Skip to main content

باب تعزیت اور مصیبت کے وقت جزع و زیارت قبور اور نوحہ و ماتم

حدیث ٥٠٢-٥٥٨  

٥٠٢- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص کسی محزون کو تعزیت ادا کرے گا تو موقف حساب میں اسکو ایک حلہ پہنایا جائیگا جس سے وہ مسرور ہو جائیگا۔

٥٠٣- ہشام بن حکیم سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت موسیٰ بن جعفر صادق علیہ السلام کو دیکھا کہ وہ قبل از دفن بھی تعزیت ادا کر رہے ہیں اور بعد دفن بھی ۔

٥٠٤- حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ بعد دفن تعزیت واجب ہے ۔

٥٠٥- نیز آنجناب نے فرمایا کہ تعزیت کیلئے یہی کافی ہے کہ صاحب مصیبت تم کو دیکھ لے ۔

٥٠٦-  اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ایک قوم کے پاس تشریف لائے جو (اپنے کسی مرنے والے کی) مصیبت میں مبتلا تھے تو آپ نے ان سے فرمایا اللہ تعالٰی تمہارے اس خلا کو پورا کرے تمہیں بہترین صبر عطا کرے اور تمہارے مرنے والے پر رحم فرمائے ۔ پھر آپ واپس چلے گئے ۔


٥٠٧- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تعزیت جنت کا وارث بنا دیتی ہے ۔ 

٥٠٨- حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے ایک شخص کو اسکے لڑکے کی تعزیت ادا کی اور فرمایا تمہارے لڑکے کیلئے تم سے بہتر اللہ کی ذات ہے اور تمہارے لئے تمہارے لڑکے سے بہتر اللہ تعالٰی کا عطا کردہ ثواب ہے ۔ پھر آپ کو خبر ملی کہ اسکے بعد بھی وہ گریہ وزاری کر رہا ہے تو آپ پھر اسکے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی تو انتقال فرمایا کیا تیرے لئے انکی مثال کافی نہیں ہے ۔ اس نے کہا یہ نوجوان تھا۔ آپ نے فرمایا ( پرواہ نہ کر) اس کے آگے تین چیزیں ہیں لا اله الا اللہ کی شہادت پھر اللہ کی رحمت پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت اور ان تینوں میں سے ایک بھی اسکو انشاء اللہ تعالٰی فوت نہ ہونے دیگی- ۔ 
٥٠٩- اور ابو بصیر نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا ہے صاحب مصیبت کیلئے مناسب ہے کہ روا اپنے دوش پر نہ ڈالے اور صرف قمیض پہنے رہے تا کہ پہچانا جاسکے اور اسکے پڑوسیوں کو چاہیے کہ اسکی طرف سے یہ لوگ تین دن کھانا کھلائیں ۔ 

٥١٠- نیز آپ نے فرمایا کہ ملعون ہے ملعون ہے وہ شخص جو دوسرے کی مصیبت میں اپنے دوش سے روا اتار دے ۔ 

٥١١- اور جب حضرت امام علی النقی علیہ السلام نے وفات فرمائی تو دیکھا گیا کہ امام حسن عسکری علیہ السلام اپنے گھر میں سے برآمد ہوئے انکی قمیضیں آگے سے بھی چاک تھی اور پیچھے سے بھی ۔

٥١٢- اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سعد بن معاذ رحمہ اللہ کے جنازے میں اپنی ردا دوش سے اتار دی تھی تو آپ سے اسکے متعلق دریافت کیا گیا آپ نے فرمایا کہ میں نے دیکھا کہ ملائیکہ نے بھی اپنی ردائیں اتار دی ہیں تو میں نے بھی اپنی ردا اتار دی ۔

٥١٣- حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ اگر بلا و مصیبت سے قبل صبر نہ پیدا کر دیا جاتا تو مومن اسطرح پاش پاش ہو تا جس طرح انڈا پتھر پہ گر کر پاش پاش ہوتا ہے ۔ 

٥١٤- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا چار چیزیں جس کے اندر ہونگی وہ نور خدا کے احاطہ میں ہوگا اور ان میں بھی سب سے عظیم وہ ہے کہ جس کے پاس سب سے ٹھوس اور مستحکم شے اس امر کی شہادت ہو کہ اللہ کے سوا کوئی اللہ نہیں اور یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں ۔ دوسرے یہ کہ جب کسی مصیبت میں مبتلا  ہو تو کہے انا لله وانا اليه راجعون - تیسرے یہ کہ جب اسے کوئی بھلی (اچھی چیز لے تو کہے الحمد للہ رب العالمین اور چو تھے یہ کہ جب اس سے کوئی خطا سر زد ہو تو کہے استغفر الله و اتوب اليه - 

٥١٥ - اور امام محمد باقر علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ ہر وہ مومن کہ جب اس پر دنیا میں کوئی مصیبت پڑے اور وہ انا لله و انا الیه راجعون کہے اور وقت مصیت صبر کرے تو اللہ تعالی اسکے پچھلے گناہ سوائے ان گناہان کبیرہ کے سب معاف کر دیگا کہ جن پر اللہ تعالٰی نے جہنم کو لازم قرار دیدیا ہے ۔
اور جب بھی وہ اپنی اس مصیبت کو اپنی آئیندہ زندگی میں یاد کرے اور اس وقت انا لله و انا اليه راجعون (کلمه استر جاع) کہے اور اللہ کی حمد کرے تو اللہ تعالٰی ہر وہ گناہ جو پہلے استرجاع سے لیکر اس استرجاع تک اس سے سرزد ہوئے ہیں سوائے گناہان کبیرہ کے معاف کر دیگا ۔
 
٥١٦ - ابو بصیر نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ جب اہل میت اپنے جنازے کو دفن کر کے واپس ہوتے ہیں تو ایک فرشتہ جو قبرستانوں پر مقرر ہے ایک مٹھی خاک اٹھاتا ہے اور اسے اسکے آثار پر پھینک دیتا ہے اور کہتا ہے کہ جو کچھ تم لوگوں نے دیکھا ہے اب اسے بھول جاؤ اور اگر ایسا نہ ہو تو کوئی شخص اپنی زندگی سے لطف نہیں حاصل کر سکتا ۔

٥١٧ - حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ جس پر کوئی مصیبت نازل ہو وہ جزع و فزع کرے یا نہ کرے وہ صبر کرے یا نہ کرے اللہ تعالٰی کی طرف سے اسکی جزا جنت ہے۔

٥١٨ - نیز آپ نے فرمایا کہ اگر کسی مومن کا کوئی بچہ مرجائے تو وہ خواہ وہ صبر کرے یا نہ کرے اس مومن کا ثواب جنت ہے۔

٥١٩ - اور آپ نے فرمایا کہ جس شخص کا ایک لڑکا مرجائے وہ اسکے ان سترلڑکوں سے اسکے لئے بہتر ہے جنہیں وہ چھوڑ کردنیا سے جائے گا اور جو سب کے سب ایسے ہوں کہ سواری پر سوار ہو کر راہ خدا میں جہاد کریں ۔

٥٢٠ - رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ وہ شخص جنت میں نہیں جائے گا جس کی اولاد میں سے کوئی نہ مرا ہو اور اس کیلئے فرط (لائق اجر و ثواب) نہ بنے تو ایک شخص نے آپ سے عرض کیا یا رسول اللہ اور جس کے کوئی لڑکا پیدا ہی نہ ہوا ہو اور جس کا کوئی لڑکا ہی نہ مرا ہو تو کیا ہم میں سے ہر ایک کیلئے فرط ہونا ضروری ہے ، آپ نے فرمایا ہاں ۔ مرد مومن کے فرط میں اسکا دینی بھائی شمار ہوگا۔

٥٢١ - اور جس وقت حضرت جعفر بن ابی طالب قتل ہوئے تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے فرمایا کہ دیکھو ہائے رسوائی ، ہائے ہلاکت اور ہائے غضب کچھ نہ کہنا حالانکہ اس میں سے جو کچھ تم کہو گی وہ سچ ہو گا۔

٥٢٢ - مہران بن محمد نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ جب کوئی مرنے والا مرجاتا ہے تو اسکے گھر والوں میں سے جو سب سے زیادہ بے قرار و بے چین ہے اسکے پاس اللہ تعالٰی ایک فرشتے کو بھیجتا ہے اوروہ آکر اسکے دل پر ہاتھ پھیر دیتا ہے اور پھر اسکی آتش حزن و ملال فرو ہو جاتی ہے اور اگر ایسا نہ ہو دنیا تو آباد بھی نہ رہ سکے ۔

٥٢٣ - رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب کسی بندہ مومن کا کوئی بچہ فوت ہو جاتا ہے تو اگر چہ اللہ تعالی خوب جانتا ہے کہ وہ بندہ مومن کیا کہتا ہے مگر اسکے باوجود اللہ تعالی ملائیکہ سے پوچھتا ہے کہ تم لوگوں نے فلاں بندہ مومن کے بچے کی روح قبض کی تو ملائکہ کہتے ہیں ہاں اے ہمارے پروردگار ۔ تو اللہ تعالی کہتا ہے کہ پھر ہمارے اس بندے نے کیا کہا ؟ ملائیکہ کہتے ہیں کہ پروردگار اس نے تیری حمد کی اور انا لله وانا اليه راجعون کہا تو اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ اچھا اس کیلئے جنت میں ایک گھر بنادو اور اسکا نام بیت الحمد رکھدو ۔

٥٢٤ - اور جب حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے فرزند اسماعیل کا انتقال ہوا تو حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام جنازے کے آگے آگےپا برہنہ بغیر ردا  اوڑھے ہوئے چلے ۔

٥٢٥ - حضرت امام زین العابدین علی ابن الحسین علیہ السلام جب کسی جنازے کو دیکھتے تو فرماتے کہ اس اللہ کی حمد و شکر کہ جس نے مجھے ان عام مرنے والوں میں قرار نہیں دیا ۔

٥٢٦ - حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے بیان فرمایا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرزند حضرت ابراہیم کی وفات ہوئی تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے ابراہیم ہمیں تمہارے مرنے کا بڑا رنج ہے مگر میں صابرین میں سے ہوں قلب محزون ہے اور آنکھیں گریاں ہیں مگر میں زبان سے ایسی بات نہیں کہونگا جو اللہ کی نارانسگی کا سبب ہو ۔ 

٥٢٧ - نیز امام علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ جب حضرت جعفر بن ابی طالب اور زید بن حارث کی شہادت کی آنحضرت کو اطلاع ملی تو جب بھی گھر کے اندر داخل ہوتے بہت روتے اور کہتے کہ یہ دونوں مجھہ سے باتیں کرتے اور مجھہ  سے موانست (انس) رکھتے تھے مگر اب سب چلے گئے ۔

٥٢٨ - نیز امام علیہ السلام نے فرمایا کہ مصیبت اور صبر دونوں مومن کی طرف بڑھتے ہیں جب مصیبت آتی ہے تو وہ صبر کرتا ہے اور جزع و فزع و بلائیں کافر کی طرف  بڑھتے ہیں جب بلاء نازل ہوتی ہے تو وہ جزع وآہ وزاری شروع کر دیتا ہے ۔

٥٢٩ - اور کاہلی سے روایت ہے کہ اس نے کہا کہ ایک مرتبہ حضرت ابوالحسن موسیٰ بن جعفر علیہ السلام سے عرض کیا کہ میری زوجہ اور میری بہن جو محمد بن مارد کی زوجیت میں ہے صف ماتم میں جاتی ہیں اور میں ان دونوں کو منع کرتا ہوں تو وہ کہتی ہیں کہ اگر یہ حرام ہے تو اس سے آپ ہمیں منع کریں اور اگر حرام نہیں ہے تو پھر آپ ہمیں اس سے کیوں منع کرتے ہیں اس طرح لوگ ہمارے حقوق کی ادائیگی کو ترک کر دینگے ۔ تو آپ نے فرمایا تم ہم سے حقوق کے متعلق سوال کرتے ہو تو سنو ۔ میرے والد میری والدہ اور ام فروہ کو اہل مدینہ کے حقوق کی ادائیگی کو بھیجا کرتے تھے ۔

٥٣٠ - امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ قبر میں صرف ان ہی لوگوں سے سوال ہو گا جو خالص مومن ہیں یا خالص کا فر ہیں اور باقی لوگوں سے قیامت کے دن تک کوئی تعرض نہیں کیا جائے گا۔

٥٣١ - اور سماعہ بن مہران نے ان جناب علیہ السلام سے قبروں کی زیارت اور ان میں مسجد تعمیر کرنے کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا قبروں کی زیارت میں کوئی حرج نہیں مگر اسکے پاس مسجد نہیں بنانی چاہیئے ۔

٥٣٢ - نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میری قبر کو نہ قبلہ بنانا نہ مسجد بنانا اسلئے کہ جس وقت یہود نے اپنے انبیاء کی قبور کو مسجد بنایا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر لعنت کی ۔

٥٣٣ - جراح مدائنی نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے دریافت کیا کہ اہل قبور کو سلام کیونکر کیا جائے تو آپ نے فرمایا وہاں کھڑے ہو کر کہو السلام عَلَى أَهْلِ الدِّيارِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُسْلِمِينَ رَحِمَ اللهُ الْمُسْتَعْدِ مِينَ مِنَّا وَ الْمُسْتَأْخِرِينَ وَإِنَّا إِن شَاءَ اللهُ بِكُم لاحقون ( اس دیار کے رہنے والے مومنین و مسلمین پر سلام ۔ اللہ رحم کرے ان لوگوں پر جو ہم سے پہلے گزر گئے اور جو آخیر میں آئیں گے اور انشاء اللہ میں تم لوگوں کے ساتھ آکر ملحق ہونگا) ۔

٥٣٤ - اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب قبرستان سے ہو کر گزرتے تو فرماتے السّلامُ عَلَيْكُمْ مِنْ دِيَارِ قوم مُؤْمِنِينَ وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللَّهُ بِكُمْ لَاحِقُونَ -

٥٣٥ - اور امیر المومنین علیہ السلام جب قبرستان میں گئے تو یہ فرمایا کہ اے قبر کے ساکنو اے مسافرو تمہارے گھروں میں دوسرے لوگوں نے سکونت اختیار کرلی تمہاری ازواج نے دوسروں سے نکاح کر لیا تمہارا مال اور تمہاری دولت سب بٹ بٹا چکی یہ خبر تو میرے پاس ہے جو میں تمہیں بتاتا ہوں اور کاش ہمیں یہ معلوم ہوتا کہ تمہارے پاس کیا خبر ہے ۔ پھر آپ اپنے اصحاب کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا اگر ان لوگوں کو بولنے کی اجازت ہوتی تو کہتے کہ بہترین توشئہ آخرت تقوی ہے ۔

٥٣٦ - اور مقتولین بدر جو ایک قلیب (کنوئیں) میں ڈال دیئے گئے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس قلیب کے پاس کھڑے ہوئے اور آواز دی اے اہل قلیب اللہ تعالیٰ نے جو ہم لوگوں سے وعدہ کیا تھا اسے ہم لوگوں نے حق پایا یہ بتاؤ تم لوگوں سے تمہارے رب نے جو وعدہ کیا تھا تم نے اسے حق پایا " یہ سنکر منافقین نے کہا (لو یہ دیکھو) رسول اللہ مردوں سے باتیں کر رہے ہیں تو آنحضرت نے انکی طرف دیکھا اور فرمایا اگر ان لوگوں کو کلام کرنے کی اجازت ہوتی تو یقینا کہہ دیتےکہ ہاں اور بہترین توشئہ آخرت تقویٰ ہی ہے ۔

 ٥٣٧ - اور حضرت فاطمہ زہرا سلام علیہا ہر سنیچر کی صبح کو قبور شہدا پر جاتی تھیں اور حضرت حمزہ کی قبر پر خصوصیت سے جاتیں انکے لئے اللہ سے رحمت کی دعا کرتیں اور ان کیلئے طلب مغفرت کرتی تھیں۔

٥٣٨ - حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ جب تم قبرستان میں جاؤ تو کہو السّلامُ عَلَى أَهْلِ الْجَنَّةِ “ 

٥٣٩ - اور حضرت ابوالحسن موسی بن جعفر علیہ السلام نے فرمایا کہ جب تم قبرستان میں سے گزرو گے تو اس سے جو مومن ہو گا اس کو راحت محسوس ہو گی اور جو منافق ہو گا اسکو تکلیف محسوس ہو گی ۔

٥٤٠ - محمد بن مسلم سے روایت کی گئی ہے انہوں نے کہا کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے عرض کیا کہ کیا ہم لوگ مردوں کی زیارت کریں ؟ آپ نے فرمایا ہاں میں نے عرض کیا کہ جب ہم لوگ انکے پاس جاتے ہیں تو کیا انہیں علم ہو جاتا ہے ۔ فرمایا ہاں خدا کی قسم ان لوگوں کو تمہارے جانے کا علم ہو جاتا ہے اور وہ تم لوگوں سے انس محسوس کرتے ہیں ۔ دادی کا بیان ہے کہ میں نے عرض کیا جب ہم لوگ وہاں جائیں تو کیا کہیں آپ نے فرمایا یہ کہو الالم جَاتِ الأَرْضَ عن جنوبِهِم وَ صاعِدَ إِلَيْكَ أرواحَهُمْ وَلَقِهِم مِنكَ رَضُوانَا وَ أَسْكُنُ إِلَيْهِمُ مِنْ رَحْمَتِكَ مَا تُصَلَّ بِهِ وَحدَتِهِمْ وَتَونِسُ بِهِ وَحَسَتِهِمْ إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَى قَدِيرٌ (اے اللہ تو ان لوگوں کے پہلووں سے زمین کشادہ کردے اور ان کی روحوں کی اپنی طرف بلند کر لے اور ان لوگوں سے اپنی رضا کو متصل کر دے اور انکے پاس اپنی رحمت کو ساکن کر جو انکی تنہائیوں میں انکی دل جوئی کرے اور انکی وحشتوں میں انکی مونس بن جائے بیشک تو ہر شے پر قادر ہے)۔

٥٤١ - حضرت امام رضا علیہ السلام نے فرمایا جو مرد مومن کسی مرد مومن کی قبر کی زیارت کو جائے اور وہاں سورہ " انا انزلناه في ليلة القدر" سات مرتبہ پڑھے تو اللہ تعالی اسکو بخش دیگا اور صاحب قبر کو بھی بخش دیگا ۔

٥٤٢ - در اسحاق بن عمار نے حضرت ابوالحسن امام موسی بن جعفر علیہ السلام سے دریافت کیا کہ کیا مومن (مرحوم) اپنے اہل وعیال کو دیکھنے آتا ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں ۔ اس نے عرض کیا کتنے دن میں ؟ آپ نے فرمایا یہ اسکے فضائل پر منحصر ہے کوئی ان میں سے روزانہ دیکھنے آتا ہے کوئی ہر دو دن میں کوئی ہرتیسرے دن میں راوی کا بیان ہے کہ میں نے آپ کے سلسلہ کلام سے یہ سمجھا کہ آپ فرما رہے ہیں کہ کم از کم ہر جمعہ کو ۔ راوی نے پوچھا کہ کس وقت ؟ آپ نے فرمایا زوال آفتاب کے وقت یا اس سے ذرا پہلے ۔ اور اللہ تعالی اسکے ساتھ ایک ملک کو بھیج دیتا ہے جو اسکو وہی چیز دکھاتا ہے جسے دیکھکر وہ خوش ہو اور وہ چیز چھپا دیتا ہے جسے دیکھکر اسے رنج ہو تو وہ سب کو مسرور ہو کر دیکھتا ہے اور اپنی آنکھوں کو خنک کر کےواپس ہوتا ہے۔

٥٤٣ - اور حفص بن بختری نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ کافر اپنے اہل وعیال کو دیکھنےکیلئے آتا ہے تو وہی دیکھ پاتا ہے جو اسکو نا پسند ہو اور اس سے وہ چھپا رہتا ہے جو اسے پسند آئے ۔

٥٤٤-  اور صفوان بن یحییٰ نے حضرت ابو الحسن امام موسیٰ بن جعفرعلیہ السلام سے عرض کیا کہ مجھے کسی سے معلوم ہوا ہے کہ مومن کی قبر کے پاس جب کوئی زیارت کرنے والا آتا ہے تو وہ اس سے مانوس ہو جاتا ہے اور جب وہ واپس ہوتا ہے تو اسکو وحشت ہوتی ہے ؟ آپ نے فرمایا اسکو وحشت نہیں ہوتی ۔

٥٤٥ - اور حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ میت کیلئے جس دن سے وہ مرا ہے تین دن تک ماتم کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

٥٤٦ - اور حضرت ابو جعفر امام محمد باقر علیہ السلام نے اپنی موت پر صف ماتم کے اہتمام کیلئے آٹھ سو (۸۰۰) درہم کی وصیت فرمائی اور آنجناب کی نظر میں یہ سنت تھی اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جعفر بن ابی طالب کی آل کیلئے تم لوگ طعام تیار کرو اور لوگوں نے طعام تیار کر کے بھیجا۔

٥٤٧ - نیز حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے یہ بھی وصیت کی دس (۳) سال تک حج کے موقع پر صف ماتم کا انعقاد کیاجائے۔ 

٥٤٨ - حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ اہل مصیبت کے وہاں کھانا اہل جاہلیت کا دستور ہے ۔ اور سنت یہ ہے کہ انکے وہاں طعام بھیجا جائے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب حضرت جعفر بن ابی طالب کی خبر شہادت آئی تو آپ نے حکم دیا کہ آل جعفر بن ابی طالب کے وہاں طعام بھیجا جائے ۔

٥٤٩ - نیز آپ نے بیان فرمایا کہ جب حضرت جعفر بن ابی طالب شہید ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے فرمایا کہ تم اسماء بنت عمیسں اور انکی عورتوں کے پاس تعزیت کے لئے جاؤ اور انکے لئے تین دن تک کھانا تیار کر کے بھیجو چنانچہ یہ سنت جاری ہو گئی۔

٥٥٠ - اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ کسی کے لئے یہ درست نہیں کہ وہ (کسی کی موت پر) تین دن سے زیادہ سوگ منائے اور زینت ترک کرے سوائے اس عورت کے جس کا شوہر مر گیا ہو تو وہ عدت وفات پورا ہونے تک سوگ منائے گی اور ترک زینت کرے گی ۔

٥٥١ - اور ایک مرتبہ آنجناب علیہ السلام سے نوحہ کرنے والیوں کی اجرت کیلئے دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا اس میں کوئی حرج نہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بھی نوحہ کیا گیا ہے ۔

٥٥٦ - اور روایت کی گئی ہے کہ آنجناب علیہ السلام نے فرمایا کہ نوحہ خوانی کے پیشہ سے کمانے میں کوئی حرج نہیں اگر نوحہ کرنےمیں میت کیلئے سچائی سے کام لے اور دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا کہ نوحہ خوانی کرنے میں ایک ہاتھ کو دوسرے
میں ہاتھ مارنا اسکے لئے حلال ہے ۔

٥٥٣ - رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب جنگ احد سے مدینہ واپس آئے تو آپ نے ہر گھر سے جسکے گھر والوں میں سے کوئی قتل ہوا تھا آہ وبکا کی آوازیں سنیں مگر آپ کے چچا حمزہ کے گھر سے کوئی آہ و بکا کی آواز نہیں سنی تو آپ نے فرمایا " افسوس میرے چچا حمزہ پر رونے اور آہ و بکا کرنے والا کوئی نہیں ہے- تو اہل مدینہ نے یہ عہد کر لیا کہ جب بھی وہ اپنے مرنے والوں پر روئیں گے تو پہلے حضرت حمزہ پر آہ و بکا کرینگے اور وہ لوگ آج تک اس عہد پر قائم ہیں ۔

٥٥٤ - اور عمر بن یزید کا بیان ہے کہ میں نے ایک مرتبہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے دریافت کیا کہ کیا میت کی طرف سے نماز پڑھی جائے ؟ آپ نے فرمایا ہاں ۔ تاکہ اگر وہ ضیق اور تنگی میں ہے تو اللہ تعالٰی وسعت پیدا کرے، وہ میت بلائی جائے گی ۔ اور اس سے کہا جائیگا کہ تمہارے فلاں بھائی نے جو تمہاری طرف سے نماز پڑھی ہے اسکی بناء پر تیری اس تنگی میں تخفیف کر دی گئی ۔
راوی کا بیان ہے کہ پھر میں نے عرض کیا کہ کیا دو (۲) رکعتوں میں دو (۲) آدمیوں کو شامل کرلوں ؟ آپ نے فرمایا ہاں اس کے بعد آپ نے ارشاد فرمایا کہ اسطرح کسی زندہ شخص کو کوئی ہدیہ دیا جائے اور وہ خوش ہوتا ہے اسی طرح مرنے والے کیلئے جب رحمت کی دعا کی جاتی ہے اور اس کیلئے طلب مغفرت کی جاتی ہے تو وہ اس سے خوش ہوتا ہے ۔

اور یہ جائز ہے کہ کوئی شخص اپنے حج اور اپنے عمرے یا اپنی بعض نمازیں یا اپنے بعض طواف کو اپنے بعض عزیزوں کیلئے جو مرچکے ہیں قرار دیدے اور وہ اس سے فائدہ اٹھائے تا کہ اگر کسی پر عتاب ہے تو اسکو معاف کر دیا جائے ۔ اور اگر وہ ضیق اور تنگی میں ہے تو اسے وسعت اور کشادگی دیدی جائے اور میت کو اسکا علم ہو جاتا ہے اور اگر کوئی شخص یہ اعمال کسی ناصبی کی طرف سے بھی کرے تو اسکے عذاب میں تخفیف ممکن ہے نیز داد و دہش اور صلہ رحم اور حج تو انسان زندہ اور مردہ دونوں کیلئے قرار دے سکتا ہے مگر نماز زندہ کی طرف سے پڑھنا جائز نہیں ہے ۔

٥٥٥ - امام علیہ السلام نے فرمایا کہ چھہ چیزوں کا فائدہ مومن کو اسکی وفات کے بعد بھی ملتا ہے ۔ وہ فرزند جو اسکے لئے استغفار کرتا ہے ، وہ مصحف جسے وہ چھوڑ کر مرا ہے ، وہ درخت جو اس نے لگایا ہے ، وہ کار خیر جو اس سے جاری ہوا ہے ، وہ
کنواں جو اس نے کھودا ہے ، وہ سنت جو اسکے بعد بھی اختیار کی جاتی ہے ۔

٥٥٦ - اور فرمایا مسلمانوں میں سے کوئی شخص اگر کسی میت کی طرف سے عمل صالح کرے گا تو اسکو دوگنا ثواب ملے گا اور اللہ تعالیٰ اس سے میت کو بھی نفع پہنچائے گا۔

٥٥٧ - نیز آپ نے فرمایا کہ نماز، روزہ ، حج، صدقہ ، نیکی اور دعا جو کچھ میت کیلئے کیا جاتا ہے وہ سب میت کی قبر میں پہنچتا ہے ۔ اور اسکا ثواب جس نے یہ کیا ہے اس کیلئے اور میت کیلئے لکھا جاتا ہے۔

٥٥٨ - اور جب ذر بن ابی ذر رحمہ للہ کا انتقال ہوا تو حضرت ابو ذر انکی قبر پر آئے اور انکی قبر پر اپنے ہاتھوں کو رکھا اور کہا اے ذر تم پر اللہ تعالیٰ رحم فرمائے تم خدا کی قسم ہمارے لئے بہت اچھے تھے اب تمہاری روح قبض کرلی گئی مگر میں تم سے راضی اور خوش ہوں۔ خدا کی قسم مجھے تمہاری موت کا کوئی عزن وملال نہیں ہے اور مجھے سوائے خدا کے اور کسی کی ضرورت نہیں ۔ اور اگر مجھے مرنے کے بعد کی ہولناکیوں کا خیال نہ ہوتا تو مجھے خوشی ہوتی اگر تمہاری جگہ میں ہوتا ۔ اور مجھے تمہاری جدائی کے غم کے بدلے اب تمہارا غم ہے (کہ تم کس حال میں ہو گے) اور میں تمہاری جدائی پر نہیں رویا بلکہ اس پر رویا کہ تمہارے سامنے کیا ہولناکیاں ہونگی ۔ کاش میں نے جو کچھ کہا اور تمہارے لئے جو کچھ کیا گیا اسکے متعلق مجھے علم ہوتا ۔ پروردگار تو نے میرا جو کچھ حق اس پر فرض کیا تھا میں نے اسے اسکو بخش دیا اب تیرا حق بھی جو کچھ اس پر فرض تھا تو اسے بھی بخش دے اس اسلئے کہ تو مجھ سے بھی زیادہ جو دو کرم  کا حق رکھتا ہے۔