پیش لفظ
بسم الله الرحمن الرحيم
پیش لفظ
پر وردگار عالم نے اپنی رحمت بے پایاں کے تحت اپنے بندوں کی ہدایت کیلئے تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء علیہم السلام مبعوث فرمائے اور جناب ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد ائمہ طاہرین علیہم السلام کا سلسلہ قائم کیا جن کی طرف سے ہدایت تا قیامت قائم رہے گی۔ چونکہ ائمہ طاہرین علیہم السلام علم لندنی کے حامل تھے اس لئے ان ذوات مقدسہ کے طفیل مختلف النوع علوم کے بے شمار باب کھلے۔ ان علوم کو عام کرنے کے لئے ہمارے بزرگوں نے بیش بہا کاوشیں کیں اور علوم و ارشادات معصومین علیهم السلام پرمینی ان گنت کتب در سائل تالیف و تصنیف کئے ۔ جن میں سرفہرست کتب اربعہ ہیں یعنی الكافي، من لا یحضره الفقيه، تهذيب الاحكام اور استبصار - بلاشبہ ان میں من لا يحضره الفقیہ کو ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ یہ کتاب گیارہ سو برس پہلے مرتب کی گئی تھی لیکن مذہب اثنا عشری کی بنیادی کتاب ہونے کے باوجود اس کا ابھی تک کسی بھی زبان میں ترجمہ نہیں کیا گیا۔ بادی النظر میں اس کی مندرجہ ذیل وجوہات تھیں۔
ا۔ جن طلباء یا افراد نے اس سے استفادہ کیا وہ عربی زبان سے واقف تھے اس لئے ان میں سے ایک کثیر تعداد کے غیر عربی ہونے کے باوجود ان کو اس کے ترجمے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہوئی۔
۲۔ اس کتاب کو صرف خواص یعنی مولوی حضرات سے متعلق سمجھ لیا گیا اور عوام کو اس سے روشناس کرانے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی گئی ۔ لیکن اس سلسلے میں ایک لطیف نقتے کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرائی جاتی ہے وہ یہ کہ اس کتاب کا نام اس طرز فکر کی نفی کرتا ہے۔ " من لا یحضرہ الفقیہ" یعنی جس کے پاس کوئی فقیہ نہ ہو۔ ظاہر ہے وہ خود بھی فقیہ نہیں ہوگا۔ اور یہ کتاب ایسے ہی افراد کے لئے مرتب کی گئی ہے۔ ۔ مذکورہ کتاب کا ترجمہ نہ کرنے کی وجوہات میں ایک دلیل یہ بھی دی گئی کہ ابھی عوام الناس کی پہنی سطح اس قابل نہیں ہوئی کہ وہ اس کتاب کو سمجھ کو اس سے فائدہ اٹھائیں۔
اس دلیل کا جھول خاصا نمایاں ہے۔ کیونکہ ائمہ طاہرین علیہم السلام نے سوائے چند مسائل کے باقی تمام مسائل عام لوگوں کے سامنے ہی بیان فرمائے تھے جن کی دینی سطح آج کے عام لوگوں کی ذہنی سطح سے کہیں کم تھی ۔ چنانچہ جب اُن افراد نے ان مسائل کو سمجھ کر ان پر عمل کیا تو آج کا انسان جس کی اپنی سطح یقیناً سابقہ دور کے انسان سے کہیں بلند ہے وہ ان مسائل کو کیوں نہ سمجھے گا ؟
یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ جناب امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا یہ قول نقل کر دیا جائے کہ ہماری جو با تمیں تمہاری سمجھ میں نہ آئیں انہیں آئندہ آنے والے لوگوں کے لئے چھوڑ دو ۔ اس کلام امام سے جہاں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ چودہ سو سال پہلے کے انسان کی ذہنی سطح کم تھی وہاں یہ بات واضح ہوتی ہے ذہنی سطح بتدریج بلند ہوتی جائے گی ۔ گو ہم اس وقت بھی یہ بات نہیں کہ سکتے کہ انسان کا ذہن اپنے حد کمال تک پہنچ گیا ہے لیکن اتنا وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ چودہ سو برس قبل کے انسان کی نسبت آج کے انسان کی دینی سطح یقینا بہت اونچی ہے۔ چنانچہ آج وہ پہلے کے انسان کے مقابلے میں بہتر طور پر ان احادیث کو سمجھ سکتا ہے اور ان سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
بہر حال ایک طرف مندرجہ بالا و سو سے دوسری طرف دینی کتابیں پڑھنے کے رجحان کا فقدان نیز کچھ دیگر نا گفتنی وجو ہات نے ناشرین کو کتب ہائے اثنا عشری کے تراجم شائع کرنے سے روکے رکھا۔ قابل ستائش ہیں وہ افراد جنہوں نے لگ بھگ نصف صدی قبل برصغیر میں مذہب اثنا عشری کے کتب کے تراجم شائع کرنے شروع کئے۔ لیکن اس وقت سے اب تک جو کچھ بھی کام ہوا وہ اصل کام کا عشر عشیر بھی نہیں ہے۔ مزید مقام تاسف یہ ہے کہ ہماری بنیادی کتابوں پر ابھی تک کوئی قابل ذکر کام نہیں ہوا۔ سوائے الکافی کے۔ لیکن اس کی بھی سولہ ہزار ایک سونا نوے (۱۶۱۹۹) احادیث میں سے صرف چند سو کا ترجمہ ہوا۔ جب کہ دیگر کتب اب تک محتاج ترجمہ رہیں۔
کم مائیگی کی اسی صورت حال نے چند ہم خیال احباب سید برکت حسین رضوی (ریٹائرڈ سرکاری آفیسر ) سید فیضیاب علی رضوی (الیکٹریکل انجنیئر ) اور سید اشفاق حسین نقوی ( بینک آفیسر ) کو مہمیز دی کہ حتی المقدور کتب مذہب اثنا عشریہ کے اردو تراجم شائع کرائے جائیں تاکہ ان کا بے مثال افادہ کروڑوں اردو داں حضرات تک پہنچ سکے۔ لہذا ادارہ الکساء پبلیشر ز کا قیام عمل میں لایا گیا۔الحمدللہ ادارہ کی پہلی ہی اشاعت علل الشرائع“ کوعوام الناس اور قوم کے باشعور طبقے نے بے حد پسند فرمایا جس کے نتیجے میں اس کتاب کو چند ماہ بعد ہی دوبارہ چھاپنا پڑا۔ اب ادارے کی دوسری کتاب من لا یحضر و الفقیہ پیش خدمت ہے۔ اس کتاب کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں تمام مسائل کا حل معصومین علیہم السلام کے ارشادات کے ذریعے بتایا گیا ہے جو مذہب اثنا عشری کی رو سے نص ہے۔ واضح رہے کہ پہلی نص کتاب باری تعالی ہے۔ من لا یحضرہ الفقیہ چار جلدوں پر مشتمل ہے اور دینی مسائل اور مختلف عبادات کے طریقوں کا مجموعہ ہے۔ اس کے علاوہ اس میں مستحبات اور واجبات کے ایسے فوائد بیان کئے گئے ہیں جو شاید آج تک عوام الناس کی نظروں سے اوجھل تھے ۔ مثال کے طور پر اگر کوئی بے اولاد شخص اپنے گھر میں بآواز بلند اذان دے گا تو پر وردگار عالم اسے اولاد کی دولت سے نواز دے گا، بیماریوں سے چھٹکارا دلائے گا اور نعمتوں کو فراواں کریگا۔ اگر کوئی شخص کھانا کھانے سے پہلے اور بعد میں وضو کرے گا تو اس کی آمدنی میں اضافہ ہوگا۔ اگر کوئی شخص حج کی نیت کرتے وقت دوسروں کو بھی شریک کرے گا تو نہ صرف ان کو حج کا ثواب ملے گا بلکہ اس حاجی کو بذات خود حج کے ثواب کے علاوہ صلہ رحمی کا ثواب بھی ملے گا ۔ ضمانت دی گئی ہے کہ دوسروں کے لئے دعا کرنے کا ثواب ایک لاکھ گنا ہے۔ اذان واقامت کے ساتھ نماز پڑھنے والے کے پیچھے ملائکہ کی دو صفیں نماز پڑھتی ہیں ۔ غرض رب العالمین کی جانب سے رحمتوں اور برکتوں کے خزانے کھلے ہوئے ہیں جو جس قدر چاہے حاصل کرے۔
یہ کتاب اتحاد بین السلمین کی ایک اہم دستاویز بھی ہے اور ان لوگوں کے لئے عظیم اور حیران کن اجر وثواب کا وعدہ کیا گیا ہے جواس سلسلے میں آگے بڑھیں ( ملاحظہ فرما ئیں احادیث نمبر ۱۱۲۴، ۱۱۲۵، ۱۱۲۸، ۱۵۶۸)
کچھ ایسے احکام بھی یہاں ملیں گے جو معاشرے میں رائج طریقوں کی تقریب ضد ہیں مثلا تہجد کی نماز قضا کرکے پڑھنا امام کے نزدیک افضل ہے اس سے کہ وقت سے پہلے یہ نماز ادا کر لی جائے۔
یہاں مناسب ہوگا کہ مذکورہ کتاب کے ایک اور افادی پہلو کی طرف بھی اشارہ کر دیا جائے اور وہ ہے لب ہائے مبارک معصومین علیہم السلام سے پیش قدر دعاؤں کا سلسلہ۔ جن کا ترجمہ پڑھتے ہوئے ایک طرف آپ کو دعا مانگنے کا سلیقہ آتا ہے تو دوسری طرف خداوند عالم کی بے پایاں عظمتوں اور رحمتوں کا احساس ہوتا ہے ساتھ ہی ایک جذ به تشکر و احسان مندی نمایاں ہوتا ہے کہ پروردگار نے ہمیں کیسے رؤف و مہربان اور صاحبان معرفت و عرفان رہنما عطا کئے ہیں۔
کبیر نا وصغیر نا سواء " ( ہمارے بڑے اور چھوٹے سب ایک جیسے ہیں) کی ایک تفسیر آپ اس وقت دیکھیں گے جب قحط سالی کے وقت بارش کے لئے حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین کم سنی کے دور میں دعاؤں کی تلقین کر رہے ہوں گے۔ شوکت الفاظ کا یہ ذخیرہ انتہائی عاجزانہ انداز میں آپ کو اس گھرانے کے سوا اور کہیں نہیں مل سکتا ۔
موجودہ ترجمہ آقائے اکبر غفاری کے مرتب کردہ نسخے سے کیا گیا ہے دعاؤں کے متن میں کہیں کہیں بریکٹ میں بھی بعض الفاظ نظر آئیں گے جو اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ دیگر نسخوں میں مذکورہ الفاظ بھی مرقوم ہیں۔ اس کی نسبت اگر اردو ترجمے میں کوئی عبارت نظر آئے تو اسے وضاحت سمجھا جائے۔
دعاؤں کے عربی متن پر اعراب لگا دئے گئے ہیں تا کہ انہیں صحت لفظی سے ادا کیا جائے ساتھ ہی ترجمہ بھی دے دیا گیا ہے تا کہ پڑھنے والے سمجھ سکیں کہ وہ اپنے پروردگار سے کیا مانگ رہے ہیں اور کس سلیقے سے مانگ رہے ہیں۔
اور اب آخر میں اعتذار کہ غلطی انسان کی سرشت میں ہے وہ کتنی ہی کوشش کرے لیکن غلطیوں سے پاک کام نہیں کر سکتا۔ گوادارے نے حتی الامکان کوشش کی ہے کہ موجودہ پیشکش کو خامیوں سے پاک رکھا جائے لیکن اس کے باوجود اگر کوئی غلطی یا خامی رہ گئی ہو تو ادارے کی جانب سے معذرت قبول کی جائے ۔ ادارہ قارئین کرام کا از حد ممنون ہوگا اگر وہ اس سلسلے میں اپنی آراء سے مطلع فرمائیں غلطیوں کی نشاندہی کریں اور ترویج علوم آل محمد کے اس کام میں شریک ہو کر مشاب ہوں۔ ہم اپنی اس کوشش کو امام زمانہ علیہ السلام کے توسط سے کیونکہ وہی اس دور میں ہمارے سر پرست ہیں دیگر معصومین علیہم السلام کی بارگاہ میں نذر کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ جمیع مسلمین تعلیمات محمد و آل محمد پر عمل پیرا ہو کر دنیا میں بھی امن و سکون سے بسر کریں اور آخرت میں بھی خداوند عالم کی رضا حاصل کر کے سرخ رو ہوں ۔ آمین ثم آمین۔
اللهم صل على محمد وآل محمد
والسلام
الكساء پبلیشرز