باب : وہ وقت جب روزہ دار پر کھانا پینا حرام ہو جاتا ہے اور نماز صبح پڑھنا جائز ہوتا ہے
حدیث ١٩٣٤ - ١٩٤٠
١٩٣٤ - عاصم بن حمید نے ابی بصیر لیث مرادی سے روایت کی ہے اسکا بیان ہے کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے دریافت کیا کہ روزہ دار پر کھانا پینا کس وقت سے حرام ہو جاتا ہے اور نماز فجر پڑھنا جائز ہوتا ہے؟ تو آپ نے فرمایا جب فجر جو ایک سفید چادر کے مانند ہوتی ہے ظاہر ہو جائے تو اس وقت سے روزہ دار پر کھانا پینا حرام ہو جاتا ہے اور اسکے لئے نماز فجر پڑھنا جائز ہوتا ہے میں نے عرض کیا ہم لوگوں کے لئے طلوع آفتاب تک نماز فجر کے لئے وقت نہیں ؟ آپ نے فرمایا ارے تم کہاں جا رہے ہو وہ تو بچوں کے لئے وقت ہے ۔
١٩٣٥ - ابو بصیر نے ان دونوں ائمہ میں سے کسی ایک سے روایت کی ہے مندرجہ قول خدا کے متعلق کہ كُلُوا۟ وَٱشْرَبُوا۟ حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكُمُ ٱلْخَيْطُ ٱلْأَبْيَضُ مِنَ ٱلْخَيْطِ ٱلْأَسْوَدِ مِنَ ٱلْفَجْرِ ۖ ( سوره بقره ١٨٧) (اور کھاؤ پیو یہاں تک کہ صبح کی سفید دھاری رات کی کالی دھاری سے الگ نمایاں ہو جائے) تو آپ نے فرمایا کہ یہ آیت خوات بن جبیر انصاری کے متعلق نازل ہوئی ۔ وہ خندق میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے اور روزے سے تھے یہاں تک کہ اسی حال میں شام ہو گئی اور اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے یہ حکم تھا کہ اگر کوئی شخص رات کو سو جائے تو پھر اس پر کھانا پینا حرام تھا ۔ چنانچہ جب شام ہو گئی تو اپنے گھر آئے اور بیوی سے پوچھا تمہارے پاس کچھ کھانے کو ہے؟ انہوں نے جواب دیا سونا نہیں ہم تمہارے لئے کھانا تیار کرتے ہیں چنانچہ انہوں نے تکیہ لگایا تو نیند آگئی ۔ بیوی نے کہا ہم نے کھانا تیار کر دیا انہوں نے کہا اچھا (مگرکھایا نہیں) اور اسی حالت میں صبح ہو گئی تو پھر خندق کھودنے میں لگ گئے ۔ مگر اب ان کو غش آنے لگے ۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ادھر سے گذرے اور انکا حال دیکھا تو یہ آیت نازل ہوئی ۔ كلو او اشربوا ------ من الفجر)
١٩٣٦ - اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے خيط الابيض من الخيط الاسود من الفجر کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرما یا دن کی سفیدی رات کی سیاہی سے ۔
١٩٣٧ - اور ایک دوسری حدیث میں ہے کہ اس سے مراد وہ فجر ہے جس میں کوئی شک نہ ہو ۔
١٩٣٨ - اور سماعہ بن مہران نے آنجناب علیہ السلام سے ایسے دو شخصوں کے متعلق دریافت کیا کہ دونوں نے کھڑے ہو کر فجر پر نظر ڈالی تو ایک نے کہا کہ یہ فجر ہے دوسرے نے کہا میں تو کچھ نہیں دیکھتا ؟ آپ نے فرمایا وہ شخص جس پر فجر ظاہر نہیں ہوئی ہے ۔ وہ کھائے پیئے اس لئے کہ اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے وَكُلُوا۟ وَٱشْرَبُوا۟ حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكُمُ ٱلْخَيْطُ ٱلْأَبْيَضُ مِنَ ٱلْخَيْطِ ٱلْأَسْوَدِ مِنَ ٱلْفَجْرِ ۖ ثُمَّ أَتِمُّوا۟ ٱلصِّيَامَ إِلَى ٱلَّيْلِ ۚ (سورہ بقرہ ١٨٧) سماعہ کا بیان ہے کہ پھر میں نے ان جناب سے ایک ایسے شخص کے متعلق دریافت کیا کہ جس نے ماہ رمضان میں طلوع فجر کے بعد کھایا پیا آپ نے فرمایا اگر اس نے اٹھ کر دیکھ لیا تھا اور اس کو فجر نظر نہیں آئی تھی اسکے بعد کھایا پھر دوبارہ دیکھا تو فجر نظر آئی تو وہ اپنے روزہ کو پورا کرے اعادہ کی ضرورت نہیں ہے اگر وہ اٹھا پہلے کھایا پیا اسکے بعد فجر پر نظر ڈالی تو دیکھا کہ وہ تو طلوع ہو چکی ہے تو وہ اس روزہ کو بھی پورا کرے اور کسی دوسرے دن اسکی قضا بھی کرے اس لئے کہ اس نے اٹھنے کے بعد فجر دیکھنے سے پہلے کھانا ہی شروع کر دیا اس لئے اس پر اسکی قضا لازم ہے ۔
١٩٣٩ - صفوان بن یحییٰ نے عیص بن قاسم سے روایت کی ہے اس کا بیان ہے کہ میں نے ایک مرتبہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایک ایسے شخص کے متعلق دریافت کیا جو اپنے گھر کے اندر سے نکلا جبکہ اس کے اصحاب گھر میں سحری کھا رہے تھے تو اس نے فجر کو دیکھا اور آواز دی کہ فجر طالع ہو گئی ہے تو چند لوگوں نے کھانے سے ہاتھ روک لیا ۔ اور چند لوگوں کا گمان ہوا کہ یہ مزاح کر رہا ہے وہ کھانے میں مصروف رہے ۔ آپ نے فرمایا کہ یہ لوگ اس روزے کو تمام بھی کریں گے اور اسکی قضا بھی رکھیں گے ۔
١٩٤٠ - محمد بن ابی عمیر نے معاویہ بن عمار سے روایت کی ہے اسکا بیان ہے کہ ایک مرتبہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے عرض کیا کہ میں کنیز کو حکم دیتا ہوں کہ ذرا فجر کو دیکھ وہ کہتی ہے کہ ابھی فجر طالع نہیں ہوئی تو کھاتا ہوں پھر خود دیکھتا ہوں تو فجر کو طلوع پاتا ہوں، تو آپ نے فرمایا کہ تم اس کی قضاء رکھو گے لیکن اگر تم خود دیکھ لیتے (اور تمہیں فجر نظر نہ آتی) تو تم پر کچھ عائد نہ ہوتا ۔