باب غسل میت
حدیث ٣٤٣-٣٩٩
٣٤٣- حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے بیان فرمایا کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بنی ہاشم کے کسی مرد کے پاس گئے وہ نزع کے عالم میں تھے ۔ آپ نے ان سے فرمایا کہ کہو لا اللَّهُ إِلَّا اللَّهُ الْحَلِيمُ الْكَرِيمَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ العلى العظيم ، سُبْحَانَ اللهِ رَبِّ السَّمَوَاتِ وَرَبَّ الْأَرْضِين السبع وَمَا فِيهِنَّ وَ مَابَيْنَ حَنَ وَمَا تحَتِ حَنَّ وَ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ وَسَلَام عَلَى الْمُرْسَلِينَ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ) نہیں ہے کوئی اللہ سوائے اس اللہ کے جو علم والا اور کرم والا ہے نہیں ہے کوئی اللہ سوائے اس اللہ کے جو بلندی والا اور عظمت والا ہے پاک و منزہ ہے وہ اللہ جو سات آسمانوں اور سات زمینوں اور جو کچھ ان میں اور جو کچھ ان کے درمیان ہیں اور جو کچھ ان کے نیچے ہیں ان سب کا پروردگار اور عرش عظیم کا رب ہے۔ رسولوں پر سلام ہو اور ساری حمد اس اللہ کیلئے جو تمام عالمین کا پالنے والا ہے) تو اس نے یہ کہا اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرما یا اس اللہ کا شکر جس نے اسکو جہنم سے بچالیا۔
٣٤٤- حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا تم لوگ اپنے مرنے والوں کو لا الہ الا اللہ کی تلقین کرتے ہو موت کے وقت اور ہم لوگ اپنے مرنے والوں کو موت کے وقت محمد رسول اللہ کی بھی تلقین کرتے ہیں ۔
٣٤٥- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا تم لوگ اپنے مرنے والوں کو لا اله الا اللہ کی تلقین کیا کر داسلئے کہ جس شخص کا آخری کلام لا الہ اللہ اللہ ہو گا وہ جنت میں داخل ہو گا۔
٣٤٦- حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ موت کے وقت مومن کی زبان بند ہو جاتی ہے ( بارگاہ الہی میں حاضری کے خوف سے) ۔
٣٤٧- حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے بیان فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں اہل مدینہ میں سے ایک شخص کی زبان مرض الموت میں بند ہو گئی ۔ تو آنحضرت اسکے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا لا اله الا الله کہو مگر وہ نہ کہہ سکا آنحضرت نے دو بارہ کہا مگروہ پھر بھی نہ کہ سکا اور اسکے سرہانے ایک عورت بیٹھی ہوئی تھی آپ نے اس عورت سے پوچھا کیا تو اس مرد کی ماں ہے ؟ اس عورت نے کہا ہاں یا رسول اللہ میں ہی اسکی ماں ہوں۔ آپ نے اس سے پوچھا کیا تو اس سے راضی ہے یا نہیں ۔ اس نے کہا میں اس سے ناراض ہوں آنحضرت نے اس سے کہا میں چاہتا ہوں کہ تو اس سے راضی ہو جا۔ اس نے کہا اچھا میں آپ کی رضا حاصل کرنے کیلئے اس سے راضی ہوتی ہوں اس کے بعد آنحضرت نے اس مرد سے کہا کہ لا إِلهَ إِلا الله تو اس نے لا الہ الا اللہ کہا سکے بعد فرمایا کہ یا مَن يقبل اليسير و يعفو عنِ الْكَثِيرِ اقْبِلُ مِنَى الْيَسَرَ وَاعْفُ عَنِي الكَثِير إِنَّكَ انت العفو الغفور ( اے وہ جو تھوڑے (اچھے عمل) کو قبول کرتا ہے اور زیادہ بڑے گناہ) کو معاف کر دیتا ہے ۔ مجھ سے قبول کر میرا تھوڑا ( عمل ) اور میرے زیادہ (بڑے گناہ) کو معاف کر بیشک تو معاف کرنے والا اور مغفرت کرنے والا ہے) اس نے یہ بھی کہہ دیا تو آپ نے پوچھا تم کیا دیکھتے ہوں اس نے کہا میں دیکھ رہا ہوں کہ دو کالے شخص میرے پاس آئے ہیں آپ نے فرمایا ان کلمات کو دوبارہ کہو اس نے دوبارہ کہا تو پو چھا اب کیا دیکھتے ہو ؟ اس نے کہا اب دیکھتا ہوں کہ وہ دونوں کالے مجھ سے دور ہٹ گئے اور دو گورے اشخاص میرے پاس آگئے اور دونوں کالے یہاں سے نکل گئے اب میں ان دونوں کو نہیں دیکھتا اور اب دونوں گورے اشخاص میرے قریب آئے ہیں اور اب میری روح قبض کر رہے ہیں پس اسی وقت وہ شخص مر گیا ۔
٣٤٨- حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے قبلہ رو کرنے کا طریقہ دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا اسکے پاؤں کے دونوں تلووں کو قبلہ کی طرف کرو۔
٣٤٩- حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے بیان فرمایا کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اولاد عبد المطلب میں سے ایک شخص کے پاس گئے وہ جانکنی کے عالم میں تھے اور قبلہ رو نہیں تھے تو آپ نے فرمایا انہیں قبلہ رو کر و اور جب ایسا کرو گے تو ملائیکہ ان کے پاس آئیں گے اور اللہ تعالی انکی طرف متوجہ ہو گا چنانچہ وہ قبلہ رُور ہے یہاں تک کہ انکی روح قبض ہو گئی۔
٣٥٠- حضرت امام جعفر صادق علیه السلام نے فرمایا کہ جب بھی کسی کی موت کا وقت آتا ہے تو ابلیس اپنے شیاطین میں سے کسی ایک کو وہاں مقرر کر دیتا ہے اور وہ آکراسے کفر کا حکم دیتا ہے اور اسکے دین کی طرف سے اسکے دل میں شک ڈال دیتا ہے یہاں تک کہ اسی حالت میں اسکی روح نکل جاتی ہے لہذا جب تم اپنے مرنے والوں کے پاس موجود ہو تو انہیں لا الہ الا اللہ و اشدوان محمد رسول اللہ کی شہادت کی تلقین کرتے رہو یہاں تک کہ انہیں موت آجائے ۔
٣٥١- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے آخری خطبہ میں ارشاد فرمایا جو شخص اپنے مرنے سے ایک سال پہلے تو بہ کرلے تو اللہ اسکی تو بہ قبول کریگا پھر فرمایا مگر ایک سال تو بہت ہوتا ہے اگر کوئی اپنے مرنے سے ایک مہینہ پہلے تو بہ کرلے تو اللہ اسکی تو بہ قبول کرلیگا۔ اور ایک مہینہ بھی بہت ہے اگر کوئی شخص اپنے مرنے سے ایک جمعہ پہلے توبہ کرلے تو اللہ اسکی تو بہ قبول کریگا پھر فرمایا اور جمعہ بھی بہت زیادہ ہے اگر کوئی شخص اپنے مرنے سے ایک دن پہلے تو بہ کرلے تو اللہ اسکی توبہ قبول کر لیگا اور ایک دن بھی بہت ہے اگر کوئی شخص اپنے مرنے سے ایک ساعت پہلے تویہ کرلے تو اللہ اسکی توبہ قبول کرے گا اور ایک ساعت بھی بہت ہے اگر کوئی شخص اس وقت بھی توبہ کرلے کہ جب اسکی روح کھینچ کر یہاں تک پہنچ جائے یہ کہکر آپ نے اپنی حلق کی طرف اشارہ کیا تو اللہ اسکی تو بہ قبول کریگا۔
٣٥٢- حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے قول خدا " وليست التوبة للذين يعملون السيات حتى اذا حضر احدهم الموت قال انى تبت الآن “ اور تو بہ ان لوگوں کیلئے مفید نہیں جو عمر بھر تو برے کام کرتے رہے یہاں تک کہ جب ان کے سر پر موت آن کھڑی ہوئی تو کہنے لگے اب میں نے تو بہ کی (سورۃ النساء آیت نمبر ۱۸) کے متعلق فرمایا یہ اس وقت کیلئے جب وہ امور آخرت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتا ہے۔
٣٥٣- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں دیہات سے ایک شخص آیا جو صاحب حشمت و جمال تھا اس نے عرض کیا یا رسول اللہ مجھے قول خدا " الذین امنو وكانوا يتقون - لهم البشري في الحیوۃ الدنيا في الاخرة “ کے متعلق بتائیں وہ لوگ جو ایمان لائے اور خدا سے ڈرتے رہے ان ہی کیلئے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی خوشخبری ہے) (سورہ یونس آیت نمبر ۶۳ - ۷۴) آپ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالٰی کا یہ ارشاد کہ دنیاوی زندگی میں خوشخبری ہے تو وہ اچھے اچھے خواب ہیں جسے مومن دیکھتا ہے ۔ اور اپنی دنیا میں اس کو خوشخبری ملتی ہے اور اللہ تعالٰی کا یہ ارشاد کہ اور آخرت میں تو یہ وہ بشارت ہے جومومن کو موت کے وقت ملتی ہے کہ اللہ تعالٰی نے مجھے اور جو لوگ قبر تک مجھے اٹھا کر لائے ہیں ان سب کو بخش دیا ۔
٣٥٤- حضرت امام جعفر صادق علیه السلام نے بیان فرمایا کہ ایک مرتبہ ملک الموت سے پوچھا گیا کہ کچھ لوگ مغرب میں ہوتے ہیں اور کچھ مشرق میں تو تم ان سب کی ارواح وقت واحد میں کیسے قبض کرتے ہو ؟ انہوں نے جواب میں کہا کہ میں ان سب کو پکارتا ہوں وہ میرے پاس آجاتی ہیں۔ اس کے بعد آپ نے ارشاد فرمایا کہ پھر ملک الموت نے بتایا کہ یہ ساری دنیا میرے سامنے ایسی ہے جیسے تم لوگوں میں سے کسی کے سامنے ایک پیالہ ہو جس سے وہ جو چاہتا ہے تناول کرتا ہے اور یہ دنیا میرے نزدیک ایسی ہے جیسے تم لوگوں میں سے کسی کے ہاتھ میں ایک درہم ہو کہ جیسے چاہئے اسکو الٹے پلٹے۔
٣٥٥- حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ مومن اس دنیا سے اپنی مرضی کے بغیر کوچ ہی نہیں کرتا ۔ اور یہ اسطرح کہ اللہ تعالی اسکے سامنے سے پردے اٹھا دیتا ہے یہاں تک کہ وہ جنت میں اپنی جگہ اور جو کچھ اللہ تعالٰی نے اسکے لئے وہاں فراہم کر رکھا ہے اسے دیکھ لیتا ہے پھر دنیا کو بھی اس کیلئے بہترین طور پر آراستہ کر کے پیش کرتا ہے اور اسے اختیار ہے کہ ان دونوں میں سے جسے چاہے اپنے لئے منتخب کرے ۔ تو وہ اپنے لئے وہ منتخب کرتا ہے جو اللہ تعالٰی نے فراہم کیا ہوا ہے اور کہتا ہے کہ میں اس دنیا اور اسکی بلاؤں اور مصیبتوں میں رہ کر کیا کروں گا لہذا تم لوگ اپنے مرنے والوں کو کلمات الفرج کی تلقین کیا کرو۔
٣٥٦- حضرت ابو جعفر امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر میں عکرمہ (ابن عباس کے غلام) کی موت کے وقت پہنچتا تو میں اسکو نفع پہنچاتا تو عرض کیا گیا آپ اسکو کس چیز سے نفع پہنچا۔ فرمایا جس اعتقاد پر تم لوگ ہو میں اسکی تلقین اسے کرتا۔
٣٥٧- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ناگہانی موت مومن کیلئے تخفیف اور راحت ہے اور کافر کیلئے شدت اور تکلیف ہے ۔
٣٥٨- حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ موت ہر مومن کے گناہوں کا کفارہ ہوتی ہے ۔
٣٥٩- نیز آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ دنیا و آخرت کے درمیان ایک ہزار گھائیاں، ہیں اور اس میں سب سے زیادہ ہلکی اور آسان گھائی موت ہے ۔
٣٦٠- حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ شیطان ہمارے دوستوں کے پاس انکی موت کے وقت کبھی دائیں جانب سے اور کبھی بائیں جانب سے آتا ہے تاکہ ان کو انکے متعقدات سے ہٹا دے مگر اللہ تعالٰی کو یہ قبول نہیں چنانچہ اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے ۔ " يثبت اللہ الذین آمنوا بالقول الثابت في الحيوة الدنيا في الاخرة “ جو لوگ پکی بات پر صدق دل سے ایمان لا چکے انکو اللہ دنیا کی زندگی میں بھی ثابت قدم رکھتا ہے اور آخرت میں بھی ثابت قدم رکھے گا) (سورہ ابراہیم آیت نمبر (۳۶) اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ مرنے والے کی آنکھوں میں مرتے وقت آنسو آجاتے ہیں اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھتا اور وہ کچھ دیکھتا ہے جس سے وہ خوش ہو جاتا ہے پھر فرمایا کیا تم نہیں دیکھتے کہ جب انسان کوئی بہت خوشحال بات دیکھتا ہے اور جس سے وہ محبت کرتا ہے اسے دیکھتا ہے تو اسکی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں اور وہ ہنسنے لگتا ہے ۔
٣٦٢- حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا جب تم دیکھو کہ مومن ایک طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھ رہا ہے اسکی بائیں آنکھ سے آنسو بہہ رہے ہیں پیشانی سے پسینہ بہہ رہا ہے اس کے لب سمٹ رہے ہیں ناک پھیل رہی ہے تو جو کچھ تم نے دیکھا یہی تمہارے سمجھنے کیلئے کافی ہے۔
٣٦٣- حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ مومن کی نشانی یہ ہے کہ جب اسکی موت کا وقت آتا ہے اسکے چہرے کا رنگ جتنا سفید تھا اس سے زیادہ سفید اور روشن ہو جاتا ہے پیشانی پر پسینہ آنے لگتا ہے اسکی آنکھوں سے آنسوؤں کی طرح رطوبت بہنے لگتی ہے تو یہی اسکی روح نکلنے کی نشانی ہے۔ اور کافر کی روح اسکے منہ کے گوشوں سے اسطرح کھینچ کر نکلتی ہے جیسے اونٹ کے منہ سے جھاگ یا جیسے گدھے کی جان نکلتی ہے ۔
٣٦٤- اور روایت کی گئی ہے کہ انسان اپنے موت کے وقت آخری مزا جو محسوس کرتا ہے وہ انگور کا مزا ہوتا ہے۔
٣٦٥- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ ملک الموت مومن کو کیسے وفات دیتا ہے ؟ تو آپ نے فرمایا کہ مومن کی موت کے وقت ملک الموت اسکے پاس اس طرح اگر کھڑا ہوتا ہے جیسے عبد ذلیل اپنے مالک کے سامنے اور اس کے اصحاب اسکے قریب نہیں ہوتے پس ملک الموت ابتدا بہ سلام کرتا ہے اور اسے جنت کی بشارت دیتا ہے۔
٣٦٦- حضرت امیر المومنین نے ارشاد فرمایا کہ مرد مومن کا جب وقت موت قریب ہوتا ہے تو ملک الموت اسکو بھروسہ اور اطمینان دلاتا ہے اگر ایسا نہ ہو تو بے قرار اور مصنطرب ہو جائے ۔ اور کوئی بھی شخص جب اسکی موت کا وقت قریب ہوتا ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حجج طاہرین صلوات اللہ علیہم اجمعین کی شبیہیں اسکے سامنے آتی ہیں تاکہ وہ انہیں دیکھے پس اگر وہ مومن ہے تو انہیں محبت کی نگاہ سے دیکھے گا اور اگر غیر مومن ہے تو کراہت کی نظر سے دیکھے گا چنانچہ اسکے متعلق اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے ” فلولا اذ ابلغت العلقوم و انتم حيث تنظرون و نحن اقرب اليه منكم و لكن لا تبصرون “ جب جان گلے تک پہنچتی ہے تو اس وقت تم لوگ دیکھا کرتے ہو اور ہم اس مرنے والے سے تم سے زیادہ قریب ہوتے ہیں لیکن تمہیں دکھائی نہیں دیتا) (سورہ واقعہ آیت نمبر ۸۳ تا ۸۵)
٣٦٧- حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ جب مومن کی جان اسکے گلے میں جا کر اٹک جاتی ہے تو وہ جنت میں اپنا مقام دیکھ لیتا ہے اور کہتا ہے ذرا مجھے چھوڑو جو کچھ میں نے دیکھا ہے وہ اپنے گھر والوں کو تو بتا دوں تو اس سے کہا جاتا ہے کہ اب اسکی کوئی سبیل نہیں ۔
٣٦٨- حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے قول خدا الله يتو فى الانفس حین موتھا (خدا ہی لوگوں کے مرنے کے وقت ان کی روحیں اپنی طرف کھیچ بلاتا ہے) (سورہ الزمر آیت نمبر ۳۲) اور قول خدا " قل يتو فاكم ملك الموت الذي و كل بكم “ (اے رسول کہہ دو کہ ملک الموت جو تم لوگوں پر تعنیات ہے وہی تمہاری روحیں قبض کرے گا (سورہ السجدہ آیت نمبر) اور قول خدا " الذين تتوفاهم الملائكة طيبين “ یہ وہ لوگ ہیں کہ جن کی روحیں فرشتے اس حالت میں قبض کرتے ہیں کہ وہ (نجاست کفر سے) پاک و پاکیزہ ہوتے ہیں ) (سورہ نحل آیت نمبر ۳۲) اور قول خدا " الذين تتوفاهم الملائكة ظالمی انفسهم “ (یہ وہ لوگ ہیں کہ فرشتے انکی روح قبض کرتے اور وہ (کفر کر کر کے ) آپ اپنے اوپر ستم ڈھاتے رہتے ہیں ) (سورہ نحل آیت نمبر ۲۸) اور قول خدا توخته رسلنا (ہمارے فرستادہ فرشتے اسکی روح قبض کرتے ہیں) (سورہ انعام آیت نمبر (۶) اور قول خدا " و لوتری اذيتو في الذين كفروا الملائكة “ (کاش اے رسول تم دیکھتے جب فرشتے کافروں کی جان نکالتے ہیں) (سورہ انفال آیت نمبر (۵) کے متعلق پوچھا اور کہا کہ وقت واحد میں لوگ اتنے مرتے ہیں کہ انکا شمار اللہ کے سوا کوئی نہیں کر سکتا تو یہ کیسے ہوتا ہے ، آپ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ملک الموت کیلئے فرشتوں میں سے کچھ مددگار مقرر کر دیئے ہیں جو روحیں قبض کرتے ہیں وہ بمنزلہ سپاہی کے ہیں۔ کچھ انسانوں میں سے بھی اسکے اعوان ہیں جنہیں وہ اپنے حوائج کیلئے بھیجتا ہے اور ملائیکہ انکی روحیں قبض کرلیتے ہیں اور جو کچھ یہ ملائیک قبض کرتے ہیں اس پر ملک الموت قابض ہوتا ہے اور جس پر ملک الموت قابض ہوتا ہے اس پر اللہ تعالیٰ قابض ہوتا ہے۔
٣٦٩- حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ حضرت علی کا دوستدار حضرت علی کی تین مقامات پر زیارت کرے گا اور خوش ہو گا، موت کے وقت، صراط پر، اور حوض کوثر پر ۔
اور جو لوگ نماز کے پابند ہیں ملک الموت ان سے شیطان کو خود دفع کرتا ہے اور اس عظیم وقت پر وہ انہیں لا الہ الا اللہ و ان محمد رسول اللہ کی شہادت کی تلقین کرتا ہے۔
٣٧٠- حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا کہ جب کسی بندے کے لئے دنیا کا آخری دن اور آخرت کا پہلا دن ہوتا ہے تو اس کے سامنے اس کا مال، اسکی اولاد، اور اسکا عمل ممثل، اور شبیہ بن کر آتے ہیں پس وہ اپنے مال کی طرف ملتفت ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ خدا کی قسم میں تجھ پر بے حد حریص تھا اب میرے لئے تیرے پاس کیا ہے تو وہ جواب دیتا ہے کہ تم مجھ سے صرف اپنا کفن لیلو۔ پھر وہ اپنی اولاد کی طرف متوجہ ہوتا ہے کہ اور کہتا ہے خدا کی قسم میں تم لوگوں سے بیحد محبت کرتا تھا تمہارا حامی و مدد گار تھا اب میرے لئے تمہارے پاس کیا ہے ؟ وہ سب جواب دینگے ہم صرف آپ کو قبر تک پہنچا دینگے اور اس میں دفن کر دینگے ۔ پھر وہ اپنے عمل کی طرف رخ کرتا ہے اور کہتا ہے خدا کی قسم تو ہم پر بہت گراں تھا میں تجھ سے پر ہیز کرتا تھا اب میرے لئے تیرے پاس کیا ہے ؟ تو وہ کہتا ہے میں تمہارے ساتھ تمہاری قبر میں بھی رہوں گا اور روز حشر بھی ہونگا یہاں تک کہ ہم اور تم دونوں تمہارے رب کی بارگاہ میں پیش کئے جائیں گے ۔
٣٧١- رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص روز جمعہ یا شب جمعہ میں مرے گا اللہ تعالٰی اس سے عذاب قبراٹھا لے گا۔
٣٧٢- حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ جو شخص پنجشبہ کے زوال آفتاب سے لیکر روز جمعہ کے زوال آفتاب کے درمیان مرے گا وہ فشار قبر سے محفوظ رہے گا۔
٣٧٣- حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے ارشاد فرمایا شب جمعہ شب روشن ہے اور روز جمعہ روز روشن ہے اور روئے زمین پر کوئی دن جس میں آفتاب غروب ہوتا ہے ایسا نہیں آتا جس میں روز جمعہ سے زیادہ بندے جہنم سے آزاد ہوتے ہوں اور جو شخص جمعہ کے دن مرتا ہے اس کیلئے اللہ تعالی لکھ دیتا ہے کہ یہ عذاب قبر سے بری ہے اور جو شخص جمعہ کے دن مرتا ہے جہنم سے آزاد ہوتا ہے ۔
٣٧٤- حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہر مرنے والے کا جب وقت وفات قریب ہوتا ہے تو اللہ تعالٰی اسکی بصارت اسکی سماعت اور اسکی سمجھ کو واپس دیدیتا ہے تاکہ وہ وصیت کرسکے یا ترکہ کیلئے کچھ کہہ سکے اور یہی وہ راحت ہے جس کو موت راحت اور سنبھالا کہتے ہیں ۔ اور جب انسان حالت نزع میں اپنے ہاتھ یا پاؤں یا سر بلائے تو اس سے اس کو نہ رو کو جیسا کہ جاہل لوگ روکتے ہیں اور جب اسکی جان نکلنے میں سختی ہو تو اسکو اسکے اس مصلے پر لے جاؤ جہاں وہ نماز پڑھتا تھا اور اس حالت میں اس کو مس نہ کرو اور جب وہ مرجائے تو واجب ہے کہ یہ کہا جائے ”انا الله و انا اليه راجعون“
٣٧٥- حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے دریافت کیا گیا کہ میت کو غسل دینے کا سبب کیا ہے ؟ تو آپ نے فرمایا وہ نطفہ نکلتا ہے جس سے وہ پیدا ہوا ہے اور وہ یا آنکھ سے نکلتا ہے یا منہ سے اور دنیا سے کوئی شخص اس وقت تک نہیں نکلتا جب تک وہ اپنی جگہ جنت یا جہنم میں نہ دیکھ لے ۔
٣٧٦- حضرت امام جعفر صادق علیہ اسلام نے فرمایا جو شخص حالت احرام میں مرے گا اللہ تعالٰی اس کو اس حالت میں اٹھا لے گا کہ وہ لبیک کہتا ہوگا ۔
٣٧٧- نیز آنجناب علیہ السلام نے فرمایا کہ جو شخص حرمین (مکہ و مدینہ) میں سے کسی ایک میں مرا وہ قیامت کے دن کی ہولناکی سے محفوظ رہے گا ۔
٣٧٨- نیز آپ نے فرمایا کہ اگر کوئی عورت نفاس کی حالت میں مرجائے تو قیامت کے دن اسکا اعمال نامہ تک نہیں کھولا جائے گا۔
٣٧٩- نیز فرمایا کہ مسافر کی موت شہادت ہے ۔
٣٨٠- نیز آپ نے اس قول خدا کے متعلق وماتدرى نفس ماذا تكسب غدا وماتدری بائی ارض تموت اور کوئی شخص اتنا بھی نہیں جانتا کہ وہ خود کل کیا کرے گا۔ اور کوئی شخص یہ بھی نہیں جانتا کہ وہ کس سرزمین پر مرے (گڑے) گا)
(سوره لقمان آیت نمبر ۳۴) دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ وہ نہیں جانتا کہ پہلے قدم پر مرے گا یا دوسرے قدم پر ۔
٣٨١- نیز آپ نے فرمایا کہ جب کوئی مومن مرتا ہے تو وہ زمین کا حصہ روتا ہے جس پر وہ اللہ کی عبادت کیا کرتا تھا اور وہ دروازہ روتا ہے جس سے اسکا عمل آسمان کی طرف بلند ہو کر جاتا تھا اور وہ جگہ روتی ہے جہاں وہ سجدہ کرتا تھا ۔
٣٨٢- حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص نے آئیندہ آنے والے کل کو اپنی عمر میں شمار کیا اس نے گویا موت سے ملاقات کو برا سمجھا۔
٣٨٣- اور حضرت خدیجہ عالم نزع میں تھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انکے پاس گئے اور فرمایا اے خدیجہ جو تمہاری حالت میں دیکھ رہا ہوں اس سے مجھے بڑا دکھ ہے مگر جب تم اپنی سہیلیوں کے پاس پہنچو تو میری طرف سے ان کو سلام کہنا ۔ حضرت خدیجہ نے عرض کیا یا رسول اللہ وہ (سہیلیاں) کون ہیں ؟ آپ نے فرمایا فرمایا مریم بنت عمران و کلثوم خواہر موسی و آسیه زوجہ فرعون ۔ حضرت خدیجہ نے عرض کیا بڑی خوشی کے ساتھ یا رسول اللہ ۔
٣٨٤- حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا کہ چھ اشخاص کیلئے جنت کا میں ضامن ہوں ۔ جو شخص صدقہ دینے کیلئے نکلے اور مرجائے تو اس کیلئے جنت ہے ، جو شخص کسی مریض کی عیادت کیلئے نکلے اور مرجائے تو اس کیلئے جنت ہے ، جو شخص راہ خدا میں جہاد کرنے کیلئے نکلے اور مرجائے تو اس کیلئے جنت ہے ، جو شخص حج کیلئے نکلے اور مرجائے اس کیلئے جنت ہے ، جو شخص نماز جمعہ کیلا نکلے اور مرجائے تو اس کیلئے جنت ہے ، جو شخص کسی مرد مسلم کے جنازے میں شریک ہونے کیلئے نکلے اور مرجائے تو اس کیلئے جنت ہے ۔
٣٨٥- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میت کا اکرام و احترام یہ ہے کہ اسکے کفن و دفن میں جلدی کی
جائے ۔
٣٨٦- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں تم میں سے ایک کو بھی ایسا نہ پاؤں کہ اگر اسکا کوئی رات کو مرجائے تو وہ اس ( کے دفن و کفن) کیلئے صبح کا انتظار کرے اور نہ کسی ایک کو تم میں سے پاؤں کہ اگر اسکا کوئی دن کو مرجائے تو وہ اس (کے دفن و کفن) کیلئے رات کا انتظار کرے تم لوگ اپنے مردوں کیلئے آفتاب کے طلوع اور غروب ہونے کا انتظار نہ کرو بلکہ جلد سے جلد انکی خوابگاہ تک پہنچا دو اللہ تم لوگوں پر رحم کرے لوگوں نے کہا اور آپ پر بھی یارسول اللہ ،اللہ تعالیٰ اپنی رحمت نازل کرے ۔
٣٨٧- حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ حضرت موسیٰ بن عمران علیہ السلام نے اپنے رب سے جو مناجاتیں کیں ان میں یہ بھی کہا کہ پروردگار کسی مریض کی عیادت کا اجر و ثواب کسی حد تک ہے ؟ تو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا میں ایک فرشتے کو اس کیلئے مقرر کر دونگا جو محشر تک اسکی عیادت کرتا رہے گا ۔ حضرت موسیٰ نے عرض کیا پروردگار اور جو شخص میت کو غسل دے اس کیلئے کیا ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں اس کو غسل دیگر اسکے گناہوں سے اسطرح پاک کردونگا کہ جس طرح وہ اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہونے کے دن پاک تھا۔
٣٨٨- حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے ارشاد فرمایا جو مومن کسی مرد مومن کو غسل دے اس سلسلہ میں امانت کو ادا کرے تو اللہ تعالیٰ اسکی مغفرت کر دیگا تو آپ سے عرض کیا گیا کہ اس سلسلہ میں امانت کو کیسے ادا کرے ؟ آپ نے فرمایا جو کچھ اس نے تنہائی میں دیکھا ہے وہ کسی سے نہ کہے جب تک کہ میت کو دفن نہ کر لیا جائے ۔
٣٨٩- حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا جو مومن کسی مومن کو غسل دے اور اسے کروٹ دے تو یہ کہے " اللهم هذا بَدَنُ عبدِكَ الْمُؤمِن وَقد أَخَرَجْتَ رُوحَهُ مِنْهُ وَفَرَتْتَ بَيْنَهُمَا فَعَفَوَكَ عَفْوَكَ عَفْوَكَ (اے اللہ یہ تیرے بندہ مومن کا بدن ہے جس میں سے روح نکل چکی ہے اور ان دونوں میں جدائی ہو گئی ہے پس تو معاف کر معاف کر معاف کر) تو اللہ گناہان کبیرہ کو چھوڑ اس کے ایک سال کے گناہ معاف کر دیگا۔
٣٩٠- حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ جو مومن کسی مومن کی میت کو غسل دے اور غسل دیتے وقت ی ہے ۔ ” رَبِّ عَفُوكَ عَفُوی “ تو اللہ تعالی اسکے گناہ عفو کر دیگا
۔
٣٩١- حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ میت کو وہ شخص غسل دے جو لوگوں میں سے میت پر سب سے زیادہ حق رکھتا ہو یا وہ جس کو یہ حقدار اجازت دے ۔
٣٩٢- جو شخص کسی میت کو غسل دے اور اسکی پردہ پوشی کرے اسکی حالت کو چھپائے تو وہ گناہوں سے اسطرح پاک ہو جائے گا جیسے اس دن پاک تھا جس دن اسکی ماں نے اسکو پیدا کیا تھا۔
٣٩٣- اور محمد بن حسن صفار نے حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی خدمت میں ایک عریضہ لکھا اور دریافت کیا کہ میت کو غسل دینے کیلئے کتنی مقدار میں پانی ہونا چاہیئے ؟ جیسا کہ لوگوں نے روایت کی ہے کہ جنب والا شخص چھ رطل پانی سے غسل کرے گا اور حائض نو (۹) رطل پانی سے غسل کرے گی تو کیا میت کیلئے بھی پانی کی کوئی حد مقرر ہے جس سے اسکو غسل دیا جائے ، تو آپ کی طرف سے تحریر آئی کہ غسل میت کیلئے پانی کی حد یہ ہے کہ اتنے پانی سے غسل دیا جائے جتنے سے وہ پاک ہو جائے انشاء اللہ تعالٰی ۔
اور حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی یہ تحریر بھی آپ کے ہاتھ کی لکھی ہوئی آپ کی اور تحریروں کے ساتھ میرے پاس ایک صحیفہ میں موجود ہے ۔
٣٩٤- حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ غسل میت کیلئے پانی گرم نہیں کیا جائے گا۔
٣٩٥- اور ایک دوسری حدیث میں ہے لیکن یہ کہ جب بہت زیادہ سردی ہو تو جس سے آدمی خود بچتا ہے میت کو بھی
بچائے۔
٣٩٦- حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ میت کو کبھی تنہا نہ چھوڑو شیطان اسکے اندر گھس کر طرح طرح کی حرکتیں کرتا ہے ۔
٣٩٧- علی بن جعفر نے اپنے بھائی حضرت امام موسی بن جعفر علیہ السلام سے دریافت کیا کہ کیا میت کو کھلی فضا میں غسل دینا چاہیئے ؟ آپ نے فرمایا اس میں کوئی حرج نہیں لیکن اگر پردہ کر لیا جائے تو یہ میرے نزدیک بہتر ہے ۔
٣٩٨- عبداللہ بن سنان نے اک مرتبہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے دریافت کیا کہ کیا مرد کیلئے یہ جائز ہے کہ اپنی عورت پر نگاہ کرے جب کہ وہ مر رہی ہو یا اسکو غسل دے جبکہ اسکو غسل دینے والی نہ ہو ؟ اور اسی طرح عورت کیا اپنے شوہر پر اسکی جانکنی کے وقت نگاہ کر سکتی ہے ؟ آپ نے فرمایا اس میں کوئی حرج نہیں یہ تو عورت کے گھر والے ایسا نہیں کرنے دیتے اس امر کو نا پسند کرتے ہوئے کہ شوہر اپنی عورت کی کسی ایسی شے کو دیکھے جو ان لوگوں کو برا محسوس ہو ۔
٣٩٩- حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے دریافت کیا گیا کہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کو کس نے غسل دیا ؟ تو آپ نے فرمایا کہ ان معظمہ کو حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے خود غسل دیا اسلئے کہ وہ صدیقہ تھیں اور انہیں غسل دینا صدیق کے سوا کسی کو جائز نہ تھا۔