Skip to main content

باب : ماہ رمضان میں نماز

حدیث ١٩٦٤ - ١٩٦٧

١٩٦٤ - زرارہ و محمد بن مسلم و فضیل نے حضرت امام محمد باقر و حضرت امام جعفر صادق علیہما السلام سے ماہ رمضان میں نافلہ شب کو جماعت کے ساتھ پڑھنے کے متعلق دریافت کیا تو ان دونوں حضرات نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب نماز عشاء پڑھ لیتے تو اپنے دولت سرا میں تشریف لیجاتے اور آخر شب مسجد میں آتے اور نماز کے لئے کھڑے ہو جاتے چنانچہ ایک مرتبہ آپ ماہ رمضان کی پہلی شب کو دولت سرا سے نکل کر مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے حسب سابق تشریف لائے اور نماز کے لئے کھڑے ہوئے تو لوگوں نے آپ کے پیچھے صف باندھ لی آپ نے یہ دیکھا تو فورا گھر واپس چلے گئے ۔ اور ان لوگوں کو چھوڑ دیا ۔ اور ان لوگوں نے تین شب تک ایسا ہی کیا کہ آپ کے پیچھے صف باندھ لیتے) بالآخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تیری شب منبر پر تشریف لے گئے اور حمد و ثنائے الہی کے بعد ارشاد فرمایا اے لو گو نماز شب ماہ رمضان میں باجماعت پڑھنا بدعت ہے ۔ اور نماز چاشت بھی بدعت ہے آگاہ رہو ماہ رمضان میں کسی شب کو بھی نماز شب کے لئے مسجد میں جمع نہ ہونا اور نہ نماز چاشت پڑھنا اس لئے کہ ایسا کرنا گناہ ہے آگاہ رہو یہ بدعت و گمراہی ہے اور ہر گمراہی کا راستہ جہنم کی طرف ہے ۔ اس کے بعد منبر سے یہ کہتے ہوئے اترے تھوڑی سی سنت پر عمل زیادہ بدعت پر عمل سے بہترہے ۔

١٩٦٥ - ابن مسکان نے حلبی سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں نے ایک مرتبہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے ماہ رمضان میں نماز کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ تیرہ رکعتیں ہیں جس میں نماز وتر اور دو رکعتیں صبح کی قبل فجر بھی شامل ہیں اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پڑھا کرتے تھے اور میں بھی پڑھا کرتا ہوں اور اگر کچھ اور بہتر ہوتا تو اسے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہرگز ترک نہ کرتے ۔ 

١٩٦٧ - عبد اللہ بن مغیرہ نے عبداللہ بن سنان سے اور انہوں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے انکا بیان ہے کہ ایک مرتبہ میں نے آپ سے ماہ رمضان میں نماز کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ تیرہ رکعتیں ہیں جن میں ایک رکعت وتر کی اور دو رکعتیں قبل نماز فجر کی اور اگر کچھ اور زیادہ ہوتیں تو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس پر عمل کرنے کے زیادہ حقدار تھے اور جن لوگوں نے ماہ رمضان میں زیادہ مستحب رکعتوں کی روایت کی ہے ان میں زرعہ نے سماعہ سے روایت کی ہے اور یہ دونوں واقفیہ ہیں ۔

١٩٦٧ - راوی (ظاہراً سماعہ) کا بیان ہے میں نے آنجناب سے دریافت کیا کہ ماہ رمضان میں کتنی رکعتیں پڑھی جائیں ؟ تو آپ نے فرمایا جتنی تم رمضان کے علاوہ دنوں میں پڑھا کرتے تھے ۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ ماہ رمضان تمام مہینوں سے افضل ہے لہذا بندے کو چاہیئے کہ مستحبی نمازیں زیادہ پڑھے ۔ پس اگر وہ چاہے اور اس کی قوت اجازت دے تو پہلی رمضان کی شعب سے بیسں رمضان کی شب تک بیسں رکعتیں اس کے علاوہ پڑھے جو وہ غیر ماہ رمضان میں بھی پڑھتا رہتا ہے ان بیسں رکعتوں میں سے بارہ رکعت مغرب و عشاء کے درمیان اور آٹھ رکعت عشاء کے بعد اسکے بعد نماز شب آٹھ رکعت جو وہ اسکے قبل پڑھتا آرہا ہے اور نماز وتر کی تین رکعت میں پہلے دو رکعت پڑھ کر سلام پڑھے پھر کھڑا ہو اور ایک رکعت پڑھے اور اس میں قنوت پڑھے تو یہ وتر کی نماز ہے پھر دو رکعت فجر کی پڑھے ۔ یہاں تک کہ فجر کی پو پھوٹ جائے (اس طرح) یہ تیرہ رکعتیں
ہیں ۔
       اور جب رمضان کے دس دن باقی رہ جائیں تو اس میں ہر شب کو تیں رکعتیں پڑھے علاوہ ان تیرہ رکعتوں کے ۔ تیسں رکعتیں اس طرح کہ بائیسں رکعت مغرب وعشاء کے درمیان اور آٹھ رکعت نماز عشاء کے بعد پھر تیرہ رکعت نماز شب جیسا کہ بیان ہوا اور اکیسویں اور تیئسویں کی شب دونوں میں اگر قوت اجازت دے تو سو رکعت پڑھے علاوہ نماز شب کی تیرہ رکعت کے اور اسکو چاہیے کہ صبح تک بیدار رہے اور مستحب ہے کہ اس دوران دعا و نماز و تضرع میں مشغول
رہے اس لئے کہ زیادہ امید کی جاتی ہے کہ شب قدر ان ہی دونوں شبوں میں سے کوئی ایک شب ہے ۔ 
            اس کتاب کے مصنف علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کو میں نے اس باب میں تحریر کر دیا ہے باوجودیکہ میں اس سے عدول کئے ہوئے اور اس پر عمل ترک کئے ہوئے ہوں تاکہ ناظرین میری اس کتاب میں دیکھ لیں کہ روایت کرنے والے کیسی روایت کرتے ہیں اور اس سلسلہ میں میرے اعتقاد سے بھی واقف ہو جائیں کہ میں اس روایت پر عمل میں کوئی ہرج نہیں پاتا ۔