Skip to main content

باب سجدہ کس چیز پر کرنا چاہیے اور کس پر نہیں کرنا چاہیے۔

حدیث ٨٢٨ - ٨٤٢

٨٢٨ - حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ زمین پر سجدہ فرض اور دوسری چیز پر سنت ہے۔

٨٢٩ - نیز آپ نے ارشاد فرمایا کہ امام حسین کی قبر کی مٹی پر سجدہ کرنے سے زمین کے ساتوں طبق روشن اور نورانی بن جاتے ہیں۔
اور جس شخص کے پاس قبر حسین علیہ السلام کی مٹی کی تسبیح ہو تو اگر وہ تسبیح نہ بھی پڑھ رہا ہو مگر اس کا نام تسبیح پڑھنے والوں میں لکھ دیا جائے گا۔ اور انگلیوں پر تسبیح پڑھنے سے افضل کسی دوسری چیز پر تسبیح پڑھنا ہے اس لئے کہ قیامت
کے دن ان چیزوں سے سوال کیا جائے گا ( تمہارے اعمال کا)

٨٣٠ - حماد بن عثمان نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے آپ نے فرمایا کہ ہر وہ چیز جو زمین سے اگے اور روئیدہ ہو اس پر سجدہ جائز ہے سوائے ان چیزوں کے جو کھائی یا پہنی جاتی ہیں۔

٨٣١ - یا سر خادم سے روایت ہے کہ اس نے کہا کہ ایک مرتبہ میں طبری چٹائی پر سجدہ کے لئے کچھ رکھ کر نماز پڑھ رہا تھا کہ حضرت ابوالحسن علیہ السلام کا میری طرف سے گزر ہوا آپ نے فرمایا کیا بات ہے تم اس طبری چٹائی پر سجدہ کیوں نہیں کرتے کیا یہ زمین کے نباتات میں سے نہیں ہے ؟
میرے والد رحمہ اللہ نے جو مجھے رسالہ بھیجا تھا اس میں تحریر فرمایا ہے کہ زمین پر سجدہ کرو یا اس چیز پر جو زمین سے اگی ہے اور مدینہ کی چٹائیوں پر سجدہ نہ کرو کیونکہ وہ چمڑے کی بنی ہوتی ہیں۔ اور نہ سجدہ کرو بال پر نہ اون پر نہ چمڑے پرند ریشم پر نہ شیشے پر نہ لوہے پر نہ سونے پر نہ پیتل پر نہ سسیہ پر نہ تانبے پر نہ پرندوں کے پروں پر اور نہ راکھ پر اور اگر زمین بہت گرم ہے اور ڈر ہے کہ پیشانی جل جائے گی یا بہت اندھیری رات ہے اور تمہیں بچھو اور کانٹے کا ڈر ہے کہ وہ تمہیں اذیت پہونچائے گا تو کوئی ہرج نہیں کہ تمہاری آستین اگر وہ روئی یا کتان کی ہے تو اس پر سجدہ کر لو ۔ اور اگر تمہاری پیشانی پر دمبل یا بڑا مسا ہے تو ایک گڑھا سا بنا لو اور جب سجدہ کرو تو دمبل اس میں رکھو اور اگر تمہاری پیشانی پر کوئی ایسا مرض ہے کہ جسکی وجہ سے تم سجدہ نہیں کر سکتے تو اپنی پیشانی کے داہنے جانب سے سجدہ کرو اگر اس طرف سے سجدہ نہیں کر سکتے تو پیشانی کی بائیں طرف سجدہ کرو۔ اور اگر اس پر بھی سجدہ نہیں کر سکتے تو اپنے پشت دست پر سجدہ کر لو اور اگر اس پر بھی سجدہ نہیں کر سکتے تو پھر اپنی ٹھڈی سے سجدہ کر لو ۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ (سورۃ الاسرا آیت نمبر ٣٧ - ٣٨ - ٣٩) ترجمہ : - جن لوگوں کو اس کے قبل ہی آسمانی کتابوں کا علم بخشا گیا ہے ان کے سامنے جب یہ پڑھا جاتا ہے تو ٹھڈیوں کے بل سجدہ میں گر پڑتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ ہمارا رب پاک ہے بیشک ہمارے رب کا وعدہ پورا ہو کر رہا۔ اور ٹھوڑیوں کے بل گر پڑتے ہیں اور ان کو زیادہ عاجزی پیدا ہوتی ہے۔ ( یہ آیات سجدہ ہیں اس لئے عربی متن نہیں دیا گیا) اور زمین کے علاوہ کسی چیز پر کھڑے ہونے اپنے ہاتھ اور گھٹنے اور دونوں انگوٹھے رکھنے اور ناک رگڑنے میں کوئی ہرج نہیں اور ( سجدے کے لئے) پیشانی رکھنے کے لئے تمہارے لئے یہ جائز ہے کہ ایک درہم کے برابر بالوں کی جڑ سے لیکر ابروؤں تک جہاں چاہو رکھو ۔ اور تمہارا سجدہ ایسا ہوناچاہیے جیسے کوئی دبلا پتلا اونٹ بیٹھتے وقت اپنے پیٹ کو اونچا رکھتا ہے۔ تم ایسے رہو جیسے معلق ہو تمہارے جسد کا کوئی حصہ بھی کسی چیز کے سہارے نہ ہو ۔

٨٣٢ - معلی بن خنیس نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے قفر ( پٹرول اور تارکول سے مشابہہ ایک چیز) اور قیر
( تارکول) پر نماز پڑھنے کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا ( مجبوری ہے تو ) کوئی ہرج نہیں۔
٨٣٣ - حسن بن محبوب نے ایک مرتبہ حضرت امام ابو الحسن علیہ السلام سے چونے کے متعلق سوال کیا کہ وہ گوہ غلیظ اور مردار کی ہڈیوں سے پھونکا جاتا ہے پھر اسی چونے سے مسجد میں پختہ کرش کیا جاتا ہے کیا اس پر سجدہ کیا جائے ؟ تو آپ نے اپنے خط میں جواب تحریر کیا کہ آگ اور پانی نے اسے پاک کر دیا ہے۔

٨٣٤ - داؤد بن ابی زید نے حضرت ابوالحسن ثالث امام علی النقی علیہ السلام سے ان قرطاسوں اور کاغذوں کے متعلق دریافت کیا جن پر کچھ لکھا ہوا ہے کیا اسپر سجدہ جائز ہے ؟ آپ نے فرما یا جائز ہے۔

٨٣٥ - علی بن یقطین نے حضرت ابوالحسن اول حضرت امام موسیٰ بن جعفر علیہ السلام سے ایک ایسے شخص کے متعلق دریافت کیا جو اونی کمبل اور قالین پر سجدہ کرتا ہے؟ آپ نے فرمایا اگر وہ حالت تقیہ میں ہے تو کوئی ہرج نہیں۔ اور حالت تقیہ میں کپڑے پر سجدہ کرنے میں کوئی ہرج نہیں۔

٨٣٦ - معاویہ بن عمار نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے تارکول پر نماز پڑھنے کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا اس میں کوئی ہرج نہیں ہے۔

٨٣٧ - زرارہ نے ان دونوں ائمہ میں سے کسی ایک سے روایت کی ہے اسکا بیان ہے کہ میں نے آنجناب سے عرض کیا کہ ایک شخص نماز پڑھ رہا ہے اور اسکے سرپر ٹوپی یا عمامہ ہے۔ تو آپ نے فرمایا کہ اگر اسکی پیشانی سر کے بال کی جڑ سے ابروؤں
تک زمین سے ذرا بھی مس ہو جائے تو وہ کافی ہے۔

٨٣٨ - یونس بن یعقوب کا بیان ہے کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کو دیکھا کہ وہ دونوں سجدوں کے در میان اپنے سجدہ کی جگہ پر کنکریاں برابر کر رہے ہیں۔

 ٨٣٩ - علی بن بجیل سے روایت کی گئی ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ حضرت امام جعفر بن محمد علیہما السلام کو دیکھا کہ جب وہ سجدہ سے سر اٹھاتے تو اپنی پیشانی سے کنکریاں چھڑا کر زمین پر ڈال دیتے تھے۔

٨٤٠ - عمار سا باطی نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ سر کے بالوں کی جڑوں سے ناک کے آخری سرے تک سجدہ کی جگہ ہے اس میں سے جو بھی زمین سے مس ہو جائے وہ تمہارے لئے کافی ہے اور زرارہ نے بھی آپ سے اسی کے مثل روایت کی ہے۔

٨٤١ - ایک شخص نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے دریافت کیا کہ ایک جگہ گرد وغبار ہے جب سجدہ کا ارادہ کرتا ہوں تو اسے پھونک لیتا ہوں آپ نے فرمایا کوئی ہرج نہیں ہے۔
اور میرے والد رحمہ اللہ نے مجھے اپنے رسالہ میں تحریر فرمایا کہ سجدہ کی جگہ کو نہ پھونکو اور اگر پھونکنا ہی ہے تو نمازشروع کرنے سے پہلے پھونک لو ۔

٨٤٢ - حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا کہ (جائے سجدہ کا پھونکنا) اس لئے مکروہ ہے
کہ ڈر ہے کہ جو اس کے پہلو میں نماز پڑھ رہا ہے اسکو اذیت ہو۔
اور حالت نماز میں کسی شخص کا اپنی پیشانی کی لگی ہوئی مٹی کا چھڑانا مکروہ ہے اور نماز کے بعد اسکو ویسے ہی چھوڑے رکھنا بھی مکروہ ہے ۔ اور حالت نماز میں اپنی پیشانی سے مٹی چھڑانا کوئی گناہ نہیں اس لئے کہ اسکی رخصت احادیث میں وارد ہوئی ہے۔