حدیث ١٧٠-١٧١
١٧٠- ایک مرتبہ یہود کے چند افراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آئے اور ان میں سے جو سب سے زیادہ صاحب علم تھا اس نے آپ سے چند مسائل پوچھے جن میں سے ایک مسئلہ یہ بھی پوچھا کہ اللہ تعالیٰ نے جنابت کیلئے غسل کا کیوں حکم دیا اور پاخانہ پیشاب کیلئے غسل کا حکم نہیں دیا ؟ آنحضرت نے فرمایا (سنو) جب حضرت آدم علیہ السلام نے درخت کا پھل کھایا تو اسکا رس انکے تمام رگ وپے میں بلکہ بال بال میں دوڑ گیا۔ پس اگر کوئی مرد اپنی زوجہ سے ہمبستری کرتا ہے تو (منی کا) پانی اسکے جسم کی ہر رگ اور ہر بال سے نکل کر آتا ہے پس اللہ تعالٰی نے انکی ذریت پر قیامت تک کیلئے غسل جنابت کو واجب کر دیا ۔ اور پیشاب انسان جو کچھ پیتا ہے یہ اسکا فضلہ ہے اور پاخانہ انسان جو کچھ بھی کھاتا ہے یہ اسکا فضلہ ہے اسی وجہ سے اس کیلئے صرف وضو ہے ۔ یہودی نے کہا اے محمد آپ نے سچ فرمایا۔
١٧١- اور حضرت امام رضا علیہ السلام نے محمد بن سنان کے مسائل کے جواب میں جو کچھ بھی لکھا اس میں یہ بھی تحریر فرمایا کہ غسل جنابت کی علت وغایت صفائی و ستھرائی ہے تاکہ اس جنابت سے انسان کو جو اذیت ہوتی ہے اس سے پاک ہو جائے اور اس سے پورے جسم کی تطہیر مقصود ہے اسلئے کہ جنابت جسم کے ہر حصہ سے نکل کر آتی ہے اسلئے پورے جسم کی تطہیر اس پر واجب ہے اور پیشاب اور پاخانہ میں تخفیف کا سبب یہ ہے کہ یہ بہ نسبت جنابت کے زیادہ کثرت اور تاحیات ہوتے رہتے ہیں اسلئے اسکی کثرت اور مشقت اور بغیر شہوت و خواہش کے آنے کو دیکھتے ہوئے اللہ تعالٰی نے صرف وضو کو منظور کر لیا اور جنابت بغیر حصول لذت کی خواہش اور بغیر اپنے نفس کو آمادہ کئے نہیں آتی ۔