حدیث ١٧٢-١٧٧
١٧٢- حضرت ابو جعفر امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ غسل کے سترہ مواقع ہیں ۔ رمضان کی سترہ (۱۷) کی شب اور انہیں (۱۹) کی شب ، اکسیس (۲۱) اور تیئیس (۲۳) کی شب کا غسل اور اس میں شب قدر کی امید کی جاتی ہے اور دونوں عیدوں کا غسل ، جنب تم حرمین میں داخل ہو اور جس دن تم احرام باندھو اور زیارت کعبہ کے دن کا غسل ، خانہ کعبہ میں داخل ہونے کے دن کا غسل ، یوم ترویہ کا غسل ، یوم عرفہ کا غسل اور جب تم کسی میت کو اسکے جسم کے ٹھنڈے ہونے کے بعد مس کردا سے فصل دوا سے کفن پہناؤ تو غسل ، اور یوم جمعہ کا فسل ، اور چاند و سورج کے گہن کا غسل جبکہ پورا گہن لگے اور تم سوتے سے جاگو اور نماز کسوف نہ پڑھی ہو تو تم پر فرض ہے کہ غسل کرو اور نماز کسوف قضا پڑھو ۔ اور غسل جنابت یہ فریضہ واجب ہے ۔
١٧٣- حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کے غسل جنابت و حیض دونوں ایک طرح کے ہیں ۔
١٧٤- اور روایت کی گئی ہے کہ جو شخص چھپکلی کو مارے اسکو غسل کرنا ضروری ہے اور ہمارے بعض مشائخ نے اسکا سبب یہ بتایا ہے کہ وہ اپنے گناہوں سے پاک ہو جاتا ہے اسلئے اسے غسل کرنا چاہیئے ۔
١٧٥- اور روایت کی گئی ہے کہ جو شخص پھانسی پر چڑھے ہوئے آدمی کی طرف سے گزرے اور اس کی طرف دیکھے تو اس پر غسل بر بنائے سزا و عقوبت واجب ہے ۔
١٧٦- اور سماعہ بن مہران نے ایک مرتبہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے غسل جمعہ کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا یہ سفر و حضر دونوں میں واجب ہے لیکن سفر میں عورتوں کو پانی کی کمی کی وجہ سے اجازت ہے (کہ وہ غسل نہ کریں) اور غسل جنابت واجب ہے ، غسل حیض واجب ہے ، غسل استحاضہ واجب اور جب وہ روٹی رکھے اور خون روئی کے او پر پھوٹ پڑے تو اس پر ہر دو نمازوں (ظہر و عصر اور مغرب و عشاء) کیلئے غسل واجب ہے اور نماز صبح کیلئے بھی غسل واجب ہے اور اگر خون روئی سے تجاوز نہ کرے تو اسکے لئے ہر نماز کیلئے وضو ہے ۔ اور غسل نفاس واجب ہے ، غسل مولود واجب ہے ، غسل میت واجب ہے اور جس نے میت کو غسل دیا ہے اس پر غسل واجب ہے اور احرام باندھنے والے پر غسل واجب ہے یوم عرفہ غسل واجب ہے ۔ دخول حرم کیلئے غسل واجب ہے اور مستحب ہے کہ کوئی شخص بغیر غسل کے حرم میں داخل نہ ہو اور غسل مباہلہ واجب ہے اور اکیسویں (۲۱) شب کا غسل سنت ہے اور تیٹیو میں (۲۳) شب کے غسل کو نہ چھوڑو اسلئے کہ ان دونوں شبوں میں سے کسی ایک میں شب قدر کی امید رکھی جاتی ہے میں یوم فطر اور یوم اضحی کے غسل کو ترک
کرنا بھی نہیں پسند کرتا ۔ اور غسل استخارہ مستحب ہے ۔
١٧٧- ایک شخص نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے عرض کیا کہ ہمارے پڑوسیوں کی کچھ کنیزیں جو گاتی بجاتی رہتی ہیں ہیں کبھی کبھی جب میں بیت الخلاء میں ہوتا ہوں تو ان کے گانے وغیرہ سننے کیلئے اس میں دیر تک بیٹھا رہتا ہوں ۔ آپ نے فرمایا ایسا ہر گز نہ کیا کرو ۔ اس نے عرض کیا بخدا یہ کوئی ایسی شے تو نہیں ہے کہ جسے میں اپنے پاؤں سے چل کر حاصل کرتا ہوں یہ تو ایک آواز ہے جسے میں اپنے کان سے سنتا ہوں ۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا تجھے خدا کا واسطہ کیا تو نے اللہ تعالی کا ارشاد نہیں سنا جو وہ کہتا ہے ۔ إِنَّ ٱلسَّمْعَ وَٱلْبَصَرَ وَٱلْفُؤَادَ كُلُّ أُو۟لَـٰٓئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْـُٔولًۭا ٣٦ - ( بیتک کان اور آنکھ اور دل ان سب کے بارے میں سوال کیا جائیگا) (نبی اسرائیل آیت نمبر ۳۶) ۔17 -36
اس شخص کا بیان ہے کہ اس وقت ایسا محسوس ہوا جیسے میں نے کتاب خدا کی یہ آیت نہ کبھی عربی سے سنی تھی نہ کسی مجھی سے لہذا میں نے کہا کہ میں نے اسے ترک کیا اور اب میں اللہ تعالٰی سے معافی و مغفرت کا خوا شکار ہوں ۔ اس پر امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا اچھا اٹھو اور غسل کرو اور جو چاہے وہ نماز پڑھو ۔ اسلئے کہ اب تک تم ایک ایسے امر عظیم کے مرتکب ہوتے رہے کہ اگر اسی حالت میں تم مرجاتے تو تمہارا بدترین حال ہو تا اللہ تعالٰی سے استغفار کرو اور تو بہ کرو ہر اس مکروہ شے سے جو اللہ کو ناپسند ہے اس لئے کہ وہ صرف تیج شے کو مکروہ اور ناپسند کرتا ہے اور تیج شے کو اسکے اہل کیلئے چھوڑ دو اسلئے کہ ہر اچھی اور بری بات کیلئے کچھ اہل لوگ ہوتے ہیں ۔
اور سوائے غسل جنابت کے تمام فسل، سنت ہیں اور بسا اوقات غسل جنابت وضو سے مستثنیٰ کر دیتا ہے اسلئے کہ یہ دونوں فرض ہیں جو ایک ساتھ جمع ہوگئے ہیں لہذا ان دونوں میں جو بڑا فرض ہے وہ چھوٹے فرض سے مستشنی کر دیتا ہے اور جو شخص غسل جنابت کے علاوہ کوئی دوسرا غسل کرے تو اس کو چاہیئے کہ پہلے وضو کرے اسکے بعد غسل کرے یہ غسل اسکو وضو سے مستثنی نہیں کرے گا اسلئے کہ یہ غسل جو وہ کر رہا ہے سنت ہے اور وضو واجب ہے اور سنت کبھی واجب سے مستثنی نہیں کر سکتا۔