Skip to main content

باب : متفرق دنوں میں مستحب روزے اور انکا ثواب

حدیث ١٨٠٠ - ١٨١٩

١٨٠٠ - محمد بن مسلم اور زرارہ بن اعین نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے یوم عاشورہ کے روزے کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا اس دن کا روزہ رمضان کے روزوں کے حکم سے پہلے تھا مگر جب رمضان کے روزوں کا حکم نازل ہوا تو اسے ترک کر دیا گیا ۔

١٨٠١ - اور حضرت علی علیہ السلام کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جو شخص ایک دن بھی مستحب نمازیں پڑھے گا اللہ تعالیٰ اسکو جنت میں داخل کرے گا ۔

١٨٠٢ - جابر نے حضرت امام باقر علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ جس شخص کا آخری دن روزے پر ختم ہوا وہ جنت میں داخل ہوا ۔

١٨٠٣ - رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس نے ایک دن فی سبیل اللہ روزہ رکھا اس کا یہ ایک روزہ اس کے ایک سال کے روزوں کے برابر ہے ۔

١٨٠٤ - حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص روزے کی حالت میں دن کے اول وقت کوئی خوشبو لگائے گا اسکی عقل گم نہ ہوگی ۔

١٨٠٥ - رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو کوئی روزہ دار کسی قوم کے پاس پہنچے اور وہ لوگ اسکو کھانا کھلادیں تو اسکے تمام اعضاء تسبیح پڑھیں گے ملائکہ کا اس پر درود ہو گا اور ان کا درود استغفار ہوگا ۔

١٨٠٦ - حضرت امام موسیٰ بن جعفر علیہ السلام سے روایت کی گئی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ جو شخص ماہ ذی الحج کی پہلی تاریخ کو روزہ رکھے گا اللہ تعالٰی اس کے لئے اسی (۸۰) مہینوں کے روزوں کا ثواب لکھ دیگا اور جو شخص پہلی ذی الحج سے ۹ ذی الحج تک نو روزے رکھے گا اللہ تعالیٰ اسکے حق میں ہمیشہ روزہ رکھنے کا ثواب لکھ دے گا ۔ 

١٨٠٧ - حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ یوم ترویہ (۸ ذی الحج) کا روزہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ ہے اور یوم عرفہ (۹ ذی الحج) کا روزہ دو سال ( کے گناہوں) کا کفارہ ہے ۔ 

١٨٠٨ - روایت کی گئی ہے کہ پہلی ذی الحج کو حضرت ابراہیم خلیل الرحمن علیہ السلام پیدا ہوئے پس جو شخص اس دن روزہ رکھے گا وہ اس کے ساٹھ سال کے گناہوں) کا کفارہ ہو گا اور ۹ ذی الحج کو حضرت داؤد علیہ السلام کی توبہ نازل ہوئی جو شخص اس دن روزہ رکھے گا تو وہ نوے سال (کے گناہوں) کا کفارہ قرار پائے گا ۔

۱۸۰۹ - یعقوب بن شعیب سے روایت ہے اسکا بیان ہے کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے یوم عرفہ (۹) ذی الحج کے روزہ کے لئے دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ چاہو روزہ رکھو اور چاہو نہ رکھو ۔ اور بیان کیا گیا ہے کہ ایک مرتبہ ایک شخص حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین علیہما السلام کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ ان میں سے ایک صاحب روزہ سے ہیں اور ایک روزہ سے نہیں ہیں ۔ تو اس نے ان دونوں حضرات سے اسکے متعلق دریافت کیا تو ان دونوں حضرات نے جواب دیا کہ اگر اس دن روزہ رکھو تو بہتر ہے اور اگر نہ رکھو تو جائز ہے ۔

١٨١٠ - عبد اللہ بن مغیرہ نے سالم سے اور انہوں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تنہا حضرت علی علیہ السلام کو وصی بنایا اور حضرت علی علیہ السلام نے امام حسن و امام حسین علیہما السلام دونوں کو اپنا وصی بنا یا مگر امام حسن علیہ السلام ، امام حسین کے امام تھے ۔ چنانچہ ایک شخص یوم عرفہ امام حسن علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ آپ غذا تناول فرما رہے ہیں اور امام حسین روزہ سے ہیں پھر وہی شخص امام حسن علیه السلام کی وفات کے بعد یوم عرفہ امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں آیا تو دیکھا کہ آپ غذا تناول فرما رہے ہیں اور آپ کے صاحبزادے حضرت علی ابن الحسین روزہ سے ہیں ۔ تو اس شخص نے عرض کیا کہ ایک مرتبہ پہلے بھی میں امام حسن علیہ السلام کی خدمت میں آج کے دن آیا تھا تو دیکھا تھا کہ وہ غذا نوش فرما رہے تھے اور آپ روزے سے تھے اور آج آیا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ آپ غذا تناول فرما ر ہے ہیں تو آپ نے فرمایا کہ اس وقت امام حسن امام تھے انہوں نے روزہ نہیں رکھا تا کہ انکا روزہ سنت نہ بن جائے اور لوگ اسکی پیروی نہ کرنے لگیں اور جب ان کا انتقال ہو گیا تو میں امام ہو گیا تو میں یہ چاہتا ہوں کہ لوگ میرے روزہ کو سنت بنا کر اسکی پیروی نہ کرنے لگیں ۔

١٨١١ - حنان بن سدیر نے اپنے باپ سے روایت کی ہے انکا بیان ہے کہ میں نے ایک مرتبہ آنجناب علیہ السلام سے یوم عرفہ کے روزہ کے متعلق دریافت کیا اور عرض کیا کہ میں آپ پر قربان وہ لوگ (عامہ) یہ سمجھتے ہیں کہ آج یوم عرفہ کا روزہ ایک سال کے روزے کے برابر ہے تو آپ نے فرمایا کہ میرے پدر بزرگوار اس دن روزہ نہیں رکھتے تھے ۔ میں نے عرض کیا میں آپ پر قربان ایسا کیوں کرتے تھے؟ فرمایا کہ عرفہ کا دن اللہ تعالیٰ سے دعا اور سوال کا دن ہے تو میں اس امر سے ڈرتا ہوں که یہ روزہ ہمیں کمزور نہ کردے اور میں اچھی طرح دعا نہ کر سکوں اس لئے میں آج کے روزہ کو ناپسند کرتا ہوں اور اس امر سے بھی ڈرتا ہوں کہیں یوم عرفہ یوم اضحیٰ نہ ہو (یعنی) یہ روزہ کا دن (ہی) نہ ہو ۔
                  اس کتاب کے مصنف علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ عامہ کو یوم اضحیٰ (عید قربان) اور یوم فطر (عید الفطر) کی توفیق نہیں ملتی اس بنا پر آنجناب علیہ السلام نے یوم عرفہ کو روزہ ناپسند کیا اس لئے کہ اکثر سالوں میں یہ یوم عید اضحیٰ ہوتا ہے اور اس کی تصدیق

۱۸۱۲ - اس بات سے ہوتی ہے جو امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمائی ۔ کہ جب حضرت امام حسین علیہ السلام قتل کر دیئے گئے تو اللہ تعالیٰ نے ایک ملک کو حکم دیا اور اس نے منادی کر دی کہ اے اپنے نبی کی عترت کو قتل کرنے والی ظالم امت تجھے اللہ تعالیٰ نہ روزہ کی توفیق دے گا اور نہ عید الفطر کی ۔

۱۸۱۳ - اور ایک دوسری حدیث میں ہے کہ (اس ملک نے ندا کی کہ) تجھے اللہ تعالیٰ نہ عید الفطر کی توفیق دیگا نہ عید الضحیٰ کی ۔ غرض جو شخص یوم عرفہ روزہ رکھے گا اس کو وہ ثواب ملے گا جسکا ذکر میں نے اوپر کیا ۔

١٨١٤ - حسن بن علی دشاء سے روایت ہے اسکا بیان ہے کہ جب میں کمسن بچہ تھا ایک مرتبہ ۲۵ ذی القعدہ کی شب کو میں نے اپنے والد کے ساتھ حضرت امام رضا علیہ السلام کے پاس رات کو کھانا کھایا تو آپ نے فرمایا کہ ۲۵ ذی القعدہ کی شب میں حضرت ابراہیم علیہ السلام پیدا ہوئے اس شب میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے اور اسی شب میں توتحت کعبّہ سے زمین بچھائی گئی پس جو شخص اس دن روزہ رکھے گا اس نے گویا ساٹھ (٦٠) مہینے کے روزے رکھے ۔
( یہ حدیث ۱۸۰۸ کے منافی ہے ممکن ہے کہ یہاں ابراہیم بن رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم مراد ہوں ) 

١٨١٥ - اور روایت کی گئی ہے کہ ۲۹ ذی القعدہ میں اللہ تعالیٰ نے خانہ کعبہ کو نازل فرمایا پس جو شخص اس دن روزہ رکھے گا تو وہ اسکے ستر (٧٠) سال (کے گناہوں) کا کفارہ ہوگا ۔

١٨١٦ - حسن بن راشد نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے انکا بیان ہے کہ ایک مرتبہ میں نے آپ جناب سے عرض کیا کہ میں آپ پر قربان کیا مسلمانوں کے لئے ان دو عیدوں کے علاوہ کوئی اور بھی عید ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں اے حسن اس سے بھی زیادہ بڑی اور اس سے بھی زیادہ باشرف ۔ میں نے عرض کیا وہ کس دن ہے ؟ آپ نے فرمایا وہ دن کہ جس میں امیرالمومنین علیہ السلام لوگوں کے لئے خلیفہ رسول مقرر ہوئے میں نے عرض کیا میں آپ پر قر بان کون سے دن فرمایا ایام گردش کرتے رہتے ہیں مگر وہ ماہ ذی الحج کی ۱۸ تاریخ تھی ۔ میں نے عرض کیا میں آپ پر قربان اس دن ہم لوگوں کو کیا کرنا چاہیے ؟ فرمایا اے حسن اس دن روزہ رکھو اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور انکے اہلبیت پر کثرت سے درود بھیجو اور جن لوگوں نے ان پر ظلم کر کے انکا حق چھینا ہے ان سے اللہ کی بارگاہ میں براءت کا اظہار کرو۔ اس لئے کہ انبیاء علیہم السلام بھی اپنے اوصیاء کو حکم دیا کرتے تھے کہ جس دن وصی مقرر ہو اس دن کو عید قرار دیں ۔ میں نے عرض کیا کہ ہم میں سے جو شخص روزہ رکھے اسکو کتنا ثواب ملے گا ؟ فرمایا ساٹھ مہینہ کے روزوں کا ثواب ملے گا ۔ اور٢٧ رجب کے روزے کو نہ چھوڑنا اس لئے کہ یہ وہ دن ہے کہ جس دن محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نبوت نازل ہوئی اس دن کے روزے کا ثواب بھی تم لوگوں کے لئے ساٹھ ماہ کے روزوں کی مانند ہے ۔ 

١٨١٧ - مفضل بن عمر نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرما یا غدیر خم کے دن کا روزہ ساٹھ سال کے گناہوں کا کفارہ ہے ۔ 
                 لیکن غدیر خم کے دن کی نماز اور اس دن روزہ رکھنے پر ثواب کی حدیث کو ہمارے شیخ محمد بن حسن رضی اللہ عنہ صحیح نہیں مانا کرتے تھے اور فرمایا کرتے کہ اس سلسلہ رواۃ میں محمد بن موسی ہمدانی ہے جو کذاب اور غیر ثقہ ہے ۔ اور جس حدیث کو شیخ مذکور قدس الله روحہ صحیح نہ تسلیم کرتے اور جن احادیث کے متعلق صحیح ہونے کا حکم نہیں دیتے وہ ہم لوگوں کے نزدیک متروک اور غیر صحیح ہے ۔

١٨١٨ - اور پہلی محرم کو حضرت زکریا علیہ السلام نے اپنے رب سے دعا کی تھی پس جو شخص اس دن دعا کرے گا اسکی دعا بھی اس طرح قبول ہو گی جس طرح حضرت زکریا علیہ السلام کی دعا قبول ہوئی تھی ۔ 

١٨١٩ - ابو بصیر نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے دریافت کیا کہ ایک مستحبی روزہ رکھنے والے کو اگر کوئی ضرورت پیش آگئی؟ تو آپ نے فرمایا کہ عصر کے وقت تک اسکو اختیار ہے اگر وہ عصر تک ٹھہرا رہا اور اس نے سوچا کہ روزہ رکھ لے اور ابھی تک روزہ کی نیت نہیں کی تھی تو اگر وہ چاہے تو اس دن روزہ رکھ لے ۔