باب : ماہ رمضان کے روزوں کی قضا
حدیث ١٩٩٥ - ٢٠٠٧
١٩٩٥ - عقبہ بن خالد نے حضرت امام جعفر علیہ السلام سے روایت کی ہے ایک ایسے شخص کے متعلق جو ماہ رمضان میں بیمار پڑا رہا اور جب صحت یاب ہوا تو حج کو چلا گیا اب وہ کیا کرے ؟ آپ نے فرمایا جب حج سے واپس ہو تو روزوں کی قضا بجا لائے ۔
١٩٩٦ - عبدالرحمن بن ابی عبداللہ نے آنجناب علیہ السلام سے ذی الحجہ کے مہینہ میں ماہ رمضان کے روزوں کی قضا بلا تسلسل رکھنے کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ اس کی قضا ماہ ذی الحجہ میں کرو اور اگر چاہو تو بلا تسلسل رکھ لو ۔
١٩٩٧ - حلبی نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ اگر کسی شخص پر ماہ رمضان کے روزوں میں سے کچھ قضا باقی ہو تو جس مہینہ میں چاہے اسکی قضا مسلسل دنوں میں رکھے اور اگر مسلسل نہ رکھ سکتا ہو تو جیسے چاہے رکھے دنوں کا شمار کر کے متفرق رکھے تو بھی بہتر ہے اور مسلسل رکھے تو بھی بہتر ہے ۔
١٩٩٨ - سلیمان بن جعفر جعفری نے حضرت ابو الحسن امام رضا علیہ السلام سے ایک ایسے شخص کے متعلق دریافت کیا جس پر ماہ رمضان کے چند دنوں کے روزے قضا ہیں کیا وہ ان کو متفرق طور پر رکھے ؟ آپ نے فرمایا اگر ماہ رمضان کے قضا روزے متفرق طور پر رکھے تو کوئی ہرج نہیں ہے اور جو روزے متفرق طور پر نہیں رکھ سکتے وہ کفارہ ظہار و کفارہ قتل و کفارہ حلف ہیں ۔
۱۹۹۹ - جمیل نے زرارہ سے انہوں نے حضرت امام محمد باقرعلیہ السلام سے ایک ایسے شخص کے متعلق روایت کی ہے جو بیمار پڑا ماہ رمضان آیا اور چلا گیا اور اسکی بیماری کا سلسلہ چلتا رہا یہاں تک کہ دوسرا ماہ رمضان بھی آگیا ؟ آپ نے فرمایا کہ وہ پہلے رمضان کے لئے صدقہ نکالے اور دوسرے رمضان کا روزہ رکھے ۔ اور اگر وہ ان دونوں رمضان کے درمیان صحیح ہو گیا تھا مگر اس نے روزہ نہیں رکھا یہاں تک کہ دوسرا رمضان آگیا تو وہ دونوں رمضان کے روزے رکھے گا اور پہلے رمضان کے روزوں کا صدقہ بھی دے گا ۔
۲۰۰۰ - ابن محبوب نے حارث بن محمد سے انہوں نے برید عجلی سے انہوں نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے ایک ایسے شخص کے متعلق دریافت کیا جو ایک دن ماہ رمضان کا قضا روزہ رکھے ہوئے تھا کہ اس میں اس نے اپنی زوجہ سے مجامعت کر لی ۔ آپ نے فرمایا اگر اس نے یہ مجامعت قبل زوال کی ہے تو اس پر کچھ نہیں ہے اور اگر اس نے یہ مجامعت بعد زوال کی ہے تو وہ دس مسکینوں کو فی مسکین ایک مد تصدق کرے اور اگر اسکی قدرت نہیں رکھتا تو اس دن کے بدلے ایک دن روزہ رکھے اور اپنے کئے کے کفارہ میں تین دن اور روزہ رکھے ۔
اور یہ بھی روایت کی گئی ہے کہ اگر اس نے قبل زوال روزہ توڑ لیا تو اس پر کچھ نہیں ہے اور اگر اس نے بعد زوال
روزہ توڑا ہے تو اس پر وہی کفارہ لازم ہو گا جو ماہ رمضان میں ایک روزہ توڑنے پر لازم آتا ہے ۔
٢٠٠١ - سماعہ نے ابی بصیر سے روایت کی ہے اس کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایک ایسی عورت کے متعلق دریافت کیا جو ماہ رمضان کا قضا روزہ رکھے ہوئے تھی کہ اس کے شوہر نے اس پر روزہ توڑنے کے لئے زبردستی کی آپ نے فرمایا اگر اسکے شوہر نے بعد زوال آفتاب زبردستی کی ہے تو وہ اس کا سزاوار نہ تھا ۔
٢٠٠٢ - سماعہ نے آنجناب کے اس قول کے متعلق دریافت کیا کہ روزہ دار کو زوال آفتاب تک اختیار ہے تو آپ نے فرمایا کہ یہ واجب روزہ کے لئے ہے اور مستحب روزے کے لئے اسے غروب آفتاب تک اختیار ہے جب چاہے روزہ توڑ دے ۔
۲۰۰۳ - ابن فضال نے صالح بن عبداللہ خشعمی سے روایت کی ہے اسکا بیان ہے کہ میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے عرض کیا کہ ایک شخص نے روزہ کی نیت کرلی تھی کہ اسکا برادر مومن آیا اور اس نے اس سے روزہ افطار کرنے کی درخواست کی تو کیا وہ افطار کرلے ، آپ نے فرمایا اگر وہ مستحب روزہ تھا تو اسکے لئے افطار جائز اور مناسب ہے اور اگر یہ فرض روزہ کی قضا ہے تو وہ اس روزہ کو پورا کرے گا ۔ اور جب کوئی شخص صبح کرے اور اسکی روزہ رکھنے کی نیت نہ ہو پھریک بیک اسکا ارادہ ہو جائے تو وہ روزہ رکھ سکتا ہے ۔
٢٠٠٤ - اور آنجناب علیہ السلام سے ایک مستحب روزہ رکھنے والے کے لئے دریافت کیا گیا جسے کوئی ضرورت پیش آگئی تو آپ نے فرمایا کہ اسکو عصر تک اختیار ہے اور اگر وہ عصر تک ٹہرا رہا پھر اسکے جی میں آیا کہ روزہ رکھ لے مگر ابھی تک روزہ کی
نیت نہیں کی تھی تو اس کو اختیار ہے اگر چاہے تو اس دن کا روزہ رکھ لے ۔
اور جب کوئی عورت ابھی دن کا کوئی حصہ باقی ہے کہ حیض سے پاک ہو جائے تو وہ تادیباً دن کے بقیہ حصہ میں روزہ رکھے اور اس پر اس دن کے روزے کی قضا (لازم) ہے ۔
اور اگر ابھی دن کا کچھ حصہ باقی ہے کہ اس کو حیض آگیا تو وہ افطار کرلے اور اس پر اس دن کی قضا لازم ہے ۔
اور اگر کسی شخص پر پے در پے دو مہینے کے روزے واجب ہیں اور اس نے ایک مہینہ روزہ رکھ لیے اور ابھی دوسرے مہینہ کا ایک دن بھی روزہ نہیں رکھا تھا تو اس کے لئے ایک مہینہ کے روزے کافی نہیں وہ از سر نو روزہ رکھے گا لیکن یہ کہ اس نے بیماری کی وجہ سے روزہ توڑ لیا ہو ۔ تو ایسی صورت میں جہاں سے چھوڑا تھا وہیں سے روزہ رکھے اس لئے کہ یہ رکاوٹ اللہ کی طرف سے تھی اور اگر اس نے ایک ماہ روزے رکھ کر دوسرے ماہ کے بھی چند دن روزے رکھ لئے ہیں اور پھر روزہ کا سلسلہ توڑا ہے تو جہاں سے چھوڑا ہے وہیں سے روزہ شروع کرے ۔
۲۰۰۵ - موسی بن بکر نے فضیل سے انہوں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ نے ایک ایسے شخص کے متعلق فرمایا جس پر ایک ماہ کا روزہ واجب تھا اس نے پندرہ دن روزے رکھ لئے اور اب اس کو کوئی امر پیش آگیا ؟ تو آپ نے فرمایا اگر اس نے پندرہ روزے رکھ لئے ہیں تو بقیہ کو وہ پورا کرے گا اور اگر پندرہ دن سے کم رکھے ہیں تو پھر سے پورے مہینہ کے روزے رکھے گا ۔
٢٠٠٦ - منصور بن حازم نے آنجناب علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ نے ایک ایسے شخص کے متعلق فرمایا کہ جس نے ماہ شعبان میں کفارہ ظہار رکھنا شروع کیا پھر ماہ رمضان آگیا آپ نے فرمایا کہ وہ ماہ رمضان کے روزے رکھے گا اور پھرسے کفارہ ظہار کے روزے شروع کرے گا اور اگر وہ نصف سے زیادہ روزے رکھ چکا تھا تو بقیہ کو پورا کرے گا ۔
٢٠٠٧ - ابن محبوب نے ابی ایوب سے اور انہوں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے ایک شخص کے ذمہ دو مہینے کے پے در پے مسلسل کفارہ ظہار کے روزے ہیں تو اس نے ذی القعدہ میں روزے رکھے اور ذی الحجہ شروع ہو گیا آپ نے فرمایا کہ وہ پورے ذی الحجہ میں روزے رکھے گا سوائے ایام تشریق کے پھر وہ پہلی محرم سے تین دن روزے رکھ کر اسے پورا کرے گا تو اس کے دو مہینے کے پے در پے اور مسلسل روزے پورے ہو جائیں گے ۔ نیز فرمایا کہ اس کے لئے جائز نہیں جب تک ایام تشریق کے تین دن کے روزوں کی قضا محرم کی پہلی سے نہ رکھ لے اپنی زوجہ سے مقاربت کرے ۔ اور اس میں کوئی ہرج نہیں اگر کوئی شخص ایک مہینہ روزہ رکھ کر اس سے متصل دوسرے مہینہ کے چند دن روزہ رکھ لے پھر کسی سبب سے تسلسل منقطع کرنا پڑے پھر پورے بقیہ روزے رکھکر دو مہینے پورے کرے ۔