Skip to main content

باب تیمم

حدیث ٢١٢ - ٢٢٥ 

اللہ تعالی کا ارشاد ہے ۔
وَإِن كُنتُم مَّرْضَىٰٓ أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ أَوْ جَآءَ أَحَدٌۭ مِّنكُم مِّنَ ٱلْغَآئِطِ أَوْ لَـٰمَسْتُمُ ٱلنِّسَآءَ فَلَمْ تَجِدُوا۟ مَآءًۭ فَتَيَمَّمُوا۟ صَعِيدًۭا طَيِّبًۭا فَٱمْسَحُوا۟ بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُم مِّنْهُ ۚ مَا يُرِيدُ ٱللَّهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُم مِّنْ حَرَجٍۢ وَلَـٰكِن يُرِيدُ لِيُطَهِّرَكُمْ وَلِيُتِمَّ نِعْمَتَهُۥ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ  (اور اگر تم مریض ہو ( اور پانی نقصان کرے) یا سفر میں ہو یا تم میں کسی کا پائخانہ نکل جائے یا عورتوں سے صحبت کی ہو اور تم کو پانی میسر نہ ہو ( کہ طہارت کرو) تو پاک مٹی پر تیم کرلو (اس کا طریقہ یہ ہے کہ ) اپنے منہ اور ہاتھوں پر مٹی بھرا ہاتھ پھیر لو ۔ خدا تو یہ چاہتا ہی نہیں کہ تم لوگوں پر کسی طرح تنگی کرے ۔ بلکہ وہ چاہتا ہے کہ تم لوگوں کو پاک و پاکیزہ کر دے اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دے تاکہ تم شکر گزار بن جاؤ) (سورۃ المائدہ آیت نمبر٦)

٢١٢- زرارہ کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ آپ مجھے یہ نہ بتائیں گے کہ آپ کو یہ کہاں سے معلوم ہوا کہ مسح سر کے بعض حصہ کا اور پاؤں کے بعض حصہ کا ہے ؟ یہ سن کر آپ مسکرائے اور فرمایا اے زرارہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بتایا اور یہی قرآن میں نازل ہوا ہے اللہ تعالٰی کی جانب سے چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ” فاغسلو او جو حکم “ تو اس سے ہمیں معلوم ہوا کہ پورے چہرے کو دھونا چاہئے پھر فرمایا ” و ایدیکم الى المرافق “ اور چہرے سے دونوں ہاتھوں کی کہنیوں تک کو ملایا اس سے ہمیں معلوم ہوا کہ دونوں ہاتھوں کو کہنیوں تک دھونا ہے ۔ پھر کلام میں فصل دیا اور کہا "وامسحوا برو سکم" اور چونکہ برو سکم کہا اور " ب " کی وجہ سے معلوم ہوا کہ مسح سر کے بعض حصے کا کرنا ہے پھر اسی روس کے ساتھ ارجلكم الى الكعبين کو ملا کر کہا اس سے معلوم ہوا کہ سر کی طرح دونوں پاؤں کے ٹخنے تک بعض حصے کا مسح کرنا ہے ۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی تفسیر بھی کر دی تھی لیکن لوگوں نے اس کو ضائع کر دیا۔
 پھر اللہ تعالٰی کا ارشاد ہوا کہ فلم تجدوا ماء فتيمموا صعيداً طيباً فامسحو ابوجوحکم یعنی (اگر پانی نہ پاؤ تو پاک صاف مٹی پر تیم کرو اور اپنے چہروں پر مسح کر لو ) پس جس کو پانی نہ ملے اس کے لئے وضو کو ہٹا کر غسل کے بعض حصے پر مسح رکھ دیا اور بعض حصے کے لئے وجو حکم کے " ب " کو رکھا گیا ہے ( جو بعض کے معنی دیتا ہے) پھر اس کے ساتھ ” و ایدكم منه “ کو ملایا یعنی اس  تیمم میں ان کو بھی شریک کر دیا ۔ اس لئے کہ اس کو علم ہے کہ یہ مٹی ہاتھ کے تھوڑے سے حصے پر لگی ہے اس لئے یہ پورے چہرے پر نہیں چل سکتی۔ پھر اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے ما یرید الله ليجعل عليكم من حرج (اللہ تعالیٰ کا یہ ارادہ نہیں کہ تم لوگوں پر کوئی حرج واقع ہو) اور حرج کے معنی تنگی کے ہیں۔

 ٢١٣- زرارہ کا بیان ہے کہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی سفر کے دوران حضرت عمار سے کہا مجھے اطلاع ملی ہے کہ تم جنب ہوئے پھر تم نے کیا کیا ؟ عمار نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نے مٹی پر لوٹی لگائی ۔ آپ نے فرمایا اس طرح تو گدھے لوٹی لگاتے ہیں تم نے ایسا کیوں نہیں کیا یہ کہہ کر آپ نے زمین کی طرف اپنے دونوں ہاتھ بڑھائے اور انہیں مٹی پر رکھا پھر اپنی انگلیوں اور ہتھیلیوں سے پیشانی کا مسح کیا پھر ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ کی پشت پر  مسح کیا پھر آپ نے اس کا اعادہ نہیں کیا ۔

لہذا اگر کوئی شخص وضو کے بدلے تیمم کرے تو ایک مرتبہ زمین پر ہاتھ مارے پھر ان دونوں کو جھاڑے اور ان دونوں سے اپنی پیشانی اور دونوں ابروؤں کا مسح کرے اور اپنے دونوں پشت دست پر مسح کرے اور اگر غسل جنابت کے بدلے تیمم کرتا ہے تو ایک مرتبہ دونوں ہاتھ زمین پر مارے پھر دونوں کو جھاڑے اور ان دونوں سے اپنی پیشانی اور دونوں ابروؤں پر مسح کرے اس کے بعد پھر زمین پر دوبارہ ہاتھ مارے اور اس سے اپنے دونوں، پشت کف دست پر مسح کرے پہلے د اہنی پشت کف دست پر پھر بائیں پشت کف دست پر ۔

٢١٤- ایک مرتبہ عبید اللہ بن علی حلبی نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایک ایسے شخص کے متعلق دریافت کیا کہ جب وہ جنب ہوا تو اسے پانی نہیں ملا۔ آپ نے فرمایا وہ پاک مٹی سے تیسم کرلے اور جب پانی ملے تو غسل کر لے اور وہ ( تیم کے ساتھ پڑھی ہوئی ) نماز کا اعادہ نہیں کرے گا ۔ نیز ایک ایسے شخص کے متعلق دریافت کیا جو پانی کے کنوئیں کی طرف سے گزر رہا ہے مگر اس کے پاس ڈول نہیں ہے آپ نے فرمایا کہ اس پر یہ فرض نہیں کہ کنوئیں میں اترے اس لئے کہ پانی کا رب بھی وہی ہے جو زمین کا رب ہے۔ اسے چاہئے کہ تیم کر لے ۔ نیز ایک ایسے شخص کے متعلق دریافت کیا گیا کہ وہ جنب ہوتا ہے لیکن اس کے پاس پانی اتنا ہی ہے جو نماز کے لئے وضو کرنے کو کافی ہو اب وہ وضو کرے یا تیم کرے ۔ آپ نے فرمایا نہیں وہ تیم کریگا کیا تم نہیں دیکھتے کہ اسے نصف وضو قرار دیا گیا ہے۔ اور جب تیم کئے ہوئے شخص کو پانی مل جائے اور اسے امید ہو کہ دوسرا پانی بھی مل سکتا ہے یا اس کا خیال ہو کہ جب چاہیں گے مل جائے گا لیکن اب اس کا ملنا مشکل ہو گیا مگر جوں ہی اس کی نظر پانی پر پڑی اس کا تیم ٹوٹ گیا اب اس پر لازم ہے کہ وہ دوبارہ تیم کرے ۔ اور اگر اس نے تیسم سے نماز شروع کر دی ہے کہ اتنے میں پانی مل گیا تو اگر اس نے ابھی رکوع نہیں کیا ہے تو نماز توڑے وضو کرے اور نماز پڑھے اور اگر اس نے رکوع کر لیا ہے تو پھر اپنی وہی نماز جاری رکھے اس لئے کہ تم بھی تو دو طہارتوں میں سے ایک ہے اور جس نے تیسم کر لیا پھر پانی مل گیا تو اگر وہ جب تھا تو غسل کرے اور اگر جنب نہیں تھا تو وضو کرے اور اگر کسی نے تیمم سے نماز پڑھ لی ہے کہ پانی مل گیا اور ابھی اس نماز کا وقت مزید ہے اور اس کی نماز ہو چکی تو اس کو اعادہ کی
ضرورت نہیں ہے ۔

٢١٥- زرارہ اور محمد بن مسلم دونوں کا بیان ہے کہ ہم دونوں نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے ایک ایسے شخص کے متعلق دریافت کیا کہ جسے پانی نہیں ملا اور نماز کا وقت آگیا اس نے تم کیا اور ابھی دو رکعت نماز پڑھی تھی کہ پانی مل گیا تو کیا اب وہ ان دونوں رکعتوں کو توڑ دے اور قطع کر دے اور وضو کر کے پھر سے نماز پڑھے ؟ آپ نے فرمایا نہیں وہ اپنی نماز جاری رکھے گا نہ توڑے گا نہ قطع کرے گا صرف پانی آجانے کی وجہ سے اس لئے کہ جب اس نے نماز پڑھنا شروع کیا تھا تو تیم کر کے باطہارت تھا۔ زرارہ کا بیان کہ میں نے آنجناب سے عرض کیا اچھا وہ با تیم تھا اور اس نے ایک رکعت نماز پڑھی تھی کہ اس سے حدث ( ریح) صادر ہو گیا اور پانی بھی ہاتھ آگیا ؟ آپ نے فرمایا وہ نماز چھوڑ کر وضو کرے گا اور وہ نماز پڑھے گا جس کو اس نے تیمم کے ساتھ شروع کیا تھا۔

٢١٦- اور عمار بن موسیٰ ساباطی نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے دریافت کیا کہ کیا وضو کے بدلے ۔ غسل جنابت کے بدلے اور عورتوں کے غسل حیضی کے بدلے  تیمم یہ سب برابر ہیں ؟ آپ نے فرمایا ہاں ۔

٢١٧- اور محمد بن مسلم نے حضرت امام محمد باقر نلیہ السلام سے ایک ایسے شخص کے متعلق دریافت کیا جس کو پھوڑے اور زخم ہو جایا کرتے ہیں اور اس میں وہ جنب ہوتا ہے تو آپ نے فرمایا کوئی ہرج نہیں وہ تیمم کرے اور غسل نہ کرے ۔

٢١٨- حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ شخص مبطون ( پیٹ کی بیماری میں مبتلا) اور کسیر ( جس کے اعضا. شکستہ ہوں) تیم کریں گے غسل نہیں کریں گے ۔ 

٢١٩- ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا گیا یا رسول اللہ فلاں شخص کو چیچک نکلی ہوئی تھی اور اسی حالت میں وہ جنب ہو گیا تو لوگوں نے اس کو غسل کرا دیا اور وہ مر گیا ۔ آپ نے فرمایا کہ لوگوں نے اس کی جان لے لی انہوں نے کسی سے پوچھ کیوں نہ لیا اسے تیمم کیوں نہیں کرا دیا ناواقفیت کا علاج تو پوچھ لینا ہے ۔

٢٢٠- حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے دریافت کیا گیا کہ ایک شخص کو چیچک نکلی ہوئی تھی اور اس میں وہ جنب ہو گیا۔ آپ نے فرمایا اگر وہ خود سے جنب ہوا ہے تو غسل کرے گا اور اسے احتلام ہوا ہے تو تیم کرے گا اور جنب شخص اگر ٹھنڈک کی وجہ سے اپنی ذات کو خطرہ محسوس کرے تو تیمم کر لے ۔

٢٢١- اور معاویہ بن میرہ نے آنجناب سے ایک ایسے شخص کے متعلق دریافت کیا کہ جو سفر میں ہے اس کو پانی نہیں ملا تو اس نے تیمم  کرکے نماز پڑھ لی پھر چلتے ہوئے ایسے مقام پر پہنچا جہاں پانی ہے اور اس نماز کا ابھی وقت باقی ہے ۔ کیا وہ اپنی اس تیم سے پڑھی ہوئی نماز کو کافی سمجھے یا وضو کرے اور دوبارہ نماز پڑھے ؟ آپ نے فرمایا اس کی وہی تیم سے پڑھی ہوئی نماز ہو گئی ( پھر سے نماز پڑھنے کی ضرورت نہیں) اس لئے کہ پانی کا رب بھی تو وہی ہے جو مٹی کا رب ہے ۔

٢٢٢- اور ایک مرتبہ حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالٰی عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں تو ہلاکت میں پڑ گیا غسل کے لئے پانی موجود نہ تھا اور میں نے (عورت سے) مجامعت کر لی ۔ ان کا بیان ہے کہ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک محمل کے لئے حکم دیا اور ہم دونوں پانی کے ساتھ اس کے پردے میں ہو گئے اور میں نے بھی غسل کیا اور عورت نے بھی غسل کر لیا اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے ابو ذر تمہارے لئے یہ پاک صاف مئی (یعنی اس پر تیمم ) دس سال کے لئے بھی کافی تھی ۔ اور جب کوئی شخص حالت سفر میں جنب ہو جائے اور اس کے پاس اتنا ہی پانی ہو کہ جس سے وضو کرے تو وہ وضو نہیں کرے گا تیم کرے گا لیکن اگر وہ یہ جانتا ہے کہ وقت نماز فوت ہونے سے پہلے اس کو پانی مل جائے گا ( اور وہ غسل کر کے نماز پڑھ لے گا تو تیمم بھی نہیں کرے گا ) ۔

٢٢٣- اور عبدالرحمن بن ابی نجران نے حضرت ابو الحسن امام موسیٰ بن جعفر علیہ السلام سے سوال کیا تین افراد کے متعلق جو سفر میں ہیں ایک ان میں سے جنب ہے ایک مر گیا ہے اور ایک بے وضو ہے اور نماز کا وقت آگیا ہے اور ان کے پاس صرف اتنا ہی پانی ہے کہ جو صرف ایک کے لئے کافی ہو تو وہ لوگ کیا کریں ۔ آپ نے فرمایا جنب والا شخص غسل کرے گا اور میت کو تیم کے ساتھ دفن کر دیا جائے گا اور جو بے وضو ہے وہ بھی تیمم کرے گا اس لئے کہ غسل جنابت فرض ہے اور غسل میت سنت ہے اور بے وضو شخص کے لئے تیمم جائز ہے ۔

٢٢٤- اور محمد بن حمران نہدی اور جمیل ابن دراج نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے دریافت کیا کہ قوم کا ایک امام جماعت ہے وہ جنابت میں مبتلا ہو گیا اور وہ سفر میں ہے اس کے پاس اتنا پانی نہیں جو اس کے غسل کے لئے کافی ہو کیا جماعت میں کوئی اور شخص وضو کر کے جماعت کو نماز پڑھا دے ۔ آپ نے فرمایا نہیں بلکہ وہی امام جو جنب ہو گیا ہے وہ تیمم کرے گا اور لوگوں کو نماز پڑھائے گا اس لئے کہ اللہ تعالٰی نے مٹی کو بھی اس طرح طاہر بنایا ہے جس طرح پانی کو طاہر بنایا ہے ۔

(۲۲۵) اور عبد اللہ بن سنان نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایک ایسے شخص کے متعلق سوال کیا کہ جسے جنابت ہو گئی اور ٹھنڈی رات ہے اور اسے خطرہ ہے کہ اگر غسل کیا تو تلف ہو جائے گا؟ تو آپ نے فرمایا وہ تیمم کر کے نماز پڑھے اور جب ٹھنڈک کا خطرہ نہ ہو تو غسل کرے اور اس نماز کو پھر سے پڑھے (بشر طیکہ اس نے خود سے اپنے کو جنب کیا ہو) اور اگر کوئی شخص اس حال میں ہو کہ گیلی مٹی کے سوا اس کو کچھ نہیں مل سکتا تو اس پر تیم کرے گا اس لئے کہ جب اس کے پاس کوئی خشک کپڑا اور کوئی نمدا بھی نہیں جس کی گرد پر وہ تیمم کر سکے تو اللہ تعالٰی سب سے بڑا عذر کو قبول کرنے والا ہے اور اگر کوئی شخص یوم جمعہ یا یوم عرفہ اژدھام کے بیچ میں ایسا پھنسا ہو کہ لوگوں کی کثرت کی وجہ سے وہ مسجد سے نکل نہ سکتا ہو تو پھر تیمم کرکے لوگوں کے ساتھ نماز پڑھ لے اور جب وہاں سے واپس ہو تو پھر دوبارہ نماز پڑھے ۔ اور جس شخص کے پاس پانی موجود تھا مگر وہ بھول گیا تھا اور تیم سے نماز پڑھ لی پھر اسے نماز کا وقت نکلنے سے پہلے یاد آیا کہ پانی تو موجود ہے تو وہ دوبارہ وضو کر کے نماز پڑھے گا اور اگر کسی شخص کو مسجدوں میں سے کسی مسجد کے اندر احتلام ہو گیا تو وہ اس مسجد سے نکل کر غسل کرے گا سوائے مسجد الحرام اور مسجد رسول کے اس لئے کہ اگر ان دونوں مسجدوں میں سے کسی ایک کے اندر کسی شخص کو احتلام ہو گیا ہے تو وہ وہیں تیمم کرے گا اور اس کے بعد نکلے گا اس لئے کہ بغیر تیمم کئے وہ اس میں چلے گا بھی نہیں-