حدیث ٧٤-٨٣
٧٤- حضرت ابو جعفر امام محمد باقر علیہ السلام نے ایک مرتبہ فرمایا کہ کیا میں تم لوگوں کو دکھاؤں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وضو کس طرح فرمایا کرتے تھے ؟ عرض کیا گیا کہ جی ہاں تو آپ نے ایک بڑا پیالہ منگوایا جس میں تھوڑا پانی تھا اسکو اپنے سامنے رکھا پھر آپ نے آستینیں چڑھائیں اور داہنا چلو پانی میں ڈالا پھر فرمایا یہ اس وقت کرنا ہو گا جب ہاتھ پاک ہوں ۔ پھر ایک چلو پانی اٹھایا اور اپنی پیشانی پر ڈالا اور بسم اللہ کہا پھر اس پانی کو اپنی ریش مبارک کے اطراف بہایا اور اپنے ہاتھ کو ایک مرتبہ اپنے چہرے اور اپنی پیشانی کے کھلے ہوئے حصے پر پھیرا پھر پیالہ کے پانی میں اپنا بایاں ہاتھ ڈالا اور چلو بھر کر اٹھایا اور اسکو اپنی واپنی کہنی پر ڈالا اور اپنا ہاتھ کلائی پر پھیرا یہاں تک کہ پانی انگلیوں کے تمام اطراف تک جاری ہو گیا اسکے بعد داہنا ہاتھ پانی میں ڈالا اور پھر چلو نکال کر اپنے بائیں ہاتھ کی کہنی پر ڈالا اور اپنے ہاتھ کو کلائی پر پھیرا یہاں تک کہ پانی ساری انگلیوں کے اطراف تک جاری ہو گیا اسکے بعد اپنے گیلے ہاتھ سے سر کے سامنے والے حصے پر مسح کیا اور اس کی تری سے جو باقی تھی دونوں پاؤں کی پشت پر مسح کر لیا ۔
٧٥- روایت کی گئی ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وضو فرمایا تو اپنے نعلین مبارک پر صبح فرمایا یہ دیکھ کر مغیرہ نے کہا یا رسول اللہ کیا آپ بھول گئے؟ تو آپ نے فرمایا نہیں بلکہ تو بھول گیا (کہ میں اللہ کا رسول ہوں ) میرے رب نے مجھے اسی طرح حکم دیا ہے ۔
٧٦- حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ خدا کی قسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وضو صرف ایک ایک مرتبہ تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک ایک ہی مرتبہ منہ ہاتھ دھویا کرتے تھے ۔ پھر فرمایا یہی وہ وضو ہے کہ بغیر اسکے اللہ تعالٰی نماز کو قبول نہیں فرماتا ۔ لیکن وہ احادیٹ کہ جن میں روایت کی گئی ہے کہ وضو دو دو مرتبہ (ہاتھ منہ دھونا ) ہے۔
٧٧- تو ان میں سے ایک تو وہ روایت ہے کہ جس کے اسناد منقطع ہیں اور اسکی روایت کی ہے ابو جعفر احول نے اور ان سے بیان کیا ہے اس شخص نے جس نے روایت کی ہے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے کہ آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالٰی نے وضو میں ایک ایک مرتبہ (دھونا) فرض کیا مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے لوگوں کیلئے دو مرتبہ رکھدیا تو آپ نے اس سے انکار کیلئے کہا ہے خبر دینے کیلئے نہیں کہا ہے گویا آپ یہ فرما رہے ہیں کہ (کیا ایسا بھی ممکن ہے کہ اللہ تعالٰی ایک چیز کی حد مقرر کرے اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سے تجاویز کریں اور اس حد سے آگے بڑھیں جبکہ اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے کہ وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ ٱللَّهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُۥ ۚ “ (جو شخص اللہ کے مقرر کردہ حدود سے آگے بڑھے گا وہ اپنے آپ پر ظلم کرے گا ۔) (سورۃ طلاق٦٠ آیت نمبرا)
٧٨- اور روایت کی گئی ہے کہ وضو بھی اللہ کے مقرر کردہ حدود میں سے ایک حد ہے تا کہ اللہ کو معلوم ہو جائے کہ کون اسکی اطاعت کرتا ہے اور کون اسکی نافرمانی کرتا ہے ۔ اور مومن کو کوئی شے نجس نہیں کرتی اس کیلئے تو (وضو میں پانی) مثل تیل کی مقدار میں کافی ہے ۔
٧٩- حضرت امام جعفر صال علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص نے اپنے وضو میں حد سے تجاوز کیا وہ گویا اپنے وضو کا توڑنے والا بن گیا۔
٨٠- اور اس کے متعلق ایک دوسری حدیث بھی منقطع اسناد کے ساتھ عمرو بن ابی مقدام کی ہے اس کا بیان ہے کہ مجھ سے ایک ایسے شخص نے بتایا جس نے خود حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کو فرماتے سنا وہ فرماتے تھے کہ مجھے تعجب ہے اس شخص سے جو دو دو کر کے وضو کرنا چاہتا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی دو دو وضو کئے مگر رسول اللہ تو ہر فریضہ اور ہر نماز کیلئے جدید وضو کیا کرتے تھے ۔ تو اب اس حدیث کا یہ مطلب ہوا کہ مجھے اس شخص سے تعجب ہے کہ جو تجدید وضو سے منہ موڑتا ہے . جبکہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تجدید وضو فرمایا کرتے تھے ۔ اور وہ حدیث جس میں یہ روایت کی گئی ہے کہ جو شخص دو مرتبہ کے بعد اور زیادہ دھوئے تو اس کو کوئی اجر نہ ملے گا یہ ہمارے کہنے کی تائید کرتی ہے اور اس کے معنی یہ ہیں کہ تجدید وضو کے بعد پھر تجدید وضو کا کوئی اجر و ثواب نہیں ہے جیسے اذان کہ جو شخص ظہر و عصر ایک اذان اور دو اقامت کے ساتھ پڑھے تو اسکے لئے جائز ہے اور جو شخص عصر کیلئے پھر سے اذان کہہ لے تو اسکے لئے افضل ہے اور اسکے بعد تیسری اذان تو یہ بدعت ہے اسکا کوئی اجر نہ ملے گا ۔ اور اسی طرح یہ روایت کی گئی ہے دو مرتبہ افضل ہے تو اس کا مطلب تجدید وضو ہے ۔ اور اسی طرح جو دو مرتبہ کیلئے روایت کی گئی تو اسکا مطلب خوب اچھی طرح اور پورے طور کے ہیں ۔
٨١-اور روایت کی گئی ہے کہ نماز عشاء کیلئے تجدید وضو محو کر دیتا ہے نہیں خدا کی قسم اور ہاں خدا کی قسم کو ۔
٨٢- اور ایک دوسری حدیث روایت کی گئی ہے کہ وضو کے اوپر وضو نور کے اوپر نور ہے ۔ اور جو شخص بغیر کسی حدث کے صادر ہونے کے تجدید وضو کرے تو اللہ تعالیٰ بغیر استغفار کے اسکے توبہ کی تجدید کر دیتا ہے ۔ اور اللہ تعالٰی نے اپنے نبی کو اپنے دینی امور سپرد کر دیتے ہیں مگر انہیں یہ اختیار نہیں دیا ہے کہ وہ اس کے حدود سے تجاویز کریں ۔
٨٣- اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا قول ہے کہ جو دو مرتبہ وضو کرے گا اسکو کوئی اجر نہ ملے گا آپ کے فرمانے کا مطلب یہ ہے کہ اس کو جس امر کا حکم دیا گیا تھا اور جس پر اجر و ثواب کا وعدہ کیا گیا تھا اس نے یہ کام اسکے علاوہ کیا اسلئے وہ اجر کا مستحق نہیں ہے ۔ اور اس طرح ہر وہ مزدور کہ جس کام کیلئے اسکو مزدوری پر رکھا گیا اسکے علاوہ کوئی دوسرا کام کرے تو اس کیلئے کوئی مزدوری نہیں ہے ۔