باب : روزہ کی اقسام
حدیث ١٧٨٤
١٧٨٤ - زہری سے روایت ہے اس نے بیان کیا کہ ایک مرتبہ حضرت امام زین العابدین علی ابن الحسین علیہ السلام نے مجھ سے پوچھا کہ اے زہری تم اس وقت کہاں سے آرہے ہو؟ میں نے عرض کیا مسجد سے پوچھا تم لوگ وہاں کیا کر رہے تھے ۔ میں نے عرض کیا ہم لوگ مسئلہ صوم پر تبادلہ خیال کر رہے تھے چنانچہ میری رائے اور میرے تمام اصحاب کی رائے اس بات پر مجتمع ہو گئی کہ ماہ رمضان کے سوا اور کوئی روزہ واجب نہیں ہے آپ نے فرمایا کہ مگر تم لوگ جیسا کہتے ہو ایسا نہیں ہے بلکہ روزہ کی چالیں قسمیں ہیں ۔ روزہ کی دس قسمیں واجب ہیں جیسے ماہ رمضان کا روزہ واجب ہے ۔ دس قسمیں حرام ہیں اور چودہ قسم کے روزے میں روزہ رکھنے والے کو اختیار ہے خواہ روزہ رکھے یا نہ رکھے ۔ پھر صوم اذن ( کسی سے اذن لیکر روزہ) سو اسکی تین قسمیں ہیں پھر صوم تادیب وصوم مبارح اور صوم سفر و مرض میں نے عرض کیا میں آپ پر قربان آپ مجھے اسکی تفصیل بھی بتا دیں ۔
تو آپ نے فرمایا صوم واجب تو
١ - پورے رمضان کا روزہ
٢ - پے در پے دو ماہ کے روزے اس شخص کے لئے جو جان بوجھ کر ایک روزہ ماہ رمضان کا توڑ دے ۔
٣ - پے در پے دو ماہ کے روزے کفارہ ظہار میں چنانچہ اس کے متعلق اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے وَٱلَّذِينَ يُظَـٰهِرُونَ مِن نِّسَآئِهِمْ ثُمَّ يَعُودُونَ لِمَا قَالُوا۟ فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍۢ مِّن قَبْلِ أَن يَتَمَآسَّا ۚ ذَٰلِكُمْ تُوعَظُونَ بِهِۦ ۚ وَٱللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌۭ- فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ مِن قَبْلِ أَن يَتَمَآسَّا ۖ (سورة مجادلہ ۳) اور جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کر بیٹھیں (اسکی پشت کو اپنی ماں کی پشت سے تشبیہ دیدیں) پھر اپنی بات واپس لیں تو دونوں کے ہمبستر ہونے سے پہلے کفارہ میں ایک غلام آزاد کرنا ضروری ہے اس کی تم کو نصیحت کی جاتی ہے اور تم جو کچھ بھی کرتے ہو خدا اس سے آگاہ ہے پھر جس کو غلام نہ ملے تو دونوں کی مقاربت سے قبل دو مہینے کے پے در پے روزہ رکھے)
٤ - اور قتل خطا میں دو مہینے پے در پے روزہ رکھنا واجب ہے یہ اسکے لئے ہے جس کو آزاد کرنے کے لئے غلام نہیں ملتا ۔ اللہ تعالیٰ کے اس قول کے مطابق وَمَن قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَـًۭٔا فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍۢ مُّؤْمِنَةٍۢ وَدِيَةٌۭ مُّسَلَّمَةٌ إِلَىٰٓ أَهْلِهِۦٓ ---- فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ (سورة النساء ۹۲) (اور جو شخص کسی مومن کو غلطی سے قتل کر دے تو اس پر ایک ایماندار غلام کا آزاد کرنا اور مقتول کے ورثا کو خون بہا دینا لازمی ہے ۔ پھر جو شخص غلام آزاد کرنے کو نہ پائے تو اس کا کفارہ خدا کی طرف سے لگاتار دو مہینے کے روزے ہیں)
٥ - قسم کے کفارہ میں تین دن روزہ رکھنا واجب ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَـٰثَةِ أَيَّامٍۢ ۚ ذَٰلِكَ كَفَّـٰرَةُ أَيْمَـٰنِكُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ ۚ) (سورہ المائدہ ۸۹) (اگر تم حلف اٹھا کر کوئی بات کہو اور اسے پورا نہ کر سکو تو تین دن روزہ رکھو) اور یہ روزہ بھی پے درپے ہوتا ہے ناغے ناغے سے نہیں ۔
٦ - جس کے سر میں تکلیف ہے (حج میں سر منڈا نہیں سکتا) تو روزہ کفارہ واجب ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے فَمَن تَمَتَّعَ بِٱلْعُمْرَةِ إِلَى ٱلْحَجِّ فَمَا ٱسْتَيْسَرَ مِنَ ٱلْهَدْىِ ۚ فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَـٰثَةِ أَيَّامٍۢ فِى ٱلْحَجِّ وَسَبْعَةٍ إِذَا رَجَعْتُمْ ۗ تِلْكَ عَشَرَةٌۭ كَامِلَةٌۭ ۗ (سوره بقره ١٩٦) ( پس جب تم میں سے کوئی بیمار ہو یا اسکے سر میں کوئی تکلیف ہو تو (سرمنڈانے کے بدلے) روزے رکھے یا خیرات دے یا قربانی کرے) اس میں حاجی کو اختیار دیا گیا ہے اگر وہ روزہ رکھتا ہے تو تین روزے رکھے ۔
٧ - متعتہ الج میں دم کے بدلے روزہ واجب ہے جبکہ قربانی کا جانور نہ مل سکے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے فَمَن تَمَتَّعَ بِٱلْعُمْرَةِ إِلَى ٱلْحَجِّ فَمَا ٱسْتَيْسَرَ مِنَ ٱلْهَدْىِ ۚ فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَـٰثَةِ أَيَّامٍۢ فِى ٱلْحَجِّ وَسَبْعَةٍ إِذَا رَجَعْتُمْ ۗ تِلْكَ عَشَرَةٌۭ كَامِلَةٌۭ ۗ سورہ بقرہ ۱۹۲۔ (جو شخص حج تمتع کا عمرہ کرے تو اس کو جو قربانی میسر آئے کرنی ہو گی اور جس سے قربانی ناممکن ہو تو تین روزے زمانہ حج میں رکھنے ہونگے اور سات روزے جب تم واپس آؤ یہ پوری دھائی ہے)
٨ - اور شکار کے جرمانہ میں روزہ واجب ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ۔ ٨ - اور شکار کے جرمانہ میں روزہ واجب ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ۔ وَمَن قَتَلَهُۥ مِنكُم مُّتَعَمِّدًۭا فَجَزَآءٌۭ مِّثْلُ مَا قَتَلَ مِنَ ٱلنَّعَمِ يَحْكُمُ بِهِۦ ذَوَا عَدْلٍۢ مِّنكُمْ هَدْيًۢا بَـٰلِغَ ٱلْكَعْبَةِ أَوْ كَفَّـٰرَةٌۭ طَعَامُ مَسَـٰكِينَ أَوْ عَدْلُ ذَٰلِكَ صِيَامًۭا (سورة مائده ۹۵) (حالت احرام میں) جو کوئی تم میں جان بوجھ کر شکار مارے گا تو جس جانور کو مارے چوپایوں میں سے اسکا مثل تم میں سے جو دو منصف آدمی تجویز کریں اس کے بدلہ میں دینا ہو گا اور کعبہ تک پہنچا کر قربانی کی جائے یا اسکی قیمت سے محتاجوں کو کھانا کھلانا یا اسکے برابر روزے رکھنا)
پھر فرمایا اے زھری تم جانتے ہو کہ اس کے برابر روزہ کیسے رکھا جائے گا ۔ میں نے عرض کیا مجھے نہیں معلوم ۔ آپ نے فرمایا اس شکار کی قیمت لگائی جائے گی پھر دیکھا جائے گا کہ اس قیمت میں گیہوں کتنا ملتا ہے اور اس گیہوں کو ناپا جائے گا کہ کتنے صاع ہیں پھر ہر نصف صاع پر ایک دن روزہ رکھنا ہو گا ۔
٩ - اور نذر کا روزہ واجب ہے ۔
١٠ - اور اعتکاف کا روزہ واجب ہے ۔
لیکن وہ روزے کہ جن کا رکھنا حرام ہے ۔ وہ یہ ہیں ۔
١ - یوم فطر (عید کے دن) کا روزہ
٢ - یوم الضحی (عید قرباں) کا روزہ
٣ - اور ایام تشریق (گیارہ ، بارہ اور تیرہ ذالحجہ) کے روزے
٤ - یوم شک کا روزہ اور اس روزے کا تو ہمیں حکم بھی دیا گیا ہے اور اس سے منع بھی کیا گیا ہے ۔ حکم اس طرح دیا گیا ہے کہ ہم لوگ شعبان میں شامل کر کے روزہ رکھیں اور منع اس طرح کیا گیا ہے کہ جب سب لوگ شک میں ہوں تو کوئی اکیلا شخص رمضان کی پہلی مان کر روزہ نہ رکھ لے ۔ میں نے عرض کیا اور اگر کسی نے شعبان کا روزہ رکھا ہی نہیں تو کیا کرے ۔ آپ نے فرمایا وہ شک کی رات میں نیت کرلے کہ میں شعبان کا روزہ رکھ رہا ہوں اگر رمضان کی پہلی ہو گئی تو اسکا شمار رمضان میں ہو جائے گا اور اگر وہ شعبان کی ہی تاریخ ہے تو اس میں اسکا کوئی ضرر نہیں ۔ میں نے عرض کیا کہ مستحب روزہ واجب روزہ میں کیسے محسوب ہو جائے گا فرمایا کہ فرض کرو ایک شخص نہیں جانتا کہ یہ ماہ رمضان ہے اور اس نے مستحب روزہ رکھا ہوا ہے اور بعد میں معلوم ہوا کہ یہ رمضان ہی کا مہینہ ہے تو وہ رمضان کے روزے میں محسوب ہو جائے گا اس لئے کہ فرض مہینہ اسی دن واقع ہو رہا ہے ۔
٥ - صوم وصال حرام ہے (یعنی کوئی شخص نیت کرلے کہ وہ ایک دن اور ایک رات سحر تک ملا کر روزہ رکھے گا یا دو دن ملا کر روزہ رکھے گا)
٦ - صوم صمت حرام ہے ( یعنی خاموشی کا روزہ) کسی گناہ کے لئے نذر کی جائے تو وہ روزہ رکھنا حرام ہے -
صوم الدھر ( پورے تین سو ساٹھ دن یعنی پورے سال کا روزہ رکھنا حرام ہے اس لئے کہ اس میں وہ دن بھی آجاتے ہیں جن میں روزہ رکھنا حرام ہے ۔ اور وہ روزہ کہ جس کے لئے روزہ رکھنے والے کو اختیار ہے رکھے یا نہ رکھے تو وہ جمعہ کے دن کا اور پنجشنبہ کا اور دو شنبہ کا روزہ پھر ایام بیض (ہر ماہ کی ۱۳ - ١٤ - ۱۵ تاریخ) کا روزہ اور ماہ رمضان کے بعد ماہ شوال میں چھ دن کا روزہ یوم عرفہ و یوم عاشورہ ان سب میں روزہ رکھنے والے کو اختیار ہے کہ وہ روزہ رکھے یا نہ رکھے ۔
اور صوم اذن تو عورت اپنے شوہر کے اذن کے بغیر مستحب روزہ نہیں رکھے گی ۔ غلام اپنے مالک کے اذن کے بغیر مستحب روزہ نہیں رکھے گا ۔ اور مہمان میزبان کی اجازت کے بغیر مستحب روزہ نہیں رکھے گا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اگر کوئی شخص کسی قوم کا مہمان بن کر جائے تو بغیر ان کی اجازت کے مستحب روزے نہ رکھے ۔
اور صوم تادیب تو بچہ جب بالغ ہونے کے قریب ہو تو اسے روزہ رکھنے کا تادیباً حکم دیا جائے گا مگر یہ واجب نہیں ہے اور اسی طرح اگر کوئی شخص کسی سبب کی بناء پر دن کی ابتدا ہی میں روزہ توڑے اور پھر روزہ رکھنے کے قابل ہو جائے تو اسکو دن کے باقی حصہ میں تادیباً امساک کا حکم دیا جائے مگر یہ بھی فرض نہیں ہے ۔ اسی طرح مسافر اگر اس نے دن میں اول وقت کچھ کھا لیا ہے اور پھر اپنے گھر پہنچ گیا ہے تو اسے بھی کہا جائے گا کہ دن کے بقیہ حصہ میں امساک کرے مگر یہ بھی فرض نہیں ہے ۔
اور صوم مباح تو اگر کوئی شخص روزہ کی حالت میں عمداً نہیں بلکہ بھول کر یا بر بنائے تقیہ کچھ کھاپی لے تو اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے یہ مباح کر دیا ہے اور اسکا یہ روزہ محسوب ہوگا ۔
اور صوم سفر و مرض تو عامہ نے اس کے اندر اختلاف کیا ہے ایک گروہ کہتا ہے کہ سفر و مرض میں روزہ رکھے گا ۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ روزہ نہیں رکھے گا ۔ تیسرا گروہ کہتا ہے کہ چاہے رکھے اور چاہے نہ رکھے ۔ لیکن ہم لوگ یہ کہتے ہیں کہ سفر ومرض دونوں حالتوں میں روزہ نہ رکھے اور اگر کسی نے ان حالتوں میں روزہ رکھا تو اس کی قضا رکھنی پڑے گی ۔ اس لئے کہ اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے ۔ فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍۢ فَعِدَّةٌۭ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ۚ ( سورۃ بقرہ ١٨٤) جو شخص تم میں سے بیمار ہو یا سفر پر ہو تو اور دنوں میں (جتنے قضا ہوئے ہوں) گن کر رکھ لے ۔