی ان کے چند مشہور تلامذہ
کے سوا جن کے نام زبان زد خلائق ہیں اور ان کی تعداد تقریباً بیس تک پہنچی ہے اور کسی کی نشاندہی نہیں کی ہے۔ یہ سب میں نے شیخ صدوق کی کتاب من لا يحضر الفقیه کی جلد اول کے مقدمہ سے لیا ہے جس کو افاضل نجف کے بعض محققین نے تحریر کیا ہے اور جو ۱۳۷۷ ھ میں نجف کے اندر طبع ہوئی ہے ۔
شیخ صدوق علیہ الرحمہ کی سب سے مشہور کتاب من لا یحضرہ الفقیہ ہے اس کا شمار شیعوں کی کتب اربعہ میں ہوتا ہے اور یہ کتب اربعہ وہ ہیں کہ احکام شرعیہ کے اخذ کرنے میں شیعوں کا اس پر دارومدار ہے نو سو سال (۹۰۰) سے زیادہ عرصہ گزر گیا کہ فقہاء و غیر فقہا۔ میں یہ مقبول ہے اور اتنی معتبر اور قابل اعتنا ہے کہ معدودے چند کے سوا اس پر آج تک کوئی اعتراض نہ کر سکا اب اس سے بڑھ کر اس کی اہمیت کی اور کیا دلیل ہو سکتی ہے ۔ وہ امر جو شیخ صدوق علیہ الرحمہ کے لئے اس کتاب من لا یحضره الفقیه کی تالیف سبب بنا تو آپ نے اس کے مقدمہ میں اس طرح بیان کیا ہے جب مقدر مجھ کو بلاد غربیہ کی طرف لے گیا اور میں ایلاق کے قصبہ بیچ میں پہنچا تو شریف الدین بن ابی عبداللہ المعروف نعمت جن کا اصلی نام محمد بن حسن بن اسحاق بن حسین بن اسحاق بن موسیٰ بن جعفر بن محمد بن علی بن حسین بن علی بن ابی طالب علیہ السلام سے ملاقات ہوئی ان کے ساتھ نشست و برخواست میں مسرت اور خوشدلی محسوس کرتا رہا وہ بڑے خوش اخلاق نیک باوار و دیانتدار و پرہیز گار شخص ہیں انہوں نے ایک مرتبہ محمد بن ذکریا رازی اور اس کی كتاب من لا يحضره الطبيب کا ذکر کیا اور مجھ سے فرمائش کی کہ میں بھی ان کے لئے اس کے طرز پر ایک کتاب من لا يحضره الفقیه تالیف کردوں جو مسائل حلال و حرام و شرائع و احکام کی جامع ہو اپنی تصنیف کردہ دو سو پینتالیس کتابوں کی نقل کی اجازت بھی دے دوں چونکہ میں نے ان کو اس کا اہل پایا اسے قبول کر لیا اور ان کے لئے یہ کتاب من لا يحضره الفقیه تألیف کر دی اور اس میں حذف اسناد کے ساتھ وہی احادیث رکھی ہیں جس پر میں فتویٰ دیتا ہوں میرے نزدیک صحیح ہیں اور میرا اعتقاد ہے کہ ہمارے اور اللہ کے درمیان حجت ہیں۔ اور اس میں جو کچھ ہے وہ کتب مشہور معتبرہ سے ماخوذ ہے جیسے حریز بن عبداللہ بحستانی کی کتاب اور عبید اللہ بن علی طلبی کی کتاب اور علی بن مهزیار اہوازی کی کتابیں اور حسین بن سعید کی کتابیں اور تو اور احمد بن محمد بن عیسیٰ اور کتاب نوادر محکمہ مصنفہ محمد بن احمد بن یحی بن عمران اشعری اور سعد بن عبداللہ کی کتاب الرحمتہ اور ہمارے شیخ محمد بن حسن بن ولید رضی اللہ عنہ کی کتاب جامع اور نو اور محمد بن ابی عمیر اور احمد بن ابی عبداللہ برقی کی کتاب المحاسن اور اپنے والد رحمہ اللہ کی کتاب الرسالہ وغیرہ اور اس میں بڑی جدو جہد سے کام لیا؟ اس کتاب کے متعلق محجتہ الاسلام سید بحر العلوم رحمہ اللہ فوائد رجالیہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ کتاب من لا يحضره الفقيه کتب اربعہ میں سے ایک ہے اور اس کا مشہور و معتبر ہونا اسی طرح روشن ہے جیسے آفتاب نصف النہار اس کی احادیث بلا توقف و بلا اختلاف کتاب صحاح میں موجود ہیں یہاں تک کہ فاضل محقق شیخ حسن ابن شہید ثانی رحمہ اللہ جن کو حدیث کو صحیح سمجھنے کے طریقہ کا پورا علم ہے انہوں نے بھی اس کتاب میں مندرج احادیث کو اپنے نزدیک اور کل کے نزدیک صحیح شمار کیا ہے اور ان کے شاگر د جلیل القدر شیخ عبد اللطیف ابن ابی جامع اپنی کتاب رجال میں تحریر کرتے ہیں کہ میں نے انکی زبان سے بالمشافہ سنا وہ فرماتے تھے کہ ہر وہ شخص جو یہ کہتا ہے کہ اس کتاب میں جو حدیثیں مندرج ہیں وہ صحیح ہیں تو وہ شاہد عادل سمجھا جائے گا ناقل نہیں سمجھا جائے گا۔
اس کے بعد علامہ سید بحرالعلوم قدس سرہ فرماتے ہیں کہ ہمارے اصحاب میں سے جو لوگ من لا یحضره الفقیه کی احادیث کو دیگر کتب اربعہ کی احادیث پر ترجیح دیتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ شیخ صدوق بہت صاحب حافظہ تھے ۔ بہترین طور پر یاد رکھتے تھے اور روایت کرنے پر پورے ثابت قدم رہتے تھے اور یہ کتاب کافی کے بعد تصنیف ہوئی ہے اس لئے اس میں جو احادیث لکھی گئی ہیں صحت کی پوری ضمانت اور ذمہ داری سے لکھی گئی ہیں اس میں یہ نہیں کیا ہے کہ اور مصنفین کی طرح روایات میں جو کچھ آیا وہ سب لکھ دیں بلکہ وہی حدیثیں درج کی ہیں جن پر وہ فتویٰ دیتے اس کو صحیح سمجھتے اور اللہ اور اپنے درمیان اس کو حجت سمجھتے تھے اور اسی بنا پر کہا گیا ہے کہ شیخ صدوق کی مرسل احادیث جو من لا يحضره الفقیه میں درج ہیں وہ حجت و اعتبار میں ابن ابی عمیر کی مرسل حدیثوں کے مانند ہیں ۔ اور یہی وہ خصوصیت ہے جو اس کتاب کے سوا دیگر اصحاب کی کتابوں میں نہیں پائی جاتی ۔ علاوہ بریں شہید ثانی علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب شرح داریت الحدیث میں تحریر فرمایا کہ شیخ محمد بن یعقوب کلینی سے لے کر آج تک ہمارے جتنے بھی مشائخ گزرے ہیں ان میں سے کسی ایک کو بھی اس کی ضرورت نہیں کہ ان کی عدالت کے لئے کوئی تخصیصی و تنبیہ پیش کی جائے اس لئے کہ ان لوگوں میں ثقافت ، احتیاط زہد و تقویٰ اس قدر تھا جو عدالت سے بھی بڑھا ہوا تھا اور یہ ہر زمانہ میں مشہور تھا اور غالباً یہی وجہ ہے کہ متاخرین علماء رجال ان عظیم المشائخ میں سے اکثر کے لئے بین این صدوق سید مرتضی، دامن براج وغیرہ ان کے ثقہ و عادل ہونے کے لئے کسی تنصیں کی ضرورت نہیں سمجھتے اس لئے کہ ان کا حال سب کو معلوم ہے اور ان کا تزکیہ و تقویٰ کسی کے نص کرنے پر منحصر نہیں اور عام طور پر معروف و مشہور ہے اور وہ علماء فن جو ان لوگوں کے زمانے میں موجود نہ تھے انہوں نے بھی اپنے سابقہ علماء کی توثیق پر اعتماد کیا ہے ۔ نیز علامہ خیر محق شیخ بہاء الدین عالمی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب شرح من لا یحضره الفقیہ میں تحریر فرمایا ہے کہ اس کتاب میں ایک تہائی سے زیادہ احادیث (بغیر اسناد کے) مرسل درج ہیں اس کی صحت کا انہیں اس قدر یقین ہے انہیں پر اپنے فتووں کا مدار رکھتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ یہ احادیث ہمارے اور اللہ تعالٰی کے درمیان حجت ہیں اور اصولین کی ایک جماعت نے یہاں تک کہدیا ہے کہ شخص عادل کی مرسل حدیث کو ترجیح دی جائے گی۔ اس لئے کہ اس کو حدیث کے مضمون پر یقین ہے اس شخص کی حدیث پر جس کا عدل ثابت نہ ہو اور اسناد کے ساتھ حدیث پیش کریں یعنی ایک عادل کا یہ کہنا ہے کہ ” قال رسول الله صلى الله عليه و آله و سلم كذا “ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا اس کو ترجیح ہوگی اس پر جو یہ کہے کہ ” حدثنی فلان عن فلان انه قال رسول الله عليه و آله و سلم كذا “ بیان کیا مجھ فلاں نے روایت کرتے ہوئے فلاں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا ۔
اور ہمارے اصحاب رضوان اللہ علیہم نے شیخ صدوق کی مرسل احادیث کو ابن ابی عمیر کی مرسل احادیث کے برابر مستند و معتمد کجھا ہے اس لئے کہ ان سب کو معلوم ہے کہ شیخ صدوق علیہ الرحمہ کی یہ عادت ہے کہ وہ کسی ثقہ کی روایت ہی کو مرسل کرلیتے اور اس کی استناد کو حذف کر لیتے ہیں جیسے ابن ابی عمیر ۔ اور محقق سید داماد رحمہ اللہ اپنی کتاب الروائح سماویہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ اگر حدیث کو مرسل کرنے والے کے نزدیک در میان کے تمام راوی عادل نہ ہوں تو اس کے لئے یہ درست نہیں کہ وہ حدیث کو امام کی طرف سے منسوب کرے حدیث مرسل وہی ہے کہ جب ارسال کرنے والا یہ یقین رکھتا ہو کہ اس کے درمیان تمام راوی مستند و عادل ہیں اور وہ ان کا ذکر نہ کرے اور راست کہے کہ قال النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا کہے کہ قال الامام علیہ السلام اس لئے کہ اس کو یقین ہے کہ یہ حدیث معصوم علیہ السلام سے صادر ہوئی ہے جیسا کہ شیخ صدوق علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب من لا يحضره الفقیہ میں یہی کیا ہے کہ اور کہا تمال الامام علیه السلام اور محقق شیخ سلمان بحرانی نے اپنی کتاب البلغہ کے اندر اپنی گفتگو کے درمیان من لا یحضره الفقیه کی روایات کے معتبر ہونے کے متعلق فرمایا ہے کہ میں نے اکثر اصحاب کو دیکھا ہے کہ وہ شیخ صدوق علیہ الرحمہ کی مرسل احادیث کو صحیح کہتے ہیں اور ان کے مراسیل ابن ابی عمیر کے مراسیل سے کم معتبر نہیں ہیں جیسا کہ علامہ علی علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب الخلف میں اور شہید علیہ الرحمہ نے شرح ارشاد میں سید محقق داماد کی بھی
یہی رائے ہے ۔