Skip to main content

باب : ماہ رمضان کی شبہائے مخصوصہ میں غسل اور عشرہ آخر و شب قدر کے متعلق احادیث

حدیث ٢٠١٥ - ٢٠٣١

٢٠١٥ - علاء نے محمد بن مسلم سے انہوں نے ان دونوں ائمہ علیہم السلام میں سے کسی ایک سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ ماہ رمضان کی تین شبوں میں غسل کیا جائے ۔ انسیویں کی شب ، اکسیویں کی شب اور تیئسیویں کی شب ۔ انسیویں کو حضرت امیر المومنین علیہ السلام زخمی ہوئے اور اکسیویں کو آپ نے رحلت فرمائی ۔ نیز فرمایا کہ غسل اول شب میں ہو جو آخر شب تک کیلئے کافی ہوگا ۔

٢٠١٦ - اور یہ روایت بھی کی گئی کہ ستائیسویں کی شب کو غسل کرنا چاہیئے ۔

٢٠١٧ - اور زرارہ اور فضیل نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کی ہے آپ نے فرمایا کہ ماہ رمضان میں غسل غروب آفتاب سے ذرا قبل ہونا چاہیئے پھر مغرب کی نماز پڑھے اور افطار کرے ۔

٢٠١٨ - سماعہ نے ابی بصیر سے اور انہوں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے آپ نے فرمایا کہ جب ماه رمضان کا آخری عشرہ آتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کمر بستہ ہوتے، عورتوں سے پر ہیز کرتے، شب بیداریاں کرتے اور عبادت کیلئے ہر کام سے خود کو فارغ کر لیتے ۔ 

٢٠١٩ - اور سلیمان جعفری نے حضرت ابو الحسن علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ ماہ رمضان کی اکیسویں کی شب اور تیئسیویں کی شب سو (١٠٠) رکعت نماز پڑھو ہر رکعت میں ایک مرتبہ سورہ الحمد اور دس مرتبہ سورہ قل ھو اللہ احد پڑھو ۔

٢٠٢٠ - حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ باہ رمضان کی انیسویں کی شب میں قدر (تخمینہ) کیا جاتا ہے اکسیویں کی شب میں قضا (فیصلہ) کیا جاتا ہے اور تیئیسویں کی شب اسکو ابرام (قطعی) کر دیا جاتا ہے کہ سال بھر میں کیا ہوتا ہے اور اس کے مثل اور باتیں بھی ، ویسے اللہ تعالیٰ (قادر ہے) اپنی مخلوق کیلئے جو چاہتا ہے کرتا ہے ۔

٢٠٢١ - رفاعہ نے ان ہی جناب علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ سال کی سب سے پہلی شب اور آخری شب (شب عید الفطر) شب قدر ہے ۔

۲۰۲۲ - ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خواب میں دیکھا کہ میرے بعد میرے منبر پر بنی امیہ اچک رہے ہیں اور لوگوں کو زبردستی سیدھے راستے سے گمراہ کر رہے ہیں تو صبح کو بہت مخزون و مغموم اٹھے اتنے میں حضرت جبرئیل نازل ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ کیا بات ہے کہ میں آپ کو مخزون و مغموم پا رہا ہوں ؟ آپ نے فرمایا کہ اے جبرئیل میں نے آج کی شب خواب میں دیکھا کہ میرے بعد بنی امیہ میرے منبر پر اچکیں گے اور لوگوں کو جبراً راہ حق سے گمراہ کریں گے ۔ حضرت جبرئیل نے کہا اس ذات کی قسم جس نے حق کے ساتھ آپ کو نبی بنا کر بھیجا ہے یہ ایسی بات ہے کہ جسکی مجھ کو اطلاع نہیں ۔ پھر وہ آسمان کی طرف پرواز کر گئے اور یہ آیت لیکر نازل ہوئے أَفَرَءَيْتَ إِن مَّتَّعْنَـٰهُمْ سِنِينَ ثُمَّ جَآءَهُم مَّا كَانُوا۟ يُوعَدُونَ مَآ أَغْنَىٰ عَنْهُم مَّا كَانُوا۟ يُمَتَّعُونَ (کیا تم نے غور کیا کہ اگر ہم انکو سالہا سال چین کرنے دیں اس کے بعد جس عذاب کا ان سے وعدہ کیا جاتا ہے ان کے پاس آپہنچے تو جن چیزوں سے یہ چین و آرام کیا کرتے تھے ان میں سے کچھ بھی تو کام نہ آئے گا) (سورہ شعرا آیت ۲۰۵ تا ۲۰۷) ان پر نازل کیا اإِنَّآ أَنزَلْنَـٰهُ فِى لَيْلَةِ ٱلْقَدْرِوَمَآ أَدْرَىٰكَ مَا لَيْلَةُ ٱلْقَدْرِلَيْلَةُ ٱلْقَدْرِ خَيْرٌۭ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍۢ پس اپنے نبی کیلئے لیلتہ القدر کو بنی امیہ کی ایک ہزار مہینے کی حکومت سے بہتر قرار دیا ۔ 

۲۰۲۳ - ایک شخص نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے دریافت کیا مجھے بتائیں کہ شب قدر آچکی یا ہر سال آتی ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ اگر شب قدر اٹھالی جائے تو پھر قرآن ہی اٹھا لیا جائیگا ۔

٢٠٢٤ - حمران نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ  کے قول إِنَّآ أَنزَلْنَـٰهُ فِى لَيْلَةٍۢ مُّبَـٰرَكَةٍ ۚ (سوره دخان ۳) کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا یہ شب قدر ہے اور ہر سال ماہ رمضان کے عشرہ آخر میں آتی ہے اور قرآن صرف شب قدر ہی میں نازل ہوا ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ (سوره دخان آیت نمبر ۴) ۔ (اسی رات کو تمام دنیا کے حکمت و مصلحت کے سال بھر کے کام فیصل کئے جاتے ہیں) آپ نے فرمایا شب قدر میں وہ تمام امور جو سال آئیندہ تک ہونے والے ہیں طے کئے جاتے ہیں خواہ اچھے ہوں یا اطاعت کے ہوں یا معصیت کے پیدائش کے ہوں یا موت کے یا رزق و روزی کے ۔ اور اس رات میں جو کچھ طے یا فیصل کیا جاتا ہے وہ حتمی ہوتا ہے مگر اللہ کی اس میں پھر بھی مشیت ہے (کہ اسکو حتمی رکھے یا نہ رکھے) راوی کا بیان ہے کہ میں نے عرض کیا کہ لَيْلَةُ ٱلْقَدْرِ خَيْرٌۭ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍۢ (شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے) اس سے کیا مراد ہے ؟ آپ نے فرمایا اس سے شب قدر میں عمل صالح مراد ہے اور اگر اللہ تعالیٰ اس میں مومنین کیلئے انکے ثواب کو کئی گنا نہ کرتا تو وہ اپنے درجات کو نہ پہنچتے اس لئے اللہ تعالیٰ ان کی نیکیوں کو کئی گنا بڑھا دیتا ہے ۔ 

٢٠٢٥ - اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے دریافت کیا گیا کہ شب قدر ایک ہزار مہینوں سے کیونکر بہتر ہوتی ہے تو آپ نے فرمایا اسکا ایک عمل نیک ایسے ایک ہزار مہینوں کے عمل سے بہتر ہے جس میں شب قدر کا شمار نہ ہو ۔ 

٢٠٢٦ - علی بن حمزہ نے ابی بصیر سے اور انہوں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ توریت ساتویں رمضان گزر کر نازل ہوئی ، انجیل بارہ رمضان گزر کر نازل ہوئی اور زبور اٹھارہ رمضان کی شب کو نازل ہوئی اور قرآن شب قدر میں نازل ہوا ۔

۲۰۲۷ - علاء نے محمد بن مسلم سے اور انہوں نے ان دونوں ائمہ علیہما السلام میں کسی ایک سے روایت کی ہے اس کا بیان ہے کہ میں نے آنجناب سے شب قدر کی پہچان کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا اس کی علامت یہ ہے کہ اس شب کی ہوا پاک وطیب ہوتی اگر موسم سرد ہے تو اسکی ہوا میں گرمی ہو گی اور موسم گرم ہے تو اسکی ہوا ٹھنڈی اور پر کیف ہوگی -

٢٠٢٨ - نیز آنجناب علیہ السلام سے شب قدر کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا اس میں ملائکہ اور کاتبین آسمان دنیا کی طرف نازل ہوتے ہیں اور اس سال میں جو امور واقع ہونے والے ہیں اسکو اور بندوں پر جو مصیبت آنے والی ہے اسکو تحریر کر لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کر دیتے ہیں یہ اس کی مشیت پر موقوف ہے جس امر کو چاہے مقدم کرے اور جس کو چاہیے موخر کر دے ، جسکو چاہے مٹا دے اور جو چاہے اسکی جگہ لکھ دے ۔ اور اصل کتاب اس کے پاس ہے ۔ 

٢٠٢٩ - علی بن حمزہ سے روایت کی گئی ہے انکا بیان ہے ایک مرتبہ میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر تھا کہ ابو بصیر نے آپ سے عرض کیا میں آپ پر قربان وہ رات جس میں اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگی جاتی ہیں وہ کون سی رات ہے ؟ آپ نے فرمایا وہ اکسیویں یا تیئیسویں (ماہ رمضان) کی شب ہے ۔ انہوں نے پوچھا اور اگر میں ان دونوں راتوں کو نہ پاسکوں ؟ آپ نے فرمایا ان دونوں راتوں کا تلاش کر لینا بہت آسان ہے ۔ راوی کا بیان ہے کہ میں نے عرض کیا کبھی کبھی ہمارے یہاں رویت ہلال ہوتی ہے تو دوسری جگہ سے کوئی شخص آتا ہے اور وہ اسکے خلاف خبر لاتا ہے ۔ آپ نے فرمایا پھر چار راتیں تلاش کر لینا کس قدر آسان ہے ۔ میں نے عرض کیا میں آپ پر قربان تیئیسویں کی شب تو جہنی کی (تحقیق کے مطابق) ہے آپ نے فرمایا ہاں یہ کہا جاتا ہے ۔ میں نے عرض کیا میں آپ پر قربان سلیمان بن خالد نے روایت کی ہے کہ انسیویں کی شب کو حاجیوں کے نام لکھے جاتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا اے ابو محمد حاجیوں کی فہرست شب قدر میں لکھی جاتی ہے ۔ اور اموات اور آفات اور رزق و روزی اور انکے مانند جتنی خبریں آئیندہ ہونے والی ہیں ان سب کے لئے اکسیویں اور تیئیسویں شبوں میں دعا کیا کرو اور ان دونوں شبوں میں ایک سو رکعت نماز پڑھا کرو ممکن ہو تو صبح کا اجالا ہونے تک جاگا کرو ۔ اور ان دونوں میں غسل کیا کرو ۔ میں نے عرض کیا اگر کھڑے ہو کر سو رکعت پڑھنے کی مجھ میں استطاعت نہ ہو ؟ آپ نے فرمایا پھر بیٹھ کر پڑھو میں نے عرض کیا اگر بیٹھ کر پڑھنے کی بھی استطاعت نہ ہو؟ آپ نے فرمایا پھر اپنے بستر پر لیٹے لیٹے پڑھو میں نے عرض کیا اگر یہ بھی ممکن نہ ہو کہ رات بھر جاگوں ?  فرمایا تمہارے لئے کوئی حرج نہیں اگر ابتدائے شب میں ذرا نیند کی جھپکی لیلو ۔ ماہ رمضان میں آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں شیاطین مقید کر دیئے جاتے ہیں ۔ مومنین کے اعمال قبول کئے جاتے ہیں یہ ماہ رمضان کتنا اچھا مہینہ ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد میں تو اس مہینہ کو ماہ مرزوق کہا جاتا تھا ۔

۲۰۳۰ - محمد بن حمران نے سفیان بن سمط سے روایت کی ہے انکا بیان ہے کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے عرض کیا ماہ رمضان میں وہ کون سی راتیں ہیں جن میں (شب قدر ہونے کی) امید کی جاتی ہے ؟ آپ نے فرمایا انسیویں ، اکسیویں اور تیئسیویں کی شب ۔ میں نے عرض کیا اور انسان کو سستی یا بیماری لاحق ہو جائے تو ان سب میں سب سے معتمد رات کون سی ہے ؟ فرمایا تیئیسویں کی رات ۔

٢٠٣١ - عبداللہ بن بکیر کی روایت میں ہے جو انہوں نے زرارہ سے اور انہوں نے ان دونوں ائمہ علیہما السلام میں کسی ایک سے کی ہے انکا بیان ہے کہ میں نے آنجناب سے ماہ رمضان کی ان راتوں کے متعلق دریافت کیا جن میں غسل مستحب ہے تو آپ نے فرمایا انیسویں کی شب اکسیویں کی شب اور تیئسیویں کی شب اور کہا کہ تیئسیویں کی شب جہنی کی شب ہے ۔ اور اسکی روایت یہ ہے کہ ایک مرتبہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا کہ میرا گھر مدینہ سے دور ہے مجھے کسی ایک رات کا حکم دیں کہ مدینہ آؤں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں تیئسیویں کی شب کا حکم دیا ۔
            اس کتاب کے مصنف علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ جہنی کا نام عبد اللہ بن انیس انصاری ہے ۔