حدیث ١٢٨-١٢٩
١٢٨- ایک مرتبہ یہود کے چند افراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آئے اور چند مسائل دریافت کئے جن میں ایک یہ بھی تھا کہ اے محمدؐ کیا سبب ہے کہ آپ ان چار اعضاء (یعنی ہاتھ ، پاؤں ، چہرہ ، سرا پر وضو کرتے ہیں یہ تو جسم کے تمام اعضاء میں سب سے زیادہ صاف ستھرے رہتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا کہ جب شیطان نے حضرت آدم کو وسوسے میں ڈالا تو وہ درخت کے قریب گئے اور اسے دیکھا تو ان کے چہرے کی آب جاتی رہی پھر اٹھے اور اسکی طرف چلے تو یہ سب سے پہلا قدم تھا جو معصیت کیلئے اٹھا تھا پھر اپنے ہاتھ سے اس درخت پر جو پھل تھا اسے لیا اور کھالیا تو پھر انکے جسم پر جو ملے اور لباس تھے وہ پرواز کر گئے ( یہ دیکھ کر) حضرت آدم نے اپنا ہاتھ سر کے اگلے حصے پر رکھا اور رونے لگے اور پھر جب اللہ تعالٰی نے انکی توبہ قبول کی تو ان پر اور انکی ذریت پر یہ فرض کر دیا کہ ان چاروں اعضاء کو پاک کریں چنانچہ اللہ تعالٰی نے چہرے کو دھونے کا حکم دیا اسلئے کہ انہوں نے درخت کی طرف دیکھا تھا اور انہیں ہاتھوں کو کہنیوں تک دھونے کا حکم دیا اسلئے کہ انہوں نے ان ہی دونوں ہاتھوں سے توڑا اور کھایا تھا اور انہیں سر کے مسح کا حکم دیا اسلئے کہ انہوں نے اپنا ہاتھ سر کے اگلے حصے پر رکھا تھا اور انہیں دونوں پاؤں پر مسح کا حکم دیا اسلئے کہ ان ہی سے وہ خطا کرنے چلے تھے ۔
١٢٩- اور حضرت ابوالحسن علی بن موسیٰ رضا علیہ السلام نے محمد بن سنان کو انکے مسائل کے جواب میں جو خط لکھا اس میں یہ بھی تحریر فرمایا کہ وضو کا سبب جس کی بنا پر بندے پر واجب ہے کہ اپنا منہ دھوئے اور دونوں ہاتھ کہنیوں تک دھوئے سر اور دونوں پاؤں کا صبح کرے اسلئے کہ اسے اللہ تعالیٰ کہ سامنے کھڑا ہونا ہے اور اپنے ظاہری اعضاء کے ساتھ اسکا سامنا کرنا ہے اور کراماً کاتبین سے ملاقات کرنی ہے لہذا وہ چہرے کو سجدے اور خضوع کیلئے دھوئے اور دونوں ہاتھوں کو دھوئے کیونکہ ان ہی دونوں کو اسے آگے بڑھانا اور خوف و رغبت کا اظہار کرنا اور دعا یا کہنا ہے اور سرکا اور دونوں پاؤں کا مسح کرے اسلئے کہ یہ دونوں ظاہر اور کھلے ہوئے ہیں اور اپنے تمام حالات کا وہ ان دونوں سے استقبال کرتا ہے ان دونوں میں وہ خضوع و خشوع جاجت نہیں ہے جو چہرے اور دونوں ہاتھوں میں ہے ۔