باب نماز کی کیفیت ابتداء سے لیکر خاتمہ تک
حدیث ٩١٥ - ٩٤٧
٩١٥ - حماد بن عیسی سے روایت کی گئی ہے انہوں نے کہا کہ ایک دن حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا اے حماد کیا تم احسن طریقہ سے نماز پڑھتے ہو؟ میں نے عرض کیا مولا وآقا میں نماز میں حریز کی کتاب کو پیش نظر رکھتا ہوں۔ آپ نے فرمایا کوئی ہرج نہیں تم (میرے سامنے) کھڑے ہو کر نماز پڑھو۔ چنانچہ میں ان جناب کے سامنے قبلہ رو کھڑا ہوا اور نماز شروع کر دی اور رکوع و سجدہ کیا۔ آپ نے فرمایا اے حماد تم نے احسن طور سے نماز نہیں پڑھی۔ ایک مرد کے لئے یہ کتنی بری بات ہے کہ ساٹھ ستر سال کا ہو جائے اور ایک نماز بھی پورے حدود کے ساتھ نہ پڑھ سکے ۔ حماد کا بیان ہے کہ یہ سنکر میں نے اپنے دل میں بہت ذلت محسوس کی اور عرض کیا کہ میں آپ پر قربان آپ مجھے نماز سکھا دیجئے تو حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام میری اس گزارش پر قبلہ رو اپنے پاؤں پر سیدھے کھڑے ہو گئے اور اپنے دونوں ہاتھ پورے طور پر اپنی رانوں پر لٹکا دیئے اور انگلیاں ایک دوسرے سے ملادیں اور دونوں پاؤں اتنے قریب قریب کر لئے کہ ان کے درمیان تین انگل کا فاصلہ کھلا ہوا رہ گیا اور اپنے پاؤں کی تمام انگلیوں کو بھی قبلہ رو کر لیا اور ایسا کہ وہ قبلہ سے بالکل منحرف نہ تھیں پھر بالکل خضوع و خشوع اور اطمینان کے ساتھ آپ نے کہا " اللہ اکبر“ ۔ اور پھر سوره الحمد اور قل هو الله احد ترتیل اور خوش الحانی کے ساتھ پڑھیں پھر ذرا ٹھہرے اتنا کہ جتنا سانس لینے کے لئے رکا جاتا ہے اور کھڑے ہی کھڑے اللہ اکبر کہا پھر رکوع میں گئے اور اپنی دونوں ہتھیلیوں کو دونوں جدا جدا گھٹنوں پر رکھ دیا اور اتنا تجھے کہ اگر پیٹھ پر پانی یا تیل کا ایک قطرہ پڑ جائے تو پشت کے بالکل سیدھی ہونے کی وجہ سے نہ گرے اور دونوں گھٹنوں کو اپنے پیچھے کی طرف موڑا اور گردن کو بالکل سیدھا رکھا اور نگاہیں نیچی کرلیں پھر تین مرتبہ تسبیح ترتیل کے ساتھ پڑھی یعنی سبحان ربی العظیم و بحمدہ کہا پھر پورے طور سے سیدھے کھڑے ہو گئے تو کہا۔ سمع اللہ لمن حمدہ “ پھر کھڑے ہی کھڑے اللہ اکبر کہا اور اپنے دونوں ہاتھ اپنے چہرے کے برابر اٹھائے اور سجدے میں گئے اور اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں گھٹنوں سے پہلے زمین پررکھے اور تین مرتبہ سبحان ربی الاعلی و بحمدہ کہا اور اپنے بدن کا کوئی حصہ کسی شے پر نہیں رکھا اور آٹھ اعضا سے سجدہ کیا۔ پیشانی ، دونوں ہاتھ کی ہتھیلیاں، دونوں گھٹنے ، دونوں پاؤں کے انگوٹھے اور ناک ۔ان میں سے سات تو فرض ہیں اور ناک کو بھی زمین پر رکھنا سنت ہے اور یہ ناک رگڑنا ہے۔ پھر سجدے سے سر اٹھایا اور جب سیدھے بیٹھ گئے تو اللہ اکبر کہا اور بائیں پاؤں پر بیٹھ گئے اور دائیں پاؤں کی پشت کو بائیں پاؤں کے تلوے میں رکھدیا اور کہا ” استغفر الله ربی و اتوب اليه “ پھر بیٹھے بیٹھے اللہ اکبر کہا اور دوسرا سجدہ کیا اور اس میں وہی کہا جو پہلے سجدے میں کہا تھا اور اپنے بدن کے کسی حصہ کو کسی شے پر نہیں رکھا نہ رکوع میں نہ سجدے میں ۔ اپنی کلائیوں کو اٹھائے رہے اور پہلوؤں کو کھولے رکھا۔ اپنی کہنیوں کو زمین پر نہیں رکھا اور اس طرح دو رکعت پڑھی اور فرمایا اے حماد اسطرح نماز پڑھا کرو ۔ اور کسی طرف ملتفت نہ ہو اپنے ہاتھ اور اپنی انگلیوں سے عبث کام نہ کرو۔ اور نہ اپنے داہنے جانب تھو کو نہ بائیں جانب اور نہ اپنے سامنے۔
٩١٦ - حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ جب تم نماز کے لئے کھڑے ہونے لگو تو یہ کہو اللهم اني اقدم إليك محمدا بَيْنَ يَدَيْ حَاجَتِی وَ أَتَوجه إِلَيْكَ بِه فَاجْعَلْنِی بِه وَجيها نِی الدنيا والآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ وَاجعَل صلاتی به مقبولة و ذَنْبِی بِه مَغْفُوراً وَ دَعَانِی بِه مستجاببًا إِنَّكَ أَنتَ الْغَفُور الرحيم - (اے اللہ میں اپنی حاجتوں کی سفارش کے لئے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تیری بارگاہ میں پیش کرتا ہوں اور انہی کے وسیلے سے تیرے روبرو آیا ہوں۔ لہذا ان ہی کا واسطہ تو دنیا اور آخرت دونوں میں مجھے آبرومند بنادے اور مجھے مقربین میں شمار کر میری نماز کو قبول فرما، میرے گناہوں کو بخش دے میری دعا کو مستجاب کر، بیشک تو غفور و رحیم ہے) اور جب تم نماز کے لئے کھڑے ہو تو پورے سکون اور وقار کے ساتھ کھڑے ہو ۔ جلد بازی نہ کرو۔ تمہارے اندر شکم سیری ، کسل دستی نہ ہو اؤںگھ نہ آتی ہو ۔ اور جب تم نماز شروع کرو تو تم پر خضوع و خشوع اور نماز پر پوری توجہ لازم ہے اس لئے کہ اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے ۔ ٱلَّذِينَ هُمْ فِى صَلَاتِهِمْ خَـٰشِعُونَ (وہ لوگ جو اپنی نماز میں خدا کے سامنے گڑگڑاتے ہیں) (سورۃ مومنون آیت نمبر ۲) نیز ارشاد ہوتا ہے۔ وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى ٱلْخَـٰشِعِينَ (البتہ نماز دو بھر تو ہے مگر خشوع کرنے والوں پر نہیں) (سورۃ بقرہ آیت نمبر ٤٥)
اور اپنا چہرہ قبلہ کی طرف رکھو ۔ قبلہ سے نہ پھیرو ورنہ نماز فاسد ہو جائے گی۔ اور بالکل سیدھے کھڑے ہو اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جو نماز میں بالکل سیدھا کھڑا نہ ہوگا اسکی نماز ہی نہ ہوگی اور نگاہ نیچی رکھو آسمان کی طرف نہ اٹھاؤ۔ تمہاری نگاہ سجدہ گاہ پر ہونی چاہیے اپنے دل کو نماز میں مشغول رکھو۔ اس لئے کہ تمہاری نماز میں سے صرف اتنا ہی حصہ قبول ہوگا جو تم نے رجوع قلب کے ساتھ پڑھا یہاں تک کہ بندے کی نماز میں سے کبھی ایک چوتھائی کبھی ایک تہائی اور کبھی نصف نماز قبول ہوتی ہے لیکن اللہ تعالٰی مومنین کے لئے اس کو نوافل سے پورا کر دیتا ہے اور تم نماز میں اسطرح کھڑے ہو جیسے کوئی عبد ذلیل کسی صاحب جلال بادشاہ کے سامنے کھڑا ہوتا ہے اور یہ سمجھو کہ تم اس کے سامنے کھڑے ہو جو تمہیں دیکھ رہا ہے اور تم اس کو نہیں دیکھتے۔ اور اس طرح نماز پڑھو کہ جیسے یہ تمہاری بالکل آخری اور دنیا سے دوائی نماز ہے اس کے بعد تم کبھی نماز نہ پڑھ سکو گے۔ اور اپنی داڑھی اور اپنے سر اپنے ہاتھوں سے عبث شغل نہ کرو اپنی انگلیوں کو نہ چٹھاؤ۔ اپنے پاؤں کو آگے پیچھے نہ کروانکو برابر رکھو اور انکے درمیان تین انگلی سے لیکر ایک بالشت تک کا فاصلہ رکھو نہ انگڑائی لو نہ جماہی اور نہ ہنسو اس لئے کہ قہقہے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے۔ سرین کے بل نہ بیٹھو اس لئے کہ اللہ تعالٰی نے سرین کے بل بیٹھنے والی ایک قوم پر عذاب نازل کیا تھا کہ جن میں سے ایک نے نماز کی تھکن کی وجہ سے اپنے دونوں سرینوں پر اپنے دونوں ہاتھ رکھ لئے تھے اور حالت قیام میں اپنے سینے پر ہاتھ نہ باندھو ایسا مجوسی کیا کرتے ہیں ۔ اپنے دونوں ہاتھ چھوڑ کر انہیں اپنی رانوں پر اپنے گھٹنوں کے سامنے رکھو بہتر یہ ہے (چنانچہ) اپنی نماز میں یہ اہتمام کرو۔ اس سے غافل نہ رہو اس لئے کہ اگر تم نے ہاتھ کو حرکت دی تو وہ تم کو کھیل میں مصروف کر دے گا۔ اور تم نماز میں کسی دیوار سے سہار نہ لو سوائے یہ کہ تم بیمار ہو ۔ اور اپنے داھنے اور اپنے بائیں نہ مڑو اس لئے کہ اگر تم اس قدر مڑ گئے کہ اپنے پس پشت والے کو دیکھ لیا تو تم پر نماز کا اعادہ واجب ہے۔ اور جب بندہ کسی اور چیز کی طرف ملتفت ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسےنماز میں آواز دیتا ہے کہ میرے بندے تو کس کی طرف ملتفت ہے تو جس کی طرف ملتفت ہے کیا وہ مجھ سے بہتر ہے اور اگر یہ بندہ نمازمیں کسی اور چیز کی طرف تین مرتبہ ملتفت ہوا تو پھر اللہ تعالٰی اس سے نگاہ پھیر لیتا ہے اور پھر تا ابد اسکی طرف نگاہ نہیں کرتا ۔ اور سجدہ کی جگہ کو منہ سے نہ پھونکو اگر پھونکنے کا ارادہ ہے تو نماز شروع کرنے سے پہلے پھونک لو ۔ اس لئے کہ تین قسم کی پھونک مکروہ ہے۔ سجدہ کی جگہ کا پھونکنا۔ گنڈے اور تعویذ پر پھونکنا اور گرم کھانے پر پھونکنا ۔ اور نماز کی حالت میں نہ تھوکو اور نہ ناک صاف کرو۔ اس لئے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کے اجلال کے پیش نظر اپنے تھوک کو روک رکھے گا اللہ تعالٰی اسکو تادم مرگ صحت عطا کرے گا۔ اور اپنے دونوں ہاتھ تکبیر کے لئے گردن تک بلند کرو یہ دونوں کان سے اوپر تجاوز نہ کریں رخسار کے سامنے رہیں اور انہیں اچھی طرح پھیلاؤ اور تین تکبیریں کہو اور یہ کہو ۔ اللهم أنت الملك الحق لا إله إِلا انْتَ سُبْحَانَكَ وَ بِحَمْدِكَ عَملت سوءا وظلمت نفسي فاغفر لي ذنوبِي إِنَّهُ لا يغفر الذنوبَ إِلا أَنتَ (اے اللہ تو ہی حقیقی بادشاہ ہے جو بالکل واضح ہے نہیں ہے کوئی اللہ سوائے تیرے تو پاک ہے اور لائق حمد ہے میں نے گناہ کیا اور خود اپنے اوپر ظلم کیا پر، میرے گناہوں کو بخش دے اس لئے کہ گناہ کوئی نہیں معاف کر سکتا سوائے تیرے۔) پھر دونوں ہاتھ اٹھانے اور چھوڑنے کے ساتھ اور تکبیریں کہو اور پھر یہ کہو ۔
لَبَيْكَ وَسَديكَ ، والخَيْرُ فِي يَدَيْكَ ، وَالشَّرِّيسُ إِليكَ ، و المحدِى من حديث ، عبدك وابن عبدك بين یدیک منكَ وَ بِكَ وَلَكَ وَإِلَيْكَ ، لا ملجأ ولا منجا و لا مفر مِنكَ إِلا إِلَيْكَ ، تَبَارَكْتَ وَتَعَالَيْتَ ، سُبْحَانَكَ وحنانیک ، سبحانكَ رَبِّ الْبَيْتِ الحَرَام - (اے اللہ میں تیری بارگاہ میں بار بار حاضر ہوتا ہوں۔ خیر تیرے ہاتھ میں ہے اور شرکی نسبت تیری طرف نہیں ہے ہدایت یافتہ وہی ہے جس کی تو نے ہدایت کی۔ تیرا بندہ اور تیرے بندے کا بیٹا تیرے سامنے ہے یہ مجھ سے ہے۔ تیرے لئے ہے اور تیری ہی طرف رجوع کرتا ہے اس لئے کہ کوئی جائے پناہ نہیں، کوئی نجات کی جگہ نہیں اور تجھ سے بھاگ کر جانے کی کوئی جگہ نہیں سوائے اسکے کہ تیری طرف جایا جائے۔ اے بیت الحرام کے رب تو پاک و منزہ ہے تو تبارک و تعالٰی ہے اور میں تجھے ہر برائی سے پاکہ اور منزہ سجھتا ہوں) اسکے بعد دو تکبیریں کہو اور پھر یہ کہو ۔ وجهتُ وَجْهِيَ ِللَّذِي فَطَرَ السَّمواتِ وَالْأَرْضَ عَلَى مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ وَ دِينِ مُحَمد منهاج على حنيفا مسلما وَ ما أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ لَأَشرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَ أَنَا مِنَ الْمُسْلِمِين - أعوذ بالله السميع العليم مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّحِيمِ بِسم الله الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ (میں نے اپنا رخ موڑا اس ذات کی طرف جس نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا ہے ملت ابراہیم دین محمدؐ اور مسلک علی پر قائم رہتے ہوئے سیدھا مسلمان ہوں میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں میری نماز میری عبادت میرا جینا میرا مرنا تمام عالمین کے رب کے لئے ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور اس کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں مسلمین میں سے ہوں میں خدائے سمیع و علیم کی پناہ چاہتا ہوں شیطان رجیم سے ) ۔
پھر اگر چاہو تو سات تکبیریں اقرار ربوبیت کے لئے بھی کہہ لو اور افتتاح نماز میں سات تکبیریں سنت جاریہ ہیں جیسا کہ زرارہ کی روایت ہے۔
٩١٧ - حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز کے لئے برآمد ہوئے اور امام حسین علیہ السلام (بچپن کے اندر) ذرا دیر میں بولے تھے ، اتنی دیر میں کہ لوگوں کو خطرہ ہوا کہ یہ بات ہی نہ کریں گے اور گونگے ہونگے ۔ رسول اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کو اپنے کاندھے پر اٹھائے ہوئے آئے لوگوں نے آپ کے پیچھے صف باندھ لی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو اپنے دائیں پہلو میں کھڑا کر کے افتتاح نماز کے لئے اللہ اکبر کہا۔ تو امام حسین علیہ السلام نے بھی اللہ اکبر کہا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو تکبیر کہتے سنا تو پھر تکبیر کہی اور امام حسین علیہ السلام نے بھی تکبیر کہی اسطرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سات تکبیریں کہیں اور امام حسین علیہ السلام نے بھی سات مرتبہ تکبیریں کہی اور اسی بنا پر یہ سنت جاری ہو گئی۔
٩١٨ - اور ہشام بن حکم نے حضرت ابو الحسن امام موسی بن جعفر علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ (سات تکبیریں کہنے کی) ایک دوسری وجہ بھی ہے اور وہ یہ کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معراج کے لئے آسمان کی طرف گئے تو آپ نے سات حجاب طے کئے اور ہر حجاب کو طے کرتے وقت ایک تکبیر کہی اور اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو منتہائے درجہ کرامت تک پہنچا دیا۔
٩١٩ - اور فضل بن شاذان نے حضرت امام رضا علیہ السلام سے روایت کی ہے اور اس میں ایک اور سبب کا ذکر کیا ہے اور وہ یہ کہ اول نماز میں سات تکبیریں اس لئے ہیں کہ اصل نماز دو رکعت ہے اور ان دونوں رکعتوں کا افتتاح سات تکبیروں سے ہے ۔ تکبیر افتتاح نماز ، تکبیر رکوع ، دو سجدوں کے لئے دو تکبیریں پھر دوسری رکعت کے رکوع کے لئے ایک تکبیر پھر اسکے دونوں سجدوں کے لئے دو تکبیریں۔ پس اگر انسان نماز کے اول ہی میں سات تکبیریں کہہ لے اور درمیان کی کوئی تکبیر کہنا بھول جائے تو اس کی نماز میں کوئی نقص نہیں واقع ہوگا۔
اور یہ تمام وجوہ و اسباب درست ہیں اور کثرت وجوہ و اسباب سے مزید تاکید ہوتی ہے اس سے کوئی تضاد یا متناقض پیدا نہیں ہوتا۔ افتتاح نماز کے لئے ایک تکبیر بھی جائز ہے۔
٩٢٠ - اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام لوگوں میں سب سے زیادہ مکمل اور سب سے زیادہ مختصر نماز پڑھتے وہ کہتے
الله اكبر بسم الله الرحمن الرحيم -
٩٢١ - ایک شخص نے حضرت امیر المومنین علیہ السلام سے دریافت کیا اور کہا کہ اے بہترین خلق خدا کے ابن عم آپ پہلی تکبیر میں جو اپنے دونوں ہاتھ بلند کرتے ہیں اسکا کیا مطلب ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ اسکا مطلب یہ ہے اللہ تعالیٰ سب سے بڑا ہے واحد ہے ، احد ہے ، اسکے مثل کوئی شے نہیں، نہ وہ پانچ انگلیوں سے چھوا جاسکتا ہے اور نہ حواس خمسہ ظاہرہ وباطنہ سے اسکا ادراک کیا جا سکتا ہے۔
پس جب تم افتتاح نماز کے لئے تکبیر کہہ چکو تو سورہ حمد پڑھو اور ایک سورہ کوئی اور ۔ اسکا تمہیں اختیار ہے کہ اپنی نماز فریضہ میں سوائے چار (مخصوص) سوروں کے کوئی سورہ بھی چاہو پڑھو ۔ اور وہ چار سورے سورہ الضحی اور الم نشرح ہے اس لئے یہ دونوں ملکر ایک سورہ ہے اور لایلاف قریش اور الم ترکیف ہے اس لئے کہ دونوں بھی ملکر ایک سورہ ہے۔ اگر تم ان دونوں کو پڑھ رہے ہو تو سورہ الضحی اور الم نشرح دونوں کو ایک رکعت میں پڑھو اور لایلاف اور الم ترکیف دونوں کو ایک رکعت میں پڑھو ان چاروں میں سے صرف کسی ایک کو نماز فریضہ کی ایک رکعت میں نہ پڑھو اور نہ نماز فریضہ میں دو سوروں کے درمیان پڑھو۔ اور نماز نافلہ میں تو جو چاہو پڑھو ۔ اور نماز فریضہ میں سورہ ہائے عزائم میں سے کوئی نہ پڑھو اور وہ سورہ سجدہ لقمان - سورہ حم سجدہ ۔ سورہ والنجم - سوره اقر باسم ربک ہیں اور جو ان چار سورہ ہائے عزائم سے کوئی بھی پڑھے تو سجدہ کرے اور کہے الهي آمنا بِما كَفَرُوا وَ عَرَفْنَا مِنْكَ مَا أَنْكَرُوْا، وَأَجِبْنَاكَ إِلَى مَادَعُوا الْحِي فَالْعَفْوُ الْعَفْوُ (اے اللہ میں ایمان لایا اس پر جس سے لوگ انکار کرتے ہیں اور ہم نے پہچان لیا تیری طرف سے اسکو جسکو لوگ نہیں پہچانتے اور ہم نے جس طرف دعوت دی گئی قبول کیا اے اللہ عفو کا طالب ہوں عفو کا ) اسکے بعد سجدہ سے سراٹھائے اور تکبیر کہے۔
٩٢٢ - اور روایت کی گئی ہے کہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام سورہ ہائے عزائم کے سجدوں میں فرمایا کرتے تھے ۔ لا إله إلا الله حقاً حقاً لا إله إلا الله إيمانا و تصديقا . لا إله إلا الله عبودية ورقا ، سجدت لك يارب تعبدا ورقا لا مستنكفا ولا مسْتَكْبِراً ، بل أنا عبد ذلیل حَاتِفٌ مُستَجِير (نہیں ہے کوئی اللہ سوائے اس اللہ کے جو حق اور واقعی حق ہے۔ نہیں ہے کوئی اللہ سوائے اس اللہ کے میں اس پر ایمان رکھتا ہوں اور اسکی تصدیق کرتا ہوں نہیں ہے کوئی اللہ سوائے اس اللہ کے میں اسکی عبدیت اور غلامی کا دم بھرتا ہوں۔ میرے پروردگار میں نے تجھکو سجدہ کیا ہے خود کو بندہ اور غلام سمجھتے ہوئے مجھے کوئی غرور اور گھمنڈ نہیں ہے میں تو ایک بندہ ذلیل وخائف ہوں اور تجھ سے پناہ چاہتا ہوں) اسکے بعد اپنا سر اٹھاتے اور تکبیر کہا کرتے تھے ۔
اور جو شخص کسی کو عزائم کی قراءت کرتے ہوئے سنے تو اس پر لازم ہے کہ سجدہ کرے خواہ وہ بے وضو کیوں نہ ہو۔ اور مستحب ہے کہ انسان ہر سورے کے اندر جس میں سجدہ ہے (سنے یا پڑھے) تو سجدہ کرے لیکن ان چاروں سورہ ہائےعزائم میں سجدہ واجب ہے ۔
اور دن اور رات کی نمازوں میں افضل اور بہتر یہ ہے کہ پہلی رکعت میں سورہ الحمد اور سورہ انا انزلنا پڑھی جائے اور دوسری رکعت میں سورہ الحمد اور سورہ قل ہو اللہ احد پڑھی جائے سوائے شب جمعہ کی نماز عشاء میں، اس میں افضل یہ ہے کہ رکعت اول میں الحمد اور سورہ جمعہ پڑھے اور رکعت دوم میں سورہ الحمد اور سورہ صبح اسم پڑھے اور روز جمعہ کی صبح و ظہر و عصر کے اندر پہلی رکعت میں سورہ الحمد اور سورہ جمعہ اور دوسری رکعت میں سورہ الحمد اور سورہ منافقون پڑھے اور یہ بھی جائز ہے که شب جمعه نماز عشاء اور نماز صبح اور نماز عصر بغیر سورہ جمعہ سورہ منافقون کے پڑھے اور یہ جائز نہیں کہ روز جمعہ نماز ظہر بغیر سورہ جمعہ اور منافقون کے پڑھے۔ پس اگر تم ان دونوں کا پڑھنا یا ان دونوں میں سے کسی ایک کا پڑھنا نماز ظہر میں بھول گئے اور ان دونوں کے علاوہ کوئی دوسرا سورہ پڑھنے لگے اور تمہیں یاد آیا تو اگر ابھی آدھا سورہ نہیں پڑھا ہے تو اس کو چھوڑ کر سورہ جمعہ اور منافقین پڑھو۔ اور اگر نصف سورہ پڑھ چکے ہو تو اسکو تمام کرو اور ان دونوں سوروں کو نماز نافلہ کی دونوں رکعتوں میں رکھدو اور ان دونوں میں سلام پڑھو اور اپنی نماز کو سورہ جمعہ و سورہ منافقین کے ساتھ شمار کرلو۔
اور نماز ظہر کو بغیر سورہ جمعہ اور سورہ منافقین کے پڑھنے کی رخصت بھی روایت کی گئی ہے۔ مگر میں اس رخصت کو استعمال کرتا ہوں یا یہ فتوی دیتا ہوں تو صرف حالت سفر اور مرض اور کسی ضرورت کے فوت ہو جانے کے موقع پر (کہ جہاں اس رخصت سے فائدہ اٹھا جا سکتا ہے)
اور دوشنبہ (پیر) اور پنجشبہ (جمعرات) کو نماز صبح کی پہلی رکعت میں الحمد اور سورہ قتل آتی علی الانسان اور دوسری رکعت میں سورہ الحمد اور سورہ ھل اتیک حدیث الغاشیه جو شخص ان دونوں سوروں کو دوشنبہ اور پنجشنبہ کی صبح کی نماز میں پڑھے اللہ تعالٰی اسکو ان دونوں دنوں کے شر سے محفوظ رکھے گا۔
اور ایک شخص جو حضرت امام رضا علیہ السلام کے خراسان کی طرف جانے میں آپ کے ساتھ تھا اس نے بیان کیا کہ جب آپ خراسان کی طرف چلے تو آپ اپنی نماز میں ان سوروں کی قراءت فرمایا کرتے تھے جنکا میں نے اوپر ذکر کیا اس لئے میں نے اس کتاب میں ان سوروں کے درمیان انکا ذکر کر دیا ہے۔
اور ہر نماز میں بسم اللہ الرحمن الرحیم بلند آواز سے پڑھا کرو اور مغرب وعشاء اور صبح کی نماز میں تمام سوروں کی قرات بلند آواز سے کیا کرو مگر اپنے نفس پر زور دیکر بہت بلند آواز سے نہیں بلکہ اوسط آواز سے اس لئے کہ اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے - وَلَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا وَٱبْتَغِ بَيْنَ ذَٰلِكَ سَبِيلًۭا (اور تم اپنی نماز نہ بہت چلا کر پڑھو اور نہ بہت چپکے سے بلکہ اسکے درمیان ایک اوسط طریقہ اختیار کرو) (سورہ نبی اسرائیل آیت نمبر ١١٠) اور نماز ظہر و عصر میں سوروں کی قراءت بآواز بلند نہ کرو اس لئے کہ جو شخص ان دونوں نمازوں میں قراءت بآواز بلند کرے گا یا نماز مغرب و عشاء و صبح میں قراءت بالکل چپکے چپکےعمدا کرے گا تو اس پر لازم ہے کہ وہ اپنی نماز کا پھر سے اعادہ کرے اور اگر بھول کر ایسا کیا ہے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے سوائے جمعہ کے دن ظہر کی نماز میں اس لئے کہ اس میں اسکو قراءت بآوازبلند کرنی ہے ۔ اور آخر کی دو رکعتوں میں تسبیح اربعہ پڑھی جائے۔
٩٢٣ - اور امام رضا علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ ابتدا کی دورکعتوں میں سوروں کی قراءت اور آخر کی دو رکعتوں میں تسبیح اربعہ اس لئے قرار دی گئی تاکہ اللہ تعالٰی نے جو اپنی طرف سے فرض کیا ہے اس میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو فرض کیا اسکے اندر فرق رہے۔
٩٢٤ - محمد بن عمران نے ایک مرتبہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے دریافت اور کہا کہ کیا سبب ہے کہ نماز جمعہ و نماز مغرب و نماز عشاء اور نماز صبح بآواز بلند پڑھی جاتی ہے اور ظہر و عصر کی نماز بآواز بلند نہیں پڑھی جاتی ؟ اور کیا سبب ہے کہ آخر کی دو رکعتوں میں تسبیح اربعہ پڑھنا سوروں کی قراءت سے افضل ہے ؟۔ آپ نے ارشاد فرمایا اس لئے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معراج میں آسمان پر تشریف لے گئے تو سب سے پہلی نماز جو اللہ تعالٰی نے فرض کی وہ روز جمعہ ظہر کی نماز تھی اللہ تعالٰی نے ملائیکہ کو حکم دیا کہ وہ آپ کے پیچھے نماز پڑھیں اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم دیا کہ وہ قراءت بآواز بلند کریں تاکہ ملائکہ پر ان کا فضل و شرف ظاہر ہو جائے اسکے بعد اللہ تعالٰی نے آنحضرت پر نماز عصر فرض کی اور ملائیکہ میں سے کسی ایک کو بھی حکم نہیں تھا کہ وہ آپ کے پیچھے نماز پڑھیں اور آپ کو حکم دیا کہ قراءت آہستہ آہستہ کریں اس لئے کہ آپ کے پیچھے نماز پڑھنے والا کوئی نہ تھا۔ پھر اللہ تعالٰی نے آپ پر نماز مغرب کو فرض کیا اور ملائکہ کو بھیجدیا کہ وہ آپ کے پیچھے نماز پڑھیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم دیا کہ وہ قراءت بآواز بلند کریں اور اسی طرح نماز عشاء بھی ۔ پھر جب فجر قریب ہوئی تو آپ آسمان سے نیچے تشریف لائے اور اللہ تعالٰی نے آپ پر نماز فجر فرض کی اور حکم دیا کہ اس میں بآواز بلند آ قراءت کریں تاکہ جس طرح ملائکہ پر آپ کا فضل وشرف ظاہر ہوا تھا اس طرح انسانوں پر بھی آپ کا فضل و شرف ظاہر ہو جائے اس لئے نماز فجر میں قراءت باآواز بلند کی جاتی ہے۔
اور آخر کی دو رکعتوں میں تسبیح پڑھنا سوروں کی قراءت سے افضل اس لئے ہوا کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آخر کی دورکعتوں میں مشغول تھے کہ اسی اثناء میں آپ کو اللہ تعالٰی کی وہ عظمت یاد آئی جو وہ معراج پر دیکھ آئے تھے پس آپ حیرت میں آئے اور کہا سبحان الله و الحمد الله ولا اله الا الله و الله اکبر اس لئے تسبیح سوروں کی قرات سے افضل ٹہری ۔
٩٢٥ - اور یحییٰ بن اکثم قاضی نے حضرت ابو الحسن اول (امام موسی بن جعفر) علیہ السلام سے نماز فجر کے متعلق دریافت کیا کہ یہ تو دن کی نماز ہے اس میں قراءت بآواز بلند کیوں کی جاتی ہے بلند آواز سے تو رات کی نمازیں پڑھی جاتی ہیں ؟ آپ نے فرمایا اس لئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کو آخری وقت رات کی تاریکی میں پڑھا کرتے تھے اور اس کو رات سے ملا دیتے تھے ۔
٩٢٦ - فضل نے امام رضا علیہ السلام سے علل و اسباب کے لئے جو کچھ نقل کیا ہے ان میں یہ ہے کہ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ لوگوں کو نماز میں سوروں کی قراءت کا حکم دیا گیا تا کہ قرآن بالکل متروک اور ضائع نہ ہو جائے بلکہ محفوظ رہے اسکا درس لیا جائے ، وہ مضمحل اور کمزور نہ پڑ جائے اور لوگ اس سے جاہل نہ رہیں ۔
اور کسی سورے سے نہیں بلکہ صرف سورہ الحمد سے نماز میں قراءت کی ابتداء کی گئی اس لئے کہ جتنے جوامع خیر و حکمت سورہ محمد میں جمع ہیں وہ قرآن کے کسی سورہ اور کلام میں نہیں ہیں۔ چنانچہ (الحمد للہ) کہنے سے وہ شکر ادا ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق پر واجب کیا ہے نیز اس نے اپنے بندے کو جو توفیق خیر عنایت کی اسکا شکر بھی ادا ہوتا ہے (رب العالمین) اس میں اسکی وحدانیت کی گواہی اور اسکی حمد ہے اور اس امر کا اقرار ہے کہ وہی خالق و مالک ہے کوئی دوسرا نہیں ہے ( الرحمن الرحیم) اس میں تمام مخلوق پر اسکی عطاؤں اور نعمتوں کو یاد کرنا اسکی توجہ چاہنا ہے (مالک یوم المدین) اس میں دوبارہ اٹھائے جانے اور حساب و کتاب وسزا وجزا کا اقرار ہے اور اس امر کو تسلیم کرنا ہے کہ جس طرح وہ دنیا کا مالک ہے اسی طرح آخرت کا بھی مالک ہے ( ایاک نعبد) اس میں اللہ تعالٰی سے تقرب کی رغبت کا اظہار ہے اور یہ عمل خالص اس کے لئے ہے کسی دوسرے کیلئے نہیں (و ایاک نستعین) اللہ سے اس کی توفیق اور اس کی عبادت میں زیادتی کی درخواست اور جو کچھ اللہ نے اس کو عطا کیا ہے اور اس کی مدد کی اور اس کو برقرار رکھنے کی التجا ہے (اهدنا الصراط المستقیم) اس کے دین کی طرف ہدایت اور اس کی رسی کو مضبوط پکڑے رہنے اور اپنے رب کی معرفت میں اضافہ کی درخواست ہے (صراط الذین انعمت علیہم) اسی درخواست اور رغبت کے اظہار کی تاکید ہے اور اللہ تعالٰی نے اپنے اولیاء کو جو نعمتیں عطا کی ہیں ان کا ذکر اور اسی کے مثل نعمتوں کی خواہش ہے (غیر المغضوب علیہم) اس میں بھی اللہ سے مدد چاہی ہے کہ دشمنوں کافروں اور اس کے امرونہی کو خفیف سمجھنے والوں میں سے نہ ہو جائے (ولا الضالین) اور اللہ اسکو بچائے کہ وہ ان میں سے نہ ہو جائے جو اللہ کی راہ سے بھٹکے ہوئے ہیں اور بغیر معرفت کے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم بڑے اچھے کام کر رہے ہیں ۔
تو اللہ تعالیٰ نے اس سورے میں کلی طور پر دین ودنیا کی خیر و حکمت کو جمع کر دیا ہے جسے اور کسی چیز میں جمع نہیں کیا
ہے -
اور پھر بیان کیا ہے اس سبب کو جسکی بنا پر بعض نمازیں بآواز بلند پڑھی جاتی ہے اور بعض بلند آواز سے نہیں پڑھی جاتیں ۔ وہ نمازیں جو بآواز بلند پڑھی جاتی ہیں وہ اندھیرے کے اوقات میں ہوتی ہیں اس لئے واجب ہے کہ وہ بآواز پڑھی جائیں تاکہ ادھر سے گزرنے والا یہ جان لے کہ یہاں نماز جماعت ہو رہی ہے ۔ اگر وہ پڑھنا چاہے تو پڑھ لے اس لئے کہ اگر اندھیرے میں اس کو جماعت نظر نہیں آتی تو آواز سن کر اس کو اس کا علم ہو جائے ۔ اور وہ دو (۲) نمازیں جو بآواز بلند نہیں پڑھی جاتیں وہ روز روشن میں ہوتی ہیں اس کا علم اس کو دیکھ کر ہو جائے گا اسے سننے کی ضرورت نہیں ہو گی ۔ اور جب تم سورہ الحمد اور کوئی سورہ پڑھ لو تو کھڑے ہی کھڑے ایک مرتبہ تکبیر کہو پھر رکوع کرو اور اپنا داہنا ہاتھ اپنے داہنے گھٹنے پر رکھو بائیں ہاتھ کو بائیں گھٹنے پر رکھنے سے پہلے۔ اپنی دونوں ہتھیلیاں اپنے گھٹنوں پر رکھو اور کھلی ہوئی انگلیوں سے گھٹنے کو پکڑو اور اپنی گردن کو آگے بڑھاؤ اور تمہاری نگاہ اپنے دونوں قدموں کے درمیان سے لیکر سجدہ گاہ تک ہونی چاہیئے ۔
٩٢٧ - اور ایک شخص نے حضرت امیر المومنین علیہ السلام سے سوال کیا اور کہا کہ اے خیر خلق کے ابن عم رکوع میں گردن کو آگے بڑھانے کا کیا مطلب ؟ تو آپ نے فرمایا اس کا مطلب یہ ہے کہ میں نے اللہ پر ایمان رکھا خواہ میری گردن کیوں نہ مار دی جائے ۔ اور جب تم رکوع کرو تو کہو ( اللهم لک رکعت وَ لَكَ خَشعَت وَ لَكَ أَسْلَمْتُ وَبِكَ آمَنْتُ وَعَلَيْكَ تَوَكَّلْتُ و انت ربي ، خشع لك وجهی و سمعی و بسری و شعری و بشری و لحْمِي وَ دَمِي وَمُخي وَ عَصَبِى وَعِظَامِي . ومَا أَتْلَتْ الأَرضَ مِنْ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ) (اے الله میں نے تیرے لئے رکوع کیا تیرے لئے جھکا تیرے سامنے سر تسلیم خم کیا تجھ پر ایمان لایا تجھ پر بھروسہ کیا اور تو میرا رب ہے تیرے لئے میرا چہرہ میرے کان میری آنکھیں میرے بال میرا بشرہ میرا گوشت میرا خون میری نلی کے گودے میرے اعصاب میری ہڈیاں ہیں بلکہ میری ہر وہ چیز جس کو زمین اٹھائے ہوئے ہے سب اس اللہ کیلئے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے) پھر تین مرتبہ کہو سبحان ربی العظیم و بحمدہ اور اگر پانچ مرتبہ کہو تو بہت اچھا ہے اور اگر سات مرتبہ کہو تو وہ افضل ہے ۔ مگر تمہیں تین مرتبہ بھی کہنے کی اجازت ہے یعنی سبحان الله ، سبحان الله سبحان اللہ اور مکمل تسبیح پڑھنے کی مریض اور عجلت میں ہونے والے کیلئے اجازت ہے ۔ پھر رکوع سے سر اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھاؤ اور سیدھے کھڑے ہو جاؤ اور کہو سمع اللہ لمن حمدَهُ وَ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ الْرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ أَهْلِ الْجَبرُوْتِ وَ لكِبْرِيَاءِ وَ الْعَظمَةِ (الله کی جو حمد کرتا ہے اس کو اللہ سنتا ہے ۔ حمد اس اللہ کی جو عالمین کا رب ہے ، رحمن ہے رحیم ہے ، صاحب جبروت و کبریائی و عظمت ہے) اور تمہارے لئے صرف سمع اللہ لمن حمدہ کہنے کی بھی اجازت ہے پھر سجدہ میں گر جاؤ اور گھٹنے رکھنے سے پہلے اپنے دونوں ہاتھ ایک ساتھ زمین پر رکھ دو۔
٩٢٨ - طلحہ اسلمی نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے دریافت کیا کہ سجدہ میں جاتے وقت گھٹنوں سے پہلے دونوں ہاتھوں کو زمین پر رکھنے کی وجہ کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ یہ دونوں ہاتھ ہی تو نماز کی کنجی ہیں ۔ اور اگر سجدہ میں جاتے وقت تمہارے دونوں ہاتھوں کے اور زمین کے درمیان کوئی کپڑا ہے تو کوئی حرج نہیں مگر ان دونوں کو زمین پر رکھو تو یہ افضل ہے ۔
٩٢٩ - اسماعیل بن مسلم نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے اور انہوں نے اپنے پدر بزرگوار سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی شخص سجدہ کرے تو وہ اپنی دونوں ہتھیلیاں زمین سے متصل کردے شاید اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے قیامت کے دن اس کی ہتکڑیوں کو دور کر دے ۔
اور تمہارا سجدہ اس طرح ہونا چاہیئے جس طرح اونٹ بیٹھتے وقت اپنے پیٹ کو اونچا رکھتا ہے اور اس طرح رہو جیسے تم معلق ہو تمہارا جسد کسی چیز پر رکھا ہوا نہیں ہے ۔
اور سجدے میں تمہاری نگاہ ناک کی طرف رہے ۔ اور اپنی کلائیوں کو اس طرح نہ بچھا دو جیسے درندے اپنی کلائیاں زمین پر بچھاتے ہیں بلکہ ہتھیلیاں زمین پر شیکے رہو اور ناک زمین پر مس کرو ۔ اور پیشانی میں بالوں کی جڑ سے ابروؤں تک کسی جگہ بھی ایک درہم کے برابر تمہارے لئے سجدہ کی اجازت ہے اور جسکی ناک زمین سے مس نہ ہوگی اسکی نماز نہ ہوگی ۔
اور تم اپنے سجدے میں یہ کہو اللهم لك سجدت و بک آمنت ، وَ لَكَ اسْلَمْتُ وَعَلَيْكَ توكلت سَجَدَاكَ وَجْهِی و سمعی و بصری و شعری و بشری و مخَى و عصبى وَعِظَامِي سَجَدَ وَ جَهِى لِلَّذِي خَلَقَهُ وَ صَوَّرَهُ وَ شَق سَمِعَهُ وبَصَرَهُ تَبَارَكَ اللَّهُ رَبِّ الْعَالَمِين -
(اے اللہ میں نے تیرے لئے سجدہ کیا تجھ پر ایمان لایا تیرے سامنے سر تسلیم خم کیا، تجھ پر توکل کیا ، میرا چہرہ ، میرے کان ، میری آنکھیں ، میرے بال ، میرالشیرہ ، میرا مغز، میرے اعصاب اور میری ہڈیاں سب تیرے سامنے سجدہ ریز ہیں ، سجدہ کیا میرے چہرے نے اس ذات کو جس نے اسے پیدا کیا ، اسکی صورت بنائی ، اسکے کان اور اسکی آنکھیں بنائیں رب العالمین تیری ذات بابرکت ہے)۔ اسکے بعد ” سبحان ربی الاعلى و بحمده تین مرتبہ کہو ۔ اور اگر پانچ مرتبہ کہو تو اچھا ہے اوراگر سات مرتبہ کہو تو افضل ہے اور تمہیں تین تسبیحات پڑھنے کی اجازت بھی ہے کہو سبحان الله سبحان الله سبحان الله - اور تسبیح تام کی مریض اور عجلت میں رہنے والے شخص کو اجازت ہے ۔
پھر اس کے بعد سجدے سے سر اٹھاؤ اور اپنے ہاتھوں کو اپنی طرف سمیٹ لو اور اچھی طرح بیٹھ جاؤ تو تکبیر کیلئے ہاتھوں کو بلند کرو اور دونوں سجدوں کے درمیان کہو اللهم اغفرلي وارحمني و أجرْنِي وَ المُدنِي وَعَانَنِي وَاعْفُ عَنِّي اور تمہارے لئے یہ بھی اجازت ہے کہ صرف یہ کہو اللهم اغفر لي وارحمنی اور پھر تعمیر کے لئے دونوں ہاتھ اٹھاؤ اور تکبیر کہو اور دوسرا سجدہ کرو اور اس میں وہ کہو جو پہلے سجدہ میں کہہ چکے ہو اور دو سجدوں کے درمیان اقعاء (دونوں ہتھیلیوں کو زمین پر ٹیک کر گھٹنوں کے بل ہونا) کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور پہلی اور دوسری رکعت کے درمیان اور تیسری اور چو تھی رکعت کے درمیان اتحاد میں کوئی حرج نہیں مگر دونوں تشہدوں میں اقعاء جائز نہیں اس لئے کہ اقعاء کرنے والا بیٹھا ہوا نہیں ہوتا بلکہ کچھ بیٹھا ہوا ہوتا ہے اور کچھ نہیں اور یہ دعا و تشہد کیلئے مناسب نہیں ہے ۔ اور ایسے موقع پر جہاں امام کو بیٹھنا ہے اور اس پر کھڑا ہونا واجب ہے تو اسکو نیم نشستہ ہو کر زمین سے اٹھا ہونا چاہیئے ( یعنی اقعاء کر لینا چاہیے) اور سجدہ نبی آدم کی طرف سے اللہ تعالٰی کی انتہائی عبادت ہے اور بندہ اس میں اللہ تعالٰی سے بہت زیادہ قریب ہوتا ہے چنانچہ اللہ تعالٰی کا ارشاد
ہے (و اسجد و اقترب) سجدہ کرو اور قریب ہو جاؤ ۔
٩٣٠ - ایک شخص نے حضرت امیر المومنین علیہ السلام سے دریافت کیا اور کہا اے بہترین خلق خدا کے ابن عم ( نماز میں) پہلے سجدہ کے کیا معنی ہیں ؟ آپ نے فرمایا اس کے معنی یہ ہیں کہ اے اللہ تو نے ہم لوگوں کو اسی سے پیدا کیا ہے یعنی زمین سے اور سجدے سے سر اٹھانے کا مطلب یہ ہے کہ اس سے تو نے ہم لوگوں کو نکالا ۔ دوسرے سجدے کا مطلب یہ کہ ہم لوگوں کو اس کی طرف پلٹائے گا اور سجدے سے سر اٹھانے کا مطلب یہ کہ اسی سے تو ہم لوگوں کو دوبارہ نکالے گا ۔
٩٣١ - ابو بصیر نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے نماز کی علت دریافت کی کہ اس میں دو (۲) رکھتیں یعنی دو رکوع اور چار سجدے کیوں ہیں ؟ آپ نے فرمایا اس لئے کہ ایک رکعت کھڑے ہو کر پڑھنا دو (۲) رکعت بیٹھ کر پڑھنے کے برابر ہے اور رکوع میں سبحان ربی العظیم و بحمدہ اور سجدہ میں سبحان ربی الاعلی و بحمدہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ
٩٣٢ - جب اللہ تعالیٰ نے آیت نسبح باسم ربک العظیم نازل فرمائی تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اسے تم لوگ اپنے رکوع میں قرار دے لو ۔ اور جب اللہ تعالٰی نے آیہ سبح اسم ربک اللہ علی نازل فرمائی تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اسے تم لوگ اپنے سجدوں میں رکھ لو ۔
(الغرض) پھر دوسرے سجدے سے سر اٹھاؤ اور جب کھڑے ہونے کیلئے ہاتھ پر ٹیک لگاؤ تو کہو ( بحول الله وقوته انوم و اقعد) اور دوسری رکعت کیلئے کھڑے ہو گئے تو سورہ الحمد اور کوئی ایک سورہ پڑھو اور پڑھنے کے بعد رکوع سے پہلے قنوت پڑھو ۔ اور پہلی رکعت میں سورہ الحمد اور سورہ انا انزلناء اور دوسری رکعت میں سورہ الحمد اور سورہ قل ہو اللہ احد پڑھنا مستحب ہے اس لئے کہ انا انزلنا، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور انکے اہلبیت صلوات اللہ علیہم کا سورہ ہے ۔ پس ان لوگوں کو نماز گزار اللہ کی طرف اپنا وسیلہ بنائے اس لئے کہ انہی حضرات کے ذریعہ اس کو اللہ کی معرفت حاصل ہوئی ہے ۔ اور دوسری رکعت میں سورہ توحید (قل هو الله احد) پڑھے اس لئے کہ اسکے پڑھنے کے بعد دعا قبول ہوتی ہے اس کے بعد قنوت پڑھے گا تو قنوت (کی دعا) قبول ہوگی۔
اور قنوت ایک واجب امر ہے جو شخص ہر نماز میں اسکو عمد ا ترک کرے گا اسکی نماز نہیں ہو گی اللہ تعالٰی نے فرمایا ” وتوموالله قانتین “ یعنی اسکی اطاعت کرتے ہوئے اور اسے پکارتے ہوئے کھڑے ہو اور کم سے کم وہ قنوت جو کافی ہو جائے اسکی بہت سی قسمیں ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ تم کہورَبِّ اغْفِرِ وَ ارْحَمْ وَتَجَاوَزَ عَمَّا تَعْلَمُ إِنَّكَ أَنتَ اللَّهُ عزالله کرم (میرے پروردگار میری مغفرت فرما مجھ پر رحم فرما اور میری ان خطاؤں کو درگزر کر جو تو جانتا ہے ۔ بے شک تو بڑا صاحب حرمت اور بڑا صاحب کرم ہے) اور ان میں سے ایک یہ ہے کہ تم کہو سبحان من دانت له السمواتِ وَالْأَرْضِ بالعبودية -
(پاک اور منزہ ہے اے وہ ذات کہ تمام آسمان اور زمین اس کے سامنے پست اور اطاعت گزار ہیں) اور ان میں سے ایک یہ ہے کہ تم تین مرتبہ سبحان اللہ کہو ۔ اور اپنے قنوت و رکوع و سجود و قیام و قعود میں دنیا و آخرت کیلئے دعا کرو اور اگر چاہو تواپنی حاجت بیان کرو -
٩٣٣ - حلبی نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے قنوت کے متعلق دریافت کیا کہ کیا اس میں کوئی معینہ قول ہے؟ آپ نے فرمایا کہ اپنے رب کی ثناء کرو ۔ اپنے نبی پر درود بھیجو اپنے گناہوں کی مغفرت چاہو ۔
٩٣٤ - محمد بن مسلم نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ قنوت نماز نائلہ اور نمازفریضہ کی ہر دور کعت میں ہے ۔
٩٣٥ - اور زرارہ نے ان ہی جناب سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا قنوت ہر نماز میں ہے ۔ اور ہمارے شیخ محمد بن حسن بن احمد بن ولید رضی اللہ نے سعید بن عبد اللہ کے متعلق بیان کیا کہ وہ کہا کرتے تھے کہ قنوت کے اندر دعا فارسی میں جائز نہیں ہے اور محمد بن حسن صفار کہا کرتے تھے کہ جائز ہے اور میں بھی کہتا ہوں کہ جائز ہے
٩٣٦ - حضرت ابو جعفر ثانی (امام علی النقی علیہ السلام) کے قول کی بنا پر کہ کوئی حرج نہیں اگر انسان نماز فریضہ میں جس زبان میں چاہے اللہ سے مناجات کرے ۔
اور اگر یہ حدیث نہ بھی ہوتی تو میں اسکو جائز کہتا اس حدیث کی بنا پر جو روایت کی گئی ہے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے ۔
٩٣٧ - آپ نے فرمایا کہ ہر شے آزاد ہے جب تک کہ اسکے لئے کوئی منع نہ وارد ہوئی ہو ۔ اور نماز کے اندر فارسی میں دعا تو اس کے لئے کوئی نہی نہیں وارد ہوتی ہے ۔ الحمد لله رب العالمين -
٩٣٨ - اور حلبی نے ایک مرتبہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے دریافت کیا کہ کیا ہم نماز میں ائمہ علیہم السلام کا نام لے سکتے ہیں ، آپ نے فرمایا ان کا اجمالی طور پر ذکر کرو ( جیسے آل محمد ) ۔
٩٣٩ - حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا تم نماز میں اپنے رب سے جو مناجات بھی کرو وہ ایسا کوئی کلام نہیں ( جو نماز میں مخل ہو) ۔
٩٤٠ - اور منصور بن یونس بزرج نے آپ سے ایک ایسے شخص کے متعلق دریافت کیا جو نماز فریضہ میں رونے والے کی صورت بناتا ہے یہاں تک کہ رونے لگتا ہے تو آپ نے فرمایا خدا کی قسم اس کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں پھر فرمایا جب ایسا ہو تو تم دعا میں مجھے بھی یاد کر لیا کرو۔
٩٤١ - اور روایت کی گئی ہے کہ نماز میں میت پر رونے سے نماز باطل ہو جاتی ہے اور نماز میں جنت جہنم کے ذکر پر رونا بہترین عمل ہے ۔
نیز روایت کی گئی ہے کہ ہرشے کا ایک ناپ اور ایک تول ہوتا ہے سوائے خوف خدا میں رونے کے اس لئے کہ اس کا ایک قطرہ جہنم کے سمندوں کو بجھا دیتا ہے اور اگر کسی قوم کا ایک شخص بھی خوف خدا میں روتا ہے تو پوری قوم پر رحم کیا جاتا ہے۔
٩٤٢ - اور ہر آنکھ قیامت کے دن روتی ہو گی سوائے تین آنکھوں کے ایک وہ آنکھ جو خوف خدا سے روئی ہوگی دوسری وہ آنکھ جس نے اسکے دیکھنے سے خود کو بچایا ہو جسے دیکھنا اللہ نے حرام کیا ہے ۔ تیسری وہ آنکھ جس نے راہ خدا میں جاگتےہوئے شب بسر کی۔
٩٤٣ - صفوان جمال سے روایت کی گئی ہے اسکا بیان ہے کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے پیچھے بہت دنوں تک نماز پڑھی وہ ہر نماز میں قنوت پڑھا کرتے تھے خواہ وہ نماز باواز بلند پڑھی جاتی ہو یا بلند آواز سے نہ پڑھی جاتی ہو ۔
٩٤٤ - زرا رہ سے روایت کی گئی ہے انہوں نے کہا کہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے ارشاد فرمایا ہر قنوت بآواز بلند ہے ۔ اور سوائے روز جمعہ کے تمام دنوں کی نماز فریضہ میں قنوت ان الفاظ میں ہونا چاہیے ۔ اللَّهُم إِنِّی أَسْتَلْكَ لِی وَالْوَالِدَی وَلِوَلَدِی وَلِأَهْلِ بَيْتِی وَإِخْوَانِی الْمُؤْمِنِينَ فِيْكَ الْيَقِينَ وَالْعَفْوَ وَالْمُعَاناةَ وَالرَّحْمَةَ وَالْمُغْفِرَةَ وَالْعَافِيةَ فِي الدُّنْيا و الآخِرَةِ -
( بارالہا میں اپنے لئے اپنے والدین کیلئے اور اپنے گھر والوں کیلئے اور اپنے برادرانِ مومنین کیلئے التجا کرتا ہوں کہ ان سب کو تجھ پر یقین ہو اور انہیں تیری طرف سے دنیا و آخرت میں عفو و معافی ورحمت و مغفرت اور عافیت عطا ہو) اور جب تم قنوت سے فارغ ہو جاؤ تو رکوع کرو اور سجدہ کرو اور جب دوسرے سجدے سے سر اٹھاؤ تو تشہد پڑھو اور کہو بسم اللهِ وَبِاللَّهِ وَالحمد لله و الأسماء الحسنى كَلَهَاللهِ ، أَشْهَدَانَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدةً عبْدُهُ وَرَسُولَهُ، أَرْسَلَهُ بِالْحَقِّ بشيراً ونذير أبين يدي السَّاعَةِ (اللہ کے نام سے اللہ کے ساتھ اور ہر طرح کی حمد اللہ کیلئے ہے اور اللہ کے سارے نام اچھے اچھے ہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ نہیں ہے کوئی اللہ سوائے اسی اللہ کے وہ اکیلا ہے اسکا کوئی شریک نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ محمدؐ اسکے بندے ہیں اسکے رسول ہیں اُس نے اُن کو حق کے ساتھ بشیر و نذیر بنا کر ہم لوگوں کے سامنے بھیجا ہے ) ۔
پھر تیسری رکعت کی تیاری کرو اور جب تم کھڑے ہونے کیلئے اپنے ہاتھ سے ٹیک لگاؤ تو یہ کہو بِحَولِ اللَّهِ وَتُوَتِهِ انوم و انعد اور آخر کی دورکعتوں میں خواہ تم پیشنماز ہو یا غیر پیشنماز تین مرتبہ یہ کہو سُبْحَانَ اللهِ وَ الْحَمْدُ لِلَّهِ وَلَا إِلَهَ إِلهَ الله و الله اكبر .
اور اگر چاہو تو ان میں سے ہر رکعت میں سورہ الحمد پڑھو لیکن تسبیح پڑھنا افضل ہے اور جب چوتھی رکعت پڑھ چکو تو آخر میں تشہد پڑھو اور اپنے تشہد میں یہ کہو ۔ بسمِ اللهِ وَ ِبالله والحمد لله والأسماء الحسنى كلها لله، اشهد ان لا إِله إِلا اللَّهُ وَحْدَهُ لا شَريكَ لَهُ، وَأشهد ان محمّداً عبده ورسوله - ارسله بالهدى ودين الحقِّ ليظهره على الدين كله ولوكرة المشركون - التحيات لله والصلواتُ الطَّيِّبَاتُ الطَّاهِرَاتُ الزَّاكِيَاتُ النَّامِيَاتُ العَادِياتِ الرَّائِحَاتُ الْمُبَارَكَاتُ الْحَسَنَاتُ لِلَّهِ - مَا طَابَ و طهرو ذكى وخلص و نمى فلله و ما خبث فلفيره - اشهد ان لا إله إلا الله وحده لا شريك له واشهد ان محمداً عبده ورسوله أرسله بالحق بشیراً ونذيراً بين يدي الساعة و اشهد ان الجنة حق و إن النارحق وإن الساعة آتية لارَيْبَ فِيهَا وَأَنَّ اللهَ يَبْعَثُ مَنْ فِى القبور - و اشهدان ربی نعم الرب و ان محمّداً نعم الرسول ارسل وَأشهد ان ما علی الرسول إلا البلاغ المبين - السلام علیک ایها النبی ورحمة الله و بركاته ، السلام على محمد عبد الله خاتم النبيين - السلام لأَئِمَّةِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيينَ - السَّلَامُ عَلَى جَمِيعِ أَنْبِيَاءِ اللَّهُ وَرُسُلِهِ وَ مَلائِكَتِهِ السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللهِ الصَّالِحِينَ (اللہ کے نام سے اور اللہ ہی کے ساتھ شروع کرتا ہوں ہر طرح کی حمد اللہ کیلئے ہے اور اللہ کے ہی سب اچھے اچھے نام ہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ نہیں ہے کوئی اللہ سوائے اس اللہ کے وہ اکیلا ہے اسکا کوئی شریک نہیں ہے اور گواہی دیتا ہوں محمد اس کے بندے ہیں اور اسکے رسول ہیں اس نے ان کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ سارے ادیان پر غالب آجائے خواہ مشرکین اسکو ناپسند کیوں نہ کریں ۔ تحیہ وسلام اللہ کیلئے ہے نیز طیب و طاہر پاک و خالص ، نامی و پر رائحہ (خوشبو) و مبارک و صلوات بھی اللہ ہی کیلئے ہے اور جو طیب و طاہر و پاک و خالص ہے وہ اللہ کیلئے ہے اور جو ردی اور خراب ہے وہ غیر خدا کیلئے ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ نہیں ہے کوئی اللہ سوائے اس اللہ کے وہ اکیلا ہے اسکا کوئی شریک نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد اسکے بندہ اور اسکے رسول ہیں اس نے ان کو حق کے ساتھ بشیر و نذیر بنا کر ہمارے سامنے اس وقت کیلئے بھی بھیجا ہے ۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ جنت حق ہے جہنم حق ہے اور قیامت آنے والی ہے ان میں کوئی شک نہیں ہے اور اللہ تعالٰی جو لوگ قبروں میں ہیں انہیں دوبارہ اٹھائے گا اور گواہی دیتا ہوں کہ میرا رب بہترین رب ہے اور محمد بہترین رسول ہیں جو رسول بنائے گئے ہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ رسول کی ذمہ داری صرف یہ ہے کہ وہ اللہ کا واضح پیغام پہنچائے ۔ اے نبی آپ پر ہمارا سلام اور اللہ کی رحمت اور اسکی برکت ہو ۔ محمد بن عبداللہ خاتم النبیین پر سلام ۔ اور رشد و ہدایت کرنے والے ائمہ طاہرین پر سلام ۔ اللہ کے تمام انبیاء اور اسکے رسولوں اور اسکے ملائکہ پر سلام ۔ ہم لوگوں پر اور اللہ کے صالح بندوں پر سلام -)
اور تمہارے لئے تشہد میں صرف شہادتین پڑھ لینا بھی کافی ہے اور اسکا پڑھنا افضل ہے اس لئے کہ یہ عبادت ہے پھر تم قبلہ رو رہتے ہوئے سلام پڑھو اور اگر تم امامت کر رہے ہو تو اپنی نگاہ دائیں جانب موڑ لو (اور السلام علیکم کہو) اور اگر تم تہا نماز پڑھ رہے ہو تو قبلہ رو رہتے ہوئے ایک مرتبہ السلام علیکم کہو اور اپنی ناک بائیں پھراؤ ۔ اور اگر تم کسی امام کے پیچھے نماز پڑھ رہے ہو تو قبلہ کی طرف رخ کر کے کہو السلام علیکم امام کے سلام کے جواب میں اور پھر دائیں جانب رخ کر کے ایک مرتبہ کہو السلام علیکم اور بائیں جانب رخ کر کے ایک مرتبہ کہو السلام علیکم لیکن اگرتمہارے بائیں جانب کوئی انسان نہیں ہے تو اپنے بائیں جانب سلام نہ کہو اور اگر تمہارے بائیں جانب کوئی دیوار حائل ہے تو اپنے بائیں جانب بھی
السلام علیکم کہو ۔ مگر دائیں جانب سلام کو نہ چھوڑو خواہ کوئی ادھر ہو یا نہ ہو ۔
٩٤٥ - اور ایک شخص نے حضرت امیر المومنین علیہ السلام سے عرض کیا اے خلق خدا میں سب سے بہترین کے ابن عم تشہد میں جو آپ اپنا داہنا پاؤں کھڑا رکھتے ہیں اور بایاں پاؤں پٹ رکھتے ہیں اسکا کیا مطلب ہے ؟ آپ نے فرمایا اسکا مطلب یہ ہے کہ اے اللہ تو باطل کو موت دے اور حق کو کھڑا کر دے ۔ اس نے کہا کہ اچھا پیشنماز کے السلام علیکم کہنے کا کیا مطلب " آپ نے فرمایا کہ امام اللہ تعالیٰ کی ترجمانی کرتا ہے اہل جماعت کیلئے کہ تم لوگوں کو قیامت کے دن عذاب الہی سے امان ہے ۔
پس جب تم نے سلام کہہ لیا اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر تین مرتبہ تکبیر کہہ لی تو پھر یہ کہا کرو لا إله إلا الله وحده لاشريك له انجز وعده و نصر عبده و اعز جنده و غلب الاحزاب وحده فله الملك وله فَلَهُ وَلَه الحمد يحيي وَيُمِيتُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِیر ( نہیں ہے کوئی اللہ سوائے اس اللہ کے وہ اکیلا ہے اسکا کوئی شریک نہیں اس نے اپنے وعدہ کو پورا کیا اپنے بندے کی نصرت کی اسکے گروہ کو قوت دی دوسرے گروہوں پر اکیلا غالب رہا پس اس کیلئے ملک ہے اس کے لئے حمد ہے وہی زندہ کرتا ہے اور وہی مارتا ہے اور وہی ہر شے پر قادر ہے) ۔
پھر تسبیح فاطمہ زہرا پڑھو اور وہ چونتیسں (٣٤) مرتبہ اللہ اکبر اور تینتیس (۳۳) مرتبہ سبحان اللہ اور تینتیس (۳۳) مرتبہ الحمد للہ ہے۔
٩٤٦ - حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ جو شخص تسبیح فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ہر نماز فریضہ کے بعد بڑھے گا قبل اسکے کہ وہ اپنے دونوں پاؤوں کو موڑے اللہ تعالٰی اسکی مغفرت کر دیگا۔
٩٤٧ - روایت کی گئی ہے کہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے قبیلہ بنی سعد کے ایک شخص سے فرمایا سنو میں تم سے اپنے اور فاطمہ زہرا کے متعلق بتاتا ہوں کہ وہ میرے پاس تھیں تو پانی کی مشکیں اتنی اٹھائیں کہ انکے سینے پر نیل پڑ گیا اتنی چکی پیسی کہ ہاتھوں میں گھٹے پڑگئے ۔ اور گھر میں اتنی جھاڑو دی کہ انکے کپڑے غبار آلود ہو گئے ۔ اور دیگچی کے نیچے اتنی اگ روشن کی کہ انکے کپڑے دھوئیں سے بھر گئے۔ اور اسکی وجہ سے وہ شدید تکلیف میں تھیں تو میں نے ان سے کہا کہ اگر تم اپنے پدر بزرگوار کے پاس جاتیں اور ان سے ایک خادمہ کی درخواست کرتیں تو جس تکلیف میں تم ہو وہ دور ہو جاتی ۔ چنانچہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس گئیں اور جب وہ پہنچیں تو وہاں چند لوگوں کو آپ سے محو گفتگو پایا تو انہیں لوگوں کے سامنے کچھ کہتے شرم آئی چنانچہ واپس آگئیں اور آنحضرت نے سمجھ لیا کہ یہ کسی کام سے آئی تھیں تو دوسرے دن آنحضرت ہم لوگوں کے پاس آئے اور ہم لوگ اپنے اپنے لحاف میں لیٹے ہوئے تھے آنحضرت نے آکر کہا السلام علیکم مگر ہم لوگ خاموش رہے آنحضرت نے پھر کہا کہ السلام علیکم اب ہم لوگ ڈرے کہ اگر ہم لوگ جواب سلام نہیں دیتے تو آپ واپس چلے جائیں گے اور کبھی کبھی آپ ایسا کرتے بھی تھے کہ تین مرتبہ سلام کرتے اگر جواب ملا تو ٹھیک ورنہ واپس چلے جاتے تھے تو ہم لوگوں نے کہا علیک السلام یا رسول اللہ تشریف لائیں تو آپ اندر تشریف لائے اور ہم لوگوں کے سرہانے بیٹھ گئے پھر پوچھا اے فاطمہ کل تم کو مجھ سے کیا کام تھا اب میں ڈرا کہ اگر جواب نہ دیا تو آپ اٹھ کر چلے نہ جائیں ۔ اس لئے میں نے لحاف سے سر نکالا اور عرض کیا کہ خدا کی قسم میں آپ کو بتاتا ہوں یا رسول اللہ انہوں نے پانی کی اتنی مشکیں اٹھائی ہیں کہ انکے سینہ پر نیل پڑ گیا ۔ اتنی چکی پیسی ہے کہ ہاتھوں میں گھٹے پڑگئے اور گھر میں اتنی جھاڑو دی ہے کہ سارے کپڑے غبار آلود ہو گئے اور دیگچی کے نیچے اتنی آگ روشن کی کہ سارا لباس دھوئیں سے بھر گیا ۔ تو میں نے ہی ان سے کہا کہ اگر تم اپنے والد کے پاس جا کر ایک خادمہ کیلئے کہتیں تو ان کاموں کی تکلیف سے تمہیں نجات مل جاتی ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں تم دونوں کو ایسی چیز کیوں نہ بتاؤں جو خادم سے تم دونوں کیلئے بہتر ہو سنو جب تم دونوں اپنے بستر پر جاؤ تو چونتیس (٣٤) مرتبہ اللہ اکبر اور تینتیس (۳۳) مرتبہ سبحان اللہ اور تینتیس (۳۳) مرتبہ الحمد اللہ کہ لیا کرو ۔ یہ سنکر فاطمہ نے اپنے لحاف سے سر نکالا اور کہا میں اللہ اور اسکے رسول کے فیصلہ پر راضی ہوں میں اللہ اور اسکے رسول کے فیصلے پر راضی ہوں اور جب تم تسبیح فاطمہ علیہا السلام پڑھ کر فارغ ہو تو یہ کہو ۔
اللهم انت السّلامُ وَمِنكَ السلام ُ وَ لكَ السّلام واليك يعود السلام سبحان ربك رب العزة عما يصفون وسلام على المرسلين والحمد لله رب العالمين السلام عليك ايها النبى و رحمة الله وبركاته - السلام على الائمة -
الها دين المَهديين السلام عَلى جَمِيعِ الأَنْبِيَاءِ اللَّهِ وَ وَرسلِهِ وَ مَلائِكَتِهِ أَسْلَامُ عَلَيْنَا وَ عَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ (اے اللہ تو سلام ہے ۔ تیری طرف سے سلام ہے اور تیرے لئے سلام ہے اور تیری طرف سلام پلٹتا ہے۔ تمہارا رب رب العزمت ہے وہ پاک اور منزہ ہے ان تمام اوصاف سے جسکو لوگ بیان کرتے ہیں اور رسولوں پر سلام اور تمام جہانوں کے پروردگار اللہ تعالیٰ کے لئے حمد ۔ ہمارا سلام ہو آپ پر اے نبی اور اللہ تعالیٰ کی رحمت اور برکت ہو ائمہ طاہرین پر جو ہادی اورمہدی ہیں اور ان پر سلام - اللہ کے تمام انبیاء رسولوں اور اس کے ملائیکہ پر سلام۔ ہم لوگوں پر اور اللہ کے صالح بندوں پرسلام) -
پھر ائمہ طاہرین پر ایک ایک کر کے سلام کرو اسکے بعد جو چاہو دعا مانگو۔