علامہ حلی کی رائے
اور علامہ علی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب خلاصتہ الاقوال جلد اول میں ان کے متعلق دہی لکھا ہے جو نجاشی اور شیخ طوسی نے تحریر فرمایا ہے اور کہا ہے کہ ان کی تقریباً تین سو تصانیف ہیں جن میں سے اکثر کا ذکر ہم نے اپنی کتاب کبیر میں کر دیا ہے آپ نے ۳۸۱ ھ میں وفات پائی اور علامہ سید بحر العلوم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب فوائد رجالیہ میں تحریر کیا ہے کہ آپ مشائخ شیعہ میں سے ایک شیخ اور ارکان شریعت میں سے ایک رکن تھے رئیس المحدثین تھے اور آئمہ طاہرین سے جس قدر روائتیں کی ہیں ان میں صدوق (حد سے زیادہ راست گو) تھے آپ امام عصر کی دعا کی برکت سے پیدا ہوئے اور یہ فضل و شرف و افتخار ان کو اسی وجہ سے حاصل ہوا ۔ امام عصر عجل اللہ فرجہ نے اپنی توقیع میں لکھا کہ یہ فقیہ اور مبارک ہوں گے ان سے اللہ تعالٰی لوگوں کو بہت فائدہ پہنچائے گا۔ اس لئے ساری دنیا پر آپ کے علم کی برکت چھا گئی اور ہر خاص و عام نے ان سے نفع حاصل کیا آپ کی تصانیف مدت تک باقی رہیں گی اور انکی فقہ وحدیث سے فقہا، اور وہ عوام جن کے پاس کوئی مرفقیہ نہ ہو منتفع ہوں گے ۔ اس کے بعد آپ نے شیخ صدوق علیہ الرحمہ کی ولادت کے متعلق روایات، کو نقل کرنے کے بعد تحریر کیا ہے کہ یہ روایات صدوق کے عظیم المرتبت ہونے کی دلیل ہیں ان کی پیدائش سے پہلے ہی ان کے اوصاف بیان کر دینا امام کے معجزات میں سے ایک معجزہ ہے اور امام کا ان کے متعلق یہ فرمانا کہ وہ فقیہہ و بابرکت ہوگا لوگوں کو بہت نفع پہنچائے گا یہ شیخ صدوق کی عدالت اور وثاقت کی دلیل ہے اس لئے کہ ان کی روایت اور ان کے فتویٰ سے لوگ منتفع ہوں گے کہ فتوئی وغیرہ بغیر عدالت کے مکمل نہیں اس میں عدالت کی شرط ہے اور امام کی طرف سے اس کی توثیق ان کی وثاقت کی بھی بہت بڑی دلیل ہے نیز ہمارے بعض علمائے کرام نے تو انکی وثاقت پر نص کر دی ہے جیسے الشفقہ الفاضل محمد بن ادریس علی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب السرائر والمسائل میں اور سید الشفقہ الجلیل علی بن طاوس علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب فلاح السائل ونجاح الامل میں اور کتاب النجوم و کتاب الاقبال و کتاب خیاث سلکان الوریٰ لکان الثریٰ میں اور علامہ علی علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب المختلف والمنتہیٰ میں شہید نے نکت الارشاد و کتاب الذکری میں ان کی وثاقت کی نص کر دی ہے ۔ پھر آپ نے علمائے متاخرین میں سے چند کے نام بتائے ہیں جنہوں نے ان کی وثاقت کی تصریح کردی ہے اور بہر حال شیخ صدوق کی وثاقت واضح اور روشن چیز ہے بلکہ معلوم ہے اور ضروری ہے کہ جس طرح حضرت ابو زر و حضرت سلمان فارسی کو ثاقت معلوم ہے اور اگر یہ کچھ بھی نہ ہو تو علماء کے درمیان ان کا لقب صدوق مشہور ہونا یہی ان کی وثاقت کے ثبوت کے لئے کافی ہے ۔