Skip to main content

حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کا مکتوب گرامی شیخ صدوق کے والد کے نام


نام سے اس اللہ کے جو رحمن ورحیم ہے ہر طرح کی حمد اس اللہ کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے ۔ عاقبت متقیوں کے لئے ہے جنت موحدین کے لئے اور جہنم ملحدین کے لئے ہے اور سوائے ظالموں کے اور کسی پر زیادتی اچھی نہیں ہے اور نہیں ہے کوئی اللہ سوائے اس اللہ کے جو خلق کرنے والوں میں سب سے بہتر ہے اور اللہ کی رحمتیں نازل ہوں اس  کی بہترین مخلوق محمد اور ان کی طیب و طاہر عترت پر ۔
 اما بعد اے میرے شیخ ، میرے معتمد ، اور میرے فقیہ ابوالحسن علی ابن الحسین قمی اللہ تمہیں اپنی رضا کی توفیق عطا فرمائے اور اپنی مہربانی سے تمہارے صلب میں صالح اولاد قرار دے میں تم کو وصیت کرتا ہوں اللہ سے تقویٰ اختیار کرنے نماز قائم کرنے اور زکوۃ ادا کرنے کی اس لئے کہ مانعین زکوۃ کی نماز نہیں قبول کی جاتی نیز میں تمہیں وصیت کرتا ہوں لوگوں کی خطا معاف کرنے کی ، غصہ کو پی جانے کی، اپنے اقرباء کے ساتھ حسن سلوک کی ، اپنے بھائیوں کے ساتھ ہمدردی کی ان کی حاجت برآوری کے لئے سعی اور کوشش کرنے کی اور جہل کا سامنا ہو تو اسے برداشت کرنے کی تفتہ اور تمام امور میں ثابت قدمی کی اور قرآن کے عہد کو پورا کرنے کی ، حسن خلق کی، نیکی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے کی چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ۞ لَّا خَيْرَ فِى كَثِيرٍۢ مِّن نَّجْوَىٰهُمْ إِلَّا مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَةٍ أَوْ مَعْرُوفٍ أَوْ إِصْلَـٰحٍۭ بَيْنَ ٱلنَّاسِ ۚ  (سوره النساء آیت نمبر١١٤ ) ( ان کی راز کی باتوں سے اکثر میں تو بھلائی کا نام تک نہیں مگر ہاں جو شخص کسی کو صدقہ دینے یا اچھے کام کرنے یا لوگوں کے درمیان ملاپ کرانے کا حکم دے اور تمام فواحشات سے اجتناب کرے) اور تمہارے لئے لازمی ہے نماز شب کی ادائیگی اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کو وصیت فرمائی تھی اور کہا تھا کہ اے علی تمہارے لئے نماز شب لازمی ہے اور آپ نے یہ تین مرتبہ فرمایا تھا اور جو شخص نماز شب کا استخفاف کرے اسے ہلکی چیز سمجھے وہ ہم میں سے نہیں ہے لہذا تم میری وصیت پر عمل کرو اور میرے شیعوں کو بھی حکم دو کہ وہ اس پر عمل کریں اور تم پر لازم ہے کہ صبر سے کام لو اور فراخی و کشادگی کا انتظار کرو اس لئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ میری امت کا سب سے بہتر کام فراخی و کشادگی کا انتظار کرنا ہے اور میرے شیعہ ہمیشہ ہی حزن و غم میں بسر کریں گے یہاں تک کہ میرا ده فرزند ظہور کرے گا جس کی بشارت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دی کہ وہ زمین کو عدل وانصاف سے اسی طرح بھر دے گا جس طرح وہ ظلم وجور سے بھری ہوئی ہوگی ۔ پس اے میرے شیخ صبر سے کام لو اور میرے شیعوں کو بھی تلقین کرو إِنَّ ٱلْأَرْضَ لِلَّهِ يُورِثُهَا مَن يَشَآءُ مِنْ عِبَادِهِۦ ۖ وَٱلْعَـٰقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ  ( ساری زمین تو خدا ہی کی ہے وہ اپنے بندوں میں جس کو چاہے اس کا وارث و مالک بنائے اور خاتمہ بخیر تو بس پر ہیز گاروں کا ہی ہے) (سورہ اعراف (۱۲۸) اور تم پر اور ہمارے تمام شیعوں پر سلام اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہوں " و حسبنا الله و نعم الوكيل نعم المولى ونعم النصير ( اور ہم لوگوں کے لئے خدا ہی کافی ہے وہ بہترین کار ساز بہترین مالک اور بہترین مددگار ہے) شیخ صدوق علیہ الرحمہ کے سوانح نگاروں نے ان کے والد کے نام حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے اس خط کو نقل کرنے کے بعد تحریر کیا کہ اب اس خط کے پڑھنے کے بعد ہم اس امر کی ضرورت نہیں سمجھتے کہ ان کے والد کی عظمت و علو مرتبت کے لئے مزید کوئی دلیل پیش کریں اس لئے کہ امام علیہ السلام نے اس خط میں ان کو شیخ و معتمد اور فقیہ کے لقب سے یاد کیا ہے اور ان کے لئے توفیق الہی اور ان کے صلب سے صالح اولاد پیدا ہونے کی دعا کی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کی نسل میں بڑے بڑے علماء و فضلاء و صلحا پیدا ہوئے خصوصاً شیخ صدوق علیہ الرحمہ ۔