Skip to main content

باب : ماه رمضان کی فضیلت اور روزے کا ثواب

حدیث ١٨٣١ - ١٨٤٤

١٨٣١ - حسن بن محبوب نے ابو ایوب سے انہوں نے ابو الورد سے اور انہوں نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کی ہے آپ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ماہ شعبان کے آخری جمعہ میں لوگوں کو خطبہ دیا تو پہلے حمد و ثنائے الہیٰ  بجا لائے ۔ پھر فرمایا ایھا الناس تم لوگوں کے سروں پر ایسا مہینہ سایہ فگن ہو رہا ہے کہ جس میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے اور وہ ماہ رمضان ہے اللہ تعالیٰ نے اسکا روزہ فرض کیا ہے اور اس میں ایک شب عبادت کیلئے کھڑا ہونا ایسا ہے جیسے رمضان کے سوا اور مہینوں میں کوئی شخص اللہ کی خوشنودی کیلئے ستر راتیں کھڑے ہو کر نماز پڑھے ۔ اور اس مہینہ میں جو شخص کوئی ایک بھی خیرو نیکی کا کام کرے گا اس کو اتنا ثواب ملے گا جیسے کسی نے اللہ تعالیٰ کے عائد کردہ فرائض میں کوئی فریضہ ادا کیا ہو ۔ اور جس نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے عائد کردہ فرائض میں سے کوئی ایک فریضہ ادا کیا وہ ایسا ہوگا کہ جیسے کسی نے اس مہینہ کے علاوہ دوسرے مہینوں میں ستر فریضے ادا کئے ہوں ۔ یہ صبر کا مہینہ ہے کہ جس میں اللہ تعالیٰ مومن کے رزق کو زیادہ کر دیتا ہے ۔ اور جو شخص اس مہینہ میں کسی روزہ دار مومن کو افطار کرائے تو اللہ کے نزدیک وہ ایسا ہو گا جیسے اس نے ایک غلام کو آزاد کرا دیا اور اس کے سارے پچھلے گناہ معاف ہو جائیں گے ۔
         توعرض کیا گیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم میں سے ہر ایک تو اس قابل نہیں کہ کسی روزہ دار کو افطار کراسکے ۔ تو آپ نے فرمایا اللہ تعالی بڑا کریم ہے وہ اس شخص کو بھی وہی ثواب عطا کرے گا جو پانی ملے ہوئے دودھ پر قدرت رکھتا ہو اور اس سے کسی روزہ دار کو افطار کرا دے یا آب شیریں کے ایک گھونٹ پر یا ایک چھوارے پر اور اس سے زیادہ اس میں قدرت نہ ہو ۔ اور جو اس مہینہ اپنے غلام کے ساتھ نرمی برتے گا اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ حساب میں نرمی کرے گا ۔ یہ وہ مہینہ ہے کہ جس کا پہلا حصہ رحمت ہے درمیانی حصہ مغفرت ہے اور آخری حصہ قبولیت دعا اور جہنم سے نجات ہے ۔ اور اس میں تم لوگوں کو چار باتوں کی ضرورت ہے دو باتوں سے تم اللہ تعالیٰ کو خوش اور راضی کرو گے اور دو باتوں کی خود تم لوگوں کو ضرورت ہے وہ دو باتیں جس سے تم اللہ کو راضی اور خوش کرو تو پہلی اس بات کی گواہی ہے کہ اللہ کے سوا کوئی اللہ نہیں اور دوسری یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں ۔ اور وہ دو باتیں کہ جنکی تم لوگوں کو ضرورت ہے وہ یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے تم لوگ اپنے حوائج اور ضرورت کیلئے اور جنت کیلئے دعا کرو نیز اس مہینہ میں تم اس سے عافیت طلب کرو اور جہنم سے پناہ چاہو ۔

١٨٣٢ - جب ماہ رمضان سامنے آیا اور شعبان کے صرف تین دن باقی رہ گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بلال کو حکم دیا کہ تم لوگوں میں اعلان کر دو (کہ جمع ہو جائیں) جب لوگ جمع ہوگئے تو آپ منبر پر تشریف لے گئے اور حمد و ثنائے الہیٰ کے بعد فرمایا کہ ایھا الناس اب وہ مہینہ آرہا ہے کہ جو تمام مہینوں کا سردار ہے اس میں ایک ایسی رات ہے جو ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے ۔ اس میں جہنم کے دروازے بند کر دیئے جائیں گے اور جنت کے دروازے کھول دیئے جائیں گے ۔ پس جو شخص اس مہینہ کو پا جائے اور پھر بھی اس کی مغفرت نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اس کو نابود کر دے اور جو شخص اپنے والدین کو پا جائے اور پھر بھی اس کی مغفرت نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اس کو نابود کر دے اور جس شخص کے سامنے میرا ذکر کیا جائے اور وہ مجھ پر درود نہ بھیجے اور اس کی مغفرت نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اس کو نیست و نابود کر دے ۔

١٨٣٣ - جابر نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کی ہے آپ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نگاہ جب ہلال ماہ رمضان پر پڑتی تو فوراً اپنا چہرہ قبلہ کی طرف کر لیتے پھر یہ کہتے اَللَّهُمَّ اَهِلَّهُ عَلَيْنَا بِالْاَ مْنِ وَالْاِيْمَانِ وَالسَّلَامَةِ وَالْاِسْلامِ وَالْعَافِيَةِ الْمُجَلَّلَةِ، وَالرِّزْقِ الْوَاسِعِ،  وَدَفَعِ الْاَسْقَامِ ، وَتِلَاوَةِ الْقُرْآنِ ، وَالْعَوْنِ عَلَى الصَّلَاةِ وَالصَّيَامِ ، اَللَّهُمَّ سَلَّمْنَا لِشَهْرِ رَمَضَانَ وَسَلَّمْهٌ لَنَا وَتُسَلَّمْهُ مِنَّاحَتَّیٰ يَنْقَضِى شَهْرَ رَمَضَانَ وَ قَدْ غَفَرْتَ لَنَا (پروردگار اس چاند کو امن و ایمان و سلامتی و اسلام اور پوری عافیت اور وسعت رزق کے ساتھ ہم لوگوں پر طلوع فرما اور ہمارے امراض کو دور فرما تلاوت قرآن کی توفیق دے روزے اور نماز میں ہماری مدد فرما ۔ پروردگار ہم لوگوں کو رمضان کی عبادتوں کیلئے صیح و سلامت رکھ اور ہمارے لئے اس کو شک و شکوک سے بچا اور اس میں ہم لوگوں کی عبادتوں کو قبول فرما اور ماہ رمضان کے ختم ہوتے ہوتے ہم لوگوں کی مغفرت فرما دے ۔) 
                   اس کے بعد اپنا رخ مجمع کی طرف کرتے اور فرماتے اے گروہ مردم جب ہلال رمضان طلوع ہوتا ہے تو سرکش و نافرمان شیاطین کو قید کر دیا جاتا ہے آسمان کے دروازے ، جنت کے دروازے اور رحمت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہے اور دعائیں قبول کی جاتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کیلئے یہ لازم ہوتا ہے کہ ہر افطار کے وقت کچھ لوگوں کو جہنم سے آزاد کر دے ۔ اور ہر شب کو منادی یہ ندا دیتا ہے کہ کیا کوئی توبہ کرنے والا ہے ؟ کیا کوئی سوال کرنے والا ہے ؟ کیا کوئی طلب مغفرت کرنے والا ہے ؟ ( پھر فرماتے) اَللَّهُمَّ اَعْطِ كُلَّ مُنْفِقٍ خَلَفاً وَاَعْطِ كُلَّ مُمْسِكِ تَلَفاً (اے اللہ ہر راہ خدا میں خرچ کرنے والے کو دنیا و آخرت میں اس کا اجر دے اور ہر مسلک اور بخیل کو تلف کر دے ۔) 
    اور جب ماہ شوال کا ہلال طلوع ہوتا ہے تو مومنین کو ندا دی جاتی ہے کہ اپنے انعامات لینے کیلئے چلو اور وہ انعام کی تقسیم کا دن ہوتا ہے ۔ پھر حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ مگر اس ذات کی قسم جسکے قبضہ قدرت میں میری جان ہے کہ وہ انعام دینار اور درہم کی شکل میں نہیں ہوتا ۔

١٨٣٤ - زرارہ نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب عرفات سے واپس ہوئے اور منیٰ  کی طرف چلے اور مسجد میں داخل ہوئے تو آپ کے پاس لوگ شب قدر معلوم کرنے کیلئے جمع ہو گئے چنانچہ آپ خطبہ دینے کیلئے کھڑے ہوئے اور حمد و ثنائے الہیٰ کے بعد ارشاد فرمایا امّا بعد تم لوگوں نے مجھ سے شب قدر کے متعلق سوال کیا ہے اور میں نے اس کو تم سے اس لئے نہیں چھپایا ہے کہ میں اس کو نہیں جانتا (بلکہ یہ کسی مصلحت کی بنا پر کیا ہے) ایھا الناس اب یہ جان لو کہ جسکے لئے ماہ رمضان وارد ہو اور وہ صحیح و سلامت ہو اور دن کو روزہ رکھے اور شب کو عبادت اور ادو وظائف میں مشغول ہو ، نماز کی پابندی کرے ، نماز جمعہ کے لئے جائے اور نماز عید کے لئے نکلے تو سمجھ لو کہ اس نے شب قدر کو پالیا اسکو رب کی طرف سے انعام مل گیا ۔

١٨٣٥ -  حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ ان لوگوں نے خدا کی قسم انعام پالیا اور لیکن یہ عام بندوں کی طرح کا انعام نہیں ہے ۔

١٨٣٦ - حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے جابر سے ارشاد فرمایا اے جابر جس شخص کیلئے یہ ماہ رمضان وارد ہو اور وہ دن کو روزہ رکھے اور شب کو اورادو وظائف میں مشغول رہے اور اپنی شرمگاہ اور اپنی زبان کی حفاظت کرے (بری باتوں سے) چشم پوشی کرے اور ایذا رسانی سے باز رہے تو وہ گناہوں سے اس طرح نکل جائے گا جیسے وہ اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے ۔ جابر نے عرض کیا میں آپ پر قربان یہ حدیث کتنی اچھی ہے ۔ آپ نے فرمایا (لیکن) اس میں کتنی شدید شرط ہے ۔ 

١٨٣٧ - حضرت علی علیہ السلام کا بیان ہے کہ جب ماہ رمضان آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خطبہ کیلئے کھڑے ہوئے پہلے حمد و ثنائے الہیٰ  بجا لاتے پھر فرمایا ایھا الناس اللہ نے تم لوگوں کو جنوں اور انسانوں میں سے جو تمہارے دشمن ہیں ان سے بچایا اور فرمایا ادعونی استجب لكم (مجھ سے دعا کرو میں قبول کروں گا) یہ کہہ کر قبولیت دعا کا وعدہ کیا ۔ آگاہ رہو اللہ تعالیٰ نے ہر شیطان سرکش پر ستر ملائکہ تعینات کر دیتے ہیں وہ اس کو نہیں چھوڑیں گے جب تک کہ یہ تمہارا مہینہ نہ ختم ہو جائے ، آگاہ رہو اول شب سے ہی آسمانوں کے دروازے کھول دیئے گئے ہیں اس میں دعائیں قبول ہونگی ۔ 

١٨٣٨ - محمد بن مروان نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ ماہ رمضان کی ہر شب میں اللہ تعالیٰ کے کچھ آزاد کردہ بندے ہوتے ہیں سوائے ان کے جو کسی نشہ آورچیز سے افطار کریں اور جب آخری رات آتی ہے تو اس میں اتنے بندے (جہنم سے) آزاد کئے جاتے ہیں جتنے ماہ رمضان کی تمام شبوں میں آزاد کئے گئے تھے ۔ 

۱۸۳۹ - اور عمر بن یزید کی روایت ہے سوائے اس کے جو کسی نشے کی چیز یا کسی بدعت یا شاہین یعنی شطرنج پر افطار کرے ۔ 

١٨٤٠ - اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ دستور تھا کہ جب ماہ رمضان آتا تو ہر قیدی کو آزاد کر دیتے اور ہر سائل کو عطا فرمایا کرتے تھے ۔

١٨٤١ - اور ہشام بن حکم نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ جسکی مغفرت ماہ رمضان میں نہیں کی گئی اس کی آئیندہ اس وقت تک نہیں کی جائے گی جب تک وہ عرفات میں نہ پہنچے ۔ 

١٨٤٢ - اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام اپنی اولاد کو ہدایت فرماتے کہ جب ماہ رمضان آئے تو تم لوگ خود کو عبادت میں لگا دو اس لئے کہ اس میں رزق تقسیم کیا جاتا ہے اور اس میں مدت حیات یعنی موت لکھی جاتی ہے اور اس میں حج کیلئے بیت اللہ جانے والے حاجیوں کے نام لکھے جاتے ہیں اور اس میں ایک عبادت کی رات ہے جو ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے ۔

١٨٤٣ - حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ مہینوں کی تعداد اللہ کے نزدیک بارہ ہے جو کتاب خدا میں اس دن سے درج ہے جس دن زمین اور آسمان خلق ہوئے اور اس میں سب سے افضل اور اشرف مہینہ اللہ کا مہینہ ہے اور وہ ماہ رمضان ہے اور ماہ رمضان کے قلب میں لیلتہ القدر (شب قدر) ہے اور قرآن ماہ رمضان کی شب اول میں نازل ہوا لہذا تم قراءت قرآن کے ساتھ اس مہینہ کا استقبال کرو ۔
                  اس کتاب کے مصنف علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ نزول قرآن کی تکمیل شب قدر میں ہوئی ۔

١٨٤٤ - سلیمان بن داؤد منقری نے حفص بن غیاث نخعی سے روایت کی ہے اس کا بیان ہے کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کو فرماتے ہوئے سنا کہ " ماہ رمضان کا روزہ ہم لوگوں سے پہلے اور کسی امت پر فرض نہیں ہوا ۔ میں نے عرض کیا کہ مگر اللہ تعالیٰ کا تو یہ ارشاد ہے کہ يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ كُتِبَ عَلَيْكُمُ ٱلصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى ٱلَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ سوره بقره آیت نمبر ۱۸۳ (اے اہل ایمان تم لوگوں پر روزہ فرض کیا گیا ہے جس طرح ان لوگوں پر فرض کیا گیا تھا جو تم لوگوں سے پہلے تھے) آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ماہ رمضان کا روزہ انبیاء پر فرض کیا تھا انکی امتوں پر نہیں اور یہ شرف اللہ نے اس امت کو دیا کہ ماہ رمضان کا روزہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اور انکی امت پر فرض کیا ۔ 
            اور یہ تمام احادیث جو میں نے اس مضمون کی یہاں پیش کی ہیں انہیں اپنی کتاب فضائل ماہ رمضان میں تحریرکر دیا ہے ۔