باب : روزہ فرض ہونے کا سبب
کتاب الصوم
حدیث - ١٧٦٦ - ١٧٦٩
١٧٦٦ - ایک مرتبہ ہشام بن حکم نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روزہ کا سبب دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالٰی نے روزہ اس لئے فرض کیا تاکہ امیر و فقیر دونوں برابر ہو جائیں کیونکہ امیر نے کبھی بھوک کا مزا ہی نہیں چکھا تا کہ فقیروں پر ترس کھائے اور مہربانی کرنے اسکی وجہ یہ ہے کہ امیر شخص کو جس چیز کی خواہش ہو اس کا حصول اسکے بس میں ہے اسی بناء پر اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ اس کی مخلوق یا ہم مساوی ہو جائے وہ اسطرح کہ امیر بھی بھوک کا مزا چکھے تاکہ کمزوروں کے لئے اسکا دل نرم ہو اور بھوکوں پر رحم کرے ۔
١٧٦٧ - اور حضرت ابوالحسن امام علی ابن موسیٰ الرضا علیہ السلام نے محمد بن سنان کے مسائل کے جواب میں جو کچھ تحریر کیا اسکے اندر روزہ کا یہ سبب بھی تحریر فرمایا کہ انسان بھوک اور پیاس کا مزا چکھ کر خود کو ذلیل و مسکین سمجھے تو اسے اسکا ثواب دیا جائے اسکا احتساب ہو وہ اس روزے کی تکلیف کو برداشت کرے اور یہ چیز اسکے لئے آخرت کی سختیوں کی طرف رہنما ہو ۔ نیز اسکی خواہشات میں کمی ہو اور عاجزی پیدا ہو۔ دنیا میں اسکو نصیحت ملتی رہے اور آخرت کی سختیوں کی نشاندہی ہوتی رہے اور اسے علم ہو کہ دنیا اور آخرت میں فقیر و مسکین کیا کیا سختیاں برداشت کرتے ہیں ۔
١٧٦٨ - اور حمزہ بن محمد نے حضرت ابو محمد حسن عسکری علیہ السلام کو خط لکھ کر دریافت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے روزہ کیوں فرض کیا تو جواب میں یہ لکھ کر آیا تا کہ ایک غنی اور دولتمند شخص کو بھی بھوک کی تکلیف کا علم ہو جائے اور وہ فقیروں پر ترس کھائے ۔"
١٧٦٩ - حضرت امام حسن بن علی بن ابی طالب علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے بیان فرمایا کہ چند یہودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان میں سے جو سب سے زیادہ صاحب عالم تھا اس نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے چند مسائل دریافت کئے جن میں یہ بھی دریافت کیا کہ یہ بتائیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی امت پر تیس دن کے روزے کیوں فرض کئے حالانکہ دوسری امتوں پر اس سے زیادہ فرض کئے ہیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اس لئے کہ جب حضرت آدم علیہ السلام نے درخت کا پھل کھایا تو وہ انکے پیٹ میں تیس دن تک رہا اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کی ذریت پر تیس دن کی بھوک و پیاس کو فرض کر دیا اور یہ لوگ جو رات کو کھالیتے ہیں تو یہ ان پر اللہ تعالیٰ کی مہربانی ہے اور اس طرح یہ روزہ حضرت آدم پر بھی فرض تھا ۔ اور اللہ تعالیٰ نے وہی تیسں دن کے روزے میری امت پر بھی فرض کر دیئے اسکے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت کی تلاوت فرمائی ۔ كُتِبَ عَلَيْكُمُ ٱلصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى ٱلَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ أَيَّامًۭا مَّعْدُودَٰتٍۢ ۚ ( تم لوگوں پر روزہ فرض کیا گیا جس طرح تم سے اگلے لوگوں پر فرض کیا گیا تھا تا کہ اسکی وجہ سے تم بہت سے گناہوں سے بچو وہ بھی ہمیشہ نہیں بلکہ گنتی کے چند دن) (سورہ بقرہ ۱۸۳)
یہ سنکر یہودی نے کہا اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ نے سچ کہا مگر یہ بتائیں کہ جو شخص یہ روزہ رکھے اسکے لئے اجر و ثواب کیا ہے؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو مومن پورے احتساب کے ساتھ ماہ رمضان کے روزے رکھے گا تو اللہ تعالٰی اس کے لئے سات باتیں لازمی پیدا کر دے گا ۔ پہلے یہ کہ حرام کا مال اس کے جسم سے پگھل کر نکل جائے گا ۔ دوسرے وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے قریب ہو جائے گا تیسرے اسکا یہ روزہ اس کے باپ آدم علیہ السلام کی خطا کا کفارہ بن جائے گا چوتھے اس پر موت کی سختیاں آسان ہو جائیں گی ۔ پانچویں قیامت کے دن اسکو بھوک و پیاس سے امان مل جائے گی چھٹے اللہ تعالیٰ اس کو جہنم سے براءت کا پروانہ دیدیگا ۔ ساتویں اللہ تعالیٰ اس کو جنت کی پاک و پاکیزہ چیزیں کھلائے گا ۔ اس یہودی نے کہا اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ نے سچ فرمایا ۔