باب : میت کے قضا روزے
حدیث ٢٠٠٨ - ٢٠١٠
۲۰۰۸ - ابان بن عثمان نے ابی مریم انصاری سے انہوں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ اگر کوئی شخص ماہ رمضان کے چند روزے رکھنے کے بعد بیمار پڑ گیا اور مسلسل بیمار رہا یہاں تک کہ مر گیا تو اس پر کوئی قضا نہیں ہے اور اگر وہ صحتیاب ہو گیا اس کے بعد بیمار پڑا اور مر گیا اور اسکا چھوڑا ہوا مال ہے تو اسکے مال سے ہر دن کے بدلے ایک مد طعام تصدق کیا جائے گا اور اگر اس کا کوئی چھوڑا ہوا مال نہیں ہے تو اس کا ولی اسکی طرف سے روزہ رکھے گا ۔
اور اگر کوئی شخص مر جائے اور اس پر رمضان کے روزوں کی قضا ہو تو اس کے ولی پر اس کی قضا لازم ہے اور اس طرح جس شخص کا روزہ سفر میں یا بیماری میں چھوٹ گیا ہو قبل اسکے کہ وہ اتنے دن صحتمند رہتا کہ اپنے روزہ کی قضا رکھ لیتا وہ اپنے مرض ہی میں مر گیا اگر ایسا ہے تو اس پر کوئی قضا نہیں ہے اور اگر میت کے دو ولی ہیں تو مردوں کے اندر ان دونوں میں سے جو بڑا ہے اس پر لازم ہے کہ اسکی قضا ر کھے اور اگر مردوں میں سے اسکا کوئی ولی نہیں ہے تو عورتوں میں سے جو اسکی ولی ہوگی وہ اسکی طرف سے قضا روزے رکھے گی ۔
۲۰۰۹ - اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ اگر کوئی شخص مرجائے اور اس پر ماہ رمضان کے روزے قضا ہوں تو اسکے گھر والوں میں جو چاہے اسکی طرف سے قضا روزے رکھے ۔
٢٠١٠ - اور محمد بن حسن صفار رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو محمد امام حسن عسکری علیہ السلام کو خط لکھکر ایک ایسے شخص کے متعلق دریافت کیا جو مر گیا ہے اور اسکے ماہ رمضان کے دس روزے قضا ہیں اور اس کے دو ولی ہیں کیا یہ جائز ہے کہ وہ دونوں اسکے قضا روزے رکھیں یا پانچ روزے ایک ولی رکھے اور پانچ روزے دوسرا ولی رکھے ؟ تو آپ کی طرف سے جواب خط آیا کہ اسکا سب سے بڑا ولی اسکی طرف سے دس روزے رکھے گا ۔ انشاء اللہ تعالیٰ ۔