New Page
۱۸۰۸ کے منافی ہے ممکن ہے کہ یہاں ابراہیم بن رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم مراد ہوں ) (۱۸۱۵) اور روایت کی گئی ہے کہ ۲۹ ذی القعدہ میں اللہ تعالیٰ نے خانہ کعبہ کو نازل فرمایا پس جو شخص اس دن روزہ رکھے گا تو وہ اسکے ستر (۷۰) سال (کے گناہوں) کا کفارہ ہو گا۔
(۱۸۸۸) حسن بن راشد نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے انکا بیان ہے کہ ایک مرتبہ میں نے آپ جناب سے عرض کیا کہ میں آپ پر قربان کیا مسلمانوں کے لئے ان دو عیدوں کے علاوہ کوئی اور بھی عید ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں اے حسن اس سے بھی زیادہ بڑی اور اس سے بھی زیادہ باشرف ۔ میں نے عرض کیا وہ کسی دن ہے ؟ آپ نے فرمایا وہ دن کہ جس میں امیرالمومنین علیہ السلام لوگوں کے لئے خلیفہ رسول مقرر ہوئے میں نے عرض کیا میں آپ پر قر بان کون سے دن فرمایا ایام گردش کرتے رہتے ہیں مگر وہ ماہ ذی الحج کی ۱۸ تاریخ تھی۔ میں نے عرض کیا میں آپ پر قربان اس دن ہم لوگوں کو کیا کرنا چاہیے ؟ فرمایا اے حسن اس دن روزہ رکھو اور محمد اور انکے اہلبیت پر کثرت سے درود بھیجو اور جن لوگوں نے ان پر ظلم کر کے انکا حق چھینا ہے ان سے اللہ کی بارگاہ میں براءت کا اظہار کرو۔ اس لئے کہ انبیاء علیہم السلام بھی اپنے ادھیا۔
کو حکم دیا کرتے تھے کہ جس دن وصی مقرر ہو اس دن کو عید قرار دیں۔ میں نے عرض کیا کہ ہم میں سے جو شخص روزہ رکھے اسکو کتنا ثواب ملے گا؟ فرمایا ساٹھ مہینہ کے روزوں کا ثواب ملے گا۔ اور ۲۷ رجب کے روزے کو نہ چھوڑنا اس لئے کہ یہ وہ دن ہے کہ جس دن محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نبوت نازل ہوئی اس دن کے روزے کا ثواب بھی تم لوگوں کے لئے ساٹھ ماہ کے روزوں کی مانند ہے۔ (۱۸۱۷) مفضل بن عمر نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرما یا غدیر خم کے دن کا روزہ ساتھ سال کے گناہوں کا کفارہ ہے۔
لیکن غدیر خم کے دن کی نماز اور اس دن روزہ رکھنے پر ثواب کی حدیث کو ہمارے شیخ محمد بن حسن رضی اللہ عنہ صحیح نہیں مانا کرتے تھے اور فرمایا کرتے کہ اس سلسلہ رواۃ میں محمد بن موسی ہمدانی ہے جو کذاب اور غیر ثقہ ہے۔ اور جس حدیث کو شیخ مذکور قدس الله روحہ ہی نہ تسلیم کرتے اور جن احادیث کے متعلق صحیح ہونے کا حکم نہیں دیتے وہ ہم لوگوں
کے نزدیک متروک اور غیر صحیح ہے۔
(۱۸۱۸) اور پہلی محرم کو حضرت زکریا علیہ السلام نے اپنے رب سے دعا کی تھی پس جو شخص اس دن دعا کرے گا اسکی دعا بھی اس طرح قبول ہو گی جس طرح حضرت زکریا علیہ السلام کی دعا قبول ہوئی تھی۔ (۱۸۱۹) ابو بصیر نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے دریافت کیا کہ ایک مستحبی روزہ رکھنے والے کو اگر کوئی ضرورت پیش آگئی، تو آپ نے فرمایا کہ عصر کے وقت تک اسکو اختیار ہے اگر وہ عصر تک ٹھہرا رہا اور اس نے سوچا کہ روزہ رکھ لے اور ابھی تک روزہ کی نیت نہیں کی تھی تو اگر وہ چاہے تو اس دن روزہ رکھ لے۔
باب : ماہ رجب کے روزہ کا ثواب
(۱۸۲۰) ابان بن عثمان نے کثیر النوا سے اور اس نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی کہ آپ نے بیان فرمایا کہ حضرت نوح علیہ السلام یکم رجب کو کشتی پر سوار ہوئے تو آپ نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ تم لوگ اس دن روزہ رکھو۔ امام علیہ السلام نے فرمایا کہ جو شخص اس دن روزہ رکھے گا اس سے جہنم ایک سال کی مسافت تک دور رہے گی ۔ اور جو سات دن روزہ رکھے گا اس کے لئے جہنم کے ساتوں دروازے بند کر دیئے جائیں گے اور جو آٹھ دن روزہ رکھے گا اس کے لئے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیئے جائیں گے۔ اور جو پندرہ دن روزہ رکھے گا وہ جس چیز کا بھی سوال کرے گا اسکو عطا
کر دیا جائے گا اور جو اس سے بھی زیادہ روزہ رکھے گا اللہ تعالیٰ اتنی ہی اپنی بخشش کو زیادہ کر دے گا۔ (۱۸۲۱) حضرت ابو الحسن امام موسی بن جعفر علیہ السلام نے ارشاد فر یا کہ جنت میں رجب نام کی ایک نہر ہے جس کا پانی دودھ سے بھی زیادہ سفید اور شہد سے بھی زیادہ شیریں ہے۔ جو شخص ماہ رجب میں ایک دن بھی روزہ رکھے گا اللہ تعالٰی اس کو اس نہر سے سیراب کرے گا۔
(۱۸۲۲) نیز حضرت امام ابوالحسن بن جعفر علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ رجب ایک با عظمت مہمینہ ہے اسکے اندر نیکیوں کا کئی گنا ثواب دیا جاتا ہے اور گناہوں کو محو کر دیا جاتا ہے جو شخص رجب میں ایک دن روزہ رکھے گا اس سے جہنم ایک سال کی مسافت تک دور ہو جائے گی اور جو شخص اس میں تین دن روزہ رکھے گا اس پر جنت واجب کر دی جائے گی۔
باب : ماہ شعبان کے روزے کا ثواب
(۱۸۲۳) ابو حمزہ شمالی نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا جو شخص ماہ شعبان میں روزہ رکھے گا وہ ہر لغزش اور وصمہ اور باورہ سے پاک ہو جائے گا ابو حمزہ کا بیان ہے کہ میں نے عرض کیا کہ وصمہ کیا ؟ آپ نے فرمایا کہ معصیت و گناہ کے کام کی قسم اور اسکے لئے نذر اور گناہ کے کام کے لئے کوئی نذر نہیں ہوتی۔ میں نے عرض کیا اور باورہ کا کیا مطلب؟ آپ نے فرمایا کہ غصہ کی حالت میں قسم کھالینا اور اس سے تو بہ کرنا اس پر نادم ہونا ہے۔
(۱۸۲۴) حسن بن محبوب نے عبداللہ بن مرحوم ازدی سے روایت کی ہے اس کا بیان ہے کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کو فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص شعبان کی پہلی تاریخ کو روزہ رکھے اس کیلئے جنت لازماً واجب ہے اور جو دو (۲) دن روزہ رکھے تو اللہ تعالیٰ ہر دن اور ہر رات دنیا کے اندر اس پر نظر رکھے گا۔ اور جنگ میں بھی ہمیشہ اس کی نگاہ ایس
پر ہو گی ۔ اور جو شخص تین (۳) دن روزہ رکھے تو اپنی جنت ہی میں سے روزانہ عرش پر اللہ کی زیارت کرتا رہے گا۔ اس کتاب کے مصنف علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی زیارت سے مراد اس کے انبیا۔ اور اس کی حجتوں صلوٰۃ اللہ علیہم کی زیارت ہے ۔ جس نے ان لوگوں کی زیارت کی گویا اس نے اللہ کی زیارت کی اور یہ اسی طرح ہے جیسے جس نے ان لوگوں کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی جس نے ان لوگوں کی نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی جس نے ان لوگوں کی اتباع کی اس نے اللہ کی اتباع کی اس کا مطلب وہ نہیں ہے جو مشبہ کہتے ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ اس سے بہت بلند اور
بالاتر ہے ۔
(۱۸۲۵) حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ ماہ شعبان کا روزہ اور ماہ رمضان کا روزہ ایک ساتھ آگے پیچھے ہیں تو خدا کی قسم یہ اللہ کی طرف سے تو بہ قبول کرنے کیلئے ہے ۔ (۱۸۲۶) عمرو بن خالد نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کی ہے آپ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم شعبان اور رمضان میں روزے رکھتے تھے اور ان دونوں کے روزوں کو ملا دیا کرتے تھے مگر لوگوں کو ان دونوں کے
ملانے سے منع کیا کرتے اور یہ فرمایا کرتے کہ یہ دونوں اللہ کے مہینے ہیں اور یہ اپنے قبل اور اپنے بعد کے مہینوں کے
گناہوں کا کفارہ ہیں ۔
اور آپ کا ارشاد کہ " لوگوں کو ملانے سے منع کیا کرتے " تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ دونوں مہینے کے روزوں کے ں کو ملا دیتے اور لوگوں کو ملانے سے منع فرماتے تاکہ جو چاہے ملائے اور جو چاہے ان دونوں کے درمیان فصل دیدے اور اسکی
تصدیق - (۱۸۲۷) اس حدیث سے ہوتی ہے جسکی روایت زرعہ نے مفضل سے اور انہوں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے کی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ میرے پدر بزرگوار علیہ السلام ماہ شعبان اور ماہ رمضان کے روزوں میں ایک دن کا فصل دیا کرتے تھے ۔ اور حضرت علی بن الحسین علیہما السلام دونوں کو ملالیا کرتے اور فرمایا کرتے کہ ان دونوں مہینوں کے روزے ایک ساتھ آگے پیچھے اللہ کی طرف سے توبہ کی قبولیت کیلئے رکھے گئے ہیں ۔ کبھی کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ماہ شعبان کے روزے رکھا کرتے اور اسے ماہ رمضان کے روزوں سے ملا دیا کرتے اور کبھی روزہ رکھتے تو ان دونوں کے درمیان فصل دیدیا کرتے ۔ مگر آپ نے اپنے سالوں میں کبھی پورے شعبان کے مہینہ کے روزے نہیں رکھے البتہ یہ ضرور ہے کہ آپ اکثر روزے اسی مہینہ میں رکھا کرتے تھے ۔
(۱۸۲۸) ازواج رسول میں سے اگر کسی پر روزے قضا ہوتے تو اس کی ادائیگی کو اسی ماہ شعبان میں موخر کر لیا کرتی تھیں وہ اسے پسند نہ کرتی تھیں کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کوئی ضرورت ہو اور وہ منع کر دیں (کہ میں روزے سے ہوں) چنانچہ جب ماہ شعبان آتا تو یہ روزے رکھتیں اور انکے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی روزہ رکھتے اور فرمایا کرتے کہ شعبان میرا مہینہ ہے ۔
(۱۸۲۹) حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ جو شخص شعبان کے آخری تین دن روزه ر ا دن روزہ رکھے اور اس کو ماہ رمضان سے ملادے تو اللہ تعالیٰ اس کیلئے متواتر دوماہ کے روزوں کا ثواب لکھ دے گا ۔ (۱۸۳۰) حریز نے زرارہ سے روایت کی ہے کہ ایک دن میں نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے عرض کیا کہ آپ شب نیمہ شعبان کے متعلق کیا فرماتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا کہ اس شب میں اللہ تعالیٰ بنی کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعداد سے زیادہ اپنے بندوں کو بخش دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے ملائکہ کو آسمان سے دنیا کی طرف اور سرزمین مکہ کی طرف نازل فرماتا
ہے۔
میں نے اس مضمون کی احادیث کو کتاب فضائل ماہ شعبان میں بھی تحریر کر دیا ہے ۔
باب : ماه رمضان کی فضیلت اور روزے کا ثواب
(۱۸۳۱) حسن بن محبوب نے ابو ایوب ستہ انہوں نے ابو الورد سے اور انہوں نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کی ہے آپ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ماہ شعبان کے آخری جمعہ میں لوگوں کو خطبہ دیا تو پہلے حمد وشتائے الہی بجالائے ۔ پھر فرمایا ایھا الناس تم لوگوں کے سروں پر ایسا مہینہ سایہ فگن ہو رہا ہے کہ جس میں ایک
ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے اور وہ ماہ رمضان ہے اللہ تعالیٰ نے اسکا روزہ فرض کیا ہے اور اس میں ایک شب عبادت کیلئے کھڑا ہونا ایسا ہے جیسے رمضان کے سوا اور مہینوں میں کوئی شخص اللہ کی خوشنودی کیلئے ستر راتیں کھڑے ہو کر نماز پڑھے ۔ اور اس مہینہ میں جو شخص کوئی ایک بھی خیرو نیکی کا کام کرے گا اس کو اتنا ثواب ملے گا جیسے کسی نے اللہ تعالیٰ کے عائد کردہ فرائض میں کوئی فریضہ ادا کیا ہو ۔ اور جس نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے عائد کردہ فرائض میں سے کوئی ایک فریضہ ادا کیا وہ ایسا ہوگا کہ جیسے کسی نے اس مہینہ کے علاوہ دوسرے مہینوں میں ستر فریضے ادا کئے ہوں ۔ یہ صبر کا مہینہ ہے کہ جس میں اللہ تعالٰی مومن کے رزق کو زیادہ کر دیتا ہے۔ اور جو شخص اس مہینہ میں کسی روزہ دار مومن کو افطار کرائے تو اللہ کے نزدیک وہ ایسا ہو گا جیسے اس نے ایک غلام کو آزاد کرا دیا اور اس کے سارے پچھلے گناہ معاف ہو جائیں
گے۔
تو عرض کیا گیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم میں سے ہر ایک تو اس قابل نہیں کہ کسی روزہ دار کو افطار
کر اسکے ۔ تو آپ نے فرمایا اللہ تعالی بڑا کریم ہے وہ اس شخص کو بھی وہی ثواب عطا کرے گا جو پانی ملے ہوئے دودھ پر قدرت رکھتا ہو اور اس سے کسی روزہ دار کو افطار کرا دے یا آب شیریں کے ایک گھونٹ پر یا ایک چھوارے پر اور اس سے زیادہ اس میں قدرت نہ ہو ۔ اور جو اس مہینہ اپنے غلام کے ساتھ نرمی برتے گا اللہ تعالی اس کے ساتھ حساب میں نرمی کرے گا ۔ یہ وہ مہینہ ہے کہ جس کا پہلا حصہ رحمت ہے درمیانی حصہ مغفرت ہے اور آخری حصہ قبولیت دعا اور جہنم سے نجات ہے ۔ اور اس میں تم لوگوں کو چار باتوں کی ضرورت ہے دو باتوں سے تم اللہ تعالیٰ کو خوش اور راضی کرو گے اور دو باتوں کی خود تم لوگوں کو ضرورت ہے وہ دو باتیں جس سے تم اللہ کو راضی اور خوش کرو تو پہلی اس بات کی گواہی ہے کہ اللہ کے سوا کوئی اللہ نہیں اور دوسری یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں ۔ اور وہ دو باتیں کہ جنکی تم لوگوں کو ضرورت ہے وہ یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے تم لوگ اپنے حوائج اور ضرورت کیلئے اور جنت کیلئے دعا کرو نیز اس مہینہ میں تم اس سے عافیت طلب کرو اور جہنم
سے پناہ چاہو ۔
(۱۸۳۲) جب ماہ رمضان سامنے آیا اور شعبان کے صرف تین دن باقی رہ گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بلال کو حکم دیا کہ تم لوگوں میں اعلان کر دو (کہ جمع ہو جائیں) جب لوگ جمع ہوگئے تو آپ منبر پر تشریف لے گئے اور حمد وشتائے الہی کے بعد فرمایا کہ ایھا الناس اب وہ مہینہ آرہا ہے کہ جو تمام مہینوں کا سردار ہے اس میں ایک ایسی رات ہے جو ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے ۔ اس میں جہنم کے دروازے بند کر دیئے جائیں گے اور جنت کے دروازے کھول دیئے جائیں گے ۔ پس جو شخص اس مہینہ کو پا جائے اور پھر بھی اس کی مغفرت نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اس کو نابود کر دے اور جو شخص اپنے والدین کو پا جائے اور پھر بھی اس کی مغفرت نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اس کو نابود کر دے اور اور جس شخص کے سامنے میرا ذکر کیا
جائے اور وہ مجھ پر درود نہ بھیجے اور اس کی مغفرت نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اس کو نیست و نابود کر دے ۔
(۱۸۳۳) جابر نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کی ہے آپ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نگاہ جب ہلال ماہ رمضان پر پڑتی تو فوراً اپنا چہرہ قبلہ کی طرف کر لیتے پھر یہ کہتے اللَّهُمَّ أَجِلَّهُ عَلَيْنَا بِالهُ مِن وَالْإِيْمَانِ وَالسَّلَامَةِ وَالْإِسْلامِ وَالْعَافِيَةِ الْمُجَلَةِ، وَالرِّزْقِ الْوَاسِ، وَدَفَعِ الْأَسْقَامِ ، وَتِلَاوَةِ الْقُرْآنِ ، وَالْمَوْنِ عَلَى الصَّلَاةَ وَالصَّيَامِ ، اللهُمَّ سَلَّمَنَا لِشَحْرِ رَمَضَانَ وَسَلَمَةَ لَنَا وَتُسَلَّمْهُ مِنَاحَتَى يَنْقَضِي شَهْرَ رَمَضَانَ وَ قَدْ غَفَرْتَ لَنَا (پروردگار اس چاند کو امن و ایمان و سلامتی و اسلام اور پوری عافیت اور وسعت رزق کے ساتھ ہم لوگوں پر طلوع فرما اور ہمارے امراض کو دور فرما تلاوت قرآن کی توفیق دے روزے اور نماز میں ہماری مدد فرما۔ پروردگار ہم لوگوں کو رمضان کی عبادتوں کیلئے صیح و سلامت رکھ اور ہمارے لئے اس کو شک و شکوک سے بچا اور اس میں ہم لوگوں کی عبادتوں کو قبول فرما اور ماہ رمضان کے ختم ہوتے ہوتے ہم لوگوں کی مغفرت فرما دے۔) اس کے بعد اپنا رخ مجمع کی طرف کرتے اور فرماتے اے گروہ مردم جب ہلال رمضان طلوع ہوتا ہے تو سرکش و
نافرمان شیاطین کو قید کر دیا جاتا ہے آسمان کے دروازے ، جنت کے دروازے اور رحمت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہے اور دعائیں قبول کی جاتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کیلئے یہ لازم ہوتا ہے کہ ہر افطار کے وقت کچھ لوگوں کو جہنم سے آزاد کر دے ۔ اور ہر شب کو منادی یہ ندا دیتا ہے کہ کیا کوئی تو بہ کرنے والا ہے ؟ کیا کوئی سوال کرنے والا ہے ؟ کیا کوئی طلب مغفرت کرنے والا ہے ؟ ( پھر فرماتے) اللهُمَّ أَعْطِ كُلَّ مُنْفِقٍ خَلَفَا وَاعْطِ كُلَّ مُمْسِي تلفا (اے اللہ ہر راہ خدا میں خرچ کرنے والے کو دنیا و آخرت میں اس کا اجر دے اور ہر مسلک اور بخیل کو تلف کر دے۔) اور جب ماہ شوال کا ہلال طلوع ہوتا ہے تو مومنین کو ندا دی جاتی ہے کہ اپنے انعامات لینے کیلئے چلو اور وہ انعام کی تقسیم کا دن ہوتا ہے ۔ پھر حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ مگر اس ذات کی قسم جسکے قبضہ قدرت میں میری جان
ہے کہ وہ انعام دنیار اور درہم کی شکل میں نہیں ہوتا ۔
(۱۸۳۲) زرارہ نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب عرفات سے واپس ہوئے اور منی کی طرف چلے اور مسجد میں داخل ہوئے تو آپ کے پاس لوگ شب قدر معلوم کرنے کیلئے جمع ہو گئے چنانچہ آپ خطبہ دینے کیلئے کھڑے ہوئے اور حمد وشتائے الہی کے بعد ارشاد فرمایا اما بعد تم لوگوں نے مجھے سے شب قدر کے متعلق سوال کیا ہے اور میں نے اس کو تم سے اس لئے نہیں چھپایا ہے کہ میں اس کو نہیں جانتا ( بلکہ یہ کسی مصلحت کی بنا پر کیا ہے) ایھا الناس اب یہ جان لو کہ جسکے لئے ماہ رمضان وارد ہو اور وہ صحیح و سلامت ہو اور دن کو روزہ رکھے اور شب کو عبادت اور اور ادو وظائف میں مشغول ہو ، نماز کی پابندی کرے ، نماز جمعہ کے لئے جائے اور نماز عید کے لئے نکلے تو سمجھ لو کہ اس نے شب قدر کو پالیا اسکو رب کی طرف سے انعام مل گیا۔
(۱۸۳۵) حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ ان لوگوں نے خدا کی قسم انعام پالیا اور لیکن یہ عام بندوں کی
طرح کا انعام نہیں ہے ۔
(۱۸۳۹) حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے جابر سے ارشاد فرمایا اے جابر جس شخص کیلئے یہ ماہ رمضان وارد ہو اور وہ دن کو روزہ رکھے اور شب کو اوراد و وظائف میں مشغول رہے اور اپنی شرمگاہ اور اپنی زبان کی حفاظت کرے (بری باتوں سے) چشم پوشی کرے اور ایذا رسانی سے باز رہے تو وہ گناہوں سے اس طرح نکل جائے گا جیسے وہ اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا
ہے ۔ جابر نے عرض کیا میں آپ پر قربان یہ حدیث کتنی اچھی ہے ۔ آپ نے فرمایا (لیکن) اس میں کتنی شدید شرط ہے ۔ (۱۸۳۷) حضرت علی علیہ السلام کا بیان ہے کہ جب ماہ رمضان آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خطبہ کیلئے کھڑے ہوئے پہلے حمد و ثنائے ابھی بجا لاتے پھر فرمایا ایھا الناس اللہ نے تم لوگوں کو جنوں اور انسانوں میں سے جو تمہارے دشمن ہیں ان سے بچایا اور فرمایا ادعونی استجب لكم (مجھ سے دعا کرو میں قبول کروں گا) یہ کہہ کر قبولیت دعا کا وعدہ کیا ۔ آگاہ رہو اللہ تعالی نے ہر شیطان سرکش پر ستر ملائکہ تعینات کر دیتے ہیں وہ اس کو نہیں چھوڑیں گے جب تک کہ یہ تمہارا مہینہ
نہ ختم ہو جائے ، آگاہ رہو اول شب سے ہی آسمانوں کے دروازے کھول دیئے گئے ہیں اس میں دعائیں قبول ہونگی ۔ (۱۸۳۸) محمد بن مروان نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ ماہ رمضان کی ہر شب میں اللہ تعالیٰ کے کچھ آزاد کردہ بندے ہوتے ہیں سوائے ان کے جو کسی نشہ آور چیز سے افطار کریں اور جب آخری رات
آتی ہے تو اس میں اتنے بندے (جہنم سے آزاد کئے جاتے ہیں جتنے ماہ رمضان کی تمام شبوں میں آزاد کئے گئے تھے ۔ (۱۸۳۹) اور عمر بن یزید کی روایت ہے سوائے اس کے جو کسی نشے کی چیز یا کسی بدعت یا شاہین یعنی شطرنج پر افطار کرے۔ (۱۸۳۰) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ دستور تھا کہ جب ماہ رمضان آتا تو ہر قیدی کو آزاد کر دیتے اور ہر سائل کو عطا فرمایا کرتے تھے ۔
(۱۸۴۱) اور ہشام بن حکم نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ جسکی مغفرت ماہ
رمضان میں نہیں کی گئی اس کی آئیندہ اس وقت تک نہیں کی جائے گی جب تک وہ عرفات میں نہ پہنچے ۔ (۱۸۳۲) اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام اپنی اولاد کو ہدایت فرماتے کہ جب ماہ رمضان آئے تو تم لوگ خود کو عبادت میں لگا دو اس لئے کہ اس میں رزق تقسیم کیا جاتا ہے اور اس میں مدت حیات یعنی موت لکھی جاتی ہے اور اس میں حج کیلئے بیت اللہ جانے والے حاجیوں کے نام لکھے جاتے ہیں اور اس میں ایک عبادت کی رات ہے جو ایک ہزار مہینوں سے
بہتر ہے ۔
(۱۸۴۳) حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ مہینوں کی تعداد اللہ کے نزدیک بارہ ہے جو کتاب خدا میں اس دن سے درج ہے جس دن زمین اور آسمان خلق ہوئے اور اس میں سب سے افضل اور اشرف مہینہ اللہ کا مہینہ ہے اور وہ ماہ رمضان ہے اور ماہ رمضان کے قلب میں لیلتہ القدر (شب قدر) ہے اور قرآن ماہ رمضان کی شب اول میں نازل ہوا لہذا
تم قراءت قرآن کے ساتھ اس مہینہ کا استقبال کرد۔
اس کتاب کے مصنف علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ نزول قرآن کی تکمیل شب قدر میں ہوئی ۔
(۱۸۲۲) سلیمان بن داؤد منقری نے حفص بن غیاث نخعی سے روایت کی ہے اس کا بیان ہے کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کو فرماتے ہوئے سنا کہ " ماہ رمضان کا روزہ ہم لوگوں سے پہلے اور کسی امت پر فرض نہیں ہوا ۔ میں نے عرض کیا کہ مگر اللہ تعالیٰ کا تو یہ ارشاد ہے کہ یا ایها الذین امنوا كتب عليكم الصيام كما كتب على الذين من
قبلکم سوره بقره آیت نمبر ۱۸۳ (اے اہل ایمان تم لوگوں پر روزہ فرض کیا گیا ہے جس طرح ان لوگوں پر فرض کیا گیا تھا جو تم لوگوں سے پہلے تھے) آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالٰی نے ماہ رمضان کا روزہ انبیاء پر فرض کیا تھا انکی امتوں پر نہیں اور یہ شرف اللہ نے اس امت کو دیا کہ ماہ رمضان کا روزہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اور انکی است پر فرض کیا۔ اور یہ تمام احادیث جو میں نے اس مضمون کی یہاں پیش کی ہیں انہیں اپنی کتاب فضائل ماہ رمضان میں تحریر
کر دیا ہے۔
ماہ رمضان کی رویت ہلال کی دعا
(۱۸۲۵) حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ جب تم کسی مہینہ کا ہلال (پہلی رات کا چاند) دیکھو تو اپنی جگہ نہ چھوڑو اور وہیں کھڑے کھڑے کہو اللهم إني اسْتَلْكَ خَيْرَ هَذَا الشَّهْرِ، وَفَتْحَهُ وَنُورَهُ وَنَصْرَهُ بَرَكَتَهُ وَ طَهُورَهُ ورقة . وَاسْتَلْكَ خَيْرُ مَا فِيهِ وَخَيْرَ مَا بَعْدَهُ ، وَاَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَانِيهِ وَشَرِ مَابَعْدَهُ اللَّهُمَّ ادْخِلْهُ عَلَيْنَا بِالْأَمْنِ وَالْإِيْمَانِ وَالسَّلَامَةِ وَالْإِسْلَامِ وَالْمُرْكَةِ وَالتَّقْوَى وَالتَّوْنِيْنِ لِمَاتُحِبُّ وَ تَرْضَىٰ (اے اللہ میں مجھ سے اس مہینہ کی بہتری و کشادگی و نصرت و برکت و طهارت درزق کا سوال کرتا ہوں اور اس مہینہ میں جو خیر و بہتری ہے اور اسکے بعد جو خیرد بہتری ہو گی اسکا مجھ سے طالب ہوں اور جو کچھ اس میں شر اور برائی ہے اور اسکے بعد جو شرو برائی ہوگی اس سے تیری پناہ چاہتا ہوں اے اللہ تو اس مہینہ کو ہم لوگوں پر امن و ایمان و سلامتی و اسلام و برکت و تقوی اور اس کی توفیق کے ساتھ داخل کر جس میں تیری خوشی اور تیری مرضی ہو )
(۱۸۳۶) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب ہلال طلوع ہوتا تو رو بقبلہ ہو جاتے اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے اور کہا کرتے اللهُم أَحِلَّهُ عَلَيْنَا بِالا منِ وَالْإِيْمَانِ وَالسَّلَامَةِ وَ السَّلَامِ ، وَالْعَافِيَةِ الْمُجَلَةِ وَالرِّزْقِ الْوَاسِمِ، وَدَفْعِ الإِسْقَامِ اللَّهُمَّ ارْزُقْنَا صَيَامَهُ وَ قِيَامَهُ وَ تِلَاوَة الْقُرْآنِ فِيْهِ وَسَلَّمَهُ لَنَا وَ تُسَلِّمُهُ مِنَا وَ سَلَّمَنَا فِيهِ - اے اللہ اس چاند کو ہم لوگوں پر امن وایمان وسلامتی و اسلام اور ہر طرح کی عافیت و وسعت زرق اور امراض سے نجات کے ساتھ طلوع کر ۔ اے اللہ ہم لوگوں کو اس ماہ کے روزہ رکھنے اور اس پر قائم رہنے اور قرآن کی تلاوت کرنے کی توفیق دے اور اس کو ہم لوگوں کیلئے سلامت رکھ (اس کے دنوں میں کمی و بیشی نہ ہو) اور ہم لوگ جو اس میں عبادت کریں اس کو قبول فرما اور ہم لوگوں کو بھی
اس ماہ کیلئے صحیح وسلامت رکھ )
اور میرے والد علیہ الرحمہ نے خط میں مجھے تحریر فرمایا کہ تم ماہ رمضان کا چاند دیکھو تو اس کی طرف اشارہ نہ کرو بلکہ قبلہ کی طرف رخ کرو اور دونوں ہاتھ اللہ کی بارگاہ میں بلند کر کے چاند کو مخاطب کرو اور یہ کہو رَتِي وَ رَبُّكَ الله رَبِّ الْعَالَمِين . اللهم أهِلَّهُ عَلَيْنَا بِالْأَمْنِ وَ الْإِيْمَانِ وَالسَّلَامَةِ وَ الْإِسْلَامِ وَالْمُسَارِعَةِ إِلَى مَاتُحِبُّ وَتَرْضَى - اللهُمَّ بَارِكْ لنَا فِي شَهْرِ نَا هَذَا ، وَارْزُقْنَا عَوْنَهُ وَخَيْرَهُ وَاصْرِفْ عَنَّا ضَرَهُ وَشَرَهُ وَ بَلَاعَة وينته (اے ہلال میرا پروردگار وہی ہے جو تمام عالموں کا پروردگار ہے ۔ اے اللہ تو اسکو ہم لوگوں کیلئے امن و ایمان و سلامتی داسلام کا چاند بنا کہ ہم لوگ اس امر کی طرف جلدی سے بڑھیں کہ جو مجھے پسند ہو اور جس میں تیری رضا ہو اے اللہ ہمارے اس مہینہ کو ہمارے لئے بابرکت قرار دے اور ہمیں اسکی بھلائی اور خیر عطا فرما اور ہم لوگوں سے اسکے فرد و شر و بلا وقتہ کو دور رکھ)
ـ
،
كَذَاوَ كَذَا
(۱۸۴۷) اور امیر المومنین علیہ السلام رویت ہلال کے وقت فرمایا کرتے تھے ایضهَا الْخَلَقُ الْمُطِيعُ الدَّاتِبُ السَّرِيعُ الْمُتَرَدِّدُ فِي فَلَكِ التَّدْبِيرِ الْمُتَصَرِّفُ فِي مَنَازِلِ التَّقْدِيرِ آمَنْتُ بِمَنْ نَوَرَبِّكَ الظَّلَمِ ، وَأَضَاءَ بِكَ الْبُهم وَ جَعَلَكَ آيَةٌ مِنْ آيَاتِ سُلْطَانِهِ وَ امْتَحَنَكَ بِالرِّيَادَةِ وَالْأَقْصَانِ وَالطُلُوعِ وَالْأَنْوَلِ ، وَ الْإِنَارَةِ وَ الْحُسُوبِ فِي كُلِّ ذَلِكَ أَنْتَ لَهُ مطيع. وَ إِلَى إِرَادَتِهِ سَرِيعُ سُبْحَانَهُ مَا أَحْسَنَ مَا دَبَرَ انْفَنَ مَا صَنَعَ فِي مُلْكِهِ وَ جَعَلَكَ اللَّهُ جَلَالَ شَخْرٍ حَادِبْ لِلأَنْ حَادِثٍ جَعَلَكَ اللَّهُ هِلَالَ امْنِ وَ إِيْمَانٍ وَ سَلَامَةٍ وَ إِسْلَامِ ، جَلَالَ آمَنَةٍ مِنَ الْعَاهَاتِ ، وَسَلَامَةٍ مِنَ السَّيِّئَاتِ اللَّهُم : اجْعَلْنَا أَهْدَى مَنْ طَلَعَ عَلَيْهِ وَأَرْكَ مَنْ نَظَرَ إِلَيْهِ وَ صَلَّى اللَّهُ عَلَى مُحَم النَّبِي وَآلِهِ، اللهُمَّ افْعَلْ بِى كَ یا ارحم الرحمين (اے اللہ کے اطاعت گزار ۔ تیز رفتاری کے ساتھ ہمیشہ آسمان دنیا میں تد بیر الہی کے ساتھ گھومنے والی اور معینہ منزلوں میں پھرنے والی مخلوق میں اس ذات پر ایمان رکھتا ہوں جس نے تیری ظلمتوں کو نور بخشا تیری تاریکیوں کو روشنی بخشی اور مجھے اپنی سلطنت و اقتدار کی نشانیوں میں سے ایک نشانی قرار دیا اور مجھے گھٹنے اور بڑھنے ، طلوع و غروب ، گہن لگنے اور گہن سے چھوٹنے کا کام سپرد کیا اور تو ان تمام کاموں میں اس کا مطیع و فر بردار رہا اسکے اشارے پر تیزی کے ساتھ چلتا رہا ۔ پاک و منزہ ہے وہ ذات کہ اس نے اپنے ملک میں اپنی حکمت و تدبیر سے جو کچھ بنایا بہترین بنایا اور مجھے اللہ نے نئے مہینہ کا چاند بنایا نئے کام کیلئے ۔ مجھے اللہ تعالی امن و ایمان وسلامتی و ایمان کا چاند بنائے ، آفتوں سے امان اور برائیوں سے سلامتی کا چاند قرار دے ۔ اے اللہ یہ چاند جن جن پر طلوع ہوا ہے ان میں سب سے زیادہ ہدایت یافتہ جس جس نے اسکو دیکھا ہے ان میں سب سے زیادہ پاکیزہ ہم لوگوں کو قرار دے اے اللہ تو میرے لئے یہ یہ کر دے (یہاں اپنی حاجتیں بیان
کریں) اے تمام رحم کرنے والوں میں سب سے زیادہ رحم کرنے والے ]
ماہ رمضان کی پہلی تاریخ کی دعا باب :
(۱۸۳۸) حضرت عبد صالح امام موسیٰ بن جعفر علیہ السلام سے روایت کی گئی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ (پہلی رمضان کو) نئے سال کا استقبال کرتے ہوئے یہ دعا پڑھو ۔ نیز فرمایا کہ جو شخص احتساب اور خلوص کے ساتھ یہ دعا پڑھے گا تو اس آنے والے سال میں اسکے دین و دنیا اور بدن پر نہ کوئی مصیبت آئے گی نہ کوئی آفت اور نہ کوئی فتنہ ، اللہ تعالیٰ اسکو ہر اس شر سے
بچا لیگا جو اس سال آئیگا۔
وَبِقُوَّتِكَ
اللهُم إِنِّي أَسْأَلُكَ بِاشيك الَّذِي دَانَ لَهُ كُلُّ شَيءٍ ، وَ بِرَحْمَتِكَ الَّتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ ، وَ بِعِزَّتِكَ الَّتِي أَيَّرْتُ بِمَا كُلَّ شَيءٍ ، وَ بِعَظَمَتِكَ الَّتي تواضع لَهَا كُلُّ شَيءٍ ، ويقوتِكَ الَّتِي خَضَعَ لَمَا كُلُّ شَيْءٍ ، وَ بِجُرُوْتِكَ تَوَاضَعَ الَّتِي غَلَبَتْ كُلَّ شَيْءٍ ، وَبِعِلْمِكَ الَّذِي أَحَاطَ بِكُلِّ شَيءٍ ، يَا نُورُ يَا قُدُّوسُ ، يَا أَوَّلُ قَبْلَ كُلِّ شَيْءٍ ، وَيَا بَاقِى
بَعْدَ كُلَّ شَيءٍ : يَا اللَّهُ يَا رَحْمَنُ ، صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ وَ اغْفِرْ لِحِ الذُّنُوبَ الَّتِي تُغَيِّرُ النَّعَمُ ، وَاغْفِرْ لِي الNAوبَ الَّتِي تُنْزِلُ النّقَمَ ، وَاغْفِرْ لِي الذُّنُوبَ الَّتِي تَقْطَعُ الرِّجَاءَ ، وَاغْفِرْ لِي الذُّنُوبَ الَّتِي تُدِيلُ الأَعْدَاءً . وَاغْفِرْ لِي الذُّنُوبَ الَّتِي تُرَدُّ الدُّعَاء وَ اعْفِرِينِ الذُّنُوبَ الَّتِي تَنزِلُ الْبَلَاءَ ، وَاغْفِرَنِ الذُّنُوبَ الَّتِي تَحْبِسُ غَيْثَ السَّمَاءِ وَاغْفِرْ لِي الذُّنُوبَ الَّتِي تَحْتِكَ الْعِصَمَ ، وَالْبِسْنِي دِرْعَكَ الْحَصِينَةَ الَّتِي لَا تُرَامُ : وَعَافِنِي مِنْ شَرِما أَحَاذِرُ بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ فِي مُسْتَقِيلِ سَنَتِي هَذِهِ اللَّهُم رَبِّ السَّمَاوَاتِ السَّعِ وَ رَبَّ الْأَرْضِينَ السَّبْعِ وَمَا فِيهِنَّ وَمَا بَيْنَهُنَّ وَرَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ : وَرَبَّ السَّبْعِ الْمَثَانِي وَ الْقُرْآنِ الْعَظِيمِ، وَرَبَّ إِسْرَائِيلَ وَمِيكَاثِيلَ وَ جِبْرَئِيلَ وَرِبَّ سَيدَ الْمُرْسَلِينَ وَخَاتَمِ النَّبِيِّينَ أَسْأَلُكَ بِكَ وَ بِمَا تسميت بِهِ يَا عَظِيمُ أَنْتَ الَّذِي تَمَنَّ بِالْعَظِيمِ، وَتَدْفَعَ كُلَّ
رو
مَحْذُورٍ وَتُعْطِي كُلَّ جَزِيلَ، وَتَضَاعِفُ مِنَ الْحَسَنَاتِ الْكَثِيرِ بِالْقَلِيْلِ وَتَفْعَلُ مَا تَشَاءُ يَا قَدِيرُ يا الله يَا رَحْمَن صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ ، وَالْبِسْنِي فِي مُسْتَقْبِلِ سَنَتِيْ هَذِهِ سُتْرَكَ ، وَأَضِيءٍ وَجْهِلْ بِنُورِكَ ، وَأَحْيِنِيْ بِمُحَبَتِكَ ، وَبَلْ مِنْ رِضْوَانَكَ وَشَرِيفَ كَرَائِمِكَ ، وَجَسِيمَ عَطَائِكَ مِنْ خَيْرٍ مَا عِنْدَكَ ، وَ مِنْ خَيْرِ مَا أَنْتَ مُعْطِيهِ أَحَدًا مِنْ خَلْقِكَ . وَالْبِسْنِي مَعَ ذَلِكَ عَافِيَتِكَ ، يَا مَوضِعَ كُلَّ شَكْوَى ، وَشَاهِدَ كُلِّ نَجْوَى وَعَالِمَ كُلَّ خَفِيَّةٍ ، وَ يَا دَابِع مَا شَاءَ مِن بَلَيَةٍ ، يَا كَرِيمَ الْعَفْوِ يَا حَسَنَ التَّجَاوُزِ تَوَفَّنِي عَلَى مِلَةٍ إِبْرَاهِيمَ وَ يَطْرَتِهِ ، وَ عَلَى . مُحَمَّدٍ وَسُنّتِهِ ، وَعَلَى خَيْرِ الْوَفَاةِ فَتَوَفَّنِي مَوَالِيًّا لَا وَلِيَائِكَ - مُعَادِيًا لِأَعْدَائِكَ اللَّهُمَّ وَجَنَّبِنِيْ فِي هَذِهِ السَّنَةِ كُلَّ عَمَلٍ أو قول أو فعل يُبَاعِدُنِي مِنْكَ ، وَأَجَلِبْنِي إِلَى كُلِّ عَمَلٍ أَوْ فِعْلٍ أَوْ تَول وقَولٍ يُقَرِنِي مِنكَ فِي هَذِهِ السَّنَةِ يَا أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ ، وَاصْنَعْنِتْ مِنْ كُلِّ عَمَلٍ أَوْ فِعْلٍ أَوْ قَوْلٍ يَكُونُ مِنِيْ أَخَافُ سُوءُ عَاقَبَتِهِ وَ مُقَتِكَ إِيَّايَ عَلَيْهِ حَذَراً أَنْ تَصْرِفَ وَجَعَكَ الْكَرِيمَ عَنِّي وَأَسْتَوْ جِبُ بِهِ نَقْصَا مِنْ
تو
حَظَّ لِى عِنْدَكَ يَا رَقُوفُ يَا رَحِيمُ اللهُمَّ اجْعَلْنِى فِى مُسْتَقبِل سَنَتِى هُذِهِ فِي حِفْظِكَ وَ جَوَارِكَ وَكَنُفِكَ وَجَلَّلْنِي سَتْرَ عَافِيَتِكَ، وَ هَبْ لِي كَرَامَتِكَ عَزَّجَارُكَ ، وَ جَلَّ ثَنَاؤُكَ وَلَا إِلَهَ غَيْرَكَ -
اللَّهُمَّ اجْعَلْنِى تَابِعاً لِصَالِحِي مِنْ مَضَى مِنْ أَوْلِيَائِكَ ، وَأَلْحِقْنِي بِهِمْ ، وَاجْعَلْنِي مُسْلِمَا لِمَنْ قَالَ بِالصِّدْقِ عَلَيْكَ مِنْهُمْ ، وَأَعُوْذُبِكَ يَا إِلى أَنْ تُحِيطُ بِي خَطِيئَتِي وَظُلْمِي وَإِسْرَائِي عَلَى نَفْسِسٌ وَاتَّبَاعِيْ لِهَوَايَ وَاشْتِغَالِى بِشَبْوَاتِي فَيَحُولُ ذَلِكَ بَيني وَ بَيْنَ رَحْمَتِكَ وَ رِضْوَانِكَ فَا كَوْنَ مُنسِيّاً عِنْدَكَ زِنَا لِسَخْطِكَ وَنَقْمَتِكَ ، اللهُمَّ وَيَقْنِي لِكُلِّ عَمَلٍ صَالِحٍ تَرْضَى بِه عَنّى وَتَرَينِي إِلَيْكَ زُلفى ، اللهم كما نَبِيِّكَ مُحَمَّداً صَلَواتُكَ عَلَيْهِ وَآلِهِ حَولَ عَدُةٍ ؟ ، وَفَرَجْتَ هَمَّهُ ، وَكَشَفْتَ كُرْبَهُ ، وَ صَدقته و نوت وَ أَنْجَرْتَ لَهُ عَهْدَكَ اللَّهُمْ فَبِذَلِكَ فَاكْفِنِى هُولُ هَذِهِ السَّنَةِ وَآفَاتِهَا وَأَسْعًا مِهَا وَنِتْنِهَا وَشُرُورِهَا وَأَخْزَائِهَا وَضِيقَ الْمَعَاشِ فِيْهَا ، وَبَلِغْنِي بِرَحْمَتِكَ كَمَالُ الْعَافِيَةِ بِتَمَامِ دَوَامَ النِّعَمِ عِنْدِي إِلَى مُنْتَهَى أَجْلِى .
أَسَالِكَ سُوَالَ مَنْ أَسَاءَ وَ ظَلَمَ وَاسْتَكَانَ وَ اعْتَرَفَ أَن تَغْفِرْلِي مَا مَضَى مِنَ الذُّنوبِ الَّتِي حَضَرَتْهَا حَفَظَتْكَ. أَحْصَتْهَا كِرَامُ مَلَائِكَتِكَ عَلَى وَأَنْ تَعْصُنِي اللهُم مِنَ الذُّنوبِ فِيْمَا بَقِي مِنْ عُمْرِي إِلَى مُنْتَهَى أَجَلِيٍّ ، يَا الله يا رحمن صَل على محمد وأهل د وَ أهْلِ بَيْتِ مُحَمَّدٍ وَ آتِنِي كُلَّمَا سَأَلْتُكَ وَرَغَبْتُ وَآتِنِي كُلَّمَا سَأَلْتُكَ وَرَغَبْتُ إِلَيْكَ فِيْهِ بِإِنَّكَ أَمَرْتَنِي بِالدُّعَاءِ وَتَكَفَّلْتَ بِالْإِجَابَةِ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ -