باب : خراج اور جزیہ
حدیث ١٦٦٧ - ١٦٧٩
١٦٦٧ - مصعب بن یزید انصاری سے روایت کی گئی ہے انہوں نے بیان کیا کہ امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے مجھے مدائن کے چار قریوں یعنی بہِتقباذات (اعلی و اوسط واسفل) اور بَہْرَ سِیر اور نہر جَوْبَر اور نہر الملک پر عامل مقرر فرمایا اور مجھے حکم دیا کافران ذمی پر جزیہ اور خراج مقرر کرنا گھنی کھیتی پر فی جریب ڈیڑھ درھم اور اوسط کھیتی پرفی جریب ایک درہم اور ہلکی کھیتی پر فی جریب دو ثلث (۲/۳) درہم اور انگور کی کاشت پر فی جریب دس (١٠) درہم اور کھجور کی کاشت پر فی جریب دس (١٠) درہم اور وہ باغات کہ جن میں کھجور اور دوسرے درخت بھی ہیں فی جریب دس (١٠) درہم اور مجھے حکم دیا کہ کھجور کے ان درختوں کو جو شاذ و نادر قریہ سے باہر ہیں راہگیروں اور مسافروں کے لئے چھوڑ دوں ان پر کوئی مالگزاری نہ لوں ۔
اور مجھے حکم دیا کہ میں ان کسانوں اور کاشتکاروں پر جو براذین (عراقی گھوڑوں) پر سواری کرتے اور سونے کی انگوٹھیاں پہنتے ہیں جزیہ فی کس اڑتالیس (٤٨) درہم اور اوسط درجے کے تاجروں پر فی کس چو بیس (٢٤) درہم اور نچلے طبقے کے لوگوں اور فقیروں سے فی کس بارہ (١٢) درہم وصول کروں ۔ راوی کا بیان ہے کہ میں نے ایسا ہی کیا تو ایک سال میں اٹھارہ لاکھ درہم وصول ہوئے ۔
١٦٦٨ - فضیل بن عثمان اعور نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ ہر پیدا ہونے والا بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو فطرت (توحید اسلام) پر ہی ہوتا ہے مگر اسکے ماں باپ اسکو یہودی و نصرانی اور مجوسی بنا دیتے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو انکی ذمہ داری لی اور ان سے جزیہ وصول کرنا قبول فرمایا تو ان کے رؤسا اور سربرآوردہ لوگوں سے یہ اقرار لے لیا کہ وہ آئیندہ اپنی اولاد کو یہودی اور نصرانی نہیں بنائیں گے مگر آجکل کافران ذمی کی اولاد ذمی نہیں ہے ۔
١٦٦٩ - اور علی بن رتاب کی روایت میں ہے کہ انہوں زرارہ سے اور انہوں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اہل ذمہ کا جزیہ اس عہد و پیمان پر قبول فرمایا کہ آئیندہ وہ لوگ نہ سود کھائیں گے اور نہ سور کا گوشت کھائیں گے اور نہ اپنی بہنوں اور بھتیجیوں اور بھانجیوں سے نکاح کریں گے اور جو ایسا کرے گا اس سے اللہ اور اس کا رسول بری الذمہ ہوگا نیز فرمایا مگر آجکل ان کیلئے کوئی ذمہ داری نہیں ہے ۔
١٦٧٠ - حریز نے زرارہ سے روایت کی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ اہل کتاب پر جزیہ کی حد کیا ہے اور کیا ان کیلئے کوئی ایسی طے شدہ بات ہے کہ اس کو چھوڑ کر کچھ اور نہیں کیا جا سکتا ؟ آپ نے فرمایا کہ یہ امام کی صوابدید پر ہے کہ ان کے اموال اور انکی طاقت کو دیکھتے ہوئے ان میں سے ہر ایک سے جو چاہے وصول کرے یہ لوگ وہ قوم ہیں جنہوں نے اپنے نفوس کا فدیہ دیا ہے کہ اب نہ وہ غلام بنائے جائیں گے اور نہ قتل کئے جائیں گئے ۔ پس جزیہ ان لوگوں سے بقدر استطاعت اس وقت تک ہے کہ جب تک وہ اسلام نہ لائیں چنانچہ اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے حَتَّىٰ يُعْطُوا۟ ٱلْجِزْيَةَ عَن يَدٍۢ وَهُمْ صَـٰغِرُونَ (یہاں تک کہ وہ ذلیل ہو کر اپنے ہاتھ سے جزیہ ادا کریں) (سورہ توبه آیت نمبر ٢٩) اور یہ جزیہ جو ان سے لیا جائے اسکی پرواہ نہ کریں بالاخر وہ اس میں ذلت محسوس کریں اور دیتے دیتے تھک جائیں اور اسلام قبول کر لیں ۔
١٦٧١ - اور محمد بن مسلم کا بیان ہے کہ میں نے ایک مرتبہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے عرض کیا کہ کیا آپ نے دیکھا کہ یہ لوگ کفار سے جزیہ کی زمینوں پر جزیہ کو ہٹا کر ( دوگنی زکوٰۃ) یعنی خمس وصول کر رہے ہیں اور پھر وہ قانون سے ان کے افراد کا جزیہ بھی لے رہے ہیں کیا ان لوگوں سے وصولی کیلئے کوئی چیز مقرر نہیں ؟ آپ نے فرمایا کہ ان لوگوں نے خود اپنی ذات کیلئے یہ منظور کر لیا ہے لیکن امام کیلئے یہ جائز نہیں ہے کہ ان سے جزیہ سے زائد کچھ لے ۔ اگر امام چاہے تو ان پر فی نفر کچھ رکھ لے مگر پھر ان کے اموال پر کچھ نہیں لیگا اور اگر چاہے تو ان کے اموال پر کچھ مقرر کر دے پھر ان کے نفوس پر فی کس کچھ نہ لے گا ۔ میں نے عرض کیا یہ خمس ؟ آپ نے فرمایا یہ وہ چیز ہے کہ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان لوگوں سے صلح کر لی تھی ۔
١٦٧٢ - محمد بن مسلم نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کی کہ آپ سے دریافت کیا گیا کیا اہل جزیہ سے جزیہ
کے علاوہ ان کے اموال اور مویشیوں پر کچھ اور بھی لیا جائے گا ؟ آپ نے فرمایا کہ نہیں ۔
١٦٧٣ - نیز محمد بن مسلم کا بیان ہے کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے اہل ذمہ کے صدقات کے متعلق اور ان کی شراب اور سور کے گوشت اور مردار کی قیمتوں میں سے جو جزیہ لیا جائیگا اسکے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ انکے اموال میں ان سے جزیہ لیا جائیگا اور سور کے گوشت کی اور شراب کی قیمتوں ہی میں سے لیا جائے گا ۔ اور جب ان سے لیا جائیگا تو اس کا عذاب ان ہی لوگوں کی گردن پر ہوگا اور مسلمانوں کیلئے اسکی قیمت حلال ہو گی جو ان سے بطور جزیہ وصول کی جائے گی ۔
١٦٧٤ - طلحه بن زید نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ یہ ایک سنت جاریہ ہے کہ جو شخص اپنے ہوش و حواس میں نہ ہو اور جس کی عقل میں فتور ہو اس سے جزیہ وصول نہیں کیا جائیگا ۔
١٦٧٥ - اور حفص بن غیاث کا بیان ہے کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے دریافت کیا کہ عورتوں سے جزیہ کیسے ساقط ہو گیا ؟ اور کیسے ان سے یہ جزیہ اٹھا لیا گیا ؟ آپ نے فرمایا اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دار الحرب میں بھی عورتوں اور بچوں کے قتل کو منع فرمایا ہے سوائے اس موقع سے کہ جب وہ خود قتال کر رہی ہوں اور اگر وه قتال کر رہی ہوں تو انکے قتل سے اگر تمہیں خلل کا خوف نہ ہو تو حتی الامکان ہاتھ روکو ۔ تو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دار الحرب میں انکے قتل کو منع کیا ہے تو دار السلام میں تو بدرجہ اولیٰ منع ہے ۔ پھر اگر وہ جزیہ دینے سے انکار کریں تو ان کا قتل ممکن نہیں ہے اور جب ان کا قتل ممکن نہیں تو ان پر سے جزیہ بھی اٹھالیا گیا اور اگر مرد منع کریں اور جزیہ دینے سے انکار کریں تو وہ عہد شکنی کے مرتکب ہونگے اور ان کا خون اور ان کا قتل مباح ہو گا اس لئے کہ دار شرک اور دار ذمہ میں مردوں کا قتل مباح ہے ۔ اور اسی طرح دار الحرب میں اہل شرک اور اہل ذمہ میں سے جو لوگ اپاہچ ہیں نابینا ہیں اور بہت بوڑھے ہیں ان کا بھی قتل منع ہے اس بنا پر ان سے جزیہ اٹھالیا گیا ہے ۔
١٦٧٦ - ابن مسکان نے حلبی سے روایت کی ہے اس کا بیان ہے کہ ایک شخص نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے دریافت کیا کہ کیا اعراب ( بدوؤں) پر جہاد ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ ان پر جہاد نہیں مگر یہ کہ جب اسلام پر کوئی خطرہ آئے تو ان سے مدد لی جائے - راوی نے دریافت کیا کہ کیا جزیہ میں بھی ان کا کوئی حصہ ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ نہیں ۔
١٦٧٧ - اور محمد بن مسلم نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے دریافت کیا کہ وہ سر زمین جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد فتح ہوئی ہے اس کے ساتھ امام کا سلوک کیا ہوگا ؟ تو آپ نے فرمایا کہ امیرالمومنین علیہ السلام نے اہل عراق کے ساتھ جو سلوک کیا ہے وہی سلوک ہوگا اس لئے کہ وہ تمام روئے زمین کے امام ہیں ۔ نیز فرمایا کہ جزیہ کی سرزمین پر سے جزیہ نہیں اٹھایا جائے گا اس لئے کہ جزیہ مجاہدین کیلئے ایک عطیہ الہی ہے اور صدقات ان لوگوں کیلئے ہیں جو اسکے اہل در مستحق ہیں جسکے اللہ تعالیٰ نے نام بتائے ہیں اور ان کے لئے جزیہ میں سے کچھ نہیں ہے ۔ نیز فرمایا اگر لوگوں کے ساتھ عدل کیا جائے تو عدل میں بڑی وسعت ہے اللہ کے حکم سے آسمان سے رزق نازل ہو گا اور زمین اپنی برکتیں اگل دیگی ۔
١٦٧٨ - اور مجوسیوں سے جزیہ لیا جائے گا اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ان لوگوں کے ساتھ وہی سلوک کرو جو اہل کتاب کے ساتھ کیا جاتا ہے ۔
ان لوگوں کے بھی ایک نبی تھے جن کا نام دامسب تھا جن کو ان لوگوں نے قتل کر دیا اور ان کی ایک کتاب تھی جس کا نام جاماسب تھا جو بارہ ہزار بیلوں کے چھپڑوں پر لکھی ہوئی تھی مگر ان لوگوں نے اسکو نذر آتش کر دیا ۔
١٦٧٩ - اور ابو الورد نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے دریافت کیا کہ ایک مرد مسلمان کا ایک نصرانی غلام ہے کیا اس پر جزیہ ہو گا آپ نے فرمایا ہاں ۔ اس نے عرض کیا کہ اس طرح تو ایک مسلمان اپنے غلام نصرانی کی طرف سے جزیہ ادا کرے گا آپ نے فرمایا ہاں اس لئے کہ وہ غلام اس کی ملکیت ہے اگر وہ کسی جرم میں ماخود ہو گا تو مالک ہی اس کی طرف سے تاوان اور جرمانہ ادا کرے گا ۔