Skip to main content

باب مسجدوں کی فضیلت و حرمت اور جو شخص اُن میں نماز پڑھے اسکا ثواب

حدیث ٦٨٠ - ٧٢٣

٦٨٠ - خالد بن ماد تلانسی نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ مکہ اللہ کا حرم اور اسکے رسول کا حرم اور علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا حرم ہے اس میں نماز پڑھنا ایک لاکھ نمازوں کے برابر ہے اور اس میں ایک درہم (کی خیرات) ایک لاکھ درہم کے برابر ہے ۔
اور مدینہ اللہ تعالٰی کا حرم اور اسکے رسول کا حرم اور حضرت علی ابن ابی طالب کا حرم ہے اس میں نماز پڑھنا دس ہزار نمازوں کے برابر ہے اور اس میں ایک درہم دس ہزار درہموں کے برابر ہے اور کوفہ اللہ کا حرم اور اسکے رسول کا حرم اور حضرت علی ابن ابی طالب کا حرم ہے اس میں نماز پڑھنا ایک ہزار نمازوں کے برابر ہے مگر درہم کے متعلق آپ خاموش رہے.

٦٨١ - اور ابو حمزہ ثمالی نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا کہ جو شخص مسجد حرام میں اپنی ایک فرض نماز پڑھے گا اللہ تعالٰی اسکی وہ تمام نمازیں جس وقت سے اس پر واجب ہوئی تھیں سب قبول کرلیگا نیز وہ تمام نمازیں بھی جو بندہ مرتے دم تک پڑھے گا وہ بھی قبول کرلیگا۔

٦٨٢ - رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میری مسجد میں نماز دوسری مسجدوں میں ایک ہزار نماز کے مانند ہیں سوائے مسجد حرام کے اس لئے کہ مسجد حرام میں ایک نماز میری مسجد میں ایک ہزار نماز کے برابر ہے ۔

٦٨٣ - اور عبد الا علی آل سام کے غلام نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے دریافت کیا کہ مسجد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لمبائی کتنی تھی ، تو آپ نے فرمایا تین ہزار چھ سو ہاتھ مکسرہ (ایک ہاتھ مکسرہ چھ مٹھی کے برابر)

٦٨٤ - حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے ابو حمزہ ثمالی سے ارشاد فرمایا کہ مسجدیں چار ہیں مسجد حرام ، مسجد رسول ، مسجد بیت المقدس اور مسجد کوفہ ۔ اور اے ابو حمزہ ان میں نماز فریضہ پڑھنا ایک حج کے برابر اور نماز نافلہ پڑھنا ایک عمرہ کے برابر ہے۔

٦٨٥ - حضرت ابو الحسن امام رضا علیہ السلام سے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی قبر کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ وہ معظمہ اپنے گھر میں دفن ہوئیں مگر جب بنی امیہ نے مسجد کے حدود بڑھائے تو آپ کی قبر مسجد میں شامل ہو گئی۔

٦٨٦ - رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص میری مسجد قبا میں آکر دو رکعت نماز پڑھے گا تو وہ عمرہ کیلئےپھر واپس آئے گا۔
نیز آنجناب علیہ السلام اس میں تشریف لاتے اور اذان و اقامت کے ساتھ نماز پڑھا کرتے تھے ۔ اور مدینہ منورہ کی مسجدوں میں جانا مستحب ہے، مسجد قبا میں اس لئے کہ یہ وہ مسجد ہے کہ پہلے ہی دن سے جسکی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی ۔ اور مشر به ام ابراہیم و مسجد فضیح و قبور شہدائے احد و مسجد احزاب اور وہی مسجد فتح ہے ۔
اور مسجد غدیر میں بھی نماز پڑھنا مستحب ہے اسلئے کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدم مبارک کی جگہ ہےجس وقت آپ نے فرمایا تھا کہ من کنت مولاه فعلى مولاه اللهم وال من والاه وعاد من عاداه - 


٦٨٧ - اور اسی مسجد کی دوسری جانب منافقین کے خیمے نصب تھے جب ان سبھوں نے دیکھا کہ آنحضرت اپنے ہاتھ بلند کئے ہوئے ہیں تو آپس میں ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ ذرا دیکھو انکی دونوں آنکھیں کیسی گردش کر رہی ہیں جیسے کسی مجنوں کی آنکھیں گردش کرتی ہیں ۔ تو حضرت جبریل علیہ السلام مندرجہ ذیل آیت لے کر نازل ہوئے وَإِن يَكَادُ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ لَيُزْلِقُونَكَ بِأَبْصَـٰرِهِمْ لَمَّا سَمِعُوا۟ ٱلذِّكْرَ وَيَقُولُونَ إِنَّهُۥ لَمَجْنُونٌۭ وَمَا هُوَ إِلَّا ذِكْرٌۭ لِّلْعَـٰلَمِينَ ( اور کفار جب ذکر کو سنتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ اپنی نگاہوں کے ذریعہ تمہیں ضرور پھسلا دیں گے اور کہتے ہیں کہ یہ تو مجنون ہیں مگر یہ تو سارے جہان کیلئے نصیحت ہے) (سورہ القلم آیت نمبر ٥١ - ٥٢) 
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے یہ بات حسان جمال سے بیان فرمائی جب وہ انہیں سوار کر کے مدینے سے مکے لے جارہا تھا تو آپ نے اس سے کہا اے حسان اگر تم میرے جمال نہ ہوتے تو میں تم سے یہ حدیث ہرگز نہ بیان کرتا۔

٦٨٨ - اور منی کے اندر مسجد خیف تو اسکے متعلق جابر نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ نےفرمایا کہ مسجد خیف میں سات سو انبیاء نے نماز پڑھی ہے ۔

٦٨٩ - اور ابو حمزہ ثمالی نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ جو شخص منیٰ سے نکلنے سے پہلے منیٰ کی مسجد خیف میں سو رکعت نماز پڑھے تو وہ ستر سال کی عبادت کے برابر ہو گی اور جو شخص اس میں سو تسبیح پڑھے (سبحان اللہ کہے) تو اللہ تعالیٰ اس کیلئے ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب لکھ دیگا ۔ اور جو شخص اس میں سو مرتبہ تہلیل کرے (لا اله الا اللہ کہے ) تو اسکا ثواب ایک آدمی کی زندگی بچانے کا ہو گا اور جو شخص اس میں سو مرتبہ الحمد اللہ کہے تو اسکا ثواب دونوں عراق کے خراج کو راہ خدا میں تصدق کرنے کے برابر ہو گا۔

٦٩٠ - حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد میں مسجد رسول اس منارہ کے پاس تھی جو وسط مسجد میں ہے اور اسکے اوپر قبلہ کی جانب تقریباً تیں ہاتھ اسکے داہنے جانب اور بائیں اور اسکے پیچھے تقریباً اتنی ہی اتنی تھی وہ برابر کر دی گئی ۔ اور اگر ممکن ہو سکے کہ تمہاری نماز کی جگہ اس کے اندر ہو تو ایسا ہی کرو اس لئے کہ اس میں ایک ہزار انبیاء نے نماز پڑھی ہے ۔
اور خیف کو خیف اسلئے کہتے ہیں کہ وہ وادی سے بلند ہے اور جو وادی سے بلند ہو اسکو خیف کہتے ہیں ۔

٦٩١ - حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ مسجد کوفہ کی حد آخری دو (۲) چراغوں تک ہے یہ خط حضرت آدم علیه السلام نے کھینچا تھا ۔ میں اس حد کے اندر کسی سواری پر سوار ہو کر جانا مکروہ سمجھتا ہوں ۔ تو عرض کیا گیا کہ پھر اس میں تبدیلی کس نے کی آپ نے فرمایا پہلی تبدیلی تو حضرت نوح کے زمانے میں طوفان سے آئی پھر اس میں اصحاب کسریٰ ونعمان نے تبدیلی کی پھر اس میں زیاد بن ابی سفیان نے تبدیلی کی ۔

 


 (۲۹۳) نیز آنجناب علیہ السلام نے فرمایا گویا میں مسجد کوفہ سے ایک ویرانی کو دیکھ رہا ہوں جو اپنے دیر کے اندر زاویہ اور منبر کے درمیان ہے جس میں سات عدد کھجور کے درخت ہیں اور وہ اپنے دیر سے حضرت نوح علیہ السلام کو دیکھ رہا ہے اور
ان سے باتیں کر رہا ہے ۔

٦٩٣ - ابو بصیر کا بیان ہے کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کو فرماتے ہوئے سنا آپ فرما رہے تھے کہ مسجد کو فہ بھی کتنی اچھی مسجد ہے جس میں ایک ہزار انبیاء اور ایک ہزار اوصیاء نے نماز پڑھی ۔ اس میں سے تنور ابلا اس میں سفینہ بنایا گیا اسکے دائیں جانب اللہ تعالیٰ کی رضا ہے اس کا وسط جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے اسکے بائیں جانب مکرو فریب ہے یعنی شیاطین کے مکانات ہیں ۔

٦٩٤ - امیر المومنین علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ تین مسجدوں کے علاوہ کسی اور مسجد کیلئے سواری نہ کرو ۔ مسجد حرام اور مسجد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مسجد کوفہ ۔

٦٩٥ - نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب مجھے معراج پر لے جایا گیا تو میں مسجد کوفہ کی جگہ سے ہو کر گزرا میں براق پر سوار تھا اور حضرت جبرئیل علیہ السلام میرے ساتھ تھے انہوں نے کہا اے محمد یہاں سواری سے اترو اور اس جگہ نماز پڑھو چنانچہ میں اترا اور میں نے نماز پڑھی پھر پوچھا اے جبرئیل یہ کونسی جگہ ہے ؟ انہوں نے کہا یہ کوفہ ہے اور یہ اسکی مسجد ہے میں اس کی آبادی کو بیس مرتبہ برباد اور بیس مرتبہ آباد ہوتے ہوئے دیکھ چکا ہوں اور ہر دو مرتبہ کے درمیان پانچ سو برس کا فاصلہ گزرا ہے ۔

٦٩٦ - اصبغ بن نباتہ سے روایت کی گئی ہے انہوں نے بیان کیا کہ ایک دن ہم لوگ مسجد کوفہ میں امیر المومنین علیہ السلام کے گرد حاضر تھے کہ آپ نے فرمایا اے اہل کو فہ تم لوگوں کو اللہ تعالٰی نے وہ فضل و شرف عطا کیا ہے کہ ایسا فضل و شرف کسی کو عطا نہیں کیا تمہارا مصلا ( جائے نماز) بیت آدم و بیت نوح وبیت ادریس و مصلائے ابراہیم و مصلائے برادر خضر اور میرا مصلا ہے اور تمہاری یہ مسجد ان چار مسجدوں میں ہے جسے اللہ تعالیٰ نے وہاں کے رہنے والوں کیلئے منتخب فرمایا ہے ۔ اور گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ قیامت کے دن یہ لائی جائے گی دو (۲) سفید کپڑوں میں جیسے کوئی شخص جامہ احرام میں ہو ۔ اور یہ یہاں کے لوگوں کی اور جس نے اس میں نماز پڑھی ہے اسکی شفاعت کرے گی اور اسکی شفاعت رد نہ کی جائے گی اور کوئی زیادہ دن اور رات نہ گزریں گے کہ اس میں حجر اسود نصب کیا جائے گا اور ایک زمانہ آئے گا کہ یہ میری اولاد میں
سے (امام) مہدی کا مصلا اور ہر مومن کا مصلا ہو گا اور روئے زمین پر کوئی مومن ایسا نہ ہو گا جسکا دل اسکی طرف مائل نہ ہولہذا اسکو نہ چھوڑو اور اس میں نماز پڑھو تا کہ اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرو اور اپنی دلی مرادیں پوری کرنے کیلئے ادھر آؤ۔ اگر لوگ یہ جان لیں کہ اس مسجد میں کیا برکتیں ہیں تو اگر انہیں برف پر گھٹنوں چل کر آنا پڑے تو زمین کے سارے اطراف سے یہاں آئیں گے ۔

٦٨٧ - اور مسجد سہلہ کے متعلق حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ اگر میرے چچا زید اس مسجد میں پناہ لیتے تو اللہ تعالیٰ انہیں ایک سال تک پناہ دیتا ۔ یہ حضرت ادریس کے مکان کی جگہ ہے کہ جس میں وہ خیاطی کیا کرتے تھے اور یہ وہ جگہ ہے جہاں سے حضرت ابراہیم علیہ السلام عمالقہ سے نکلے تھے یہ وہ مقام ہے کہ جہاں سے حضرت داؤد علیہ السلام جالوت سے جنگ کرنے کیلئے نکلے تھے اسکے نیچے سبز پتھر کی ایک چٹان ہے کہ جس کے اندر ہر نبی کی صورت و شکل بنی ہوئی ہے جنہیں اللہ تعالٰی نے پیدا کیا ۔ اور ہر نبی کی طینت اسی کے نیچے سے لی گئی ہے اور یہ ایک راکب (سوار) کی جگہ ہے ۔ تو آپ سے پوچھا گیا کہ راکب کون ؟ فرمایا کہ وہ خضر علیہ السلام ہیں ۔ اور مسجد براثا جو بغداد کے اندر ہے تو اسکے اندر امیر المومنین علیہ السلام نے اس وقت نماز پڑھی جب آپ اہل نہروان سے جنگ کے بعد واپس آرہے تھے ۔

٦٩٨ - جابر ابن عبداللہ انصاری سے روایت کی گئی ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ حضرت علی علیہ السلام نے خوارج سے قتال کرنے کے بعد واپسی میں براثا کے اندر ہم لوگوں کے ساتھ نماز پڑھی ۔ اور ہم لوگوں کی تعداد اسوقت ایک لاکھ تھی تو ایک نصرانی اپنے صومعہ سے نیچے اترا اور پوچھا کہ اس فوج کا سردار کون ہے ؟ ہم لوگوں نے کہا کہ یہ ہمارے سردار ہیں تو وہ حضرت علی علیہ السلام کے پاس گیا اور سلام کر کے بولا اے میرے سید و آقا کیا آپ نبی ہیں ؟ آپ نے فرمایا نہیں بلکہ نبی میرا سید واقا تھا جو وفات پا چکا ۔ نصرانی نے کہا پھر آپ وصی نبی ہیں ؟ آپ نے فرمایا ہاں پھر فرمایا اچھا بیٹھو تم نے یہ سوال کیوں کیا ؟ اس نے کہا کہ میں نے یہ صومعہ بنایا ہی اس مقام براثا کیلئے ہے اسلئے کہ میں نے اللہ کی طرف سے نازل کی ہوئی کتابوں میں پڑھا تھا کہ اس جگہ اتنی بڑی تعداد کے ساتھ وہی نماز پڑھے گا جو نبی ہوگا یا وصی نبی ہوگا اور میں اسلام قبول کرنے کیلئے آیا ہوں پھر وہ ہم لوگوں کے ساتھ کو فہ آیا اور حضرت علی علیہ السلام نے اس سے پوچھا یہاں کس نے نماز پڑھی؟ اس نے جواب دیا یہاں حضرت عیسیٰء بن مریم اور انکی مادر گرامی نے نماز پڑھی ۔ حضرت علی علیہ السلام نے اس سے کہا مگر میں بھی تمہیں بتاؤں کہ یہاں کس نے نماز پڑھی؟ اس نے کہا جی ہاں ۔ آپ نے فرمایا حضرت ابراہیم خلیل علیہ السلام نے ۔

٦٩٩ - حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص مسجد میں کھنکھارے اور بلغم کو (تھو کے نہیں بلکہ)
اپنے پیٹ میں گھونٹ جائے تو وہ بلغم جس مرض سے گزرے گا اسے اچھا کر دے گا۔

٧٠٠ - اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص پنجشبہ اور شب جمعہ مسجد میں جھاڑو لگائے تو اس سے جو مٹی نکلے وہ جس آنکھ میں پڑے گی اللہ تعالیٰ اسکو بخش دے گا ۔

٧٠١ - حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا جو شخص مسجد جانے کے قصد سے نکلے تو اسکے دونوں قدم جس جس خشک و تر پر پڑیں گے اسکے نیچے زمین کے ساتوں طبق اللہ کی تسبیح پڑھیں گے ۔
میں نے ان احادیث کو اسناد کے ساتھ اور اسکے ہم مضمون احادیث کو اپنی کتاب فضل المساجد میں نقل کر دیا ہے ۔

٧٠٢ - حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا کہ بیت المقدس میں ایک نماز ہزار نمازوں کے برابر ہے اور مسجد اعظم (مسجد الحرام) میں ایک نماز ایک لاکھ نمازوں کے برابر ہے اور قبیلہ کی مسجد میں ایک نماز پچیس نمازوں کے برابر ہے اور بازار کی مسجد میں ایک نماز بارہ نمازوں کے برابر ہے اور کسی شخص کا اپنے گھر میں ایک نماز پڑھنا ایک ہی نماز کے برابر ہے ۔

٧٠٣ - حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا جتنا بڑا گڑھا بھٹ تیتر اپنے پاؤں سے کھود کر بناتا ہے اگر کوئی شخص اتنی بھی بڑی مسجد بنائے گا تو اللہ تعالیٰ اس کیلئے جنت میں ایک گھر بنا دیگا۔

٧٠٤ - ابو عبیدہ حذاء کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام میری طرف سے ہو کر گزرے اور میں مکہ اور مدینہ کے درمیان (مسجد بنانے کیلئے) پتھر پر پتھر رکھ رہا تھا میں نے عرض کیا اسکا شمار اس میں ہوگا ۔ آپ نے فرمایا ہاں 

٧٠٥ - عبید اللہ بن علی حلبی نے ایک مرتبہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے دریافت کیا کہ کیا چھت والی مسجدوں میں قیام مکروہ ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں مگر اس میں نماز پڑھنا تمہیں ضرر نہیں پہنچائے گا۔

٧٠٦ - حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا ہمارے قائم آل محمد مسجدوں کی چھتوں سے ابتداء کریں گے انہیں توڑ ڈالیں گے اور انہیں خس پوش کرنے کا حکم دینگے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سائبان کی طرح ۔

٧٠٧ - حضرت علی علیہ السلام جب مسجدوں میں محراب دیکھتے تو اسے توڑنے کا حکم دیتے اور فرمایا کرتے یہ تو یہودیوں کے مذبح خانوں کے مانند ہے ۔

٧٠٨ - نیز حضرت علی علیہ السلام نے کوفہ میں ایک مسجد دیکھی کہ وہ کنگرے دار تھی آپ نے فرمایا یہ تو یہودیوں کے بیع (عبادت خانے) کے مانند معلوم ہوتی ہے مسجدیں کنگرے دار نہیں ہوتیں ہے ۔ کشادہ بنائی جاتی ہیں 

٧٠٩ - حضرت ابو الحسن اول (امام موسی بن جعفر) علیہ السلام سے مٹی کے گارے کے متعلق پوچھا گیا جس میں بھوسا ملا ہوا ہو کہ کیا اس سے مسجد یا بیت الصلات کو لیپا جا سکتا ہے؟ آپ نے فرمایا اس میں کوئی حرج نہیں ۔

٧١٠ - نیز آپ سے ایک ایسے مکان کے متعلق دریافت کیا گیا جس میں گوہر سے چونا پکایا جاتا تھا کیا یہ جائز ہو گا کہ اس سے کسی مسجد کی چونا کلی کی جائے ؟ آپ نے فرمایا کوئی حرج نہیں ۔

٧١١ - نیز آپ سے دریافت کیا گیا ایک ایسے مکان کے متعلق کہ جو ایک عرصہ تک بیت الخلاء بنا ہوا تھا کیا یہ جائز ہے کہ اسکو مسجد بنا دیا جائے ؟آپ نے فرمایا اگر پاک صاف کر کے اسکو درست کر دیا جائے تو کوئی حرج نہیں ہے ۔

٧١٢ - اور عبید اللہ بن علی حلبی نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایک ایسی مسجد کے متعلق دریافت کیا جو کسی کے گھر کے اندر بنی ہوئی ہے اب گھر والے چاہتے ہیں کہ اسکو وسعت دیں اور اس مسجد کی جگہ بدل دیں آپ نے فرمایا اس میں کوئی حرج نہیں ۔ راوی کا بیان ہے کہ پھر میں نے عرض کیا کہ ایک مکان ہے جو ایک عرصہ تک بیت الخلاء رہ چکا ہے کیا یہ جائز ہے کہ اسکو صاف ستھرا کر کے مسجد بنا دیا جائے ۔ آپ نے فرمایا ہاں جب اس پر اتنی مٹی ڈال دی جائے جو اسکی سطح کو بالکل چھپا دے تو پھر یہ اس کو صاف ستھرا اور پاک کر دیگی ۔

٧١٣ - اور حضرت امیرالمومنین علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص مسجدوں میں جاتا رہے گا تو اسکو آٹھ چیزوں میں سے کوئی ایک چیز ضرور حاصل ہوگی ۔ (١) ایک ایسا شخص جو خالصاً لوجہ اللہ اسکا برادر بن جائے (٢) یا کوئی حیرت انگریز جدید اطلاع (٣) یا کوئی محکم آیت و نشان (٤) یا کوئی ایسی رحمت و مہربانی کہ جسکا انتظار کر رہا تھا (٥) یا کوئی ایسا کلمہ جو اسکی اذیت و تکلیف کو دور کر دے (٦) یا کوئی ایسا جملہ سنے جو اسکو ہدایت کے راستہ پر لگا دے (٧) یا وہ ڈر یا شرم جس سے وہ کوئی گناہ ترک کر دے ۔

٧١٤ - ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کانوں میں آواز آئی کہ کوئی شخص اپنی کسی گمشدہ چیز کا مسجد میں اعلان کر رہا ہے تو آپ نے لوگوں سے کہا کہ اس سے کہدو کہ مسجد کسی اور کام کیلئے بنائی گئی ہے ۔

٧١٥ - نیز آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ تم لوگ اپنی مسجدوں کو بچایا کرو ، اپنے لڑکوں سے اپنے پاگلوں و دیوانوں سے اپنی بلند آوازوں سے ، اپنی خرید و فروخت سے ، گمشدہ چیزوں کے اعلان سے اور سزا واحکام سے ، اور بہتر ہے کہ مسجد میں شعر پڑھنے اور استاد کا بیٹھ کر بچوں کو تعلیم دینے یا کسی خیاط کے وہاں بیٹھ کر کپڑا سینے سے اجتناب کیا جائے ۔

٧١٦ - رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی مسجدوں میں سے کسی مسجد میں ایک چراغ جلائے گا تو جبتک اس چراغ کی روشنی اس مسجد میں ہے ملائیکہ اور حاملین عرش اس شخص کیلئے طلب مغفرت کرتےرہیں گے ۔

٧١٧ - حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ اگر تم میں سے کوئی شخص مسجد میں ایک کنکری بھی نکال لے تو اس پر لازم ہے کہ وہ کنکری اسکی جگہ پر واپس رکھ دے یا کسی دوسری مسجد میں رکھ دے اس لئے کہ وہ کنکری اللہ کی تسبیح پڑھتی ہے ۔
اور حائض و جنب کیلئے یہ جائز نہیں کہ مسجد میں داخل ہوں سوائے اسکے کہ وہ مسجد سے گزرنے کیلئے داخل ہو سکتے ہیں

٧١٨ - اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ تمہاری عورتوں کیلئے سب سے بہتر مسجد گھر ہے۔

٧١٩ - اور آپ سے مساجد کیلئے کوئی جائیداد وقف کرنے کیلئے دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا یہ جائز نہیں ہے اسلئے کہ مجوسی آتشکدوں پر جائیدادیں وقف کرتے ہیں ۔

٧٢٠ - اور روایت کی گئی ہے کہ توریت میں تحریر ہے کہ زمین پر میرا گھر مسجدیں ہیں اس شخص کا کیا کہنا جو اپنے گھر میں پاک و طاہر ہولے اور اسکے بعد میرے گھر میں میری ملاقات کو اے ۔ آگاہ ہو میربان پر مہمان کا اکرام فرض ہے آگاہ ہو اوررات کی تاریکیوں میں مسجد کی طرف پا پیادہ جانے والوں کو خوشخبری سنا دو کہ قیامت کے دن انکے لئے ایک نور ساطع ہو گا ۔

٧٢١ - روایت کی گئی ہے کہ وہ مکانات کہ جن میں رات میں نمازیں پڑھی جاتی ہیں وہ اہل آسمان کیلئے اسطرح چمکتے ہیں جیسے اہل زمین کیلئے ستارے چمکتے ہیں ۔

٧٢٢ - روایت کی گئی ہے کہ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام ایک مرتبہ ایک طویل مینار سے گزرے تو حکم دیا کہ اسکو گرادومینار کو مسجد کی سطح سے بلند نہ کیا کرو۔

٧٢٣ - اور اللہ (کبھی کبھی) یہ چاہتا ہے کہ سارے اہل زمین پر عذاب نازل کر دے اور ان میں سے کوئی نہ بچے مگر جب بوڑھوں کو دیکھتا ہے کہ وہ اپنے پاؤں سے نماز کیلئے جارہے ہیں اور بچوں کو دیکھتا ہے کہ وہ قرآن کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں تو ان سے عذاب کو موخر کر دیتا ہے ۔
اور جو شخص مسجد میں داخل ہونے کا ارادہ کرے تو اسے نہایت سکون ووقار سے داخل ہونا چاہیئے اسلئے کہ مسجدیں اللہ کا گھر ہیں اور اللہ کی نظر میں وہ پسندیدہ ترین بقع ہیں اور وہ شخص اللہ کی نظر میں زیادہ پسندیدہ ہے جو سب سے پہلے مسجد میں داخل ہو اور سب سے آخر میں نکلے ۔
اور جو شخص مسجد میں داخل ہو تو اسکو چاہیے کہ بائیں پاؤں سے پہلے دائیں پاؤں کو مسجد میں داخل کرے اور یہ کہے بِسمِ اللهِ وَبِاللَّهِ السّلامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللهِ بَرَكَاتُهُ اللهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ وَافْتَحْ لَنَا  أَبْوَابَ رَحْمَتِكَ وَاجْعَلْنَا مِنْ عَمارِ مَساجِدِكَ جَلَّ ثَنَاءُ وَجُهِكَ (اللہ کے نام سے اور اللہ کے ساتھ اے نبی آپ پر اللہ کی رحمت اور اسکی برکتیں نازل ہوں - اے الله تو درود بھیج محمّد اور آل محمّد پر اور مجھ پر اپنی رحمتوں کے دروازے کھول دے اور مجھے ان لوگوں میں قرار دیدے جو تیری مسجدوں کو آباد رکھتے ہیں - میرے چہرے کی ثناء  اور تعریف بوہت عظیم ہے ) اور جب مسجد سے برآمد ہو تو دائیں سے پہلے بایاں پاؤں مسجد سے نکالے اور یہ کہے اللهمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ وَافْتَحْ لَنَابَابَ رَحْمَتِكَ -